انجینئر محمد عادل فرازؔ
ہلال ہاؤس4/114
نگلہ ملّاح سول لائن علی گڑھ
علی گڑھ یوپی
Email:mohdadil75@yahoo.com
mob: 8273672110
سر زمین علی گڑھ علمی و ادبی اعتبار سے ہر دور میں نمایاں رہی ہے۔ بڑے بڑے ادیب، نقاد، نثر نگار اور شعرا کا تخلیقی رجحان اور ذوق و شوق اس خطے کی وادیوں میں اس طرح پروان چڑھا کہ وہ دنیا میں جہاں بھی رہے اپنی صلاحیتوں کے دم پر ہر جگہ ممتاز نظر آئے۔
صدام حسین مضمرؔ جو ایک نوجوان تخلیق کار ہیں، ان کا شعری رجحان بھی اس ماحول کا پروردہ ہے۔ دراصل وہ اس گلستان کے وہ تازہ ترین پھول ہیں جس کی مہک نے بہت سے اذہان کو متاثر کیا ہے۔ ان کا شعری مجموعہ ”قیامت کے باوجود“ ابھی حال ہی میں منظر عام آیا ہے۔ جسے ادبی حلقوں میں بہت سراہا جارہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ صدام حسین مضمرؔ کا یہ شعری مجموعہ پرانی فرسودہ روایتوں کو توڑتا ہوا نئے دور کی آواز میں آواز ملاتا ہوا نظر آتا ہے۔
صدام حسین مضمرؔ اکیسویں صدی کے سائنسی دور میں جی رہے ہیں. اس لیے ان کی شاعری میں اسی دور کی ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مختلف سائنسی مضامین اور معنی و مفاہیم کے رنگ یہ اپنی شاعری کے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔لیکن ایسا بالکل نہیں ہے کہ صدام حسین مضمرؔ نے اپنے کلاسیکی شعری سرمایے سے کوئی فیض حاصل نہیں کیا ہے۔ انھوں نے روایتی چیزوں کو بھی بڑی ہنر مندی سے اپنی شاعری کے پیرہن میں ڈھال کر پیش کیا ہے، مگر اس کے معنی و مطالب عصری دور کے عین مطابق ہیں۔ مثلاً وہ اپنی شاعری میں محبوب اور عاشق کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ لیکن ان کا محبوب اور عاشق روایتی دور سے مختلف ہے۔ وہ عصری دور کی آب و ہوا میں سانس لیتا نظر آتا ہے جس کے احساس و جذبات کافی مختلف ہیں۔
صدام حسین مضمرؔ نے اپنی شاعری کونئی نئی تراکیبوں، شعری صنعتوں اور محاوراتی انداز سے بھی مزین کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں علامتوں اور استعاروں کا استعمال کرنا بھی خوب آتا ہے۔ پیکر تراشی اورمنظر نگاری کے جیتے جاگتے نمونے بھی ان کی شاعری میں اپنا جلوہ بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کا خطابیہ لہجہ بھی ان کی شاعری کا حسن دوبالا کر دیتا ہے۔ وہ طنز کے تیر بھی چلاتے ہیں لیکن اس کی شدت اتنی نہیں ہوتی جس سے کسی کا دل چھلنی ہوجائے۔ اس کا مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہلکی سی ضرب لگا کر سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کیا جاسکے۔ صدام حسین مضمر کا شعری مجموعہ ”قیامت کے باوجود“ ان کے عمیق مطالعہ کا ترجمان ہے۔ وہ ایک حساس دل رکھتے ہیں۔ اور اپنے گرد و پیش میں ہونے والے مسائل پر ہر لمحہ غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے ساتھ پورا انصاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جیسا کہ یہ بات ظاہر ہے کہ شاعر خون جگر صرف کر کے اشعار قلم بند کرتا ہے۔ کبھی وہ خیالات کی حسین و جمیل وادیوں میں سفر کرتا ہے۔ تو کبھی اسے قیامت خیز حادثات و مسائل کی منظر نگاری کرنی پڑتی ہے۔ شاعر اپنے آس پاس جن چیزوں کو دیکھتا، سمجھتا یا محسوس کرتا ہے وہ ان تمام حرکات و سکنات، احساس و جذبات کی عکاسی اپنے کلام میں کرتا ہے۔ صدام حسین مضمر بھی اسی مزاج سے ہم آہنگ ہیں۔ انھوں نے جن چیزوں کو شدت سے محسوس کیا یا یوں کہیں جو چیزیں اور حالات ان پر قیامت کی صورت میں گزرے، ان سب تجربات کی ترجمانی موصوف نے ہو بہو اپنے کلام میں کی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مضمرؔ نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنی شاعری کے ذریعے پیش کرنے کی اچھی سعی کی ہے اور جس دور اور ماحول میں صدام حسین مضمرؔ کی شاعری پروان چڑھی وہ بھی بڑا قیامت خیز اور پر آشوب ہے۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنے شعری مجموعے کا نام ”قیامت کے باوجود“ رکھا ہے۔ موصوف جب اس شعری مجموعے کو تخلیق کر رہے تھے وہ وقت کافی بحران کا تھا۔کورونا وائرس کی عالمی وبا نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا، جس کے سبب سارے نظام درہم برہم ہو کر رہ گئے تھے۔ لوگ اپنے گھروں میں قید تھے، بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں بیماری میں مبتلا ہو کر انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے تھے۔جب اطراف میں قدم قدم پر نئے مسائل درپیش ہوں، تو ایسے حالات میں ایک حساس شاعر ان قیامت خیز مناظر کی ترجمانی اپنی شاعری میں کیسے نہ کرتا۔ اسی دور میں مضمرؔ نے زندگی کی قیامت خیزی اور اس کے مسائل کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا او ران کو اپنی شاعری کے پیرہن میں ڈھال کر شعری مجموعے کی صورت میں قارئین کے روبرو پیش کیا۔
مضمرؔ کے شعری مجموعے کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ قیامت ان کی شاعری میں مختلف کیفیات کے طور پر ابھرتی ہے۔ یہ وہ کیفیات ہیں جن سے موصوف بہ خوبی آشنا ہیں۔ اپنے شعری مجموعے میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے مضمرؔ لکھتے ہیں:
” ہم جس عہد میں زندگی جی رہے ہیں وہ بے تحاشہ خلفشار و انتشار کا عہد ہے۔ پچھلے گذشتہ چند برسوں سے دنیا بھر کی طاقتور وقتی حکومتوں نے جبر و تشدد ظلم و بربریت اور تانا شاہی کی جو تصاویر پیش کی ہیں انھوں نے حساس قسم کی طبیعت رکھنے والے لوگوں کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ہم اندر ہی اندر کڑھتے اور اپنی بے بسی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ نہ تو ہم زبانی اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر کسی طرح کے رد عمل کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی سے کسی طرح کی شکایت کا جذبہ۔ بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ نہ ہم خود اپنی آواز ہیں اور نہ ہی کوئی اور ہماری آواز۔ ایک طرف لوگوں پر خوف و دہشت کا عالم طاری ہے تو دوسری طرف مفاد پرستی اور بے حسی کا بول بالا۔ ایسے عالم میں زندگی جس ناہمواری کا شکار ہوئی ہے وہ نا قابل برداشت بھی ہے اور نا قابل بیان بھی۔ ہم صرف جی رہے ہیں اس لیے کہ ہمیں جینا ہی ہے، مر اس لیے نہیں سکتے کہ مرنے کے لیے بھی ہم پوری طرح آزاد نہیں۔ اس مجموعے کا بیشتر کلام اسی انتشار و خلفشار اور گہما گہمی کا نتیجہ ہے۔ یعنی میں نے جو کچھ محسوس کیا یا جن مسائل و میلانات نے مجھے متاثر کیا یا میں خود جن تجربات سے دوچار ہوا ان تمام مسائل و میلانات، تجربات اور جذبات و احساسات کو شعری پیکر میں ڈھال کر مجموعی طور پر قارئین تک پہنچانے کی جسارت کر رہا ہوں۔“
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ موصوف عصر حاضر کی تباہ کاریوں کے سبب پیدا ہونے والے مسائل کو لے کر کافی فکر مند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدام حسین مضمرؔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بے تحاشہ اور بے جا استعمال کے سبب پیدا ہونے والے مسائل پر اپنی شاعری میں کھل کر طنز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری زلف یارکے کوچے سے نکل کر عالمی پیچ و تاب کے کرب میں ڈھلتی نظر آتی ہے، جس کو اپنی ذات کے پیکر سے وابستہ کر لیتے ہیں:
غزلوں میں ڈھونڈیے نہ مری زلف یار کو
خود مجھ میں دیکھیے کہ بہت پیچ و تاب ہے
یا پھر وہ کہتے ہیں:
اس دور قیامت میں جینے کے لئے ہم کو
کچھ درد تو پینا ہے کچھ زخم تو کھانے ہیں
دراصل موصوف اپنے مذکورہ شعر میں عصر حاضر کو ’قیامت‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ کیوں کہ عصر حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال کے سبب قیامت کی تمام علامتیں پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ مثلاً قیامت جب واقع ہوگی تو نفسا نفسی کا عالم ہوگا، انسانی رشتے اور جذبات و احساسات بے معنی ہو جائیں گے۔ آج سوشل میڈیا کے عروج اور مشینوں کے استعمال نے ان تمام چیزوں کو حقیقت کا جامہ پہنا دیا ہے، جس کے سبب انسان آج خود کو یک و تنہا محسوس کر رہا ہے، زندگی کا درد پینے اور زخم کھانے پر مجبور ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عصر حاضر میں جو بھی قیامت انسان پر نازل ہوئی ہے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دین ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
آج کا سماج جس کرب اور بے چینی میں مبتلا ہے اس کے نتیجے میں انسان نفسیاتی مریض ہوتا جا رہا ہے۔عالی شان دکھاوے کی زندگی نے حقیقی معنوں میں اس کی زندگی کا اصل مقصد چھین لیا ہے۔ اس بات پر طنز کرتے ہوئے مضمرؔ کہتے ہیں:
ہمیں افسوس مضمرؔ ہے نہیں اب
کہ تنہا جی رہے ہیں ہم خوشی سے
مذکورہ شعر اس بات کا عکاس ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت انسان کے تعلقات کا دائرہ وسیع تو ضرور ہوا لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے دور ہوتا چلا گیا اور آج وہ ایک خیالی دنیا میں جھوٹی خوشیوں کے ساتھ حقیقت میں تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تنہائی کا یہ کرب مضمرؔ کے کلام میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ خود بھی تنہائی میں کائنات کے مسائل کے بارے میں غور و فکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شعر ملاحظ کریں:
لمحہ لمحہ ہے مری جان کو خطرا پیارے
میں ہی مرتا ہوں ترے نام پہ تنہا پیارے
مذکورہ شعر مضمرؔ کی اس غزل سے وابستہ ہے جس کو انھوں نے کورونا کے دوران لاک ڈاؤن میں تحریر کیا تھا۔ ظاہر ہے اپنے اس شعر میں موصوف کورونا کے دوران پھیل رہی عالمی وبا کو لے کر فکرمند نظر آتے ہیں۔ اور ایک ایسے انسان کا نقشہ کھینچ رہے ہیں جو نفسیاتی طور پر بھی بیمار ہے اور دھیرے دھیرے تنہائی میں گھٹ گھٹ کر مرنے پر مجبور ہے۔ اس غزل کے دوسرے شعر میں بھی مضمر اپنے مخصوص خطابیہ انداز میں بہت کچھ غور و فکر کرنے کی دعوت بھی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں:
تیرا چہرا تو کبھی زلف سنواری تیری
تجھ کو دے کر یہ لہو خوب نکھارا پیارے
مذکورہ شعر میں موصوف نے”چہرا، زلف، لہو“ کی لفظیات کو بڑی خوب صورتی سے برتا ہے۔ چہرے سے مراد اس زمین کی صورت حال سے لی جاسکتی ہے۔ گویا موصوف کہہ رہے ہیں کہ یہ انسان ہی تھا جس نے اس دنیا کو رہنے کے لائق بنایا۔ یعنی اس کی زلف سنواری اور اپنا لہو دے کر اس زمین کو سر سبز و شاداب کیا۔ یہاں موصوف کا یہ شعر گایا تھیوری (Gaia Theory) سے بھی منسلک نظر آتا ہے۔ یہ مفروضہ سب سے پہلے برطانوی سائنس داں جیمز لیولاک نے 1972ء میں اپنے مقالے ‘Gaia As Seen Through the Atmosphere’ میں پیش کیا تھا۔اس مفروضے کا نام یونانی دیوی ”گایا“ کے نام پر رکھا گیا ہے جو زمین کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ تھیوری بتاتی ہے کہ وہ زندگی ہی تھی جس نے اپنی محنت سے اس زمین کو رہنے لائق بنایا۔ یعنی آج ہم جو زمین پر جینے کے مناسب حالات دیکھتے ہیں یہ سب ہماری کوشش کا ہی نتیجہ ہے۔ اگر انسان کا وجود اس کائنات میں نہ ہوتا تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کائنات اس شکل و صورت میں نہ ہوتی۔ شعر میں آئی الفاظ ”چہرا، زلف، لہو“ اسی مفہوم کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
غزل کے اگلے شعر میں قیامت خیز منظر ہونے کے باوجود بھی مضمرؔ زندگی سے متعلق پر اعتماد ی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، یہ تو غیر ممکن ہے کہ انسان اس قیامت خیز دور میں زمین کو بربادی کی راہ پر چھوڑ کر خلاؤں میں نئی بستی آباد کر لے۔کیوں کہ پوری وسیع و عریض کائنات میں ابھی تک کوئی ایسا دوسرا سیارہ دریافت نہیں ہوا ہے جہاں پر اس طرح کا قدرتی ماحول اور آب و ہوا دیکھنے کو ملتی ہو۔ یہ صرف ہماری اس حسین و جمیل زمین پر ہی ممکن ہے جس سے انسان کی سانس کا دھاگا الجھا ہے:
یہ تو ممکن ہی نہیں چھوڑ کے تجھ کو جاؤں
تجھ سے الجھا ہے مری سانس کا دھاگا پیارے
سائنسی دور میں رونما ہونے والی قیامت خیزیوں میں ایک بڑا مسئلہ ہماری زمین اور اس کے اطراف میں موجود قدرتی ماحول کے تباہ و برباد ہونے کا بھی ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے ضرورت سے زیادہ استعمال کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ ماحولیات کی بربادی کے اس قیامت خیز منظر کو مضمرؔ نے بڑے ہی منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔موصوف کے کلام میں عصر حاضر کے ان تمام ماحولیاتی مسائل کی جھلک دیکھنے کو مل جاتی ہے جس پر آج پوری دنیا کے ممالک فکر مند ہیں۔ مثلاً قدرتی آفات، آب و ہوا کی آلودگی، زمین کی درجہ حرارت کا بڑھنا، موسم کی تبدیلی وغیرہ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات اور نئے شہر بسانے کے لیے انسان نے جنگلات اور درختوں کی اندھا دھن کٹائی کی، جس کے سبب موسم کا نظام بھی درہم برہم ہوا۔ہرے بھرے علاقے ریگستانوں میں تبدیل ہوئے، دھول بھری تیز رفتار آندھیوں کا چلنا عام ہوا۔ اور وہ خوش گوار ہوائیں جو پیڑ پودوں، ہرے بھرے ماحول کے توسط سے چلتی تھی جو انسان کی صحت و تندرستی کی ضامن تھی اس کی جگہ خوف ناک آندھیوں نے لے لی ہے۔ اس سے متعلق شعر دیکھیں:
یہ آندھی آج کیسی چل رہی تھی
ہوا بھی ہاتھ اپنے مل رہی تھی
مذکورہ شعرمیں مضمر نے جو استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے وہ ماحولیات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر بہت کچھ سوچنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
ایک دوسرے شعر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو انسانیت کے لیے تحفہ قرار دینے والوں اور انسانیت سے محبت کا جھوٹا تقاضا کرنے والوں کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں:
محبت کا تقاضا ہو رہا تھا
زمیں لیکن ہماری جل رہی تھی
موصوف اپنے اس شعر کے ذریعے آنے والی ایک نئی قیامت کی طرف بھی ذہن کو مرکوز کرنا چاہتے ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہی دین ہے۔فیکٹریوں، گاڑیوں سے نکلنے والی آلودہ گیسوں نے نہ صرف ہمارے اطراف کی پاک اور شفاف ہوا کو زہریلا بنایا ہے بلکہ یہ زمین کی درجہ حرارت کو بڑھانے کی بھی موجب بنی ہیں۔ کرۂ ارض مسلسل گرم ہوتا جا رہا ہے۔ ماحول کی آلودگی کے سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری خطرناک گیسیں سورج کی کرنوں سے پیدا ہونے والی گرمی کو کرۂ ارض تک لانے کا سبب بنی ہیں اور وہ اس گرمی کو واپس Atmosphere میں جانے سے روک لیتی ہیں، جس کے نتیجے میں زمین کا درجۂ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔اس عمل کو Global warming کہتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ”ال نینو“ کے اثرات بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ ”ال نینو“ کے اثرات سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہونے سے پیدا ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے کے طور پر بارش ہونے کے نظام میں بڑی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قحط سالی بھی ایک بڑے مسئلے کے طور پر دیکھنے کو ملی ہے۔ اس قیامت خیز منظر کی ترجمانی میں موصوف کے چند شعر ملاحظہ کریں:
عجب سی اک وبا پھیلی ہوئی ہے
زمانہ مر رہا ہے تشنگی سے
پھر وہ منظر بدل گیا مضمرؔ
پھر وہ دلکش لہر نہیں آئی
مندرجہ بالا اشعار میں موصوف ’گلوبل وارمنگ‘ اور’ال نینو‘ کے سبب ظاہر ہونے والی قیامت خیز علامتوں کی منظر کشی بڑے منفرد انداز میں کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اسی فکر سے مہمیز چند اشعار اور ملاحظہ کریں جس میں مضمرؔ زمین کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے سبب پھولوں کے کمھلانے اور انسانوں کے مرنے کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ساتھ ہی اس بات پر بھی غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں کہ زمین کی درجہ حرارت بڑھنے کی ایک وجہ سایے دار درختوں اور جنگلات کے ختم ہونے کا نتیجہ ہے۔ ہمیں ان مسائل کے بارے میں سوچنا ہوگا کیوں کہ ہمارے سامنے ایک محشر برپا ہونے جا رہا ہے:
پھول کمھلا جائیں گے پر تتلیاں رہ جائیں گی
یعنی انساں مر رہیں گے ہستیاں رہ جائیں گی
سوچو! یہی امید ہے اب بھی بندھی ہوئی
سر پر پڑے جو دھوپ تو سایا شجر کرے
اگر چہ حشر کا سا سامنا ہے
مگر برپا ابھی محشر نہیں ہے
مضمرؔ ماحولیات کی بربادی کے لیے انسان اور اس کی کارکردگی کو ذمے دار مانتے ہیں۔ اس لیے اپنے شعری مجموعے میں جگہ جگہ طنز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
جائے گی کسی روز مری ہاتھ سے جان
ہر روز نکلتی ہے اسی بات سے جان
ہم کسی کے کہاں بھلا مضمرؔ
ہم تو اپنے نہیں زمانے سے
بہت کچھ ہے ہمارے ذہن و دل میں
مگر دیکھو کسی کا گھر نہیں ہے
میرے اندر کتنے مقتل برپا ہیں
ہر دن کوئی مجھ میں مرتا رہتا ہے
عجب ہیں ہم عجب چہرا ہمارا
کہیں پر خوش کہیں گریا ہمارا
یارو ہمارے دور کا عالم نہ پوچھنا
ہر دن ہمارے دور کا یوم الحساب ہے
الغرض صدام حسین مضمرؔ کے کلام میں عصر حاضر کے جن قیامت خیز مناظر کی ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے اس کے پس پردہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال ہی ہے۔ جس سائنس و ٹیکنالوجی کا کام انسانی زندگی کو سہل اور آسان بنانا تھا، آج اسی کے توسط سے انسانی زندگی کے لیے نئے نئے مسائل اور پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ہم کو ان مسائل پر غور و فکر کرنے کے ساتھ مل جل کر ان پریشانیوں کا حل تلاش کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ہی ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی بڑی احتیاط کے ساتھ کرنا ہے، تاکہ ہم اپنے قدرتی ماحول کا تحفظ کر سکیں۔
شاعر و ادیب اس سے متعلق بیداری لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیوں کہ ان کے قلم میں وہ طاقت ہوتی ہے جس کے زور پر وہ سماج میں ایک نیا انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ صدام حسین مضمرؔ کا شعری مجموعہ نہ صرف عصر حاضر کی قیامت خیزیوں کا ترجمان ہے بلکہ قیامت کے گزر جانے کے بعد جینے کا حوصلہ بھی دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے شعری مجموعے کا نام ”قیامت کے باوجود“ رکھا ہے تاکہ انسان قیامت گزر جانے کے بعد ہمت نہ ہارے اور پر اعتماد رہے اور تمام مسائل کا حل دریافت کرے جن کے سبب قیامت رونما ہوئی ہے۔
***
عادل فراز کی گذشتہ نگارش:عالمی دنوں پر اردو کی پہلی منفرد کتاب:صحت اور آگہی

سائنسی دور کا قیامت خیز ترجمان: "قیامت کے باوجود"
شیئر کیجیے