بیٹی

بیٹی

ثناء ادریس

"کیا کہا ..؟ بیٹی ..؟" زلیخا کو اپنی سماعتوں پر شک ہوا۔
"جی ہاں ..! بیٹی ۔" ڈاکٹر ثانیہ نے رشیدہ کے چیک اپ کے بعد اس کی ساس کو خوش خبری سنائی۔
اس نامراد نے ڈاکٹر کے کمرے میں ہی بہو کو پیٹ ڈالا۔ ڈاکٹر حیران و پریشان رشیدہ کو مار پڑتی دیکھ رہی تھی۔ عجیب شور مچا ہوا تھا۔ اسپتال کی انتظار گاہ میں بیٹھے مریض بھی کمرے کے دروازے سے لگے اندر ہونے والے شور کی آوازیں سن رہے تھے۔ ڈاکٹر نے اسپتال انتظامیہ کو کال کی۔ جنھوں نے بروقت پہنچ کر بہو کو اس کی ساس سے بچایا۔
ڈاکٹر ثانیہ کا تبادلہ شہر سے دور ایک گاؤں میں بنے نئے اسپتال میں ہوا تھا۔ شہر میں پلی بڑھی ثانیہ کے لیے گاؤں کی زندگی ایک فینٹسی تھی۔ اس کے لیے ایسی جگہ کام کرنا کسی ایڈوینچر سے کم نہ تھا۔ وہ ہمیشہ سے گاؤں دیہاتوں میں رہنے والوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہتی تھی۔ اب جب کہ اسے موقع ملا تو وہ کیسے انکار کرتی۔
"کیا کر رہی تھیں تم ..؟" ڈاکٹر ثانیہ کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔
” یہ نامراد ۔۔۔ تیسری بیٹی جنے گی تو میں اس کو جان سے مار دوں گی۔" زلیخا بہو کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
” تم اسے اس لیے مار رہی تھیں کہ یہ بیٹی پیدا کرے گی ….؟" ڈاکٹر ثانیہ کو جیسے اس کی دماغی حالت پر شک ہوا۔
” میں نے پانچ بیٹے جنے ۔۔۔۔ خاندان میں ایک رتبہ ہے جی میرا۔ اس کم ذات کی وجہ سے ہمارا شملہ نیواں ہو گیا۔" رشیدہ مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی۔
” آن دے میرے پتر نوں ۔۔ طلاق نہ دلوائی تے میرا نا وی زلیخا نئیں۔" یہ سنتے ہی رشیدہ اس کے پیروں میں گر گئی۔ روتے گڑگڑاتے اس کی منتیں ترلے کرنے لگی۔ پر اس کا دل نہ موم ہوا۔
ثانیہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔ اسے وہ وقت یاد آ گیا جب اس نے ایک بے اولاد جوڑے کو شادی کے پندرہ سال بعد بیٹی ہونے کی خوش خبری سنائی تھی۔ وہ دونوں میاں بیوی سجدے میں جا گرے۔ اس وقت ثانیہ نے جانا کہ اولاد کتنی بڑی نعمت ہے۔ بیٹی یا بیٹے میں تفریق نہیں ہوتی۔ یہ بات اس نے اپنے بابا سے جانی تھی۔ جتنا پیار وہ ثانیہ کے بڑے بھائی سے کرتے اتنا ہی اس سے بھی۔ تعلیمی معاملات میں بھی کبھی دونوں میں فرق نہ کیا۔ لیکن آج کے واقعے نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
رشیدہ کا میاں اپنی اماں کے حکم کے مطابق اسے اسپتال میں ہی طلاق کے تین بول کہہ کر چلا گیا۔ جاتے جاتے بیٹیاں بھی وہیں چھوڑ گیا۔ یہ بات ڈاکٹر ثانیہ کو آیا نے بتائی۔ کتنے ہی دن وہ اس عورت اور اس کی بچیوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ بہت سوچ بچار کے بعد آخر کار وہ کسی نتیجے پر پہنچی۔
موبائل کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ نذیر احمد کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔ ایک نظر ہاتھ میں باندھی گھڑی پر ڈالی اور پھر موبائل اسکرین پر۔ ثانیہ کا نام جگمگاتا دیکھ کر لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ کتاب بند کی اور کال اٹینڈ کی۔
"اسلام وعلیکم …بابا …!"
ثانیہ نے رات گئے نذیر صاحب کو کال کی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس وقت اسٹڈی روم میں ہوں گے۔ اسی لیے اس نے یہی مناسب وقت سمجھا۔
"وعلیکم السلام… کیسی ہے میری بیٹی ؟" ان کی محبت سے لبریز آواز سن کر ثانیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بہ مشکل آنسوؤں کو حلق سے اتارا۔
"میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟ سوئے نہیں ابھی تک آپ؟ دوا تو لی نا وقت پر آپ نے؟" ثانیہ نے سارے سوال ایک ساتھ ہی کر ڈالے۔ جنھیں سن کر انھوں نے قہقہہ لگایا۔
"آپ ہنس رہے ہیں .. آپ جانتے ہیں مجھے آپ کی فکر ہوتی ہے." ثانیہ نے خفگی سے کہا۔
” میں بالکل ٹھیک ہوں۔ دوا کھا لی تھی۔ اور بس سونے کی تیاری تھی۔" مزید صاحب کتاب بند کر کے اسٹڈی روم سے باہر نکل آئے۔
ان کا رخ ٹیرس کی طرف تھا۔ کچھ دیر ٹھنڈی ہوا محسوس کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلے جاتے تھے۔
"لیکن آپ کیوں اس وقت تک جاگ رہی رہیں؟ کیا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟" انھیں ثانیہ کی خاموشی نے چونکا دیا۔
جب سے وہ گاؤں گئی تھی۔ وہاں کے واقعات سنا سنا کر ان سب کے کان کھا لیے تھے۔ لیکن آج اس کی آواز میں وہ جوش نہیں تھا۔
"بابا..! مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔" ثانیہ مدعا پر آئی۔
"جی آپ کہیں۔ میں سن رہا ہو۔ کیا کوئی ایسی بات ہے جسے ہم صبح نہیں کر سکتے؟" انھیں تشویش ہوئی۔
"بس ابھی کرنا چاہ رہی ہوں۔ ورنہ شاید میں سو بھی نہ سکوں۔" ثانیہ کی بات سن کر انھیں معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا۔
"ٹھیک ہے۔ آپ کہیں۔"
ثانیہ نے اسپتال میں ہوا واقعہ لفظ بہ لفظ نذیر صاحب کے گوش گزار کر دیا۔ جسے سنتے ہوئے ان کے چہرے پر مختلف رنگ آ رہے تھے۔ کسی کسی جگہ وہ افسوس سے سر ہلاتے۔ اور کہیں آنکھ میں آئے آنسو صاف کرتے۔ ساری بات بتانے کے بعد ثانیہ خاموش ہو گئی۔
"آپ کیا چاہتی ہیں؟" نذیر صاحب کو اس کی باتوں سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔
"بابا ۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ میں اس عورت اور دونوں بیٹیوں کو آپ کے پاس بھیج دوں۔ کیونکہ میرے علم میں آیا ہے کہ اس کے گھر والوں نے بھی اسے رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور وہ کسی پڑوسی کے گھر رہنے ہر مجبور ہے۔"
"لیکن اس کا میاں؟ بیٹیاں تو اسی کی ہیں نا۔ یہ نہ ہو کہ کل کو وہ ہمارے لیے کسی طرح کا مسئلہ بنا دے۔ آپ سمجھ رہی ہیں نا." نذیر صاحب نے اپنے خدشات ظاہر کیے. 
"وہ سب میں نے معلوم کر لیا ہے۔ اس کا میاں اپنی ماں کے ساتھ گاؤں چھوڑ گیا ہے۔ کہاں گیا کوئی نہیں جانتا. "
” آپ نے بتایا اس کی تیسری بیٹی ہونے والی ہے؟" نذیر صاحب نے سوال کیا۔
"جی بس کچھ ہی دن میں وہ فارغ ہو جائے گی۔ میں اسے راضی کرنے کی کوشش میں ہوں۔ زندگی سے مایوس ہے بہت۔ اگر اسے کوئی سہارا نہ ملا  تو وہ غلط ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ اس کی اور بیٹیوں کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔" ثانیہ ایک بار پھر آبدیدہ ہوگئی۔
” ٹھیک ہے۔ جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ میں ان کے لیے انتظامات کرتا ہوں۔"
” شکریہ بابا ۔۔۔"
” جیتی رہیں۔" دونوں نے الوداعیہ کلمات کہے اور فون بند کر دیا۔
رشیدہ کے ہاں بیٹی ہوئی۔ ایک ہفتے بعد ثانیہ اسے اور بچیوں کو لے کر شہر پہنچ گئی۔ جہاں نذیر صاحب نے ان کی رہائش کے تمام انتظامات مکمل کر رکھے تھے۔ رشیدہ ان دونوں باپ بیٹی کا بار بار شکریہ ادا کر رہی تھی۔ بچیوں کی کفالت کی ذمہ داری نذیر صاحب نے لے لی۔ رشیدہ ان کے گھر کام کرنے لگی۔ مگر انھوں نے کبھی اسے نوکر نہ سمجھا۔ گھر کے فرد کی طرح اس کی عزت کی جاتی۔ ثانیہ کی ماما اور بھائی کو بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بلکہ جب سے تینوں بچیاں آئی تھیں، گھر میں رونق رہتی تھی۔ وہ تینوں بھی وہاں رہتے ہوئے ادب، آداب اور طور طریقے سیکھ گئی تھیں۔ اچھے اسکول میں تعلیم بھی جاری تھی۔
وقت کا کام ہے گزر جانا۔ ثانیہ کا تبادلہ واپس اپنے شہر ہو گیا۔ نذیر صاحب جلد از جلد اس کے فرض سے فارغ ہونا چاہتے تھے۔ مناسب رشتہ آنے پر ثانیہ کی شادی ہو گئی اور وہ پردیس میں جا بسی۔ وہاں اس نے نئی جاب شروع کی۔ ثانیہ کے جانے کے کچھ عرصے بعد اس کے بڑے بھائی کو بھی ٹریننگ کے لیے بیرون ملک جانا پڑا۔ ثانیہ کے لیے یہ بات پریشانی کا باعث تھی کہ نذیر صاحب اور بیگم نذیر اکیلے رہ جائیں گے۔
لیکن رشیدہ نے سگی بیٹی سے بھی بڑھ کر ان کی خدمت کی۔ تینوں بچیاں اب اسکول کالج جانے لگی تھیں۔ نذیر صاحب کو نانا کہا کرتیں۔ نذیر صاحب بھی ان سے بہت پیار کرتے تھے۔
نذیر صاحب کے دوست احباب اکثر کہا کرتے کہ لگتا ہی نہیں کہ ثانیہ کو آپ نے رخصت کر دیا۔ ان بچیوں کی وجہ سے گھر میں رونق ہی رونق ہے۔ یہ سن کر نذیر صاحب مسکرا دیتے۔ اسکول سے کالج اور پھر یونی ورسٹی کی منازل طے کرتے ہوئے۔ رشیدہ کی بیٹیاں اچھی نوکریاں پانے میں کامیاب ہو گئیں۔
رشیدہ ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتی کہ ثانیہ اور نذیر صاحب نے اسے اور اس کی بیٹیوں کو سنبھال لیا۔ ورنہ آج حالات کچھ اور ہوتے۔ وہ شکریہ ادا کرتی تو اسے مصنوعی خفگی سے ڈانٹ دیتے۔ نذیر صاحب کے مطابق ان کی پانچ بیٹیاں ہیں۔ اور بیٹیوں والے تو خدا کی رحمت کے سائے میں رہتے ہیں۔
***
ثناء ادریس کی گذشتہ نگارش : آخری سواری

شیئر کیجیے

One thought on “بیٹی

اویس قرنی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے