عمر پوچھنا

عمر پوچھنا

ایس معشوق احمد

(ڈھلتی عمر بڑھاپے کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور بوڑھا ہونا کسی کو پسند نہیں. ایسے میں عمر چھپانے اور کم کرکے بتانے کا عمومی رجحان ہے. کیا ہوتا ہے جب کسی سے اس کی عمر پوچھ لی جاتی ہے، خاص طور سے خاتون سے. ایس معشوق احمد نے زیر نظر انشائیے میں عمر پوچھنے کے عمل اور ردعمل کو بڑے سلیقے سے بیان کیا ہے.
ایس معشوق احمد کا تعلق کشمیر سے ہے اور ان کے ذہن و فکر، دل و دماغ اور تحریر و قلم میں وادئ کشمیر کی رعنائی اتر آتی ہے.
اشتراک ڈاٹ کام ان کی خدمت میں نیک خواہشات پیش کرتا ہے.طیب فرقانی) 

دنیا میں بہت سارے سوالات ایسے ہیں جن کا کبھی صحیح جواب نہ آیا۔مسئلہ کشمیر کا مستقبل میں کیا حل نکل آئے گا اور اس عورت سے جس کو سجنے سنورنے اور تاحیات جوان رہنے کا شوق ہو کی عمر پوچھنا جیسے سوالات اسی زمرے میں آتے ہیں۔سب سے بڑی بے ادبی ہے کسی جوان اور خوب صورت عورت سے اس کی عمر پوچھنا۔ہاں اگر سوال کرنے والا بھی خوب صورت ہو تب وہ برا نہیں مانتی۔ تب اس کا موقف ہوتا ہے کہ __
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھ کہ سوال اچھا ہے
اور وہ پررونق باتوں باتوں میں ایک دو سال گول کرکے اس سوال کا جواب دیتی ہے تاکہ سوال کرنے والے کو یقین اور اطمینان ہو جائے کہ ابھی نشیب نہیں آیا ہے جوبن کے بسنت رت کا۔
بعض شوخ اور چنچل لڑکیوں سے بات کرنے کو دل مچل جائے تو بات شروع کرنے کی غرض سے ان سے بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی عمر کتنی ہے اور پھر یہ حالت ہو جاتی ہے کہ__
سوال کرکے میں خود ہی بہت پشیمان ہوں
جواب دے کے مجھے اور شرم سار نہ کر
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ سوال جب کسی سیم تن ، گل بدن سے کیا جاتا ہے تو وہ خاموش رہتی ہے ۔حیرانی اور پریشانی سے جب وہ سوال کرنے والے کو تکتی ہے تو سوال کرنے والا فخر محسوس کرتا ہے کہ __
اس سے بہتر جواب کیا ہوگا
کھو گیا وہ میرے سوالوں میں
یہ حقیقت ہے کہ خوب صورت مرد ہو یا عورت اپنی خوب صورتی اور دل کشی کا اسے فائدہ ضرور ہوتا ہے۔بعض تو اپنی خوب صورتی سے بادشاہ وقت کے منظور نظر ہوجاتے ہیں لیکن بعض خوب صورت لوگوں کا ماضی بڑا بد صورت ہوتا ہے۔جب ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی عمر کتنی ہے تو وہ ماضی کے جھرونکوں سے جھانک کر وہ اذیت ناک لمحے یاد کر لیتے ہیں جو انھوں نے بڑی کرب ناک اور اذیت سوز حالت میں گزارے ہوتے ہیں۔ آنکھوں میں اشک لیے اس سوال کا جواب وہ اتنا ہی دے پاتے ہیں کہ__
کوئی سوال نہ کر کوئی جواب نہ پوچھ
تو مجھ سے عہد گذشتہ کا حساب نہ پوچھ
اس سوال سے عورتوں کو ہی کوفت نہیں ہوتی بل کہ بعض مرد بھی اپنی صحیح عمر بتانے سے نہ صرف کتراتے ہیں بل کہ گھبراتے ہیں۔ بعض خوش اخلاق ایسے بھی ہیں جو اس سوال کو ہنسی میں ٹال دیتے ہیں اور بعض اس سوال پر تند مزاجی اور چڑچڑاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔یہ حقیقت مجھ پر کبھی واضح نہ ہوئی کہ لوگ اس سوال سے برہم کیوں ہو جاتے ہیں. حال آں کہ چند بدتمیز دوست ، کچھ بے خبر رفیق اور ایسے بدنیت انسان بھی موجود ہیں جنھوں نے یہ سوال مجھ سے بھی بارہا کیا۔ مجھے مستورات کی طرح اپنی صحیح عمر بتانے میں اعتراض نہیں اور نہ ہی مجھے اس سوال سے کشش قلبی ہوتی ہے لیکن جب بھی مجھ سے کوئی عمر پوچھتا ہے تو میں سالوں کے بجائے دنوں میں بتاتا ہوں جیسے کہ میری عمر ” نو ہزار آٹھ سو ساٹھ دن ” ہے۔ عمر پوچھنے والے کے چہرہ پر پریشانی اور پشیمانی کے آثار دیکھ کر میں سمجھ جاتا ہوں کہ میری طرح یہ بھی حساب میں کورا ہے۔بے چارا حیران اور حرماں واپس لوٹ جاتا ہے۔اگلی ملاقات میں اس کی خوشی دیکھنے لائق ہوتی ہے جب وہ حساب کرکے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ لیے سلام علیک کے بعد وہاں سے ہی بتاتا ہے کہ اچھا تو آپ کی عمر ستائیس سال ہے۔
یوں تو سوال کرنا ہوشیار، ذہین اور خردمند ہونے کی دلیل ہے ۔انسان چوں کہ سوچتا سمجھتا ہے ،غور وفکر کرتا ہے اس لیے سوالات پوچھتا ہے ۔کبھی خود سے ، کبھی اپنی ذات سے، تو کبھی کائنات اور دنیا کے معاملات سے۔ سوال دبی بغاوت اور شک و شبہات کا دوسرا نام ہے۔یہ بغاوت کی چنگاری اور شک و شبہ میں مبتلا ہونے کا جنون ہمیں قدیم عمارات اور ہزاروں لاکھوں سال پرانی چیزوں کو دیکھ کر نہیں ہوتا بل کہ اس وقت یہ شعلے بھڑک اٹھتے ہیں جب ہم کسی خوب صورت خاتون اور بد سیرت مرد کو دیکھتے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ خوب صورت خاتون اور بدمعاش مرد ایک جیسے ہوتے ہیں کہ دونوں میں یہ بات مشترکہ ہے کہ دونوں جلد بوڑھے نہیں ہوتے۔ دنیا میں اور بھی تو ہزاروں مسائل اور لاکھوں معاملات ہیں جن پر ہم نے لب نہ کھولے اور سوالات نہ کیے لیکن جب ہماری نظر عورت پر پڑتی ہے تو فورا دل مچل جاتا ہے اور ذہن بیدار ہوکر اس سے عمر پوچھنے کی ضد کرتا ہے۔مشہور یہ ہے کہ عورتیں اپنی صحیح عمر کبھی نہیں بتاتیں لیکن تجربہ یہ ہے کہ عورتیں ہی اپنی عمر نہیں چھپاتیں بلکہ شاعر اور عمر رسیدہ شخص بھی کبھی اپنی صحیح عمر نہیں بتاتے۔جب بھی کسی شاعر سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے گول مول کرکے جوابا یہی کہتا ہے کہ __
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آزرو میں کٹ گئے دو انتظار میں
عمر رسیدہ لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر اس سوال کا جواب دیتے ہیں ، خاص کر وہ جو صحت مند اور پیری میں بھی تندرست ہوں ۔ پہلے تو وہ یاداشت کا بہانہ بنا کر اس سوال کو ٹال دیتے ہیں۔ جب سوال پوچھنے والا شک بھری نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کو لگتا ہے کہ عمر نوح کے برابر اس کی عمر ہو سکتی ہے تو خود ہی دس بیس سال گھٹا کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ
ابھی تو میں جوان ہوں
ایسے بھی اس دنیا میں شاطر اور چالاک لوگ ہیں، جب ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کی عمر کتنی ہے تو وہ یہ سوال کسی بزرگ کے حوالے بڑی چالاکی سے کرتے ہیں۔ان کو بزرگ کی خراب یاداشت کا گمان نہیں بل کہ یقین ہوتا ہے۔جب بزرگ کے منہ سے ان کے معتلق یہ کلمہ خیر نکلتا ہے کہ ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے، ابھی تو یہ بچے ہیں تو وہ فرط جذبات اور خوشی سے بزرگ کو یہ کہتے سنے گئے کہ_
عمرت دراز باد فراموش گارمن۔
کسی کی عمر پوچھنا برا نہیں ۔ہمیں پورا حق حاصل ہے کہ ہم اپنی قدیم اور یادگار چیزوں کے بارے میں دریافت کر سکیں۔قدیم عمارات ہوں ،کھنڈارت ہوں یا عورتیں، ان کی عمروں کو جاننے کے حقوق ہم نے محفوظ رکھے ہیں۔ عمارات اور کھنڈارت سے اس سوال کا جواب ممکن نہیں. اس لیے یہ سوال عورتوں سے ہی کرنا مناسب لگتا ہے۔ ان سے یہ سوال کرنا کہ محترمہ تمہاری عمر کتنی ہے ہمارا محبوب قومی مشغلہ بن گیا ہے۔ ہاں ایسا سوال کرنا اس وقت نامناسب اور نازیبا لگتا ہے جب کسی کی شادی ہونے والی ہو اور عین اسی وقت دلہے یا دلہن سے کوئی سوال کرے کہ تمہاری عمر کتنی ہے۔اپنی اصل عمر سے چند سال گھٹانے کے باوجود اس سوال سے شادی ہوتے ہوتے رہ جائے کہ دلہن یا دلہا بڑی عمر کا ہے تو بڑا دکھ اور قلق ان گھر والوں کو ہوتا ہے۔دکھ شادی ٹوٹنے کا نہیں ہوتا بل کہ وہ سارے انتظامات ضائع ہونے اور خواب ادھورے رہنے کا ہوتا ہے جو انہوں نے شادی کے لیے دیکھے اور سوچے تھے۔شادی سے قبل اگرچہ ہم جھوٹ بولنا اپنا فرض جانتے ہیں لیکن جب عین شادی کے وقت غلط عمر بتانے اور دس بارہ سال گھٹانے کے باوجود شادی ٹوٹ جائے تو بڑا دکھ ہوتا ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ دکھ شادی کے ٹوٹنے کا نہیں ہوتا بل کہ پچھتاوا اس بات کا ہوتا ہے کہ ہزار جھوٹ بھی کسی کام نہ آئے۔
جھوٹ بولنا گناہ ہے لیکن یہ ثواب کے برابر تب ہو جاتا ہے جب اس کے سہارے سے چالیس سال کی عورت تیس کی ہوجاتی ہے اور پچاس سال کا مرد چالیس کا ہوجاتا ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ عمر کو چھپانا نہیں چاہیے کیوں کہ چہرے سے عیاں ہوتا ہے کہ اب عمارات کو کھنڈر بننے میں اور کتنا وقت لگے گا۔کوئی ایسا سوال نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی دل آزاری ہو اور جواب دینے میں بے قراری محسوس ہو۔ کسی کے جذبات مجروح کرنا اور دل دکھانا گناہ ہے اور یہ جرم کی صورت تب اختیار کر جاتا ہے جب کسی سے عمر پوچھی جاتی ہے.
صاحب انشائیہ کی دوسری نگارش یہاں پڑھیں : امید اور حوصلے کا شاعر : اشہر اشرف

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے