موبائل فون کے ضروری مسائل: مطالعاتی میز سے کچھ ضروری باتیں

موبائل فون کے ضروری مسائل: مطالعاتی میز سے کچھ ضروری باتیں

✍️ وزیر احمد مصباحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

مولانا طفیل احمد مصباحی [سابق سب ایڈیٹر: ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور] ہمارے عہد کے ہر دل عزیز عالم دین اور نفیس ذوق و فعال طبیعت کے مالک ہیں۔ جہاد بالقلم میں ہمیشہ منہمک رہتے ہیں، گونا گوں میدان میں طبع آزمائی کرکے قیمتی خزانے کشید کرنا ان کی عادت ہے، تحریر و قلم سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے، مزاج میں یک گونہ تحرک و روانی ہے، یہی وجہ ہے کہ انھیں حرکت و عمل سے خوب یارانہ ہے، ان کی تحریروں میں فکر و نظر اور سعی پیہم کے عناصر غالب ہوتے ہیں، کچھ کرتے رہنے کی دُھن ہمہ وقت ان کے ذہن و دماغ میں اس طرح حاوی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہر جاننے پہچاننے والوں کو خیر و فلاح کا ہرکارہ بنانے پہ مصر رہتے ہیں۔ زمانہ کیا کہتا ہے یا کیا کہے گا؟ انھیں اس کی قطعی پرواہ نہیں ہوتی، بلکہ اپنے ہی فن و ہدف کی حدود میں گلوکاریاں کرتے رہنا اب تو ان‌ کی ایک خاص پہچان بن گئی ہے۔ وہ اپنی سرگرمیوں اور حسن کارکردگی کا مظاہرہ کبھی شعر و ادب کی شکل میں کرتے ہیں تو کبھی تصنیف و تالیف کی شکل میں قوم و ملت کو قیمتی سرمایہ دے جاتے ہیں۔
ان کا قلم کسی ایک موضوع اور فن کا اسیر نہیں ہے، بلکہ مختلف علوم و فنون میں صحرا نوردی کرنا وہ اپنے لیے افتخار کی اہم کڑی تصور کرتے ہیں۔ تا دمِ تحریر اگر وہ اپنے نام "حرف مدحت” جیسے قیمتی نعتیہ مجموعے کے انتساب کا تمغہ حاصل کر چکے ہیں تو وہیں درجنوں تحقیقی کتابوں کے وجود کا سہرا اپنے نام سجائے بیٹھے ہیں۔
آج مطالعاتی میز پر مولانا موصوف کی ایک ایسی ہی تحقیقی کتاب ” موبائل فون کے ضروری مسائل” زینت نگاہ ہے۔ دورانِ مطالعہ مجھے یہ اندازہ ہوا کہ مواد و موضوع کے تنوع کے ساتھ صاحب کتاب نے درونِ کتاب صالح اور تعمیری فکر و نظر کی ایک حسین جہاں آباد کرنے کی بڑی شاندار کوشش کی ہے۔ بس! آپ جلدی سے اسے سُرمۂ نگاہ بنائیے اور سر دُھنتے جائیے۔ اگر آپ کو میری ان باتوں پر یقین نہ آئے تو عصر حاضر کے عظیم دانش ور اور اسلامی اسکالر علامہ فروغ القادری [ورلڈ اسلامک مشن، انگلینڈ] کا یہ اقتباس بھی پڑھتے چلیں:
"مذکورہ کتاب میں جس پہلو سے مذہبی ترجیحات کو باضابطہ طور پر مدلل اور ذہن نشین کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس سے تصوراتی اور تجرباتی ہر دو لحاظ سے مصنف کتاب کے فلسفیانہ اور سائنٹفک(Scientific) تجزیے کا براہ راست اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں قطعی دو رائے نہیں کہ جدید سائنسی تحقیقات نے مذہب کے تجرباتی اثبات کے لیے جو وسیع و عریض میدان فراہم کیے ہیں، زیر نظر کتاب میں اس نیے پیدا شدہ امکان کو منظم طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ کتاب صرف معروضی مطالعہ (Objective Study) ہی پیش نہیں کرتی، بلکہ موضوعی اور داخلی اعتبار سے بھی اس کی معنویت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے”۔ [کتاب ہذا، ص: ۱۰]
قارئین! اس حقیقت سے آج سبھی واقف ہیں کہ ہم اور آپ جس مذہب کے پیروکار ہیں، وہ دین حیات انسانی کے تمام پہلوؤں میں آنے والے مسائل کا بہترین اور جامع حل اپنے پاس رکھتا ہے۔ یقیناً مہد تا لحد، بلا تفریق گونا گوں مسائل کی گتھیاں اگر کوئی سلجھا سکتا ہے تو وہ اللہ کریم کا پسندیدہ دین "دین اسلام” ہے۔ واقعی! جب ضرورتیں بڑھتی ہیں تو نت نئی ایجادات بھی منصۂ شہود میں آتی ہیں۔ ہاں! انہی حاجتوں کے پیچھے مسائل و مشکلات کی زبردست بھیڑ بھی چل رہی ہوتی ہے اور [خدا نہ خواستہ] جب کبھی ہمیں ان سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو ہم بلا جھجک شریعت اسلامیہ کی طرف رجوع کر لیتے ہیں تا کہ درست نتائج تک رسائی حاصل کرنے میں صحیح رہنمائی ہمارے لیے روشنی کا مینارہ ثابت ہو۔
جی ہاں! مذکورہ اقتباس کی روشنی میں اگر آپ حقیقت حال کا منصفانہ تجزیہ کریں تو یہ حقیقت ضرور ہمارے ذہنی دریچے سے نتیجہ بن کر مترشح ہوگی کہ "سوشل میڈیا” کا ایجاد بھی ہماری روزمرہ کی زندگی میں احتیاج بر آری کی ایک اہم کڑی ہے اور آج اس سے انحراف و تکذیب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس ترقی یافتہ دور میں سوشل میڈیا سے جڑا ہوا ایسا کون بندہ ہے جن کے ہاتھ/ جیب میں ایک عدد موبائل فون نہیں ہے؟ جی ہاں! رواں صدی میں موبائل صارفین کی اکثریت ایسی ہی ہے جو اپنی حیثیت و استطاعت دیکھ کر موبائل استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ فیشن کی گرم بازاری میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ یقینا دین و مذہب اور قوم و ملت کی تفریق کیے بغیر، موبائل فون نے ہر جگہ اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ ہر نسل و عمر کے لوگ اس کے دامن محبت میں بری طرح گرفتار ہیں۔ صاحب کتاب لکھتے ہیں:
” اس دور میں موبائل کی حکمرانی مسلم‌ ہے اور اس کی سلطانی بالکل ظاہر اور واضح ہے۔ آج موبائل کی حکمرانی کا سکہ پوری دنیا میں کھنک رہا ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت کا قصیدہ پوری دنیا میں پڑھا جا رہا ہے۔ کیا عوام، کیا خواص، کیا حاکم کیا محکوم، کیا مرد کیا عورت، کیا بوڑھا اور کیا بچہ سب موبائل کے ضرورت مند اور اس کے شیدائی ہیں۔ لوگ موبائل کی زلفوں کے اسیر اور اس کے دام محبت میں بری طرح گرفتار ہیں۔ گویا؀

ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
ایک ہی زلف کے سب اسیر ہوئے

[ایضاً، ص: ۲۰]

زیر نظر کتاب” موبائل فون کے ضروری مسائل” واقعی دیدہ زیب، خوب صورت اور حسن ظاہری و باطنی کا مرقع ہے۔ صاحب کتاب نے جس طرح آسان، شستہ اور سادہ لب و لہجہ میں موبائل فون کے ضروری مسائل کا احاطہ کیا ہے، یہ ان کی وسعت نگاہ اور اخاذ طبیعت کی جانب واضح طور پہ مشیر ہے ۔ سو سے زائد اہم مسائل پر دلائل و براہین کی روشنی میں اس قدر حسن جامعیت سے افہام و تفہیم کا رنگ چڑھایا گیا ہے کہ ان سے آنکھیں ملاتے ہوئے طبیعت جھوم اٹھتی ہے۔ شروع میں مختلف اہل علم و دانش: مناظر اہل سنت علامہ مفتی محمد مطیع الرحمن مضطر رضوی پورنوی، علامہ فروغ القادری، مفتی ناصر حسین مصباحی اور مفتی ابرار احمد قادری مصباحی وغیرہ کے کلماتِ تکریم، تاثرات اور تقریظ جلیل وغیرہ مرقوم ہیں۔ صاحب کتاب نے بھی درجن بھر سے زائد صفحات پر تاریخی دستاویز کی معیت میں موبائل فون کے فوائد و نقصانات پر تشفی بخش گفتگو کی ہے۔ واقعی مصنف موصوف نے اپنے گل بداماں قلم سے ابتدا تا انتہا گوہر ریزی کا مظاہرہ کرکے وہ دریا بہا دیا ہے کہ اگر ایک حقیقت شناس قاری اس میں غوطہ لگائے تو وہ حرماں نصیبی پر آنسو بہانے کی بجائے اپنے تہی دامن کی ظفر مندی پہ پھولے نہیں سمائے گا۔
آج ہم میں سے کثیر لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں، مگر ایسے افراد کی تعداد بالکل صفر ہے جنھیں موبائل فون کے ضروری مسائل سے تھوڑی بہت بھی شد بد ہو۔ دوران استعمال کہاں شرعی حدود کی پامالی ہو رہی ہے؟ ہم اس سے بے خبر رہتے ہیں۔ کیا چیزیں ہمارے لیے درست ہیں اور کیا نہیں؟ ہم ان سے بھی بے بہرہ ہوتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اس کم فہمی کے باوجود شب و روز اپنی ہمہ دانی کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ بھلا ہو مصنف محترم کا کہ انھوں نے بروقت اس پہلو کی نزاکت کو بھی اپنی عقابی نظر سے تاڑ لیا اور شریعت مطہرہ کی روشنی میں بڑی مفید معلومات یکجا کرکے قوم مسلم کو ایک بہترین تحفہ دینے کا کام کیا، اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ گھسے پٹے موضوعات پر ہی قلم دوڑا کر مصنف بننے کا بھوت {الا ماشاء اللہ} ہر قلم کار کے ذہن و دماغ پر بری طرح سوار ہے۔ چہ جائے کہ وہ کسی ضروری، تحقیق طلب اور نادر و نایاب عناوین و موضوعات کی ڈگر پہ اپنی جادہ پیمائی کی راہ ڈھونڈے۔ خیر! زیر نظر کتاب کی فہرست پہ نظر ڈال کر سرخیوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ گل دستہ کس قدر اہم اور موجودہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ کچھ عناوین ملاحظہ ہوں:

قسطوں پر موبائل بیچنے اور خریدنے کا حکم
موبائل کی تجارت اور مرمت سے متعلق اسلامی ہدایات
موبائل سے جاندار کی تصویر کشی کا حکم
مسلم عورتوں کے لیے موبائل کا استعمال
موبائل پر گیم کھیلنے کا شرعی حکم
موبائل اور ویڈیو گرافنگ
بلوٹوتھ کے ذریعہ آڈیو، ویڈیو بھیجنے کا حکم
موبائل کال سے طلاق کا شرعی حکم
موبائل کی خبروں سے استفاضہ شرعی کا حکم
موبائل پر انٹرنیٹ کے شرعی احکام
فیسبک کا شرعی حکم
موبائل کی تجارت اور کاروبار میں زکوٰۃ کا حکم۔ وغیرہ

کاش! مصنف موصوف کی طرح ہی یہ پرخلوص جذبہ و لگن اوروں کے ویران دلوں میں اب بھی موسم بہار کا منظر پیش کرے تو پھر بات ہی بن جائے۔ صاحب کتاب لکھتے ہیں:
"راقم الحروف طفیل احمد مصباحی عفی عنہ نے موبائل فون سے متعلق جدید مسائل کے اس پرخار صحرا میں قدم رکھ کر بہت بڑی حماقت کی ہے اور اپنی آبلہ پائی کا سامان مہیا کیا ہے۔ تا ہم اس امید پر شاداں و فرحاں ہے کہ ایک نو آموز اور غیر تجربہ کار مسافر منزل مقصود کی جستجو میں خود پریشان اور نیم جان ہو کر دوسرے ہزاروں افراد کو منزل مقصود کا پتہ بتا دے تو اس سے بہتر بدلہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ اتباع شریعت اور دینی مسائل کا علم اور عمل یہی تو منزل مقصود ہے۔ کثرتِ کار اور ہجوم افکار کے باوجود اس چند روزہ زندگانی میں ہمیں اپنی منزل مقصود فراموش نہیں کرنی چاہیے”۔
آج موبائل فون کی ایجاد نے اگر ایک طرف انسان کے لیے افادہ و استفادہ کی راہیں آسان کر دی ہے تو وہیں ان کے نقصانات و تباہیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں، بلکہ زیادہ ہی ہیں۔ اب بھلا یہی دیکھ لیں کہ کل تک آدمی جس گناہ کو سر انجام دینے کے لیے برسوں سوچتا تھا آج اسی گناہ بے لذت کے لیے صرف ثانیے بھر کی ہی مدت در کار ہوتی ہے، انگلی دبائی اور فسق و فجور کی وادیوں میں پہنچ گیے۔ دنیا بھر کی خرابیوں کے ساتھ موبائل نے ایک بڑی برائی، جس سے معاشرہ اکثر تباہ ہو کر رہ گیا ہے، وہ عشق و معاشقہ کے نام پر جنسی ملاپ کا دروازہ کھولنا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ لڑکی اور لڑکا کے بھاگنے و فرار ہونے کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ صاحب کتاب لکھتے ہیں:
"موبائل فون کی غیر مرئی قوت نے دو دلوں کا تار آپس میں اس طرح جوڑ دیا ہے کہ وہ تار چھڑائے نہیں چھٹتا۔ اب وہ زمانہ ختم ہو گیا جب وصال یار اور لقائے محبوب کی خاطر گلی کوچوں کی خاک چھاننی پڑتی تھی، اب موبائل نے وصال یار اور لقائے محبوب کے دشوار طلب اور صبر آزما مراحل کو بہت آسان کر دیا ہے۔ بس انگوٹھے کو حرکت دیجیے اور ایک ہی جست میں کوچہ جاناں اور محبوب کے آستانہ تک پہنچ جائیے اور صرف کوچہ جاناں ہی نہیں بلکہ محبوب کے سراہنا تک پہنچ جائیے”۔ [ایضا، ص: ۳۱]
کتاب ہذا کے ص: ۶۴، پہ موبائل فون پر اپنا تعارف کرانے کے حوالے سے گفتگو کا جو تار چھیڑا گیا ہے وہ تاریک دلوں کو منور کر دینے کی بخوبی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج یہ بیماری بالکل عام سی ہو گئی ہے کہ جب ہم کسی کو فون کرتے ہیں اور وہ ہم سے نام پر استفسار کرنے لگتا ہے تو ہم اپنا تعارف دینے کی بجائے الٹے اس سے ہی یہ فرمائش کرنے لگ جاتے ہیں کہ : ” پہچانیے میں کون ہوں؟ اچھا ذرا پہچانو تو دیکھوں؟ اچھا بتاؤ تو میں کون ہوں؟” وغیرہ وغیرہ۔
حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں اس امرِ غلط کا بہترین پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے کہ ہمیں اس فعل سے بچنا چاہیے اور نام و پتہ صحیح صحیح بتا دینا چاہیے۔ حدیث پاک ہے کہ: ( ایک مرتبہ) حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت چاہی آپ ﷺ نے فرمایا کون؟ تو اس پر حضرت جابر نے کہا: میں ہوں، تو حضور ﷺ نے ( اس تعارف کو قدرے نا پسند کرتے ہوئے) فرمایا: میں میں کیا ہے”۔
ص: ۸۸/ پر ایک مشہور فقہی ضابطہ” الامور بمقاصدھا” کے تحت موبائل کی گھنٹی میں حمد و نعت، قرآنی آیات اور اذان و سلام سیٹ کرنے کا واضح حکم بیان فرما دیا ہے کہ اگر ان چیزوں کو موبائل کی گھنٹی میں سیٹ کرنے کا مقصد اللہ و رسول کا ذکر سنتے رہنا ہے تو پھر یہ جائز و درست ہے، ہاں! اگر مقصد صرف اعلان و اعلام ہو تو فتاویٰ عالمگیری کی عبارت: اذا فتح التاجر الثوب فسبح اللہ تعالیٰ او صلی علی النبی ﷺ یرید بہ اعلام المشتری جودۃ ثوبہ فذلک مکروہ” کے تحت مکروہ ہے اور ہمیں اس سے ہر ممکن طور پر احتراز کرنا چاہیے۔”
پوری کتاب رطب و یابس سے منزہ ہے، الفاظ کے پیچ و خم میں الجھ کر آنکھ مچولی کا کھیل نہیں کھیلا گیا ہے بلکہ تحقیق و استناد‌ کے سائے میں عرفان حقائق کے لیے ایسے اہم مسائل موضوع بحث بنائے گیے ہیں جو ارباب نظر کے ذوقِ تجسس کو بیدار کرنے میں اگر اہم رول ادا کرتے ہیں تو وہیں ہم جیسے صحرا نوردوں کے واسطے تحقیقی شعور کی پرورش و پرداخت کے لیے بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تقریباً ۳۵/ چھوٹی بڑی اہم کتابوں کو بطور ماخذ و حوالہ استعمال کرکے مصنف موصوف نے واقعی زیر نظر کتاب کی اہمیت و افادیت میں چار چاند لگانے کا کام کیا ہے، ساتھ ہی جا بجا ائمہ کرام، بزرگان دین اور سلف صالحین کے اقوال و ارشادات بھی مندرج ہیں۔
یہ مسلم ہے کہ جب سے موبائل فون وجود میں آیا ہے اسی وقت سے ہی بلا اجازت دوسروں کی مختلف باتیں، مجلسوں کی گفتگو اور فون کال ریکارڈ کرنے کا فیشن بھی خوب عروج پر ہے۔ بلا شبہ ان مجلسوں میں بسا اوقات راز و نیاز کی بھی باتیں ہوتی ہیں، اب اگر کوئی محفوظ کرنے والا ان باتوں کو دوسری جگہ نشر کر دے تو ظاہر ہے کہ فتنہ و فساد کی آگ بھڑکتے ذرا سی بھی دیر نہیں لگے گی۔ اس نازک موضوع پر بھی بڑی دانش مندی سے قلم اٹھا کر حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں صاحب کتاب خدا لگتی بات کہہ گیے ہیں۔ ساتھ ہی اس سے متعلق محقق مسائل جدیدہ، استاذ محترم حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی کا ایک اہم علمی اقتباس بھی نقل کر دیا گیا ہے تا کہ کوئی بھی قاری اپنی تشنہ لبی پر شکوہ کناں نہ ہوں۔ ص۱۵۶ تا ۱۶۴/ موبائل میں قرآن بھرنے اور چھونے وغیرہ کے احکام، بالتفصیل رقم کیے گیے ہیں۔ ای میل، ورلڈ وائڈ (W W W) سرچ انجن، انٹرنیٹ ٹیلی فون، انٹرنیٹ کامرس اور انٹرنیٹ چیٹ وغیرہ سے متعلق بنیادی معلومات اور ان سے متعلق فوائد و نقصانات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
جی! ہر صبح و شام یہ بات ہمارے اور آپ کے مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ دور حاضر میں موبائل فون کے ذریعے خرید و فروخت کا عمل بھی خوب انجام دیا جا رہا ہے۔ لوگ گھر بیٹھے ہی ہزاروں اور لاکھوں کما رہے ہیں۔ مگر اس بیع و شرا سے متعلق شرعی احکام کیا ہیں؟ ان سے بہت کم لوگ ہی واقف ہیں۔ اس ضمن‌ میں مصنف موصوف نے علامہ ابن نجیم مصری حنفی کا ایک جامع جزئیہ نقل کرکے اس راہ کی ساری مشکلات کا حل پیش کر دیا ہے۔ آخر کتاب میں فیس بک سے متعلق بڑی اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں ، جو واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
زیر تبصرہ یہ علمی گلدستہ مکمل ۱۹۲/ صفحات پر مشتمل ہے۔ ٹائٹل پیج کے بناؤ و سنگار میں جمالیاتی نفسیات کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ جدید تحقیقی منہج سے اتفاق کرتے ہوئے جہاں بھی بطور دلیل کتابوں کے نام مذکور ہیں، ان کے ساتھ ہی جلد، صفحہ، مطبع اور سن طبع کا ذکر بھی لازمی کیا گیا ہے، تا کہ بوقت ضرورت اسی میزان پہ کسی عبارت کی جستجو میں قاری کو اضمحلال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کتابت و چھپائی عمدہ ہے۔ سر ورق؛ موبائل فون کی ایک عدد خوب صورت تصویر بھی ثبت ہے، دوسری طرف کتابی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے دو دانش وروں کے قیمتی اقتباس بطور شواہد مذکور ہیں۔ صفحات عمدہ اور غیر ضروری جھمیلوں سے پاک و صاف ہیں۔ راقم الحروف کے سامنے اشاعتِ دوم [فروری ۲۰۱۶ء/ مطابق ربیع الثانی ۱۴۳۷ھ] کا ایک نسخہ موجود ہے، جب کہ اس کی اشاعتِ اوّل دسمبر ۲۰۱۵ء/ مطابق ربیع الاول ۱۴۳۶ھ، میں ہوئی ہے۔ نشر و اشاعت کا کام سنی پبلیکیشنز، وحید مارکیٹ جامع مسجد، دہلی نے انجام دیا ہے۔ خواہش مند حضرات ۱۲۵/ روپے کی ادائیگی کے ساتھ المجمع الاسلامی، حافط ملت اکیڈمی، حق اکیڈمی اور نوری کتاب گھر مبارک پور، اعظم گڑھ [یوپی] سے حاصل کر سکتے ہیں۔

#نوٹ: ذاتی مفاد سے پرے ہٹ کر راقم الحروف کا آپ جیسے عمدہ ذوق و شوق رکھنے والے قارئین سے گزارش ہے کہ ایک دفعہ زیر تبصرہ کتاب ” موبائل فون کے ضروری مسائل” اپنے مطالعہ کی زینت ضرور بنائیں۔ ان شاءاللہ، آپ کو مفید اور اہم معلومات سے سرخرو ہونے کا بھرپور موقع ملے گا۔
_
wazirmisbahi87@gmail.com

وزیر احمد مصباحی کی گذشتہ نگارش : ہماری آواز کی فخریہ پیشکش” ای میگزین” پر ایک تجزیاتی نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے