بدن ٹوٹ رہا ہے (غزل)

بدن ٹوٹ رہا ہے (غزل)

✍ کاشف شکیل

چھوڑو بھی مرے یار ! بدن ٹوٹ رہا ہے
بانہوں میں گرفتار بدن ٹوٹ رہا ہے۔

اس کبر سے کب کس کو سکوں آیا میسر
مست ِ مئے پندار ! بدن ٹوٹ رہا ہے

دامن جو ہوا چاک تو کچھ غم نہیں لیکن
اے حسن کی سرکار‌ بدن ٹوٹ رہا ہے

ہر روز پتنگوں سے چراغوں نے‌ کہا یہ
مل کر نہ کرو وار بدن ٹوٹ رہا ہے

برسوں سے مرا جسم دل و جان و جگر سے
ہے بر سر پیکار بدن ٹوٹ رہا ہے

روٹی کے لیے روز تھکن ساتھ ہوں لاتا
اب مت کرو سنگار بدن ٹوٹ رہا ہے

مٹی کے کھلونوں کو اٹھائے ہوئے بڑھیا
ڈھونڈھے ہے خریدار بدن ٹوٹ رہا ہے

انکار زبانی تھا کوئی جنگ نہیں تھی
پھر کیوں مرا بیکار بدن ٹوٹ رہا ہے

چڑھتی ہوئی ہر سانس نہیں آخری ہوتی
اب بس بھی کرو پیار بدن ٹوٹ رہا ہے

کانٹوں کی زمیں، سنگ کی بارش میں یوں کاشف
چلنا ہوا دشوار بدن ٹوٹ رہا ہے۔

کاشف شکیل کی دوسری نگارشات:
خزاں رسیدہ عصمت
فلک کی چیز زمیں پر اتار لائی گئی (غزل)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے