غزل (محنت کا صلہ مجھ کو ملا اور ہی کچھ ہے )

غزل (محنت کا صلہ مجھ کو ملا اور ہی کچھ ہے )

*شعیب سراج*


محنت کا صلہ مجھ کو ملا اور ہی کچھ ہے
دفنایا تھا کچھ اور اگا اور ہی کچھ ہے

دیوانے نے دل میں تو رکھا اور ہی کچھ ہے
"دل آئینہ ہے جلوہ نما اور ہی کچھ ہے”

ہر ایک عبادت کی جزا خوب ہے لیکن
راتوں کی نمازوں کا صلہ اور ہی کچھ ہے

یثرب سے جو آتی تھی ہوا اور ہی کچھ تھی
احمد کے مدینے کی صبا اور ہی کچھ ہے

ہے خوب بہت خون جگر ٹھیک ہے لیکن
ہاتھوں پہ ترے جچتی حنا اور ہی کچھ ہے

ہوتا تھا مرے گھر میں اداسی کا بسیرا
آنے سے ترے یار سما اور ہی کچھ ہے

آواز لگاتے ہیں سبھی امن کی لیکن
وحشت زدہ لوگوں کی ندا اور ہی کچھ ہے

 



شاعر کے بارے میں:
نام. محمد شعیب ولد. محمد ہارون قلمی نام. شعیب سراج متعلم. جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی رہائش. آزاد نگر ڈونگری پھلیا ڈونگرا واپی ولساڑ گجرات ٣٩٦١٩٥

شیئر کیجیے

3 thoughts on “غزل (محنت کا صلہ مجھ کو ملا اور ہی کچھ ہے )

محمد احسان الاسلام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے