احمد ندیم قاسمی کاافسانہ ”ہیرو شما سے پہلے ہیرو شما کے بعد“ (ایک جائزہ)

احمد ندیم قاسمی کاافسانہ ”ہیرو شما سے پہلے ہیرو شما کے بعد“ (ایک جائزہ)

ڈاکٹر افشاں ملک ۔ علی گڑھ

احمد ندیم قاسمی کے متنوع موضوعات میں ”جنگ“ بھی ایک اہم موضوع ہے۔اس حوالے سے لکھے گئے افسانوں میں انہوں نے نہ صرف جنگ کی ہولناکیوں اور تباہیوں کاہی ذکر کیا ہے بلکہ جنگ کے منفی اثرات کی گونج کہاں کہاں تک سنائی دیتی ہے اورمعاشرے، انسانی زندگی، انسانی نفسیات اوراخلاقی اقدار کو کس کس طرح مجروح کرتی ہے، اس زاویے کو بھی فنکارانہ استدلال سے اپنے افسانوں میں برتا ہے۔ دراصل احمد ندیم قاسمی کا تعلق جس علاقے سے ہے وہ علاقہ فوجی بھرتی کا اہم مرکز تھا شاید یہی وجہ ہے کہ ندیم کے افسانوں میں جب ”جنگ“ کا موضوع شامل ہوتا ہے تو فضااور حالات کی منظر کشی وہ اس طرح کرتے ہیں کہ ”جنگ“ سے متائثرہ معاشرہ اورکردار ذہن کے پردے پر مصوّر ہو جاتے ہیں۔ جنگ کے حوالے سے لکھے گئے تمام افسانوں کا اگر بغور جائزہ لیں تو قاسمی کا افسانہ”ہیروشیما سے پہلے اور ہیروشیماکے بعد“ ایک معرکۃ الآراء افسانہ ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ایک ”جنگ نامہ“ ہے جو اردو افسانے کی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے اور تفصیلی تجزیہ کا متقاضی ہے۔
افسانے کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کے واقعات سے اخذ کیا گیا ہے۔دیگر افسانوں کی طرح اس افسانے میں بھی احمد ندیم قاسمی نے پنجاب کے دیہی ماحول پر ہی کہانی کا تانا بانا بُنا ہے۔ کہانی کا ہیروشمشیر خاں ایک مفلوک الحال اور اقتصادی طور پر پسماندہ خاندان کا سرپرست ہے۔ اس کا اکلوتا بیٹا’دلیر خاں‘ جس کی شادی ہوچکی ہے اور’شاداں‘ نام کی نئی نویلی دلہن کچھ ہی عرصہ ہوا گھر میں آئی ہے۔دلیر خاں ابھی روزگار سے محروم ہے۔ شمشیر خاں پر گاؤں کے مہاجن کا قرض ہے جسے وصول کرنے کے لیے مہاجن بار بار شمشیر خاں سے تقاضا کرتا ہے۔ لیکن شمشیر خاں اپنی تنگدستی کے باعث یہ قرض ادا نہیں کرپاتا۔ اسی دوران دوسری جنگ عظیم شروع ہوجاتی ہے اور گاؤں میں عام طور پر یہ چرچا ہونے لگتا ہے کہ انگریز جاپان اور جرمنی کے خلاف لڑی جارہی جنگ کے لیے ہندوستانیوں کو فوج میں بھرتی کررہے ہیں۔ افسانے میں شمشیرخاں کی پدرانہ محبت اور پیسے کی ضرورت کی کشمکش کوجو انسانی معاشرے اور زندگی کا ایک عبرت انگیز پہلو ہے احمد ندیم قاسمی نے بڑی صناعی سے برتا ہے۔
شمشیر خاں کے سامنے ایک طرف اکلوتے بیٹے کی محبت ہے، دوسری طرف وہ دلہن ہے جس سے بیٹے کی وابستگی ہے اورجس کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ بھی ابھی دھندلا نہیں پڑا ہے، تیسری طرف مہاجن کے قرض کی ادائیگی کا تقاضا ہے جو اس کی خودداری پر لگاتار چوٹ کرتا رہتا ہے۔ آخرکار شمشیرخاں جیسا زندہ دل اور پورے گاؤں میں مرکز توجہ رہنے و الا باہمت شخص مہاجن کے قرض کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ وہ اپنے اکلوتے بیٹے دلیر خاں کو صلاح دیتا ہے کہ تنگ دستی دور کرنے کے لیے وہ فوج میں بھرتی ہوجائے۔ دلیر خاں باپ کی صلاح مانتے ہوئے فوج میں بھرتی ہوجاتا ہے۔ دراصل مہاجن کے تقاضوں کا خوف ہر لمحہ شمشیر خاں کے سر پر آسیب کی طرح سوار رہتاتھا۔ شمشیر خاں کی اس بے بسی، بے کسی اور ذہنی کیفیت کی عکاّسی احمد ندیم قاسمی بڑے فطری انداز میں کی ہے:۔
”مگر جب وہ (شمشیر خاں) گھر آتا تو تھلتھلاتے ہوئے پیٹ والا مہاجن دوہری ٹھوڑی میں تہرے بل ڈال کر اس کے کمرے کی کسی جھری کے رستے آنکلتا اور اندھیرے میں سوکھے پنجے اس کی طرف لپکتے اور ملحقہ کمرے کی روشن جھریاں بل کھاکر سانپوں کی طرح رینگنے لگتیں…”دیا بجھا دو دلیر“ وہ پکار اٹھتا، تیل ضائع ہورہا ہے…“
کہانی کا آغاز بھی احمد ندیم قاسمی ”دیا بجھا دود لیر“ کے جملے ہی سے کرتے ہیں جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ دلیر خاں کو اپنے گھر کی معاشی تنگ دستی کا احساس ہر وقت ستاتا ہے اور وہ جزرسی یا کفایت شعاری کے جذبے سے چھوٹی چھوٹی بچتیں کرنے کے نام پر اپنے بیٹے اور دلہن کو یہ احساس دلاتا ہے کہ گھر کی تنگ دستی میں رات بھر دیا جلاکر تیل ضائع کرنا سمجھداری کی بات نہیں ہے۔ ”دیا بجھا دو“ دراصل ایک ایسا علامتی جملہ ہے جو مختصر ہوتے ہوئے بھی کہانی کے مرکزی کردار دلیر خاں کی معاشی تنگ دستی اور بدحالی کا پورا خاکہ کھینچ دیتا ہے۔ ایک طرف غربت اور دوسری طرف مہاجن کا قرض۔ اس دوہری مصیبت میں پھنسے شمشیر خاں کے سامنے اب کوئی اور راستہ باقی نہیں رہا تھا۔اس لیے اس نے نئی نویلی دلہن کے آنسوؤں کی پروا اور اکلوتے بیٹے کی محبت کا خیال کیے بغیر دلیر خاں کو جنگ میں بھرتی ہونے کی صلاح دے دی۔ تنگ دستی کے جبر نے محبت کے جذبے کو شکست دی اور شمشیر خاں نے بیٹے سے کہا:۔
”اب میرے خیال میں تُو اللہ کا نام لے اور بھرتی ہوجا۔ موت سے ڈرنا جوان مردوں کا کام نہیں۔ یہ گھڑی تو مقرر ہے۔ ٹالنے سے نہیں ٹل سکتی۔ جنگ کے طوفان سے لاکھوں بچ کر نکل آتے ہیں اوریہاں کروڑوں کچا خربوزہ کھاکر یا چربی کا حلوہ ٹھونس کر یا ویسے ہی بیٹھے بٹھائے ہنستے کھیلتے دم توڑ دیتے ہیں۔ چل چلاؤ تو لگاہی رہتا ہے۔ تو پھر میرے بیٹے میں چاہتا ہوں کہ جب تو لام سے واپس آئے تو بہت بڑا افسر بن کر آئے۔ لوگ تیرا نام لیں تو میں فخر سے اکڑ جاؤں۔ یقین جانو اس طرح میرے سفید ہوتے ہوئے بال پھر سے کالے ہونے لگیں گے۔ دل کا اطمینان سب سے بڑا خضاب ہے۔“
لیکن یہ کہتے ہوئے شمشیر خاں کے دل پر کیا گزری اس کی تصویر کشی احمد ندیم قاسمی نے ان الفاظ میں کی ہے:۔
”اس نے ہزارہا چاہا کہ اعصاب کو قابو میں رکھے۔ اس کا رنگ نہ بدلے۔ اس کے ہونٹ نہ کانپیں۔ اس کی بھنویں نہ لرزیں۔ مگر اس وقت اس کی ذاتی غرض نے شفقت پدری کے خلاف لڑائی کا اعلان کردیا تھا۔ ایک دم رک کر وہ سیدھا ہو بیٹھا اور پھر یوں بولا جیسے اس نے ساری عبارت برسوں سے رٹ رکھی ہو۔“
کہانی کے مرکزی کردار شمشیر خاں کی یہ وہ ذہنی کشمکش ہے جو ایک باپ کی بیٹے سے محبّت کی غمّاز ہے۔ ایک طرف اس کے سینے میں باپ کا محبت بھرا دل ہے جس میں بیٹے کی دلہن کے نئے نئے سہاگ کی فکر ہے اور دوسری طرف غریبی اور مہاجن کے قرض کا بوجھ۔ لیکن ان دونوں کے درمیان جو بے چینی اور ذہنی کشمکش جاری رہی اس نے آخرکار بیٹے کی محبت کو شکست دے دی۔ یہ وہ سچائی ہے جس کو احمد ندیم قاسمی نے بڑی دیانت داری سے افسانے میں برتا ہے۔ شمشیر خاں کی یہ خواہش نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ وہ بیٹے کی دلہن کو دیکھتا ہے اوریہ سوچ کر دکھی بھی ہوتاہے کہ شاداں شوہر کی مفارقت کس طرح برداشت کرے گی؟ شادی کے ابتدائی دنوں کی صورت حال اور دلیر کی اس کو چھوڑ کر جانے کی ہچکچاہٹ کو افسانہ یوں سامنے لاتاہے:۔
”ابھی شاداں کے ناخونوں پر حنا کی ہلکی ہلکی لالی مٹنے نہیں پائی تھی، اگرچہ اس نے شادی کے دس روز بعد ہی سارے گھر کا کام سنبھال لیاتھا اور نئی نویلی سہاگنوں کے پرانے رواجوں کے برعکس گھر کی جھاڑ پونچھ کے علاوہ تالاب سے سب گھروالوں کے کپڑے تک دھولائی تھی، لیکن آخر وہ ابھی دلہن تھی۔ اس کی چوڑیوں کے چھناکے میں ترنم تھا۔ وہ قدم اٹھاتی تویوں معلوم ہوتا تھا جیسے دوسرا قدم زمین پر نہیں آئے گا ہوا میں پڑے گا اور وہ اُبھر جائے گی اور اُبھرتی چلی جائے گی۔ اس کی لانبی آنکھوں کو سرمے کی لکیر ابھی تک نیم خوابی کا خمار بخشنے جارہی تھی۔شرماتے وقت ابھی تک اس کا دایاں ابرو اٹھ کر کمان ساخم کھاجاتا تھا اور گوری ٹھوڑی کی گولائی حباب کی طرح کپکپا اٹھتی تھی۔ دلیر خاں کے نزدیک اتنے بڑے سرمائے کو کھلا چھوڑ دینا بزدلی تھی لیکن جب اعلان جنگ کے ساتھ ہی گاؤں نوجوانوں سے خالی ہونا شروع ہوا اور چند لوگوں نے اس کی ہچکچاہٹ پر پھبتیاں بھی کسیں تو وہ ایک صبح کو اپنے باپ سے آنسوؤں سے بھیگی ہوئی دعائیں لیتا اورشاداں کے سلگتے ہوئے لبوں کے گہرے گوشوں کا آب حیات پیتا گاؤں سے رخصت ہو گیا۔“
شمشیر خاں کا بیٹا اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی امید کے ساتھ اک رومانی کشش بھی آنکھوں میں بسائے گھر سے نکلتا ہے۔ وہ اپنے گھر کی خستہ حالی سے پوری طرح واقف ہے اوراسے معلوم ہے کہ اس کا باپ دیر تک دیا جلانے کو کیوں منع کرتا ہے۔ درحقیقت افسانے کے یہ وہ ٹکڑے ہیں جو اقتصادی بحران، انسانی اقدار اور ایثار ووفا کی پائمالی، زخمی اناکی آواز،اورنفسیاتی بحران کو سامنے لاتے ہیں اور یہ سب احمد ندیم قاسمی نے اپنی طلسماتی حقیقت نگاری کے ذریعہ افسانے میں پیش کیا ہے۔ مختلف زاویوں اور مخصوص اسلوب سے احمد ندیم قاسمی نے معاشرے میں گونجتی ’جنگ‘ کی چیخ کو روحانی اور جذباتی دونوں اعتبار سے اجاگر کیا ہے۔ کہانی سے مترشح ہے کہ شوہر”دلیر خاں“ کے لام پر جانے کے بعددلہن”شاداں“کے دل پر کیا گزری ہوگی۔۔۔کس کس طرح اس کے ارمان مچل کر رہ گئے ہوں گے اور جنگ کے کتنے خدشات نے اس کے دماغ میں ہلچل مچائی ہوگی۔۔۔!!!
کہانی آگے بڑھتی ہے دلیر کے جانے کے بعد اس کی فرقت میں شاداں کی خود سے بیگانگی کی کیفیت کو افسانہ نگار نے یوں بیان کیا ہے:۔
”دلیر خاں کے جاتے ہی گھر خالی نظر آنے لگا۔ شاداں بھی اداس رہنے لگی۔ ہر وقت پڑی کھاٹ توڑ رہی ہے۔ برتنوں میں چوہیاں ناچ رہی ہیں۔ آنگن میں کوؤں نے ادھم مچا رکھا ہے۔ سلیقے اور سگھڑاپے کا سارا سحر ٹوٹ گیا۔زیور اترنے لگے، ریشمی لہنگے کا کنارہ زمین پر گھسٹتے گھسٹتے بے رنگ ہوگیا۔ آنکھوں میں بھولے سے سُرما پڑتا بھی تو دن ڈھلے تک بہہ جاتا۔شمشیر اسے دلاسا دینے کی کوشش کرتا۔ مگر جانتا تھا کہ جوانی میں محبت عبادت کی حیثیت رکھتی ہے۔“
احمد ندیم قاسمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ کہانی اور اس سے متعلقہ ماحول کے اک اک پہلو پر نظر رکھتے ہیں۔ جزئیات نگاری میں انہیں کمال گھسٹتے گھسٹتے بے رنگ ہوگیا۔ آنکھوں میں بھولے سے سُرما پڑتا بھی تو دن ڈھلے تک بہہ جاتا۔شمشیر اسے دلاسا دینے کی کوشش کرتا۔ مگر جانتا تھا کہ جوانی میں محبت عبادت کی حیثیت رکھتی ہے۔“
احمد ندیم قاسمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ کہانی اور اس سے متعلقہ ماحول کے اک اک پہلو پر نظر رکھتے ہیں۔ جزئیات نگاری میں انہیں کمال حاصل ہے۔ وہ کہانی کے تعلق سے ان سب چیزوں کو چن چن کرشامل کرتے ہیں جو کہانی کی اثر انگیزی میں اضافہ کرسکتی ہوں۔ ان کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ بیچ بیچ میں ایسے معاون کرداروں کو بھی سامنے لاتے رہتے ہیں جو کہانی کو فطری طور پر آگے بڑھانے میں مدد گار ہوں۔ جیسے متعلقہ کہانی میں پینشن یافتہ فوجی شہباز خاں، پٹواری اور ضلع داریہ تینوں کردار ایسے ہیں جو کہانی کی بنت میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ شہباز خاں فوج سے ریٹائرڈ ایک ایسا بزرگ ہے جو پہلی جنگ عظیم کے دوران حاصل ہوئے اپنے تجربے شمشیر خاں کو بتاتا ہے اور ضلع دارو پٹواری شہر سے آنے پر وہ خبریں شہباز خاں کے گوش گزار کراتے ہیں جو جنگ سے متعلق ہوتی ہیں اور جنہیں جاننے کے لیے شمشیر خاں راہ تکتا رہتا ہے۔ ان سبھی ذیلی کرداروں کے بل پر کہانی اپنا فطری سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ شمشیر خاں دلہن کو مطمئن کرنے کے لیے ہر ہفتے یہ جھوٹ بولتا ہے کہ دلیر خاں کا خط اسے ملا ہے اور وہ خیریت سے ہے۔ وہ شاداں کو اداس دیکھ کر اسے تسلّی دیتے ہوئے کہتا ہے:۔
”شاداں بیٹی یہ برا شگون ہے جوان مردوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ وہ نکھٹّو بن کر گھر میں پڑے نہیں رہ سکتے۔ خدا کے لیے ہنس کھیل مسکرا… سنتی ہے شاداں بیٹی۔۔!“
شاداں شمشیر کی طرف یوں دیکھتی ہے جیسے کہہ رہی ہو۔۔۔”ٹھیک ہے ہنسنا کھیلنا بہت اچھی باتیں ہیں مگر کس سے ہنسوں، کس کے ساتھ کھیلوں، بوڑھے چچا تم کیا جانو۔۔۔ تم کیا جانو۔۔۔؟“
شمشیر سب کچھ جانتا تھا۔ وہ ہر ہفتہ دلیر کے خط کا جھوٹ تراشتا کہ آج پھر خط آیا ہے،وہ کہتا:۔
”لکھتا ہے ”شاداں سے کہیے کہ میرے لیے دُعا کیا کرے۔۔۔اوراداس نہ رہے۔
گرج کڑک اور دھواں دھارطوفانوں کے بعد مطلع صاف بھی ہوجاتا ہے۔“
لیکن لفظی تسلیوں سے مفارقت کی آگ میں پھنکتے جوان دل کا مطمئن ہونا کہاں ممکن تھا۔۔۔؟ شاداں شوہر کے بھرتی ہوجانے کے کچھ ہی مہینوں کے بعد ماں بن جاتی ہے۔ سسر نے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی یہ مان کر کہ بیٹا پیدا ہوگا۔ اس کا نام دلیر خاں کے نام پر شیر خاں تجویز کررکھا تھا۔ اتفاق سے ایسا ہوا بھی۔ ادھر شمشیر خاں کو اب ہر مہینے بیٹے کی طرف سے بیس روپے مل جاتے تھے اور وہ ہر روز مہاجن کی دوکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے کہتا تھا:۔
”بس ایک سال چاچا۔ ایک ایک کوڑی چکا دوں گا۔ پر دیکھو وہ جو تم پچاس کے پانچ سو اور ہزارکے دس ہزار بنا لیتے ہونا؟ وہ جادو کا کھیل مجھے نہ دکھانا۔ میں مداریوں سے نفرت کرتا ہوں کرتاہوں مہاجن ہنستا، یہ ہنسی پہلے تو اس کی چندھی آنکھوں میں چمکتی، پھر گالوں کی جھریوں کے انبار میں ہونٹوں کا شگاف پیداہوتا اور پیٹ مرغ نیم بسمل کی طرح تڑپنے لگتا۔۔۔“
یہاں افسانہ نگار نے مہاجنوں کی اس سود خور طینت کی طرف اشارہ کیا ہے جو سود پر سود لگاتے ہوئے کبھی اپنا قرض چکنے ہی نہیں دیتے اور قرض لینے والوں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔
وقت گزر رہا تھا۔ جنگ شدید سے شدید تر ہوتی جارہی تھی۔ شمشیر خاں بیٹے کی طرف سے اب اور زیادہ فکر مند رہنے لگا تھا۔ ادھر شاداں کی اُداسی ماں بننے کے بعد بھی دور نہیں ہورہی تھی۔ وہ اپنے بچے سے بھی لاپرواہ رہتی، کم بولتی اور گھر کے کام کاج میں بھی اتنی دلچسپی نہیں لے رہی تھی جتنی کبھی لیا کرتی تھی۔ پٹواری یا ضلع دارگاؤں آکر جنگ کی تازہ خبریں سناتے تو شمشیر خاں کو ان سے اپنے بیٹے کی خیریت یا اس کے خطرے میں ہونے کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوتی۔ ایک دن پٹواری نے آکر خبر سنائی کہ اٹلی نے شمالی لینڈ پر حملہ کردیا ہے۔ شمالی لینڈ مصر کے قریب ہے۔ شمشیر خاں جانتا تھا کہ اس کا بیٹا دلیر خاں ان دنوں فوج کے ساتھ مصر میں ہے۔ خبر سن کر شمشیر خاں کا دل دہل گیا۔ پھر خبر ملی کہ ایک ہزار جرمن ہوائی جہازوں نے انگلستان پر حملہ کردیا۔ پھر خبر ملی کہ اٹلی کی فوجیں مصر پر چڑھ آئیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب گاؤں والوں نے شمشیر خاں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ شمشیر خاں اٹھ کر چوپال سے گھر واپس آگیا۔ شاداں گھبرائی ہوئی اس کے پاس آئی تو شمشیر خاں بولا:۔
”نہ جانے اب تک کیاکچھ ہوچکا ہوگا؟ دُعاؤں کا تانتا باندھ دے۔ اتنی دُعائیں مانگ کہ اللہ میاں کے دربار میں شور مچ جائے۔ رو رو کر سسک سسک کر دعائیں مانگ۔ دلیر کی زندگی کے لیے دعائیں مانگ اور مجھ پر لعنتیں بھیج کہ میں نے قرض اتارنے کے لالچ میں اپنے اکلوتے لعل کو آگ کی بھٹّی میں جھونک دیا۔ یہ نہ سوچا کہ میں اُجڑ جاؤں گا، یہ نہ سوچا کہ شاداں میری اچھی بیٹی کا سہاگ ابھی نیا نویلا ہے، یہ نہ سوچا کہ…“ اس کا گلا رندھ گیا اور سر کو تکیے پر رکھ کر رونے لگا۔“ شاداں مچل گئی۔ شیر خاں کو فرش پر بٹھا کر شمشیر کی پیٹھ پر دونوں ہاتھ رکھ کر بولی ”میرے چچا، کچھ بتاؤ تو سہی آخر کیا ہوا؟ کچھ تو کہو۔“
کہانی امیدویاس کے اسی ماحول میں آگے بڑھتی ہے۔ بیٹے کی محبت کا جذبہ قوی ہوتا ہے تو شمشیر خاں کو یہ سوچ کر ندامت ہوتی ہے کہ اس نے پیسے کے لالچ میں بیٹے کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ ادھر جنگ کی نئی نئی خبریں سن کر شاداں کی مایوسی متواتر بڑھتی جاتی ہے۔ شیر خاں دو برس کا ہوچلا ہے، محاذ سے کبھی کبھی دلیر خاں کی چٹھیاں آتی ہیں لیکن جنگ کے شدت اختیار کرنے کے ساتھ ہی شاداں کے انداز میں مایوسی اور شوہر کے انتظار کی اذیت بڑھتی جارہی تھی۔اس کے ساتھ ہی شاداں کی ذہنی ناآسودگی اور جنسی تقاضے اس کو لاشعوری طور پر کچھ ایسی کیفیت سے گزار رہے ہیں جس کو وہ خود بھی نہیں سمجھ پارہی ہے۔ دلیر خاں جنگ کے ریلے میں پھنسا ہوا اتحادی فوج کے ساتھ کبھی اس ملک میں پڑاؤ ڈالتا ہے کبھی اس ملک میں۔پٹواری اور ضلع دار جنگ کی ہیبت ناک خبریں لگاتار ہی آکر سناتے رہتے ہیں۔ شاید لاشعوری طور پر شاداں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ دلیر خاں اب شاید ہی گھر واپس لوٹ سکے۔ شاداں جو پہلے شوہر کی فرقت میں سوکھ کر کانٹا ہورہی تھی اب اس کی رگوں میں پھر سے تازہ خون دوڑنا شروع ہوگیا ہے۔ اب شمشیر خاں کے لیے اپنے بیٹے دلیر کی دوری اتنی تشویشناک نہیں رہی جتنا شاداں میں آرہا وہ تغیر جو شمشیر خاں کی توقع کے خلاف تھا۔ وہ صبح سویرے بناؤسنگار کرتی، اچھا لباس پہنتی، اپنے بیٹے شیر خاں کو گھڑکتی اور پڑوس میں دھوبیوں کے گھر چلی جاتی۔ شاداں اتنا ہی نہیں کرتی بلکہ ہر مہینے اپنے شوہر کی تنخواہ سے دس روپے جبراً لے لیتی۔ وہ کہتی کہ”مجھے بھی زندہ رہنا ہے۔ مہاجن کا حساب شیطان کی آنت بنتا چلا جائے تو میرا کیا قصور۔۔۔میرا بھی تو حق ہے۔“ شمشیر خاں چپ چاپ دس روپے ہر مہینے اس کے حوالے کردیتا۔ بقول افسانہ نگار:۔
”وہ جانتا تھا کہ جنگ میں صرف جانیں ہی نہیں آبرو اور عزتیں بھی ملیامیٹ ہوجاتی ہیں۔“
کہانی کچھ اور آگے بڑھتی ہے امریکہ جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرا چکا ہے۔ ہزاروں جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ بھرا پورا شہر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ جنگ کا ایسا فیصلہ کن موڑ ہے جہاں جرمن اور اس کی معاون فوجوں کو ہتھیار ڈال دینے ہیں۔ جنگ ختم ہوگئی ہے۔ جنگ کے خاتمے پر شمشیر خاں منتظر ہے کہ اس کے بیٹے کی واپسی کا مژدہ سننے کو ملے گا۔ جیسے ہی پٹواری گاؤں میں آتا ہے۔شمشیر خاں لپک کر اس سے پوچھتا ہے ”خیریت تو ہے نا“ پٹواری جواب دیتا ہے:۔
”خیریت؟ خیریت امن کی طرح بے معنی لفظ ہے۔ امن کے لفظ سے معنی نچوڑنے کے لیے ماسکو میں مولوٹاف، برنزاوربیون کی کانفرنس ہونے والی ہے۔ اور تمہیں خیریت کا مطلب سمجھانے کے لیے وہ مجمع تمہارا منتظر کھڑا ہے۔ جاؤ بابا، جاؤ! اس مجمع میں دادا شہباز سے پوچھو کہ خیریت کیا چیز ہے؟ اور پھر اپنے گھر جانا۔ وہاں کہیں طاق پر تمہارے بیٹے کا تار پڑا ہوگا، وہ آرہا ہے۔۔۔“
”دلیر آرہا ہے؟“ شمشیر بقچی کو پھینک کر پٹواری سے لپٹ گیا،مگر وہ لوہے کی لاٹھ کی طرح بے حس و حرکت کھڑا رہا اور اسی خوفناک سنجیدگی سے بولا ”ہاں واپس آرہا ہے تمہارا دلیر۔۔۔سو تار اُٹھا کر شیر کو پکارنا،جسے کل صبح اس کی ماں نے دلیر کا تار ملنے کے بعد لاہور کے کسی یتیم خانے کے سفیر کے حوالے کر دیا ہے“
”تار ملنے کے بعد؟“ اور پھر پکارنا۔شاداں۔۔۔شاداں بیٹی۔۔۔تمہاری وہ شاداں بیٹی
جو شاید ہیرو شیما پر ایٹم بم گرائے جانے کی منتظر تھی،وہ رات کو تمہارے پڑوسی دھوبی کے
ساتھ بھاگ گئی ہے بنوں کی طرف“
”کیا کہہ رہے ہو؟“
”اور پھر تجوری کھول کر وہ روپیہ گننا جو تم نے جنگ کی برکت سے کمایا۔تمہیں امن اور خیریت
کے تمام معنی ازبر ہو جائینگے۔“
افسانے کا یہ اختتام قاری کو حیرا ن بھی کرتا ہے اور دلگیر بھی ساتھ ہی اس کے ذہن میں سیکڑوں سوال بھی چھوڑ جاتا ہے۔یہ افسانہ ایک طرف جنگ کی تباہی، ہیبت ناکی اور خوفناک قسم کے کشت وخون سے قارئین کے دل میں جنگ سے نفرت اور پرامن زندگی سے لگاؤ کا احساس جگاتاہے وہیں دوسری طرف صحتمند اورجوانی سے بھرپور ایک مجبور عورت کا اپنے جنسی جذبات اور جسمانی خواہشات کے سامنے ِسپرانداز ہونے کا منظر بھی اس طرح سامنے لاتا ہے کہ یہ طے کر پانا مشکل ہے کہ شاداں نے جو قدم اٹھایا وہ درست تھا یانہیں۔۔۔!!!
معاشی زندگی کا جبر ہو یاجنسی زندگی کا،ان دونوں ہی کیفیات میں انسانی فطرت کشمکش کا شکار ہو ہی جاتی ہے۔ مذکورہ افسانے میں احمد ندیم قاسمی پہلے اپنی دروں بینی سے انسانی فطرت کی اس کشمکش کو سامنے لاتے ہیں پھر انسانی نفسیات کی گرہوں کو کھولنے میں فنی مہارت سے کام لیتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے معاشرے پر جنگ کے گہرے اثرات اور اس کی ماہیت کواپنے تخلیقی اظہارسے جو آفاقیت بخشی ہے اور جس ہمہ گیر انداز سے جنگ کی آگ میں جھلسنے والی انسانیت اور درکتے ہوئے رشتوں کوافسانے میں بنُا ہے، اس کی مثال اس موضوع پر لکھے گئے اردو کے بڑے افسانوں میں بھی نہیں ملتی۔ جنگ کو موضوع بناکر لکھا گیا یہ افسانہ بلا شبہ ایک شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔۔۔۔!!!

(بشکریہ وحید قمر، عالمی افسانہ فورم)

شیئر کیجیے

One thought on “احمد ندیم قاسمی کاافسانہ ”ہیرو شما سے پہلے ہیرو شما کے بعد“ (ایک جائزہ)

  1. نہایت عمدہ افسانہ ہے۔ احمد ندیم قاسمی انسانی نفسیات کے نباض تھے۔انہوں نے انسان کی اندرونی کیفیات کو کمال مہارت سے پیش کیا ہے

منصور الرحمن کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے