بچہ کی پرورش، نئے عہد کا آغاز

بچہ کی پرورش، نئے عہد کا آغاز

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک )

دی چائلڈ از فادر آف دی مین
(The Child is Father of the Man)
یعنی "بچہ آدمی کا باپ ہوتا ہے" ایک بہت ہی مشہور زمانہ محاورہ ہے۔
انگریزی زبان کے ایک معروف رومانوی شاعر ہیں، ولیم ورڈس ورتھ (William Wordsworth)۔
انہی کی ایک خوب صورت نظم ہے: ‘مائی ہارٹ لیپس اپ` (My Heart Leaps Up)
یہ نظم قوس قزح یا دھنک (The Rainbow)
کے نام سے بھی مشہور ہے۔ مندرجہ بالا محاورہ اسی نظم کا ایک مصرع ہے۔
اس مصرع کو متفرق طریقوں سے سمجھا اور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بصیرت کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو اس مصرع میں شاعر کی مستقبل بینی کا ثبوت موجود ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے تخلیقی منصوبہ کا ادراک بھی اس کو ہے، تب ہی وہ کتنی خوب صورتی کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کر پاتا ہے کہ ایک بچہ بالقوہ یا امکانی (Potentially) طور پر صرف ایک مرد (یا ایک عورت) ہی نہیں، بلکہ ایک باپ (یا ایک ماں) بھی ہوتا ہے۔
غور وفکر کرنے والے بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ جناب ورڈس ورتھ، گویا کہ خاموش زبان میں، یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بچہ کی پرورش صرف ایک بچہ سمجھ کر نہ کی جائے، بلکہ اس کو مستقبل کا سقراط اور ارسطو، نیوٹن اور آئن سٹائن، شیکسپیئر اور ملٹن، کالی داس اور ٹیگور، میر اور غالب، گاندھی اور نہرو، ابوالکلام اور عبدالکلام سمجھ کر کی جائے۔
ہمارے معاشرے میں مہمان کی آؤ بھگت اس کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہاں نو مولود کو بھی ننھا مہمان، نیا مہمان اور خوش خبری جیسے خوش کن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ اس طرح والدین، خاص طور پر، ماں کے لیے اس بات میں اشارہ موجود ہے کہ وہ بچہ کو کون سے درجہ کا مہمان تصور کرتے ہوئے اس کی آؤ بھگت، یعنی پرورش کرتے ہیں۔ تاریخ کی عظیم شخصیات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی ماؤں کو جیسے پہلے سے ہی معلوم تھا کہ مستقبل میں ان کا نو نہال کیا بننے والا ہے۔ وہ بچے کم و بیش وہی بنے جس کو بنانے کا خواب ان کے ماں- باپ نے دیکھا تھا، مطلب یہ کہ صرف خواب دیکھنا کافی نہیں، بلکہ اسی نہج پر پرورش اور تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی ضروری ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تعلیم پر تربیت مقدم ہے۔ اسی لیے بزرگوں کا قول ہے کہ تعلیم کی کمی کو تربیت اچھی طرح ڈھانپ لیتی ہے لیکن تربیت کی کمی کو تعلیم کبھی پورا نہیں کرسکتی۔ کسی کی پہچان علم سے نہیں بلکہ ادب سے ہوتی ہے۔
چونکہ بچہ نسل انسانی کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہوتا ہے، خالق کائنات نے بھی اس کی پرورش کے تناظر میں انسانوں کی بڑی مدد کی ہے۔ بچہ کی ولادت کے ساتھ جب ایک عورت پہلی بار ماں بننے کا شرف حاصل کرتی ہے تو وہ اپنے نو نہال سے بے پناہ محبت کا تجربہ کرتی ہے اور یہ بھی محسوس کرتی ہے کہ جیسے رب کائنات نے اس کے بچہ کی ولادت سے لے کر تربیت کے سارے مراحل طے کرنے کے تعلق سے شعور، استقلال، ہمت اور حوصلہ کا ضروری خزانہ اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا ہے۔ بچہ سے محبت کے فطری جذبات سے اس کے باپ کو بھی محروم نہیں رکھا گیا ہے، گو کہ ان کا اظہار مختلف صورت میں ہوتا ہے۔
کسی بھی معاشرہ کو راستہ دکھانے والے ایک، دو یا چند لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے سبھی والدین کا یہ فرض منصبی ہوجاتا ہے کہ وہ ان چند خاص لوگوں میں شمار کرتے ہوئے اپنے بچہ کی بہترین تربیت کریں اور اعلا سے اعلا تعلیم حاصل کرنے کی سمت میں علم کے راستے ہموار کرنے میں اس کی رہ نمائی اور خاطر خواہ مدد کریں۔
یہ سوچ کر کہ سبھی بچے تو بڑی شخصیات بن نہیں سکتے، کسی کو اداس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، کیونکہ سوچنے کے دوسرے طریقے بھی ہیں۔ پہلی بات، ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے اور ہونی ہی چاہیے کہ ان کا بچہ ان سے زیادہ لائق، فائق اور معروف ہو۔ دوسری بات، موجود بچوں میں سے ہی بڑی شخصیات برآمد ہونی ہیں، اور ان میں ان کا اپنا بچہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ "ہدف چاند ہونا چاہیے، چاند نہ ملنے کی صورت میں، کوئی ستارہ تو منزل بن ہی سکتا ہے۔"
(Mr.W. Clement Stone : Aim for the moon. If you miss, you may hit a star)
واضح رہے کہ چاند اور ستاروں کی بات سائنسی دریافت کے تناظر میں نہیں، بلکہ ادبی زبان اور عام مشاہدہ کی نسبت سے کہی گئی ہے۔
موجودہ مسلم معاشرے میں ‘جھوٹ` کا اتنے بڑے پیمانہ پر موجود ہونا اور تقریباً ہر معاملہ میں سنجیدگی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کا فقدان، اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ سالہا سال سے ہمارے بچوں کی تربیت درست طریقے سے انجام نہیں دی جارہی ہے۔ در اصل، بچوں کی درست تربیت ہی نوجوانوں کے اخلاق و کردار کی پاکیزگی کا سبب بنتی ہے۔ اس حقیقت سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ علم و عمل اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی کے بغیر، عروج و فراز تو دور کی بات، کسی بھی قوم کی عام ترقی بھی ممکن نہیں؟
مذکورہ صورت حال کی روشنی میں، یہ طے کرنا ہر خاندان کے سر براہ کی ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ گھروں میں مروجہ طرز تربیت پر نظر ثانی کی جائے اور بچوں کی نشو و نما کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ، دریافت شدہ حقائق اور نزاکتوں کو سنجیدگی کے ساتھ عمل میں لایا جائے۔ آخر کار، بچپن کے شروعاتی سات سال کا عرصہ انسان کی عمر بھر کی کامیابی اور ناکامی کا احاطہ جو کرتا ہے۔
اسی حقیقت کے پیش نظر، ارسطو (Aristotle) نے کہا تھا :
"Give me a child until he is seven and I will show you the man.”
(مجھے ایک بچہ دو جب تک کہ وہ سات سال کا نہ ہو اور میں تمھیں وہ آدمی دکھاؤں گا۔)
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہو تا ہے ( قرآن: سورة الروم، آیت 30 ) اور ( جامع ترمذی، حدیث نمبر 2138 )۔ اس کے اندر خیر و شر کا شعور اول دن سے موجود ہوتا ہے۔ سچائی کا ادراک بھی فطرت کا ہی بنیادی حصہ ہے، جب کہ جھوٹ فطرت کا حصہ نہیں۔ انسانوں کے امتحان کی غرض سے، جھوٹ شیطان کے توسط سے معاشرہ کا حصہ بن گیا ہے۔ اس لیے، بچہ کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے ضمن میں والدین کے لیے درجہ کمال یہ ہوگا کہ شروعاتی سات سال تک بچہ کی فطرت محفوظ رہے۔ ساتھ ہی دین کے مفہوم سے اس کا باطن روشن ہو جائے۔ بہت ہی آسان اور مختصر الفاظ میں دین کا مفہوم ہے : "اللہ کا ڈر اور بندوں کی خیر خواہی"۔
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہو جاتا ہے کہ تقریباً ستر سال کی زندگی کو شان دار اور با معنی طریقے سے جینے کے لیے جو طاقتور ‘پاور ہاوس` درکار ہوتا ہے، اس کی تخلیق ولادت کے بعد اگلے سات سالوں میں ہی ہوتی ہے۔ اس لیے، پرورش اور تربیت کی نظر سے یہ سات سالہ عرصہ بہت نازک اور نتیجہ خیز ہوتا ہے، گویا کہ یہ زمانہ بچہ کی نہیں بلکہ اس کے والدین کی تربیت کا زمانہ ہے۔
علمائے نفسیات (psychologists) کے مطالعہ و دریافت کی روشنی میں، بچپن کے، خصوصی طور پر، ابتدائی سات سال بہت زیادہ قیمتی اور اہم ہوتے ہیں۔ اس وقت بچہ کچی مٹی، کورا کاغذ اور ایک طاقتور ویڈیو ٹیپ ریکارڈر ہوتا ہے۔ اس دوران اس کے سیکھنے کا دائرہ کار بہت وسیع ہوتا ہے۔ بچہ کا سننا اور دیکھنا ہی اس کا سیکھنا ہوتا ہے۔ حالات و واقعات کا تجزیہ وہ خود کرتا ہے۔ ماں باپ پر پورا اعتماد کرتا ہے اور ان کی ہر غلط- سہی بات کو سہی مان کر تسلیم کرتا ہے اور بڑا ہوکر اس پر عمل کرتاہے۔ نقل کرنے میں بچہ کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ ماحول کا اثر، ماں باپ اور متعلقین کی تمام حرکات و سکنات کو اپنے سات سالہ کورس کے درمیان وہ مستعدی سے نقل کرتا رہتا ہے۔ یہی ریکارڈنگ اس کی آنے والی زندگی کا سرمایہ ہوتا ہے۔
اسی سلسلہ کے ساتھ وہ بڑا ہوتا رہتا ہے، اس لیے ہر ایک والدین کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ جو خصلت وہ اپنے بچہ کے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس پر والدین کو خود بھی اپنے قول اور فعل سے عمل کرنا ناگزیر ہے۔ مذکورہ زاویہ سے بچہ کو بے شمار چیزیں سکھائی جاسکتی ہیں اور ان کو لڑکپن اور جوانی کے دنوں میں ظہور پزیر ہوتے ہوئے دیکھا بھی جا سکتا ہے۔
یہ ابتدائی سات سالہ وقفہ بچہ میں تہذیبی اطوار اور اخلاقی اقدار پیدا کرنے کا وقت ہوتا ہے ۔ اس دوران والدین کی ساری توجہ اس کے کردار کو پاکیزہ بنانے پر ہونی چاہیے۔ "جھوٹ" کو بچہ کی زندگی میں داخل ہونے سے ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے، کیونکہ جھوٹ ہر برائی کا سر چشمہ ہے، اور جھوٹے لوگ اللہ تعالی کو ناپسند ہیں۔ اپنے خاندان، قوم اور وطن کی ماضی اور حال سے متعلق ضروری معلومات اس کو والدین کے قول و فعل اور حرکات و سکنات کے توسط سے ہی براہ راست حاصل ہونی چاہئیں۔ نماز، روزہ اور دین کے دوسرے معاملات بچہ کو بتا کر نہیں، بلکہ والدین کے قول و فعل کے ذریعے ہی سکھائے جانے چاہئیں۔
لڑکپن میں داخل ہونے سے قبل ہی بچہ اپنے ماں باپ کی تحویل میں ہوتا ہے، وہ ان کو اپنا آئڈیل سمجھتا ہے، ان کی بات کو توجہ کے ساتھ سنتا ہی نہیں اس پر یقین بھی کرتا ہے اور عمل بھی۔ یہی وقت ہوتا ہے جب بچہ کے باطن کو رشتوں کے تقدس اور مراتب کے لحاظ-پاس سے روشن کیا جاسکتا ہے۔ اسی عرصہ میں، پھول، پودوں، شہد کی مکھیوں اور مختلف قسم کے فنون لطیفہ کا تعارف کرانا، خدا کی معرفت کو اس کی اپنی دریافت بنانا اور کائنات میں بکھری پڑی خالق کائنات کی نشانیوں پر غور و فکر کا رجحان پیدا کرنا، ایک بچہ کا اپنے والدین کے ذمہ حق ہے، جو اس کو ملنا ہی چاہیے۔
ہر بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی اللہ تعالی انسان کی نئی نسل کا آغاز کرتاہے۔ اللہ رب العزت کے منصوبہ تخلیق سے مطابقت رکھتے ہوئے ہی بچہ کی پرورش کی جانی چاہئے۔
بچوں کی پرورش کا معاملہ ذمہ داری اور امتحان کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامان آزمائش ہیں ( قرآن: سورة الأنفال، آیت 28)۔
لڑکپن کی عمر میں پہنچ کر بچہ ماں باپ کی عمومی رہ نمائی سے نکل کر اسکول، اساتذہ اور معاشرہ کی تحویل میں چلا جاتا ہے۔ یہاں سے شروع ہونے والی نشوونما پر والدین کا کوئی خاص کنٹرول نہیں رہتا۔ اس لیے بچہ کی زندگی کے ابتدائی سات سال جو والدین کو میسر رہتے ہیں، بہ خوبی استعمال کیے جانے چاہئیں۔ دریں اثنا، قرآن کی آیت جس کا مفہوم ہےــ "اچھائی اور برائی برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو۔" (سورہ فصلت، آیت 34) کے سیاق میں صحیح اور غلط کے فرق کا عملی تعارف والدین کے ذریعے بچہ کو کرادینا نہایت ضروری ہے۔ وقت کے اس سات سالہ عرصہ میں، رسمی تعلیم کے بجائے، بچہ کے مشاغل اور مشاہدات ہونے چاہئیں:
کھیلنا – کودنا، بھاگنا – دوڑنا، پیڑوں پر چڑھنا، مچھلیاں پکڑنا، تتلیاں پکڑنا، چڑیوں سے باتیں کرنا، ندی- نا لے، پہاڑ اور سمندر دیکھنا، بارش میں نہانا، تصویریں بنانا، رنگ بھرنا، سورج کو طلوع اور غروب ہوتے دیکھنا، چاند-ستارے اور کہکشائیں دیکھنا۔ آسمان، بادل، گھٹائیں اور دھنک جیسے عجائبات سے لطف اندوز ہونا۔ کارٹون، کہانی، یہاں تک کہ سنجیدہ کتابیں پڑھنا۔ کہانیاں لکھنا، سائنسی مضامین پڑھنا، ریاضی سیکھنا اور اس کی مشق کرنا۔ مادری زبان کے علاوہ، وقت کی اہم زبانیں سیکھنا۔ بیک وقت تین تین زبانیں سیکھنا بچہ کے لیے آسان ہوتا ہے۔ سبھی کچھ کر ڈالنے کا عزم کرنا۔ گھر میں ماں کا ہاتھ بٹانا، اپنے سارے کام خود کرنا، سائیکل چلانا، مشینوں کو چلتے ہوئے دیکھنا۔ باپ کے ساتھ مسجد جانا، بازار جانا، میلہ و نمائش جانا، دوست؍احباب کے گھر جانا۔ اپنے دادا – نانا اور دوسرے رشتہ داروں کے بارے میں جاننا، ان سے ملنے کے لیے جانا۔ اپنے شہر، اپنے گاؤں کے بارے میں جاننا۔ پارک اور باغات کی سیر کرنا اور سیاحت کے لیے باہر جانا، تاریخی مقامات کو دیکھنا وغیرہ وغیرہ ۔ ساتھ ہی ان سب باتوں کو کرنے کی سعی کرنا جو تصورات و خیالات کا حصہ ہوتی ہیں۔
لاڈ پیار کی نفسیات کے شکار ماں باپ میں سے کوئی ضرور یہ سوال کرسکتا ہے کہ ایک بچہ آخر اتنا سب کچھ کیسے کرسکتاہے؟
خوش خبری یہ ہے کہ یقیناً، وہ کرسکتا ہے۔ آخر کار، "بچہ آدمی کا باپ ہوتا ہے"! یہاں یہ باور رہنا ضروری ہے کہ بچہ تجسس سے لبریز ریتا ہے اور بولنے کی ابتدا کے ساتھ ہی اس کے سوال کرنے کا بڑا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بہت نازک وقت ہوتا ہے۔ اس وقت کو حکمت کے بغیر استعمال کرنے سے بچہ کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ بچہ کے سوال کا جواب اولاً بچہ سے ہی دریافت کیا جائے۔ ایسا کرنے سے بچہ کے دماغ کو کام ملتا ہے اور اس کے اندر چیزوں کو سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کا عمل جاری ہوتا ہے۔
مجھے مذکورہ حکمت عملی کے نتیجہ خیز ہونے کا عملی تجربہ ہوچکا ہے۔ میرے ایک دوست کی چھوٹی عمر کی ذہین بیٹی بہت زیادہ سوال پوچھتی تھی۔ یہی حل تجویز کرنے پر، حالات یکسر بدل گئے۔ بعد ازاں، زیادہ تر سوالات کے جوابات وہ خود ہی بہ آسانی تلاش کرنے لگی تھی۔ بڑے ہوتے ہوتے وہ، ماشاء اللہ، بہت ہی سمجھ دار بچی ثابت ہوئی۔
پیدائش کے بعد مذکورہ سات سالہ پرورش کے دوران عام طور سے بچہ جس بڑی برائی کا شکار ہوتا ہے، وہ ہے خود اس کے والدین اور عزیز و اقارب کا "لاڈ-پیار" (pampering ).
لاڈ پیار میں پیار تو ضرور نیچر کا حصہ ہے، مگر پیار کو فطری حدود سے باہر نکالنے سے جو چیز وجود پذیر ہوتی ہے، دراصل وہی "لاڈ" ہے۔ معاشرہ میں یہی کیفیت لاڈ پیار کے نام سے مشہور ہے۔
پیمپرنگ (pampering) کے بے فائدہ ہونے، بلکہ بچہ کی نشوونما کے لیے مضر ثابت ہونے کے باوجود، خود اس کے اپنے والدین اکثر اس برائی میں ملوث رہتے ہیں۔ وہ بے جان کھلونوں کی مانند بچوں کے ساتھ پیار دلار کرتے نظر آتے ہیں۔ اچھے میلان پیدا کرنے کے بجائے، صحیح اور غلط، نفع اور نقصان کی تمیز کیے بغیر ماں باپ اکثر بچہ کی ہر ضد اور خواہش پوری کرتے رہتے ہیں۔ اپنے اسی عمل کو فخریہ طور پر وہ بچہ کے ساتھ پیار سے منسوب کرتے ہیں۔ میں نے بہت سے لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ عیش و آسائش کی جو پریشانی ان کو درپیش رہی ہے، وہ اپنے بچہ کو نہیں ہونے دیں گے۔ یقیناً، یہ صحیح اظہار محبت نہیں، کیونکہ میں نے کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ خود اچھی تعلیم حاصل نہ کرسکے، مگر وہ بہت محنت کرکے اپنے بچہ کی اعلا تعلیم کا بندوبست ضرور کریں گے۔ اکثر والدین لاڈ پیار کے نقصان کا اندازہ بر وقت نہیں لگا پاتے اور اس وقت ندامت محسوس کرتے ہیں جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
موجودہ صورت حال میں، بہت چھوٹے بچے بھی، عام طور پر "موبائل" کے ساتھ بڑے ہوتے ہوئے پائے جارہے ہیں، جب کہ ماہر نفسیات کی نظر میں بچوں کے ساتھ یہ ایک ظالمانہ فعل ہے۔ سات سال کی عمر تک بچے کو موبائل کی دسترس سے بچانا کتنا زیادہ ضروری ہے، اس کا اندازہ ماہر نفسیات، میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن پروفیسر جاوید اقبال کے ایک اہم بیان سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جلتا ہوا کوئلہ اور ایک موبائل کے درمیان انتخاب کی صورت میں، بچہ کے ہاتھ پر جلتا ہوا کوئلہ رکھنا اتنا مضر نہیں ہے، جتنا اس کے ہاتھ پر موبائل رکھنا۔
صحت کے معاملات کے علاوہ، بچہ کو چیلنج سے بھرے حالات سے گزارنا چاہیے۔ میرے بچپن کے تجربات میں پنہاں، ایک سبق آموز واقعہ یہ ہے کہ پٹاخوں میں ایک سانپ کی گولی (Snake tablet)
ہوا کرتی تھی۔ مصالہ کی ایک معمولی سی ٹکیہ میں جب آگ لگائی جاتی، ایک سانپ جیسی چیز اس سے برآمد ہوتی تھی اور بچوں کی بھیڑ اس واقعہ کو متعجب ہو کر دیکھتی اور بہت خوش ہوتی۔ اس میں سبق یہ ہے کہ یہ عجوبہ "آگ" کی مشکل کے بغیر ممکن نہ تھا۔
بچوں کی تربیت کے متعلق، ایک مشہور سائنس داں تھامس الوا اڈیسن (Thomas Alva Edison)
اور اس کی ماں کی زندگی میں سبھی والدین، خاص طور پر، ماؤں کے لیے بڑی رہ نمائی ہے۔ کہانی کچھ اس طرح سے ہے:
اڈیسن بچپن سے ہی بڑا ذہین اور تجسس بھرا انسان رہا ہے۔ بچپن، لڑکپن اور بڑا ہونے تک اس نے عجیب عجیب قسم کے ہزاروں تجربات کیے۔ اسکول میں اڑنے کے عنوان پر اس کی ٹیچر سمجھا رہی تھی کہ "پرندے اڑتے ہیں کیونکہ ان کے پر ہوتے ہیں اور انسان اڑ نہیں سکتے کیونکہ ان کے پر نہیں ہوتے۔" سارے بچے مطمئن ہوگئے، مگر ننھے تھامس نے سوال کردیا، "میڈم، پتنگ تو اڑتی ہے، جب کہ اس کے پر نہیں ہوتے۔" ٹیچر اس سوال کا جواب نہیں جانتی تھی۔ اس نے ایک معصوم سے ذہین سوال کے لیے بچہ کو شاباشی تو نہیں دی، بلکہ کلاس میں اس کو اپنی بے عزتی اور بعد میں اپنے اہم کا سوال بنا لیا۔ نتیجتاً، الوا کو اسکول سے نکال دیا گیا۔ الوا کو صرف اس کی ماں کو دینے کے لیے ایک خط دیا گیا۔ ماں کے لیٹر پڑھتے ہی غم سے اس کے آنسو نکل پڑے۔ اس سے پہلے کہ الوا کچھ سمجھ پاتا، اس کی ماں نے خود کو سنبھال لیا۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھی کہ اس کا بچہ بہت ذہین ہے اور اسکول میں اس معیار کے اساتذہ نہیں ہیں۔ الوا کی نفسیات کو مجروح ہونے سے بچانے اور اس کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے، اس نے اسکول کا خط پڑھنا شروع کیا-
” Your son is a genius.This school is not advanced enough and doesn’t have enough good teachers to teach him. Please teach him yourself”.
یعنی "آپ کا بیٹا بہت عقل مند ہے۔ ہمارا اسکول بہت معیاری نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے ٹیچر اتنے اچھے ہیں کہ وہ اس کو پڑھا سکیں۔ برائے مہربانی، آپ خود ہی اس کو پڑھائیے۔"
یہ سننے کے بعد تھامس نئے جوش اور امید سے بھر گیا، اور اس طرح ہمیشہ کے لیے اس کی ترقی کا راستہ ہموار ہو گیا اور آج بڑے بڑے سائنس دانوں میں اس کا شمار ہے۔
جانتے ہیں، آخر اسکول کے لیٹر میں کیا لکھا تھا؟ ماں کے مرنے کے بعد تھامس کو اپنی ماں کے سامان سے اسکول کا وہی لیٹر مل گیا۔ اس میں لکھا تھا-
"Your son is mentally ill. He can no longer attend our school. He is expelled”.
یعنی "آپ کا بیٹا ذہنی طور سے بیمار ہے۔ وہ اب مزید ہمارے اسکول میں نہیں پڑھ سکتا۔ اس کو اسکول سے نکالا جاتاہے"۔
اس طرح تھامس کی ماں نے تھامس کو "منفیات" کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے بچا کر "اچھی ماں" ہونے کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا اور بعد کے والدین کے لیے رہ نمائی فراہم کی۔
اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت کے تعلق سے، سمجھ دار افراد نے ہمیشہ سے ہی بہترین نمونے پیش کیے ہیں۔
سابق امریکی صدر، ابراہم لنکن (Abraham Lincoln) کا شمار دنیا کی بڑی شخصیات میں ہوتا ہے۔ اپنے بیٹے کے معلم کو اس کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں لکھا گیا ان کا خط بہت مشہور ہے۔ پورا لیٹر انٹرنیٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔ رہ نمائی کی خاطر کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:
* اسے سیکھنا ہوگا کہ سبھی لوگ نہ انصاف پرست ہوتے ہیں اور نہ ہی سچے۔ مجھے یہ حقیقت معلوم ہے۔ تاہم اسے سکھا دیجیے۔
* مفت ہاتھ آنے والے پانچ پاؤنڈ کی نسبت کمایا ہوا ایک ڈالر زیادہ قدر و قیمت کا حامل ہوتا ہے۔
* اسے حسد سے ناواقف کردیں اور اگر ممکن ہو تو خاموش مسکراہٹ اس کو سکھا دیں۔
* کتابیں کس شاندار نعمت کا نام ہیں۔
* نقل کرنے کی نسبت اسکول میں ناکام ہو جانا زیادہ قابل اعزاز ہے.
* وہ ہر شخص کی بات توجہ سے سنے، لیکن وہ ہر بات کو پرکھے۔
آخر میں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ خاص طور پر، "نو مولود" والدین کو توفیق عنایت فرمائے کہ وہ نسل انسانی کو بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت سے آراستہ افراد فراہم کریں۔ آمین!
(11 JANUARY 2022)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:طالب علم : ایک غیر معمولی شخصیت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے