نام کتاب : جون ایلیا کی شاعری

نام کتاب : جون ایلیا کی شاعری

مصنف : محمد ارشاد
قیمت : 104
صفحات : 168
سنہ اشاعت: 2021ء
ناشر : مغربی بنگال اُردو اکیڈمی، 2/75 اے، رفیع احمد قدوائی روڈ، کلکتہ۔ 700016،
مبصر : محمد اشرف یاسین، E-224 تیسری منزل، شاہین باغ، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر اوکھلا، نئی دہلی 25
موبائل : 8750835700

اُردو زبان و ادب کی دنیا میں محمد ارشاد کا نام اب محتاجِ تعارف نہیں رہا۔ پچھلے کئی برسوں سے آپ کے تنقیدی، تاثراتی اور تبصراتی مضامین متواتر ہندستان کے سرکاری رسالوں میں پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ تانیثی تنقید سے آپ کو اچھی خاصی دل چسپی ہے۔ مختصر ہونے کی وجہ سے یہ کتاب "جون ایلیا کی شاعری" ایک نشست میں بہ آسانی پڑھی جاسکتی ہے۔
پچھلے سال محمد ارشاد کی یہ کتاب مجھے موصول ہوئی، کتاب عمدہ اور کار آمد ہے۔ اس میں جون ایلیا (1931-2002) کی شاعری پر بہت اچھی گفتگو کی گئی ہے۔ اس کتاب کو سات (07) حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں جون ایلیا کی تنہا زندگی، ازدواجی زندگی، عائلی مسائل، قلمی مشغولیات اور ان کے خاندانی پس منظر کو مختصر طور پر بتایا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں "جون ایلیا: عہد اور شاعری کا مزاج” کے تحت جون کی شاعری کو ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے تناظر میں الگ الگ سمجھنے کی ایک مستحسن کوشش کی گئی ہے۔ تیسرا حصّہ جون ایلیا کی غزل گوئی اور چوتھا حصہ جون کی نظم نگاری کے لیے خاص ہے۔ پانچویں حصے میں جون کی قطعہ نگاری کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ چھٹے حصے کا عنوان "جدید شاعری میں جون ایلیا کا مقام" ہے۔ یہ حصہ بہت دل چسپ ہے۔ کتاب کے اس حصے نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ کیوں کہ اس حصے میں جون ایلیا پر بات کرتے ہوئے غزلیہ شاعری کے جدید شعرا میں سے راجندر منچندہ بانی (1931-1982)، شکیب جلالی (1934-1966)، زیب غوری (1928-1985) اور ظفر اقبال (1933) کی شعری انفرادیت اور فنی اختصاص تک بات پہنچ گئی۔ اس مباحثے سے مجھے یہ علم ہوا کہ محمد ارشاد بین المتونی تنقید و تفہیم سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ اس حصے کے مطالعے سے جون ایلیا کی انفرادیت بھی سامنے آتی ہے، جو حسب ذیل ہے۔
(1) جون ایلیا نے جتنی آسان اور سہل زبان اپنی غزلوں میں استعمال کی ہے اور مضمون آفرینی کے جو جوہر دکھلائے ہیں، محمد ارشاد کے خیال میں کسی اور جدید شاعر کے یہاں یہ بات نظر نہیں آتی۔(صفحہ نمبر 94)
(2) انسانی جبلّت کے صرف ایک پہلو یعنی انا، انکار، بغاوت کو ہی انھوں نے اپنی شاعری بہ طورِ خاص غزلوں میں جگہ دی ہے۔ (صفحہ نمبر 95)
(3) سلطنتِ ادبیاتِ پاکستان نے جون کے ساتھ جو رویہ اپنایا اس کا نقصان جدید شاعری کو اس طرح اٹھانا پڑا کہ جون جیسی مضبوط شاعرانہ فکر رکھنے والے شاعر سے نئی پود بہت دیر سے واقف ہوئی۔ (صفحہ نمبر 97)
(4) محمد ارشاد کے بہ قول موجودہ دور کے دو شاعر علی زریون اور عمیر نجمی جون ایلیا کے مضامین اور اسلوب کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ (صفحہ نمبر 97)
کتاب کے ساتویں حصے میں "نمونۂ کلام" کے تحت جون ایلیا کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری کے ساتھ ہی ساتھ ان کے سولہ (16) قطعات کو بھی منتخب کیا گیا ہے، تاکہ قارئین جون کے قطعات سے بھی واقف ہوسکیں۔ 67 صفحات پر مشتمل اس حصے کا انتخاب بہت ہی سخت اصولوں کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ جون ایلیا کے قارئین میری اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے۔ خیر کتاب کی ضخامت کو کم رکھنے کے لیے ایسا کرنا بھی بہت ضروری تھا۔ جون ایلیا کا کلام خود مجھے بھی بہت پسند ہیں۔ خصوصاً ان کی ایک نظم "رمز" مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔ عموماً نظمیں مجھے یاد نہیں رہتیں، لیکن اُردو کی یہ پہلی ایسی نظم ہے جو مجھے زبانی یاد ہے۔ آپ بھی اس نظم سے محظوظ ہوسکتےہیں۔ مکمل نظم حسبِ ذیل ہے۔
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
ادبی حلقوں میں اس کتاب کی حیثیت ایک مونوگراف کی ہے۔ ارشاد صاحب سے میری مؤدبانہ و مخلصانہ گذارش یہ ہے کہ اس کتاب کے اگلے ایڈیشن میں جون ایلیا کے سبھی تراجم (اسماعیلت جزیرہ عرب میں، اسماعیلت شام و عراق میں، اسماعیلت یمن میں، حسن بن صباح، رہائش و کشائش)، نثری تصانیف (فرنود) [انشائیوں کا مجموعہ] اور ان کے مرتب کردہ رسائل (انشا اور روشن خیال) وغیرہ پر بھی باضابطہ گفتگو کریں، تاکہ جون کے سلسلے میں ہم کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔
یہ کتاب بہت ہی خوب صورت ڈیزائن اور دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ سافٹ بائنڈنگ میں شائع کی گئی ہے، کاغذ، بائنڈنگ اور پرنٹنگ کی کوالٹی کتاب کے بعینہٖ مطابق ہے۔ باطنی خوب صورتی کے ساتھ ہی ساتھ کتاب کی ظاہری خوب صورتی پر بھی بہت محنت صرف کی گئی ہے۔ کتاب کی ضخامت اور مواد و معیار کے حساب سے قمیت بھی بہت مناسب ہے۔ میری طرف سے محمد ارشاد کو اپنی اس پہلی کتاب کی اشاعت پر بہت بہت مبارک باد، محض 168 صفحات میں کئی چیزوں کو سمیٹنا یقیناً بہت مشکل کام ہے۔ اتنے کم صفحات میں جون ایلیا کی زندگی اور کلام کے نمونے سمیٹتے ہوئے، ان کے بارے میں کچھ مخفی، گمنام، پوشیدہ اور ان کہے پہلوؤں کو اجاگر کرنے پر محمد ارشاد یقیناً ہماری طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ کتاب ان شاءاللّٰه تعالیٰ قارئین سے دادِ تحسین حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:کتاب: عطا عابدی اور ادب اطفال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے