کتاب: عطا عابدی اور ادب اطفال

کتاب: عطا عابدی اور ادب اطفال

مصنف : ڈاکٹر منور عالم (ڈاکٹر منور راہی)
سال اشاعت : 2023
صفحات : 336
قیمت : 400
ناشر : دربھنگہ ٹائمز پبلی کیشنز، دربھنگہ(بہار)
مبصر : محمد اشرف یاسین، E-224 تیسری منزل، شاہین باغ، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر اوکھلا، نئی دہلی 25، موبائل نمبر، 8750835700

ادبِ اطفال کی تخلیق کے لیے ادیب کو بچوں کی نفسیات، خواہشات اور ترجیحات کا بہ خوبی علم ہونا چاہیے۔ بچوں کے لیے لکھتے وقت ادیب کو اپنا مستویٰ بچوں کی ذہنی سطح تک لانا پڑتا ہے۔ لفظیات، جملوں کی بنت، ترتیب اور ساخت میں نو آموز قارئین کا پورا خیال رکھنے کے بعد ہی بچوں میں مقبولیت ممکن ہے۔ عطا عابدی کی کتابیں”خوشبو خوشبو نظمیں اپنی" (نظمیں برائے اطفال 2012)، اور "مناظرے مذکر و مؤنث کے" (کہانیاں برائے اطفال 2013)، پڑھنے کے بعد یقین ہو جاتا ہے کہ آپ کی تخلیقات میں بچوں کے ادب کی جملہ خصوصیات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
ڈاکٹر محمد منور عالم (ڈاکٹر منور راہی) کا نام اُردو اَدب میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ انھوں نے "ہندوستانی فلموں کا اُردو سے رشتہ" (2018)، "دیارِ غزل"(2020)، "لہو لہو ہے قدم" [شعری مجموعہ]، (2022) اور”عطا عابدی اور ادب اطفال" (2023) جیسی چار کتابیں اُردو ادب کو دی ہیں۔ "عطا عابدی اور ادب اطفال" نامی اس کتاب پر پیش لفظ کے زیرِ عنوان "عطا عابدی اور ادب اطفال: ایک مطالعہ" کے تحت لکھے گئے ان کے سینتیس (37) صفحات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کتابوں کی ترتیب و تدوین اور انتخاب کے لیے کون سے امور ضروری ہیں۔ کفایتِ لفظی آپ کا خاص وصف ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم جیسے طلبہ ڈاکٹر منور راہی جیسے اساتذہ سے بہت کچھ سیکھتے اور استفادہ کرتے ہیں۔ آر. این کالج پنڈول میں درس و تدریس سے وابستگی کے ساتھ ہی ساتھ یہ چاروں کتابیں آپ کی اضافی محنت کا ثمرہ ہیں۔
زیرِ تبصرہ کتاب "عطا عابدی اور ادب اطفال" کو ڈاکٹر منور راہی نے سات ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔ پہلے باب میں عطا عابدی کی کہانیوں کی کتاب "مناظرے مذکر و مؤنث کے" (2013) پر ہندستان کے مؤقر اخبارات و رسائل کے لیے لکھے گئے مضامین، تبصرے اور تاثرات کو شامل کیا گیا ہے۔ جن کی تعداد گیارہ (11) ہے۔ اس باب میں خیال انصاری (مالیگاؤں)، ڈاکٹر خالدہ خاتون، ڈاکٹر قیصر زاہدی(پٹنہ)، ثناء اللّٰه ثنا دوگھروی(پٹنہ)، ڈاکٹر اویناش امن (پٹنہ)، احسن امام احسن، بھونیشور(اڑیسہ)، ڈاکٹر مجیر احمد احمد آزاد (دربھنگہ)، ڈاکٹر خان رضوان (نئی دہلی)، ڈاکٹر ریحان احمد قادری (دربھنگہ)، پروفیسر سید احتشام الدین (دربھنگہ)، ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ (پٹنہ) جیسے مشاہیر اہلِ علم کے مضامین، تبصرے اور تاثرات شامل کتاب ہیں۔ اس باب میں شامل ثناء اللّٰه ثنا دوگھروی کا مضمون مجھے سب سے زیادہ پسند آیا۔ کیوں کہ اس مضمون میں کتاب کی تقریباً سبھی کہانیوں پر کچھ نہ کچھ گفتگو کی گئی ہے۔
دوسرے باب میں عطا عابدی کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظمیہ شاعری پر مبنی کتاب "خوشبو خوشبو نظمیں اپنی" (2012) پر ہندستان کے علاقائی اور قومی اخبارات و رسائل کے لیے لکھے گئے مضامین، تبصرے اور تاثرات کو شامل کیا گیا ہے۔ ان کی تعداد صرف چھے (6) ہے اور اس فہرست میں ڈاکٹر قیصر زاہدی (پٹنہ)، بسمل عارفی (سمستی پور)، سعید رحمانی(بھونیشور)، اختر سعید اعظمی، ثناء اللّٰه ثنا دوگھروی اور ظفر انصاری ظفر (الہ آباد) کے نام شامل ہیں۔ حسنِ اتفاق اس باب میں بھی شامل ثناء اللّٰه ثنا دوگھروی کا مضمون مجھے بہت پسند آیا۔ کیوں کہ چھتیس (36) صفحات پر محیط اس مضمون میں بھی مذکورہ مضامین کی طرح پوری کتاب کی تقریباً سبھی نظموں پر کچھ نہ کچھ گفتگو ضرور کی گئی ہے۔ اس کتاب کی سب سے منفرد نظمیں "پہیلیوں کی محفل" اور "غرور کا انجام" ہے۔ دراصل یہ دوسری نظم مدرسے کے ایک طالب علم حامد کی منظوم کہانی ہے۔
تیسرے باب میں ادب اطفال پر مبنی عطا عابدی کی تیسری کتاب "بچوں کی کتابیں: تعارف و تذکرہ (بہار کے حوالے سے)" (2022)، پر مختلف قسم کے اٹھارہ (18) قلم کاروں کے مضامین، تبصرے اور تاثرات شامل ہیں۔ ان میں انظار احمد صادق (پٹنہ)، عبد الودود انصاری، کانکی نارہ (مغربی بنگال)، سلطان آزاد (پٹنہ)، ڈاکٹر حافظ کرناٹکی، شیموگہ (کرناٹک)، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی (پٹنہ)، فرحان حنیف وارثی (ممبئی)، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد (دربھنگہ)، ڈاکٹر اویناش امن (پٹنہ)، ڈاکٹر منصور خوشتر (دربھنگہ)، ڈاکٹر احسان عالم (دربھنگہ)، زبیر بھاگل پوری (پٹنہ)، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی (پٹنہ)، ڈاکٹر م ق سلیم (حیدرآباد)، ثناء اللّٰه ثنا دوگھروی (پٹنہ/دربھنگہ)، ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی (مدھوبنی)، ڈاکٹر رؤف خیر (حیدرآباد)، انوار الحسن وسطوی (حاجی پور، ویشالی)، ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں (رام پور) وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ یہ اس کتاب کا سب سے ضخیم باب ہے۔ یہ کتاب خالص تحقیقی نوعیت کی ہے اور اس میں بچوں کے لیے لکھنے والے بہار کے 97 مصنفین/ مؤلفین/مرتبین اور مترجمین اہل قلم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کا زمانہ 1878 سے 2022 تک پھیلا ہوا ہے۔ محض 160 صفحات میں عطا عابدی نے بہت کچھ سمیٹ دیا ہے۔ عابدی صاحب مختصر اور جامع لکھنے کے ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں۔ کاش اس کتاب کے اگلے ایڈیشن میں عابدی صاحب سبھی لوگوں کی تاریخ پیدائش وغیرہ بھی درج کرنے کا اہتمام کردیں تو کتاب کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ جائے گی۔
چوتھے باب میں شذرات اور اقتباسات کے تحت پروفیسر رئیس انور، خورشید پرویز صدیقی، ڈاکٹر ہمایوں اشرف، ڈاکٹر جمال اویسی، ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی، ڈاکٹر غلام نبی کمار، ڈاکٹر عارف حسن وسطوی، ڈاکٹر مظفر نازنین، ڈاکٹر اویناش امن اور نکہت پروین کے دس (10) شذرات و اقتباسات اور ڈاکٹر حافظ کرناٹکی اور ڈاکٹر شعائر اللّٰه خاں وجیہی کے دو خطوط شامل ہیں۔ یہ اقتباسات مختلف کتابوں، مضامین، مقالات اور رسائل و جرائد کے ساتھ ساتھ فیس بُک وغیرہ سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس باب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے ہمیں عطا عابدی کے بارے میں نامور اہل قلم کی رائے ایک جگہ پڑھنے کو مل جاتی ہے۔
پانچواں، چھٹا اور ساتواں باب انتخاب پر مبنی ہے۔ پانچویں باب میں عطا عابدی کی بچوں کے لیے لکھی گئی آٹھ (8) کہانیوں اور اٹھاون (58) صفحات پر مشتمل کتاب "مناظرے مذکر و مؤنث کے" میں سے چار کہانیوں "فیصلہ"، "اختر کی پنسل"، "تسلیمن چاچا"، "مناظرے مذکر و مؤنث کے" کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ اور چھٹے باب میں عطا عابدی کی بچوں کے لیے لکھی گئی اٹھائیس (28) نظموں اور چھاسٹھ (66) صفحات پر مشتمل کتاب "خوشبو خوشبو نظمیں اپنی"  سے سولہ (16) نظموں کو منتخب کیا گیا ہے۔ دو حمد، دو نعت اور "او دین کے مسافر"، "وصیّت مادر"، "چند پند سود مند"، "علم"، "ہم کو آگے جانا ہے"، "ننھے مکرم کے لیے دعائیں"، "غرور کا انجام"، "بولو کون بہادر ہے"، "ایک اولوالعزم بچے کا احساس"، "پڑھ لکھ کر ہم نام کریں گے"، "ایک طالب علم کے معمولات و عزائم"، "محنت زندہ باد" جیسی بارہ (12) دیگر نظمیں ہیں۔ ساتویں باب میں ماہنامہ صلاح کار، بچوں کی دنیا، گلشنِ اطفال، ماہنامہ امنگ، جیسے مختلف رسائل سے عطا عابدی کی نظموں کو منتخب کر کے اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ نظمیں "سحری میں جگا دینا امی"، "پیامِ صبح"، "بچوں کا گلشن"، "بچپن"، "کبھی میرے بچے پڑھائی نہ چھوٹے"،”جشنِ آزادی"، "دو پیارے بچوں کی گفتگو"، "علم و حکمت"، اور "وقتِ سحر ہے جاگو" اور "بچوں کے مرحوم رسائل کی یادیں" ایسے مرحوم رسائل میں مسرت، کھلونا، کلیاں، ٹافی، نوخیز، نور اور ہلال کے نام شامل ہیں۔ اس نظم کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان رسائل کو مستقل پڑھنے والی نسل کی آنکھیں یقیناً اشک بار ہو جائیں گی۔
اس طرح کا انتخاب پیش کرنے سے ان قارئین کو بھی یہ تخلیقات پڑھ کر اپنی رائے قائم کرنے میں آسانی ہوتی ہے، جن کے سامنے مصنف کی کوئی تخلیق نہیں ہوتی اور وہ محض لوگوں کے مضامین، مقالات، تبصرے، شذرات، مکتوبات اور تاثرات کو پڑھ کر اپنی عمومی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ بسا اوقات یہ رائے غلط بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ قاری نے مصنف کی کوئی کتاب نہ پڑھ کر محض سنی سنائی باتوں پر یا کسی مضمون میں پیش کردہ تجزیے پر اپنی رائے بنائی ہوتی ہے۔ لہذا کسی بھی قلم کار کو ہمیشہ اس طریقے سے بچنا چاہیے۔
ڈاکٹر منور راہی تحقیق و تنقید، تجزیہ و ترتیب کے جملہ رموز و اسرار سے کما حقہ واقف ہیں۔ کون سا مضمون کس کتاب یا رسالے سے ماخوذ یا مستعار ہے آپ نے پوری دیانت داری کے ساتھ کتاب میں اس کو درج کر دیا ہے۔ 336 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں آخر کے چار صفحات میں ڈاکٹر منور راہی نے اپنی مشغولیات کو تصویروں کے ذریعے پیش کرنے کی ایک مستحسن کوشش کی ہے ان تصاویر اور کیپشن سے آپ کی ادب کے تئیں وابستگی اور خود سپردگی واضح ہو جاتی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ ڈاکٹر منور راہی کی یہ کتاب بھی ان کی سابقہ تینوں کتابوں کی طرح قارئین سے پذیرائی حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:اختر الایمان کی نظم "کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام" کا تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے