ندیم نیر کی یاد میں

ندیم نیر کی یاد میں

محمد اویس سنبھلی
رابطہ:7905636448

سنبھل وہ زرخیز بستی ہے جہاں علم و ادب کے رنگ برسوں سے چھائے ہوئے ہیں۔ یہاں کی فضا میں شعر و شاعری کی خوش بو ایسی ہے کہ سانس لیتے ہی دل و دماغ جھوم اٹھتے ہیں۔ ماضی قریب میں یہ شہر شعر و ادب کا گہوارہ رہا، جہاں مشاعروں کی شان دار روایت نے ہر دل کو موہ لیا۔ ہمارے بچپن کی یادوں میں یہ مشاعرے رنگین خوابوں کی طرح سجے ہیں، اور ان یادوں کا ایک روشن ستارہ ہیں جناب ندیم نیر، جن کا نام سنتے ہی دل میں ایک گیت گونجنے لگتا ہے۔
جب ہم نے ہوش سنبھالا، سنبھل کے مشاعرے اپنے عروج پر تھے۔ مشاعرے کے منتظمین میں ایک خاص نام تھا ہمارے عزیز محترم بھائی رضوان مسرور صاحب کا، جو مشاعروں کے بہترین کنوینر رہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کئی تاریخی مشاعرے کرائے، جن کی گونج آج بھی سنبھل کی گلیوں میں سنائی دیتی ہے۔ انھی مشاعروں میں سے ایک 1990 کی دہائی میں ’مالک کے باغ‘ میں منعقد ہوا، جہاں پہلی بار ندیم نیر کی آمد ہوئی۔ اس وقت میری عمر محض 12-13 برس تھی، لیکن ان کے گیت نے دل و دماغ پر ایسی چھاپ چھوڑی کہ آج بھی اس کے چند اشعار میرے حافظے میں تازہ ہیں:
اونچی اونچی چھت ہے جس کی شہر میں وہ گھر کس کا ہے
کس نے ہم کو خط بھیجا ہے اور یہ کبوتر کس کا ہے
کپڑوں پر پیوند لگے ہیں تلواریں بھی ٹوٹی ہیں
پھر بھی دشمن کانپ رہے ہیں آخر لشکر کس کا ہے
نور کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں خوں کے ایک ایک قطرے سے
حیرت سے سب دیکھ رہے ہیں نیزے پر سر کس کا ہے
پہلے اس کے وار کو اپنے سینے پر ہم روکیں گے
بعد میں یہ ہم غور کریں گے پیٹھ پہ خنجر کس کا ہے
کس میں اتنی ہمت ہے منصف سے یہ بات کہے
گھوم رہے ہیں قاتل تو پھر سولی پر سر کس کا ہے
اس گیت نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ ہر شعر پر واہ واہ کی صدائیں، تالیاں، اور دل سے دل تک جاتی ہوئی ایک عجیب سی کیفیت۔ ندیم نیر کا لہجہ، ترنم اورجذبہ سب کچھ لوگوں کے دل و دماغ پر جادو کررہا تھا۔ اس زمانے میں کانپور کے شعرا اور شاعرات مشاعروں کی جان تھے۔ حق کانپوری اور ترنم کانپوری اپنے ترنم سے دل موہ لیتے، تو جوہر کانپوری اپنی چیختی ہوئی شاعری میں اہل سیاست سے خطاب کرتے ہوئے ہنگامہ برپا کر دیتے ؎
صداقت پر جو ہے وہ رہبری تسلیم کرتا ہوں
جو سچا رہنما ہے اس کی میں تعظیم کرتا ہوں
تعصب کو بڑھاوا دینے والے رہبرو بولو
ضمیر و ظرف کے سوداگرو اپنی زباں کھولو
تمہارا فرض کیا ہے اور یہ کیا کر رہے ہو تم
جوانان وطن کے دل میں نفرت بھر رہے ہو تم
ضرورت ہے اجالوں کی اندھیرا کر دیا تم نے
کہ لفظ رہنمائی کو بھی گندا کر دیا تم نے
تجارت کرکے لاشوں کی محل تعمیر کرتے ہو
غریبوں کے لہو سے زندگی میں رنگ بھرتے ہو
لیکن اس مشاعرے کے بعد ندیم نیر کا نام اور ان کا گیت ہمارے ذہن میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا۔ پھر وقت آیا 2012 کا، جب ہم نے خود مشاعرہ منعقد کروانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پہلے ہی مشاعرے میں ہم نے ندیم نیر اور جوہر کانپوری کو مدعو کیا اور ساتھ ہی ان کی بیگمات شائستہ ثنا اور شبینہ ادیب کو بھی۔ اس مشاعرے میں بھی ندیم نیر نے اپنی شاعری سے سب کو مسحور کر دیا۔ چند اشعار آج بھی ذہن میں گونجتے ہیں:
منافق تک پہنچتے ہی تلاوت چیخ پڑتی ہے
ریاکاری اگر ہو تو عبادت چیخ پڑتی ہے
سگے بھائی اٹھا لیتے ہیں جب تلوار ہاتھوں میں
تو ٹوٹی قبر سے ماں کی محبت چیخ پڑتی ہے
٭
اس دنیا کی وہ تاریخ بدلتے ہیں
شبنم ہوکر جو شعلوں پر چلتے ہیں
دیکھ رہے ہیں ہنس کر میرا دسترخوان
خود غیروں کے ٹکڑوں پر جو پلتے ہیں
ندیم نیر کی شاعری میں مایوسی کے بعد امید کی ایک کرن بھی نمودار ہوتی ہے۔ وہ ملک کے حالات پر غمزدہ ضرور ہوتے ہیں لیکن وطن عزیز کی مٹی سے ان کی امیدیں اب بھی وابستہ ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ ایک دن ملک کے حالات بدلیں گے اور ہم آہنگی اور اخوت کی فضا دوبارہ قائم ہوگی۔ مشاعروں میں ان کے اشعار سے ایک خوب صورت فضا قائم ہوجاتی تھی۔
عجیب بات ہے جب بھی چناؤ آتے ہیں
زمیں امن کی دنگا تلاش کرتی ہے
وہ کہہ رہا تھا بلایا ہے مجھ کو گنگا نے
سنا ہے اب اسے گنگا تلاش کرتی ہے
٭
اور پھر انھوں نے اپنا مشہور زمانہ گیت سنایا:
بمبئی میری آنکھیں اور دلی میرا دل
کلکتہ میری زلفیں اور لکھنؤ گال کا تل
ہندوستان ہوں میں…
یہ مشاعرہ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے زیر اہتمام منعقد ہوا، اور نظامت کے فرائض رئیس انصاری نے بہ حسن و خوبی انجام دیے۔ شعرا کی فہرست تیار کرنے میں ان کی محنت شامل تھی۔ اس مشاعرے میں ندیم نیر سے دوسری اور آخری بار ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد ہم نے کئی مشاعرے منعقد کیے، لیکن بدقسمتی سے ان کا نام فہرست میں شامل نہ ہوسکا۔
2/ اکتوبر 2025 کی صبح جب ندیم نیر کے انتقال کی خبر ملی، دل ایک عجیب سی کیفیت میں ڈوب گیا۔ ان کے اشعار، ان کے گیت، اور ان سے ہونے والی ملاقاتیں ذہن میں گونجنے لگیں۔ سب سے زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی جب ان کی آخری ایام کی تصویر دیکھی۔ ماشاء اللہ، وہ ریش معتبر کہ خدا یاد آگیا۔ معلوم ہوا کہ ان کی تعلیم مدرسہ نظام العلوم، کرنیل گنج سے ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ایک کامیاب شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ملی و دینی خدمات کا جذبہ رکھتے تھے اور جمعیت علماء سے وابستگی نے ان کے اندر گہری تبدیلی پیدا کی تھی۔ داڑھی تو پہلے بھی تھی، لیکن اب جو نورانی چہرہ دیکھا تو دل خوش ہوگیا۔ نماز جنازہ ان کے بھانجے مولانا حذیفہ قاسمی نے ادا کرائی اور تدفین کرنیل گنج برادری قبرستان میں عمل میں آئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔
”تذکرہ شعرائے کانپور“، جو سلیم عنایتی اور فاروق جائسی نے مرتب کیا ہے، کانپور کے ادبی، سماجی، سیاسی، صحافتی اور تعلیمی منظرنامے کی ایک منفرد دستاویز ہے۔ اس میں ندیم نیر کا ذکر بھی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ان کا پورا نام محمد ندیم اسلم تھا اور وہ 1956 میں کانپور میں پیدا ہوئے، ان کے والد محمد اسمٰعیل بسمل بھی اچھے شاعر تھے۔ ندیم نیر کی ابتدائی تربیت انھی کے ہاتھوں ہوئی، لیکن شاعری کے میدان میں انھوں نے ارشاد نجمی، کوثر جائسی اور قیوم ناشاد فیض آبادی سے استفادہ کیا۔ ان کا کلام معتبر تھا، اور ان کا ترنم مشاعروں میں ہنگامہ برپا کرتا تھا۔ وہ ملک و بیرون ملک مشاعروں کی زینت بنے، لیکن افسوس کہ ان کا مجموعہ کلام شائع نہ ہو سکا۔’تذکرہ شعرائے کانپور‘ کے مطابق، ان کا مجموعہ کلام ”خراش“   زیر ترتیب تھا۔
ندیم نیر کے اشعار بہ ظاہر سادہ ہوتے ہیں مگر ان میں علامتی تہہ داری اور فکری وسعت موجود ہے۔ ان کے یہاں اجتماعی کرب اور انفرادی دکھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کہیں کہیں ان کے کلام میں زندگی اور عشق کے تئیں ایک ناامیدی اور مایوسی کی کیفیت بھی نظر آتی ہے۔ مثلا یہ شعر دیکھیں:
کوئی تدبیر بتاؤ کہ اسے خوش کردیں
زندگی جب ہمیں ملتی ہے خفا ملتی ہے
عشق وہ ریت کا صحرا ہے کہ جس میں پھنس کر
واپس آنے کی کوئی راہ نہیں ملتی ہے
پہلے شعر میں ندیم نیر نے زندگی کو ایک شاکی اور ناراض محبوبہ کی شکل میں بے حد خوب صورتی سے پیش کیا ہے جب کہ دوسرے شعر میں محبت اور حیات کے حوالے سے ایک مایوسی، شکایت اور تلخی کا عنصر نمایاں ہے۔ وہ عشق کو ایک ہلاکت خیز طویل صحرا سے تشبیہ دیتے ہیں جس میں مسافران محبت ہمیشہ کے لیے گم ہوجاتے ہیں۔ یہ شعر عشق کے رومانوی پہلو کے بجائے اس کے المیہ اور تباہ کن انجام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اسی طرح ان کا ایک شعر ہے:
سایہ سایہ دھوپ اُگا دی جاتی ہے
روز نئی افواہ اُڑا دی جاتی ہے
ندیم نیر کا یہ شعر سماجی حالات پر بڑی خوب صورتی سے طنز کرتا ہے۔ یہاں فطرت کے تضاد یعنی سایہ اور دھوپ کے ذریعے سماج کی منافقت اور دہرے رویوں کو بیان کیا گیا ہے۔ افواہوں کی کثرت کے پیچھے سچائی کس طرح دھندلی پڑ جاتی ہے اور حقائق کس طرح مسخ کیے جاتے ہیں اس کی عکاسی ان کے اس شعر سے بہ خوبی ہوتی ہے۔ یہ شعر ہمارے اجتماعی مزاج کا شگفتہ مگر تلخ تجزیہ ہے۔
ندیم نیر عشق کے Romantic Idealism سے گریز کرتے ہیں اور زندگی کے تلخ حقائق کو من و عن بیان کردیتے ہیں۔ ان کی شاعری محض جذباتی اظہار نہیں ہے بلکہ زندگی کے ناخوشگوار پہلوؤں کا آئینہ ہے۔ مثلا یہ شعر ملاحظہ کریں:
نہ جانے کتنے نغمے دفن ہوجاتے ہیں کوٹھوں پر
مقدر سے کوئی امراؤ محفل تک پہنچتی ہے
مذکورہ شعر طوائفوں کی زندگی اور ان کی محرومی کا اظہاریہ ہے۔ کوٹھوں پر نغموں کا دفن ہوجانا ان بے شمار عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے جن کی زندگی، فن اور ہنر صرف ایک مجبور ماحول تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔امراؤ جان کا نواب کی محفل تک پہنچنا ایک استثنائی صورت حال ہے جو عام طور پر ہر طوائف کے مقدر میں نہیں ہوتی۔ یہ شعر ان ہزاروں عورتوں کی بے بسی کی عکاسی کرتا ہے جو تمام عمر ایک ناپسندیدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ان کا ایک اور شعر ہے:
شہر کا شہر مقتل نما ہے مگر
ہر طرف امن ہے قاتلوں کے لیے
یہ شعر ندیم نیر کی حقیقت پسندی اور معاشرتی شعور کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ یہ شعر بہ ظاہر سادہ لیکن در حقیقت بے حد معنی خیز ہے جو ایک پیچیدہ سماجی اور سیاسی حقیقت کو بیان کررہا ہے۔ اس شعر کا پہلا مصرع عام آدمی بالخصوص اقلیتی طبقے کے فرد کے خوف اور مظلومیت کو ظاہر کررہا ہے جسے ہر لمحہ ایک خطرہ لاحق ہے۔ یہ ایک ایسے معاشرے کی تصویر ہے جہاں ایک مخصوص مذہب کے افراد کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور ہر فرد کسی جبر یا عتاب کا شکار ہے۔ جب کہ دوسرا مصرع ملکی نظام، قانون نافذ کرنے والوں کی بے حسی اور طاقتوروں کی بالادستی پر شدید طنز ہے۔ یہ شعر اس معاشرتی تضاد کو اجاگر کرتا ہے جہاں ہم ڈر ڈر کر جینے کے لیے مجبور ہیں۔ جہاں ظالموں کو مکمل تحفظ اور آزادی حاصل ہے اور کوئی ان کی گرفت کرنے والا نہیں ہے۔
ندیم نیر اب ہم میں نہیں، لیکن ان کی شاعری، ان کا گیت، اور ان کا ترنم ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ ایک شاعر اور گیت کارتھے۔ ان کی شاعری اور ان کے گیت ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
٭٭٭
اویس سنبھلی کی گذشتہ نگارش: تقدیس نقوی کی قلمی ’’خراشیں‘‘

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے