محمد اویس سنبھلی
تقدیس نقوی کا شمار عصر حاضر کے ان نثر نگاروں میں ہوتا ہے جو ایک طویل عرصے تک معاشی جدوجہد کی بنا پر ادبی دنیا سے دور رہے۔ ان کا پورا نام تقدیس الحسن نقوی ہے، وہ 1954ء میں امروہہ کے علمی، ادبی اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مولانا ظفر حسن نقوی عربی و فارسی کے جید عالم تھے۔ ابتدائی درجات پڑھنے کے بعد اعلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے تقدیس نقوی 1970ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخل ہوئے اور وہاں کے ادب نواز تہذیبی ماحول میں طویل عرصہ گزارا۔ کامرس تقدیس نقوی کا پسندیدہ سبجیکٹ رہا لہٰذا انھوں نے علی گڑھ یونی ورسٹی سے بی. کام اور ایم. کام کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ یونی ورسٹی میں کامرس فیکلٹی کی لیکچرر شپ سے بھی وہ وابستہ رہے، البتہ یونی ورسٹی کے ماحول نے انھیں اردو پڑھنے اور لکھنے کی طرف راغب کیا، مضامین اور افسانے رسائل و اخبارات میں شائع ہوتے رہے لیکن جب روزگار کے لیے وہ عراق اور پھر عراق سے جب دبئی منتقل ہوگئے تو افسانہ نگار بننے کا خواب بہت پیچھے رہ گیا۔ 38 سال تک زندگی کی الجھنوں میں مصروف رہنے اور ملازمت سے سبک دوشی کے بعد جب فراغت کے دن نصیب ہوئے تو تقدیس نقوی کے اندر خاموش ہوچکا قلم کار اور افسانہ نگار ایک بار پھر بیدار ہو گیا، جس کی بنیاد مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں دوران تعلیم پڑی تھی۔افسانے لکھنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے مزاح نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ اس بابت ان کا خیال ہے کہ ’’زندگی کے مسائل پر طنز کے نشتر سے جراحی کرنے کی ہروقت ضرورت رہتی ہے، جس کے بعد مزاح کے مرہم کا استعمال بھی مفید رہتا ہے‘‘۔ مختلف موضوعات پر اب تک تقدیس نقوی کے سینکڑوں مذہبی، علمی اور ادبی نیز طنزیہ اور مزاحیہ مضامین رسائل و جرائد کا حصہ بن چکے ہیں۔ ’’خراشیں‘‘ تقدیس نقوی کا انشائیے اور طنز و مزاح پر مبنی تحریروں کا مجموعہ ہے۔
اس مجموعہ میں کل32؍ مضامین شامل ہیں۔ ’’دو لفظ‘‘ کے عنوان سے انھوں نے تعلیم و تعلم کے دوران ادبی ذوق کی ابتدا، روزگار کی تلاش میں عراق اوردبئی میں قیام اور پھر سبک دوشی کے بعد دوبارہ ادبی زندگی کے باقاعدہ آغاز پر بات کرتے ہوئے کتاب میں موجود تحریروں پر گفتگو کی ہے اور محبین کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ’’خراشیں: ایک تاثر‘‘ کے نام سے پروفیسر منظر عباس نقوی کا ایک اہم مضمون بھی شاملِ کتاب ہے۔ کتاب کا پہلا مضمون ’’مرثیہ قلم‘‘ کی شہ سرخی کے ساتھ ہے، جس میں مصنف نے قلم کی تاریخ، زمانہ قدیم میں اس کی اہمیت و افادیت اور عصر حاضر میں ایک آلہ کے طور پر جدید ٹیکنالوجی نے قلم کی بے قدری کے جو اسباب مہیا کیے ہیں ان کے حوالے سے شگفتہ اسلوب اور طنزیہ انداز میں خامہ فرسائی کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’یہ تو بات سچ ہے کہ قلم اور کاغذ کا برسوں کا ساتھ رہا ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے گویا شریک حیات کی طرح شیر و شکر ہوکر رہے ہیں۔۔۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قلم بیوی کی طرح ہمیشہ کاغذ پر حاوی رہا ہے اور اس نے ہمیشہ کاغذ کو دبا کر ہی رکھا ہے۔ کیا مجال ہے کہ جب قلم اپنے پورے زور سے کاغذ کے صاف و شفاف بدن کو اپنی مرضی اور پسند کی تحریر کا لباس پہناتا ہے تو وہ بے چارہ اُف بھی کرسکے بالکل اسی طرح جیسے کسی بھی شوہر کے لباس کے انتخاب میں اس کی ایک نہیں چلتی بس اگر کچھ چلتا ہے تو وہ بیگم کی زبان۔ کاغذ بے چارہ تو اپنی اصلی کاغذی شناخت کھو کر کسی سرورق کے نئے نام سے متعارف کیے جانے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔‘‘ (ص15)
قلم کی عظمت اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اسی مضمون کا ایک اور اقتباس دیکھئے:
’’ یہ بات بھی قلم کی باقی شدہ عظمت کے لیے کافی ہے کہ آج بھی دو حکومتوں یا بین الاقوامی اداروں کے درمیان ہونے والے اہم ترین معاہدے کمپیوٹر کے ذریعے تیار کیے جانے کے باوجود قلم سے کیے گئے دستخطوں کے بغیر معتبر اور قابل قبول نہیں سمجھے جاتے۔ قلم نے حکومتی حلقوں میں بھی اپنی دھاک بٹھائی اور حکومتی وزارتوں کو قلم کی نسبت سے وزارت کے قلم دان کی شناخت ملی۔ ہر وزیر چاہے بے تعلیم ہو یا زیر تعلیم صاحب قلم دان کہلاتا ہے۔ قلم کی زبان کی آبدار تراش اور وضع نے گلستانوں اور ثمر گاہوں میں بھی خوب گل کھلائے اور اس کے توسط سے پھولوں اور پھلوں کی قلم لگا کر ان کے رنگ و بو اور حسن میں چار چاند لگا دیے۔ جس کے باعث قلمی پھلوں نے تخمیوں کی مٹی خراب کر رکھی ہے اور انھیں کہیں منھ دکھانے کے قابل نہ رکھا۔‘‘ (ص 20)
’’خراشیں‘‘ کا دوسرا مضمون ’’امتحان کے جوتے‘‘ ہے۔مضمون کے عنوان سے ہی موضوع کی انفرادیت کا اندازہ ہوجاتا ہے، امتحان ہال میں نقل کی گنجائش ختم کرنے کے لیے جوتوں پر پابندی کے تعلق سے یہ ایک دل چسپ تحریر ہے۔ سطر در سطر یہ مضمون قاری کو گدگداتا ہے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے، ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’جوتوں کے ساتھ موزوں کی حالت بھی بہت ابتر ہے۔ وہ اس الزام کی خفت میں پڑے پڑے سوکھ رہے ہیں کیونکہ امتحان میں ان کو پہن کر آنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ حالانکہ طلبہ کی اکثریت امتحان کے دنوں کے علاوہ جوتوں میں موزے پہننے کا تکلف کرنے میں یقین نہیں رکھتی اور امتحان کے علاوہ اس کو غیر مفید عمل تصور کرتی ہے۔ اور جو چند لوگ موزوں کو پہننے میں یقین رکھتے بھی ہیں تو وہ انھیں پھر اتارنے میں یقین نہیں رکھتے۔ جس کے نتیجے میں انھیں اپنے ارد گرد کوئی بھیڑ اکھٹا ہونے سے فراغت مل جاتی ہے اور لوگ ان سے دور دور ہی سے بچ کر نکلنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے موزہ لیس حضرات کو پولیس آنسو گیس کی جگہ کسی ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی دیکھی گئی ہے۔ یوں تو بے چارے موزے پہلے ہی پاؤں اور جوتے کے درمیان پتے رہے ہیں مگر اب امتحان گاہ میں آنے کی پابندی کے سلسلہ میں تحقیقاتی اداروں کی نظر ان کو کسے نقل بنے کی قوی استعداد پر زیادہ ہے اور وہ ان کے شک کے دائرہ میں آنے کے با جوتوں سے اس طرح نکال دیے گئے ہیں جیسے کسی شادی کی تقریب سے کوئی بن بلایا مہمان۔‘‘ (ص 24)
ان کے علاوہ دیگر مضامین ’’قبر کا انتخاب‘‘، ’’دھندھواں کا وکاس‘‘، ’’بے چارہ تاج محل‘‘، ’’کوڑا جمال شاہی، ’’غالب کی تلاش میں‘‘، ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ اور ’’آخری بات‘‘ تلخ حقائق کے ساتھ طنز و مزاح سے بھرپور اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
زیر مطالعہ تقدیس نقوی کے تحریر کردہ انشائیے اور مضامین شگفتہ انداز و استعاراتی اسلوب نیز ظرافت کے پیرایے میں سیاسی، سماجی و معاشرتی مسائل پر قلمی ’’خراشیں‘‘ ہیں جو قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوتی ہیں، جن میں روز مرہ زندگی کے واقعات و مشاہدات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے، ایک طرف جہاں ان تحریروں میں سیاسی جبر کی کہانی اور مشینی زندگی پر طنزیہ بیانیہ میں گفتگو ملتی ہے، وہیں دوسری طرف مزاحیہ جملے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ تقدیس نقوی نے عصر حاضر کے نت نئے مسائل اور سماجی، سیاسی و حکومتی جبر کو چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ 206 صفحات پر مشتمل اس مجموعے کا سرورق خوب صورت اور جاذب نظر ہے، کاغذ عمدہ اور طباعت صاف ستھری ہے، جسے تہذیب عالیہ پبلی کیشنز، امروہا، یوپی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭
رابطہ: 7905636448
اویس سنبھلی کی گذشتہ نگارش: کتاب : کچھ یاد رہا کچھ بھول گیا

تقدیس نقوی کی قلمی ’’خراشیں‘‘
شیئر کیجیے