ارم رحمٰن
لاہور ، پاکستان
اسٹیج سج چکا تھا۔ ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آج خلاف معمول زیادہ رش تھا جس کی وجہ سے انتظامیہ کو اضافی کرسیاں لگانی پڑی تھیں۔ اس شو کا نام ہی اتنا پرکشش تھا کہ لوگ شو میں آنے سے خود کو روک نہیں پائے تھے۔ نام تھا:
"ایک بار آکر تو دیکھو!”
اس جملے نے شہر کے تمام عوام کے ساتھ ساتھ خواص کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ کیونکہ ٹکٹ کی قیمت لوگوں کی جیب کے لیے سازگار اور موسم سیر و تفریح کے لیے نہایت موزوں ومناسب تھا۔
اوپر سے تھیٹر کا ماحول بھی دل فریب اور پرسکون!
انٹری ٹائم ختم ہوا، سب دروازے بند کردیے گئے جب حاضرین اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تو اچانک ساری روشنیاں گل کر دی گئیں۔ ناظرین اس ماحول سے مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ روشنیاں بند ہوتے ہی جیسے لوگوں کی بولتیاں بھی بند ہوگئی تھیں۔ پورے ہال میں خاموشی اور لوگوں کی آنکھوں میں حیرانی کا دور دورہ تھا۔ جیسے وہ اندھیرے میں خاموشی کی زبان سننا چاہتے ہوں، اس اندیشے کے ساتھ کہ کہیں کوئی بات، کوئی چیز مس نہ ہوجائے۔ کچھ دیر تک تو کچھ سجھائی نہیں دیا۔ یوں بھی آنکھوں کو انھیرے سے مانوس ہونے میں کچھ لمحے تو لگتے ہی ہیں۔ اسی دوران اسٹیج پر کچھ ہلچل سی محسوس ہونے لگی۔ لیکن دکھائی کچھ نہیں دے رہا تھا۔ اسی خاموشی اور توقف کے دوران ہال اور اسٹیج دونوں جگہ خاموشی چھا گئی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اسٹیج پر بہت سے لوگ جمع ہو چکے ہوں۔ اسی طرح اسٹیج والے بھی دیکھ رہے تھے کہ پورا ہال لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا ہے۔
ناظرین کا ایک انبوہ کثیر اس تھیٹر میں موجود تھا اس کے باوجود ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ یہ سوچ کر سانسیں بھی آہستہ آہستہ لی جارہی تھیں کہ کہیں دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تو بازو کی کرسی پر بیٹھا شخص اس کی آواز نہ سن لے۔ سناٹے کو سنا جارہا تھا۔ لوگوں کے کان ابھی سناٹے سے شناسائی حاصل کر ہی رہے تھے کہ اچانک ایک زور دار جھماکہ ہوا، بے حد تیز روشنی اسٹیج کے بیچوں بیچ پڑی، ہال میں ساکت بیٹھے لوگوں نے دیکھا کہ اسٹیج پر چند لوگ بڑی بے ترتیبی کے ساتھ موجود ہیں. کچھ کھڑے ہیں، کچھ بیٹھے ہیں، کچھ اوندھے اور کچھ بالکل لیٹے ہوئے ہیں۔ لیکن کچھ ہی دیر میں یہ بے ترتیبی بھی ترتیب لگنے لگی۔ تقریباً پانچ منٹ تک یہ روشنی یوں ہی جگمگاتی رہی۔ لوگ منتظر تھے کہ اس روشنی میں لوگوں کی غلطیاں، حرکات، اعمال کو جان لیں، ان کی کوئی خامی پکڑیں لیکن بے سود! سب دم بخود اورساکت! جیسے بچوں نے کھیلتے ہوئے اسٹیچو Statue کہہ دیا ہو اور جو حرکت کرے گا وہ کھیل سے باہر ہو جائے گا۔ جب سب لوگ اس منظر سے مانوس ہوگئے تب اچانک یہ ایک روشنی کئی مختلف روشنیوں میں تبدیل ہوگئی۔ یہ روشنییاں مختلف اقسام کی تھیں اور مختلف لوگوں پر مختلف انداز میں پڑ رہی تھیں۔ جن لوگوں کے چہروں پر روشنی پڑ رہی تھی وہ روشنی سورج کی ان کرنوں جیسی تھی جو صبح سویرے طلوع ہونے پر دکھائی دیتی ہیں۔ یہ روشنیاں چہروں کے خدو خال کو بہت نمایاں کر رہی تھیں۔ جن لوگوں کے سینے پہ روشنی پڑ رہی تھی وہ نیلے رنگ کی تھی اور دل کا احاطہ کر رہی تھی۔ جن لوگوں کی ٹانگوں پر روشنی پڑ رہی تھی اس کا رنگ ملگجا اور گہرا تھا۔ جن لوگوں کے کندھوں اور کمر پر روشنی پڑ رہی تھی اس کا رنگ گلابی تھا۔ روشنی جن کے سروں پر پڑ رہی تھی وہ بہت چمکیلی تھی۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بیٹھے ہوئے تھے۔ ان پر سبز رنگ کی روشنی پڑ رہی تھی۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دودھیا روشنی میں نہائے ہوئے تھے. سارا منظر انتہائی پراسرار تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ روشنی پڑنے کا زاویہ ہی ایسا ہے یا لوگ جس انداز میں موجود ہیں اس انداز کو نمایاں کرنے والی روشنی الگ الگ ہے۔
ابھی ہال میں بیٹھے لوگ اسی شش و پنج میں تھے کہ اچانک باری باری روشنی چمکنے لگی، پھر وہ تیز سے تیز تر ہوگئی۔ پہلے وہ روشنی تیز ہوئی جو لوگوں کے چہروں اور خدوخال پر پڑ رہی تھی۔ چشم زدن میں کچھ چہرے مکروہ، کچھ معصوم کچھ مظلوم اور کچھ کرخت نظر آنے لگے، حالانکہ ان کے چہروں کے نقوش اور رنگت پہلے جیسی ہی تھی لیکن ان کے چہرے دیکھنے میں کراہت زدہ اور نقاہت زدہ لگنے لگے. جو چہرے معصوم تھے ان کے نقوش ابھر کر سامنے آئے کچھ دیر یہ روشنی نمایاں رہی پھر یہ مدہم ہوئی اور لوگ پہلے جیسے دکھنے لگے. اس کے بعد سینے پر پڑنے والی روشنی تیز ہوئی، کچھ لوگوں کے دل پر پڑنے والی روشنی سیاہی مائل ہوگئی جیسے ان کے دل کی جگہ پتھر رکھے ہیں.
بہترین کپڑوں کے نیچے ایک بے جان، سخت بھاری پتھر نظر آنے لگا، بالکل بے حس. کچھ لوگوں کے دل کی جگہ نیلم جیسی چمکدار ہوگئی جیسے ان کے دلوں میں احساس اور نیکی بھری ہوئی ہو، بیش قیمت، انمول شفاف نیلم جو کسی کی زندگی بدلنے کے لیے مدد گار ثابت ہوتا ہے.
روشنی ٹمٹما کر ہلکی ہوگئی.
پھروہ روشنی تیز ہوئی جو لوگوں کے کندھوں اور کمر پر پڑ رہی تھی، یعنی گلابی روشنی.. اس میں شدت آگئی، وہ گلابی رنگ کی روشنی کچھ لوگوں پر پڑتے ہی پھیکی ہوگئی جیسے مرجھایا گلابی گلاب، ایسا لگنے لگا کہ ان لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کیا ہو۔
ان کے پاس وقت تھا، موقع تھا مگر انھوں نے اپنی صلاحیتوں سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچایا جن چہروں پر گلابی رنگ کی روشنی پڑ رہی تھی اس میں شدت اور گہرائی آگئی.
ان کو دیکھ کر سب کو محسوس ہونے لگا جیسے یہ اشخاص زندگی کا بہت بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں، ذمے داریوں، رشتوں اور قربانیوں کابوجھ!
اپنی سکت سے بڑھ کر محنت مشقت کی ہو.
ملگجی روشنی جس کی بظاہر رنگت سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کن رنگوں سے مل کر بنی ہے وہ ٹانگوں پہ پڑ رہی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے وہ صاف شفاف ہونے لگی، نارنجی سی اجلی چکمتی جیسے ان ٹانگوں نے بہت محنت اور لگن سے زندگی کی مسافت طے کی ہو، طویل سفر کے وفادار ساتھی، مستقل مزاج اور باہمت، لیکن کہیں یہ گہری دھیمی میلی سی روشنی تھی جو یہ بتا رہی تھی کہ یہ شخص اپنی زندگی کی دوڑ میں ہارا ہوا ہے، بد دل اور بے زار! جو عیاش اور آرام پرست رہا ہو،
اب سبز روشنی جو لوگوں کے چہروں پر پڑ رہی تھی تیز تر ہوئی تو ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ لوگ اپنی زندگی اور قسمت کے توازن پر خوش ہیں، جو ملا اسی پر راضی، جو نہیں ملا اس پر صبر! صبر و قناعت کی یہ سوچ انھیں پرسکون کردیتی ہے، گلوں اور شکووں سے دور، شکایت سے پاک شکر کی منزل پر موجود.
پھر اچانک کچھ لوگ مکمل طور پر دودھیا روشنی میں نہائے ہوئے نمایاں ہوئے۔ روشنی ان کے پورے بدن کا احاطہ کیے ہوئے تھی فقط جسم کے کسی حصے کا نہیں،
یہ وہ لوگ تھے جو اپنے گناہوں کو خیر باد کر چکے تھے، دلوں کو نفرتوں اورکدورتوں سے پاک کر چکے تھے، وحدانیت اور الہیت کے پیروکار، سچائی اور نیکی کی پرستش کرنے والے، صراط مستقیم پر چلنے والے! گرچہ یہ لوگ تعداد میں کم تھے مگر ان کے چہرے بہت روشن تھے۔
سب سے آخر میں لال روشنی نمایاں ہوئی، پھر ہر آنکھ نے دیکھا کہ جیسے اسٹیج پر لال آندھی آگئی ہو، ہر طرف لال ہی لال، سرخ ہی سرخ.. چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی ساری اکثریت لال رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی، جو بے دین اور بد مذہب تھے، جنھیں زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا نہ جینے کا سلیقہ۔ وہ اپنی دھن میں لگے رہے، بےراہ روی کا شکار جیسے جنگلی جڑی بوٹیاں اگ آتی ہیں اور پھر کسی دن خاموشی سے کسی کے پیروں تلے مسلی جاتی ہیں۔
30 منٹ کے اس شو میں کسی کو بولنے اور کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ سب اپنی جگہ خاموش، دم سادھے، بے سدھ بیٹھے رہے، پھر اچانک تمام روشنیاں بند کر دی گئیں اور ہال کی روشنیاں پہلے کی طرح روشن ہوگئیں. لوگ اپنے حواسوں میں آئے. آنکھیں پوری طرح کھول کر دائیں بائیں اپنے ساتھیوں کو ایسے دیکھا جیسے اشاروں ہی اشاروں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں: یہ سب کیا تھا؟
کہ یکا یک ایک بار پھر گھپ اندھیرا چھا گیا، آنکھیں پھر سے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش میں سرگرداں ہوگئیں ….
لوگ ابھی اسی کشمکش میں تھے کہ اب کیا ہونے والا ہے؟
کہ اعلان ہوا
"خواتین و حضرات !
دس منٹ ہیں آپ کے پاس
جو خود کو جاننا چاہتا ہے
برائے مہربانی اسٹیج پر آجائے!"
دس منٹ بعد جب دوبارہ روشنیاں جلائی گئیں تو سارا ہال خالی تھا۔
***
ارم رحمن کی گذشتہ نگارش: کتاب: پیش پیش

روشنی
شیئر کیجیے