امام مظہر: بیگنائی تہذیب کا بشری پیکر

امام مظہر: بیگنائی تہذیب کا بشری پیکر

✍🏿 ڈاکٹر خالد مبشر
شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی

یہ لبیک کی جو صدا دے رہا ہوں
کروڑوں میں ہوں میں بتا دے رہا ہوں
تری آبرو کی حفاظت کو اب میں
کفن سر پہ باندھے چلا آ رہا ہوں
فلسطیں کی دھرتی تو آزاد ہوگی
مجاہد کی بستی تو آباد ہوگی

مجھے فخر ہے کہ لہو لہو فلسطین کی حمایت میں گذشتہ ایک صدی سے اردو کا جو شدید والہانہ شعری انتفاضہ جاری ہے، اس میں ایک پر عزم مزاحمتی اور احتجاجی آواز ہمارے خانوادے اور ہمارے قریے کے ایک بزرگ مرحوم امام مظہر کی آواز بھی شامل ہے۔ نظم کا یہ بند کیا ہے؟ ایک ایک حرف حریتِ سرزمینِ انبیا اور بازیابی ِ اقصیٰ کے جذبے میں سرشار ایک مجاہد کی صداے لبیک کا امین و علم بردار ہے۔
سوال یہ ہے کہ قبلۂ اول کے لیے ایسی سرفروشانہ ایمانی غیرت و حمیت کہاں سے جاگزیں ہوئی ہے؟ کلامِ مظہر پڑھیے تو اس کی جڑیں بے پایاں عشق ِرسالت مآب میں پیوست نظر آتی ہیں:
میں بیمار دل کی دوا چاہتا ہوں
دیارِ نبی کی فضا چاہتا ہوں
چلو لے کے مجھ کو بھی طیبہ کی جانب
سکوں بخش ٹھنڈی ہوا چاہتا ہوں
رسول اللہ کی نگری کو دیکھوں
بہت بےتاب دل کا حوصلہ ہے
مدینے کی خاکِ مقدس کا سرمہ
ہم آنکھوں میں اپنی لگا یا کریں گے
صدق و صفا ملے مجھے، نورِ ضیا ملے
جود و سخا ملے مجھے صبر و رضا ملے
سرکارِ دو جہاں تری اک اک ادا ملے
دل کی ہے آرزو مجھے تیری رضا ملے
تیری رضا سے ہی مجھے قربِ خدا ملے
مدینے کی خاکِ مقدس کو آنکھوں کا سرمہ بنانے اور دیارِ نبی کی ہوا سے علاجِ دل کا آرزو مند شاعر فنی معاملات نہ سہی، لیکن قلبی و روحانی واردات میں علامہ اقبال سے اپنا رشتہ قائم کر لیتا ہے:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
امام مظہر کا تخلیقی وجود کفن سر پر باندھے آزادیِ فلسطین کے لیے میدانِ کارزار میں بے خطر کود پڑتا ہے تو اس کا راز یہی طیبہ نگری کی خاک سے والہانہ شیفتگی ہے۔ جب ذرا جستجو کی جائے کہ امام مظہر کی اس فریفتگی کا اصل محرک کیا ہے؟ تو اس کے پیچھے ان کے روحانی قریے سرزمینِ بیگنا کی خانقاہی تہذیب کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ امام مظہر اور ان کے تمام ہم عصر اسی روحانی نظام کے پرداختہ ہیں، جب اسلام پور نالندہ سے اپنے وقت کے روحانی سرخیل حضرت شاہ ایوب ابدالی علیہ الرحمہ کی بیگنا آمد ہوتی ہے، ان کے برگزیدہ جا نشین اور خلیفہ حضرت حکیم تجمل حسین علیہ الرحمہ اپنے پیر و مرشد کی سرپرستی اور بیگنا اسٹیٹ کے جاگیردار میاں محمد احسن کے تعاون سے خانقاہ صوفیہ بیگنا کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ پھر وہاں سے قدیم ضلع پورنیہ (یعنی آج کا کشن گنج، ارریہ، کٹیہار اور پورنیہ)، سوپول، سہرسہ، مدھے پورا کے علاوہ مغربی بنگال اور نیپال کے سرحدی دیار تک رشد و ہدایت کا ایک نورانی سلسلہ چل پڑتا ہے۔
امام مظہر اس خانقاہ کی بنا سے لے کر آخر تک اس کے گواہ بنتے ہیں۔ وہاں کی سادگی، روحانیت، خلوص، للٰہیت، سوز و گداز، جلال و جمال، خدمت خلق، مہمان نوازی، علمی و روحانی محفلیں اور حال و قال ۔۔۔ امام مظہر اس خانقاہی مزاج میں مکمل طور پر رنگ جاتے ہیں۔ چنانچہ اس نوع کا شعر تخلیق ہوتا ہے:
بزمِ عشرت عارضی ہے اے تھرکتی زندگی
کس لیے اترا رہی ہے مال وزر کے درمیاں
ایسی درویشی و قلندری اور ایسا فقر و استغنا اسی صوفیانہ ماحول کی دین ہے۔
لیکن عجوبہ یہ ہے کہ امام مظہر کی شخصیت کی تشکیل میں جو دو رنگ پیش کیے گئے ان میں بہ ظاہر کتنا تضاد ہے؟ ایک طرف آزادیِ فلسطین کے لیے سر پر کفن باندھے ہوئے مجاہد امام مظہر شمشیر بہ کف نظر آتے ہیں تو دوسری طرف دنیا سے متصوفانہ بے نیازی کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے ایک صوفی امام مظہر خلوت گزیں ہیں۔ لیکن اس بہ ظاہر تضاد میں ایک داخلی وحدت موجود ہے جس کے اسباب کا سراغ لگانے کے لیے ’’بیگنائی تہذیب‘‘ کے ترکیبی عناصر کو سمجھنا ضروری ہے۔ سیمانچل کا یہ دور افتادہ قدیم قریہ بیگنا علم و ادب کے حوالے سے ایک اہم موضوع تحقیق ہو سکتا ہے۔ چوں کہ اس کی ایک ’’خاص تہذیب‘‘ رہی ہے، مجھے احساس ہے کہ میں نے ایک تو لفظ ’’تہذیب‘‘ اور پھر اس پر ’’خاص‘‘ التزام کیا ہے۔ جی ہاں! اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی خطے کی تہذیب میں عموماً کسی ایک یا دو عنصر کا غلبہ ہوتا ہے۔ کہیں دولت، کہیں زمین داری، کہیں علوم و فنون، کہیں شعر و ادب، کہیں سیاسی غلبہ و اقتدار، کہیں سماجی خدمات، کہیں ادب آداب اور حسنِ اخلاق، کہیں وضع داری، کہیں دین داری اور روحانیت، کہیں ادارہ سازی اور تنظیم کاری۔۔۔ عموماً اس میں سے کچھ ہی عناصر کی یک جائی کسی ایک بستی میں ہو پاتی ہے لیکن بیگنا شاید سیمانچل کا وہ واحد تہذیبی مرکز ہے جہاں یہ سارے عوامل اپنی پوری قوت اور شباب کے ساتھ متحد ہو گئے ہیں اور بیگنائی تہذیب کے یہ تمام عناصر امام مظہر کے بشری پیکر میں ڈھل گئے ہیں۔
بیگنا زمین داروں کا گاؤں رہا ہے. میاں محمد احسن برطانوی سامراج میں اس وقت ایم. ایل. اے نامزد کیے گئے جب قدیم بہار یعنی بہار و جھارکھنڈ کو صرف تین اسمبلی حلقوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور واضح رہے کہ اسمبلی سے مراد آج کی ریاستی اسمبلی نہیں ہے بلکہ اس وقت کی اسمبلی آج کی پارلیمنٹ تھی جس کے اجلاس دہلی پارلیمنٹ میں ہی منعقد ہوا کرتے تھے۔ بیگنا میں مدرسہ اسلامیہ غوثیہ صوفیہ کا قیام 1953 میں عمل میں آیا، جہاں اس وقت بھاگل پور، مدھے پورا، کٹیہار، پورنیہ، ارریہ، سہرسہ اور سوپول سمیت مختلف ضلعوں کے طلبہ اعلا تعلیم کے لیے آتے تھے اور اس ادارے سے اس زمانے کے جید علما بہ حیثیت معلم وابستہ تھے۔ خانقاہ صوفیہ بیگنا اس زمانے کی ایک اہم خانقاہ تھی، جس کے سجادہ نشین حضرت حکیم تجمل حسین مشہور حکیم اور طبیب بھی تھے، جہاں دور دور سے مریض آ کر شفا یاب ہوتے تھے۔ سیمانچل کی اہم سماجی تحریک سماج سدھار کرانتی سمیتی کی بنیاد بھی اسی بیگنا کی دھرتی پر یکم جنوری 1983 کو ڈالی گئی۔ اس تحریک نے سماجی جرائم، برائیوں اور ناانصافیوں کے خلاف جیسی زبردست عوامی بیدار ی پیدا کی، اس کی مثال آج بھی ملنا مشکل ہے۔ بیگنا اسٹیٹ میں میاں محمد احسن کے دربار میں باضابطہ ایک لق و دق کتب خانہ قائم تھا۔
منشی معین الدین احمد اور منشی کلیم الدین افسانہ نگار اور انشائیہ نگا ر تھے۔ منشی معین الدین احمد کی ادار ت میں ’’رسالہ نہار‘‘ بھی اسی  بیگنا سے جاری ہوا۔ مولانا غلام محمد یحیٰ، مولانا اسحاق عادل، ماسٹر ظہیر انور، عبد المنان اور مبین اختر امنگ کی شعری و نثری تخلیقات پر ابھی ادبی دنیا کی توجہ کما حقہ مرکوز نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن یقین ہے کہ جب بیگنا کا یہ ادبی سرمایہ سامنے آئے گا تو اس کی قدر افزائی ہوگی۔
امام مظہر اسی علمی، ادبی، روحانی اور تہذیبی فضا کے پروردہ ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ امام مظہر کا روزمرہ مشغلہ کیا تھا تو عقل انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔ سحر دم کوئلیں کوک رہی ہیں، مرغ اذان دے رہا ہے، لیکن امام مظہر کی سحر اس سے بھی قبل نمودار ہو چکی ہے۔ وہ آہِ نیم شبی اور اشکِ سحر گاہی سے فارغ ہو کر نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد کو چل پڑے ہیں۔ مسجد سے لوٹ کر زمین دارانہ شان و شوکت کے ساتھ اپنے کھیتوں کے معاینے کو نکل پڑے ہیں۔ ہر طرف سے عوامی سلامی وصول کرتے ہوئے گھر لوٹ کر شان دار شاہی دسترخوان پر ناشتہ تناول فرما رہے ہیں۔ یوں ایک صوفی درویش اب ایک شاہانہ کر و فر کا مالک ہو گیا ہے۔ پھر سماں بدلتا ہے اور وہ زمین دار اب خالص معلم کے بھیس میں مدرسے کی جانب چل پڑے۔ معلم کیسے؟ ایک لفظ میں کہیے تو ’’مثالی معلم‘‘۔ وہ کون سی معلمانہ صفت ہے جو ان میں موجود نہیں؟ طالب علم کے لیے سراپا روحانی باپ، شفقت و محبت کے مجسم پیکر۔ وہ پیشہ ور تدریسی ملازم ہرگز نہیں تھے کہ اب جو گھنٹہ اور جو سبجکٹ ٹائم ٹیبل میں دے دیا گیا کسی طرح خواہی نہ خواہی طوعاً و کرہاً ٹھیکہ پورا کر دیا اور بس۔ نہیں ہرگز نہیں، بلکہ وہ تو پیدائشی معلم تھے۔ انھیں کسی سبجکٹ، کسی گھنٹے اور کسی ٹائم ٹیبل میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی دیکھیے تو طلبہ کے ساتھ اردو، ہندی اور انگریزی زبان کے نکات میں سر کھپا رہے ہیں۔ ابھی تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئے۔ تاریخ کی بھی کوئی لکیر نہیں. کیا قدیم، کیا عہد وسطیٰ اور کیا جدید۔ ابھی علم تمدن کے اسباق پرگل افشانی ہو رہی ہے۔ ابھی علمِ ریاضی کی گتھیاں سلجھانے میں منہمک ہو گئے۔ ابھی علمِ طبیعیات، علمِ کیمیا اورعلمِ حیاتیات کے انکشافات میں محو و مستغرق ہو گئے۔ علم ِجغرافیہ پڑھاتے تو لگتا کہ زمین کی خشکی و تری، دریا و سمندر اور کوہ و دشت و صحرا ان کی نظر کے سامنے جامِ جمشید کے طرح گردش کر رہا ہو اور طلبہ پر اس کے رازہائے سربستہ کھولتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن بات جب شعر و ادب کی آ جائے تو کیا غالب، اقبال اور اکبر الہ آبادی، کیا کبیر اور رحیمن، کیا شیکسپیئر اور ورڈس ورتھ اور کیا رومی و سعدی و شیرازی۔۔۔ ان کے اشعار ایسے نقل کرتے جیسے وہ سب ان کے بے تکلف حلقۂ احباب میں شامل ہوں۔
جن اساتذہ کو میں سب سے زیادہ پسند کرتا ہوں اور جن سے سب سے زیادہ متاثر رہا ہوں، ان میں مرحوم ماسٹر امام مظہر کا نام سرِ فہرست ہے۔ مجھے یہ بھی فخر حاصل ہے کہ وہ مجھے اپنے سب سے چہیتے شاگردوں میں گنتے تھے۔ میں نے ان سے کیا کیا سیکھا، اس کی فہرست سازی میرے لیے ممکن نہیں۔ لیکن سب سے بڑی چیز جو سیکھی، وہ ہے سوچنے کا عمل۔ دماغ لڑانا، کسی چیز میں کھو جانا، طرح طرح کے سوالات اٹھانا، غور و فکر کرنا، کسی چیز کی تہہ تک پہنچنے اور اس کی حقیقت کو اپنے اوپر آئینے کی طرح روشن کر لینے کا جنون اور دیوانگی، جس شدت کے ساتھ میں نے استادِ محترم امام مظہر کے اندر دیکھی، وہ ناپید و نایاب ہے۔ اب دیکھیے کہ ایک معلم امام مظہر مدرسے سے واپس لوٹ کر گھر آتے ہیں تو ایک مثالی شوہر اور مثالی باپ بن جاتے ہیں۔ پھر سرِ شام جنتا ہاٹ کی طرف چلے تو وہی امام مظہر اب ایک غریب پرور، سماجی خدمت سے سرشار، عوامی دکھ درد کو اپنے سینے میں سمونے والے سماجی خادم بن گئے۔ کسی بیوہ کا دکھڑا سن رہے ہیں، کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ رہے ہیں، کسی بے سہارا غریب کا غم بانٹ رہے ہیں، کسی بیمار کی مزاج پرسی کر رہے ہیں، کرانتی کی سبھاؤں میں گرماگرم انقلابی تقریریں کر رہے ہیں، مغرب کی نماز پڑھ کر فاتحہ خوانی، میلاد کی محفل، تبلیغی گشت، دینی جلسوں اور ادبی نشستوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ ایک آدمی تھا کہ پوری ایک انجمن. اور تضاد تو دیکھیے کہ ایک زمین دار جنتا ہاٹ میں محصول وصول کرنے والا شخص دل و جان سے سماجی خدمات میں بھی لگا ہوا ہے۔ رات کے آخری پہر میں اللہ ھو اللہ ھو کرنے والا صوفی دن کے پہلے پہر میں بلا کا عالم و معلم ہے، ایک ہمہ گیر علوم و فنون پر دسترس رکھنے والا معلم اور پھر سارے جھمیلوں سے نمٹ کر شام کو شعر و ادب اور دین و مذہب کی محفلیں آراستہ کر رہا ہے۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب تصوف اور تبلیغی جماعت کے ساتھ امام مظہر جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نظریات اور لٹریچر کے بھی اتنی ہی شدت سے دل دادہ ہیں۔
اس پورے پس منظر کو جب تک پیشِ نظر نہ رکھا جائے اس وقت تک امام مظہر کی شاعری میں جو تنوع اور رنگا رنگی ہے اس کا راز منکشف نہیں ہو سکتا۔ ان کی شاعری کیا ہے، زندگی کی ایک قوس قزح ہے، جس کے ہزار رنگ ہیں۔ کبھی کبھی اس بو قلمونی پر سخت حیرانی ہوتی ہے کہ ایک شخص بیک وقت جتنا روشن خیال اور عقلیت پسند ہے، اتنا ہی قدامت پسند بھی۔ وہ ایک طرف صوفیہ کی کرامات اور محیر العقول حکایات نہایت عقیدت کے ساتھ سناتے ہیں تو دوسری طرف اقبال کا یہ شعر بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں کہ:
حقیقت حکایات میں کھو گئی
یہ امت خرافات میں کھو گئی
ذرا امام مظہر کے یہ حمدیہ اشعار دیکھیے:
نیل گگن پر جگمگ تارے
سورج چندا اور ستارے
اونچے پربت، جھرنے، نالے
بہتے دریا، جل کے دھارے
تیری قدرت پر حیراں ہوں
یا اللہ ھو یا اللہ ھو
علی گڑھ تحریک والے سر سید اور حالی کا نظریۂ شعر یاد آ جاتا ہے کہ شاعری نیچرل ہو، نیچر کے مضامین ہوں، سادہ ہو، سلیس ہو اور اصلیت سے قریب ہو۔
امام مظہر فطرتاً شاعر پیدا ہوئے تھے۔ ان کی یہ دعا خدائے تخلیق نے سن لی کہ:
میرا خیال شعر کے پیکر میں یوں ڈھلے
دنیائے فکر وفن کو نئی روشنی ملے
ہر سمت زندگی کو اجالا کیا کرے
یہ ایک ایسے شاعر کی دعا ہو سکتی ہے جس کی شاعری فن کاری نہ ہو بلکہ اس کی زندگی کے وژن اور مشن کی ترجمان ہو۔ جس کا ایک ایک لمحہ خلقِ خدا کے لیے وقف ہو۔ جس کا خیال و عمل سراپا جمال ہو:
نظموں کی لہک ،حسنِ غزل دے کے جاؤں گا
لفظوں کا حسیں تاج محل  دے کے جاؤں گا
میں اپنی محبت کا بدل دے کے جاؤں گا
ایک مقصدی شاعر جو سماجی اصلاح کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے، اس کے سامنے مختلف سماجی مسائل ہوتے ہیں، وہ دیکھتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ سماج کا رویہ کتنا ظالمانہ ہے اور معاشرہ عورت کو کس حقارت سے دیکھتا ہے، عورتوں کی زندگی کیسی کسمپرسی میں گذرتی ہے، ایک شاعر کا دل یہ کرب ناک منظر دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے۔ چنانچہ وہ پیغمبرانہ اسلوب میں یہ انتباہ کرتا ہےکہ:
شرم و حیا کی جان ہے عورت
عزت کی پہچان ہے عورت
الفت کا عنوان ہے عورت
عظمت کا ایوان ہے عورت
نعمت ہے یہ، راحت ہے یہ
ایشور کا وردان ہے عورت
امام مظہر کو مظاہرِ فطرت سے غیر معمولی شغف ہے۔ وہ چرند و پرند کے رمز آشنا ہیں۔ ذرا یہ خوب صورت اشعار ملاحظہ ہوں:
ہر رت کا یہ دکھ سکھ جھیلے، پھر بھی خوش ہر آن پرندے
دولت ان کی آزادی ہے، ان پر ہیں قربان پرندے
سب پیڑوں سے رشتہ اس کا، ہر موسم سے ناطہ ہے
چہکے، گائے بن کا پنچھی، ہر رت کی پروائی میں
امام مظہر تصوف، علوم و فنون، تعلیم و تدریس، شعر و ادب اور سماجی اصلاح کے جوش میں خانگی ذمہ داریوں سے بے نیاز اور بے پروا نہیں ہوتے۔ وہ ایک اچھے شوہر اور اچھے باپ بھی ہیں۔ انھوں نے ’’ہم سفر‘‘ کے عنوان سے اپنی اہلیہ کے لیے ایک نہایت دل کش نظم لکھ کر اپنے پاکیزہ اور رومانی جذبات کا خوب صورت اظہار کیا ہے:
تو تخلیقِ قدرت میں سب سے حسیں تر
مصور کے فن کا تو انمول پیکر
تو میرے تخیل کا گل رنگ منظر
کتابِ محبت کا عنوان ہے تو
کہانی میں کردار کی جان ہے تو
قرارِ دل و جاں کا سامان ہے تو
وہ ایک مشفق باپ بھی ہیں۔ بیٹی کے تئیں ان کے پدرانہ جذبات جب امڈ آتے ہیں تو بیٹی کی رخصتی پر بے اختیار ان کے دل سے دعا نکلتی ہے:
تجھے دین و دنیا کی نعمت عطا ہو
تجھے ہر سکون اور راحت عطا ہو
محبت کی دنیا میں پھولو پھلو تم
دعا ہے خدا سے سدا خوش رہو تم
وہ جب نوجوان نسل کا لا ابالی پن، اس کی سستی اور کاہلی اور لا مقصد شیوہٴ حیات دیکھتے ہیں تو نہایت سوز و گداز اور درد مندی کے ساتھ خطاب کرتے ہیں:
کاہلی و بے حسی تو ہے شکستِ زندگی
تم جوانی کے لہو میں تازگی پیدا کرو
جب ان کے تصور میں نوجوان نسل آتی ہے، تو وہ انھیں پر جوش، پر عزم اور امنگوں سے معمور دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی آرزو ہے کہ اس نسل کے اندر وطن پر مر مٹنے کا جذبہ بیدار ہو جائے:
گاندھی کا فرمان سنو تم
ٹیپو سا بلوان بنو تم
ہو کر اشفاق اللہ جیسا
دشمن کو حیران کرو تم
دل کی راحت، آنکھ کے تارو!
اے میرے دلدار جوانو!
امام مظہر کی شاعری کا ایک محوری موضوع بیگنائی تہذیب ہے۔ وہ بیگنا کی مٹی، گاؤں کی دھوپ چھاؤں، بیل گاڑی، دھان کے کھیت، آم کے بغیچے، بانس کی جھاڑیاں، کنوئیں، ندی نالے اور تالاب۔۔۔۔ ان سب سے غیر معمولی محبت رکھتے ہیں۔ ان کی نظم ’’اپنی بستی اپنا گاؤں‘‘ ان کی اسی وارفتگی کی مظہر ہے:
دھوپ سہانی، ٹھنڈی چھاؤں
اپنی بستی، اپنا گاؤں
میں تو اس کو بھول نہ پاؤں
پگ پگ جیون میں مسکاؤں
ہل اور بیلیں، سگڑ گاڑی
پٹوا، گیہوں، دھان کی کیاری
آم، بغیچہ، بانس کی جھاڑی
جل کے دھارے، ٹھنڈا پانی
بات گاؤں کی آ گئی ہے تو یاد آیا کہ ایامِ شباب میں وہ اپنی چچازاد بہن کے سسرالی گاؤں نشندرہ گئے تو بہنوئی کے ساتھ شوخی سوجھی، طبیعت میں ظرافت امڈ آئی، یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ان کی حسِ مزاح بھی بلا کی تھی، چنانچہ نشندرہ گاؤں کا وہ شوخ نقشہ کھینچا کہ اکبر الہ آبادی کا ’’دلی درشن‘‘ یاد آ جاتا ہے۔ ان کی یہ نظم اس زمانے میں بے پناہ مقبول ہوئی۔ ذرا ’’نشندرہ درشن‘‘ کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:
بیچ گاؤں میں ہاری دیکھا
سب میاں پر بھاری دیکھا
ٹوٹی پھوٹی کشتی دیکھی
گھٹواروں کی مستی دیکھی
لمبے چوڑے گھاٹ کو دیکھا
مستاجر کے ٹھاٹھ کو دیکھا
امام مظہر جب موج میں آتے تو فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ کے کردار پرتھوی راج اور دلیپ کمار کی نقلیں کیا کرتے تھے۔ان کے ڈائیلاگ اسی آواز اور انداز میں دہراتے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ عہدِ جوانی میں فلم بینی سے بھی شوق فرماتے تھے۔ چنانچہ کہیں کہیں ان کی شاعری میں غضب کا رومانی لب و لہجہ بھی دکھائی دیتا ہے:
کومل کومل تن ہے تیرا
نرمل شیتل تیرا روپ
سائے سائے آنا گوری
جھلسائے نہ چنچل دھوپ
پل پل رکھنا اس کا دھیان
گوری تیرا روپ مہان
یہ نغمگی، یہ غنائیت، یہ رنگین بیانی، یہ نزاکت و لطافت۔۔۔ اگر نام بتائے بغیر یہ نغمہ گا کر سنایا جائے تو سننے والوں کو گمان ہو کہ یہ کسی پرانی فلم کا خوب صورت گیت ہے، جسے ساحر، کیفی، مجروح یا ندا فاضلی نے لکھا ہوگا۔
امام مظہر کی رومانی طرز ادا اور من موہک لب و لہجہ ہر محبت کرنے والے دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے:
دل یہاں کچھ دھڑکنے لگا ہے
یہ گلی کیا اسی کی گلی ہے
بھول نہ پائیں گے ہم تم کو چاہے کوئی نگری ہو
یاد تمھاری باس کرے ہے تن من کی گہرائی میں
ایسے اشعار کی کشش، اس کی لفظیات اور امیجری دلوں کو چھو جاتی ہے۔
لیکن امام مظہر کو محض رومانی شاعر قرار دینا بھی قرینِ انصاف نہیں۔ وہ زمین کی کھردری سچائیوں سے آنکھیں ملانے والا ٹھیٹھ تخلیق کار ہے۔ وہ محض خوابوں، خیالوں کی جنت ہی نہیں سجاتا بلکہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا زہر بھی نوش ِجاں کرتا ہے:
بجلیوں کا یہاں کچھ بھروسہ نہیں
پاس رکھنا دیا روشنی کے لیے
ٹھہرا مرا قصور میں پی سی نہ دے سکا
چپکے سے میرا نام رجسٹر سے کٹ گیا
زندگی اس طرح سرپھری ہے
دار تک خود بخود جا رہی ہے
امام مظہر بنیادی طور پر ایک جذبہ و احساس سے مملو شخصیت کے حامل شاعر تھے۔ وہ اپنے عہد کے علما، ادبا و شعرا اور قوم و ملت کے مخلص رہنماؤں سے قلبی و جذباتی تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس نوعیت کی کئی شخصی نظمیں لکھی ہیں۔ امام مظہر بیگنا اسٹیٹ کے جاگیردار اور برطانوی دور کے ایم. ایل. اے میاں محمد احسن کی مدح میں کہتے ہیں:
فراخ دل اور کشادہ دامن
جنابِ احسن، جنابِ احسن
کرم نگاہی، غریب پرور
سخاوتوں کا عظیم پیکر
مدرسہ اسلامیہ غوثیہ صوفیہ بیگنا کے ولی صفت استاد اور جید عالم مولانا جلیل الرحمن قاسمی (کٹیہار) جب سبک دوش ہوئے تو الوداعی جلسے میں امام مظہر نے ایک پر سوز الوداعی نظم پڑھ کر سب کو رلا دیا، اس رقت انگیز نظم کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:
خلوص و محبت میں دامن کشادہ
صداقت، شرافت کا اوڑھے لبادہ
یہ صورت ہمیں یاد آتی رہے گی
یہ تصویرِ سیرت رلاتی رہے گی
اسی طرح سیمانچل کی ادبی تاریخ مرتب کرنے میں بے پایاں خدمات انجام دینے والے بزرگ شاعر، ادیب، افسانہ نگار اور محقق و نقاد پروفیسر احمد حسن دانش مرحوم کی زندگی میں ہی انھیں محبتوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے کہا:
انھیں کے فیض سے دھرتی سخن کی رنگ لائی ہے
سخن ور کو سنورنے کی ادا اس نے سکھائی ہے
وہ اپنے ہم عصر مولانا غلام محمد یحیٰ علیہ الرحمہ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ وہ ان کے قلبی و روحانی رفیق تھے۔ ان کا بچپن اور لڑکپن ہی ساتھ نہیں گذرا بلکہ مدرسہ، خانقاہ اور سماج سدھار کرانتی سمیتی کے ہر موڑ پر ہمیشہ ہم قدم و ہم راز رہے۔ ان دونوں میں شعر و ادب کی بنیاد پر بھی گہری رفاقت تھی۔ امام مظہر نے اپنے ایک طویل مضمون میں غلام محمد یحیٰ کی شخصیت اور خدمات کا مفصل احاطہ کیا ہے۔ وہ اپنی ایک نظم میں غلام محمد یحیٰ کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
مثالی عالم، بلا کا عاقل
ادیب و شاعر، خطیبِ کامل
منارِ دانش، چراغِ محفل
پیامِ حق پر سراپا مائل
عظیم ہستی، مزاج اعلیٰ
غلام یحیٰ، غلام یحیٰ
میں نے امام مظہر کا جتنا کلام دیکھا اور سنا ہے اس بنیاد پر میرا خیال ہے کہ ان کے یہاں شعر و سخن کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ گر چہ بہ وجوہ انھیں برگ و بار لانے کا وہ موقع میسر نہ آ سکا۔ آخر میں ان کی ایک ایسی غزل پیش کرتا ہوں جس کو میں نہ صرف انھیں کا نمائندہ کلام سمجھتا ہوں بلکہ بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ عہد ِحاضر کے تمام تر آسیب اور آشوب کو اپنی سرشت میں سمو لینے والی شاہ کار غزلوں میں سے ایک ہے:
آفتابِ زندگی کی دھوپ میں جلتا رہا
میں ہمیشہ رنج و غم کی راہ پر چلتا رہا
خونِ دل، خونِ محبت اور خونِ آرزو
حادثہ در حادثہ غم پھولتا پھلتارہا
خوب رو، دلکش ادا، مخمور آنکھوں میں غرور
ایک سایہ سا تصور میں کہیں ڈھلتا رہا
کتنی وحشت ناک تھی مظہر وہ شامِ آتشیں
جس کے شعلوں میں تمدن کا بدن جلتا رہا
اس غزل میں اعلا شعریت کا وہ کون سا عنصر ہے جو بدرجۂ اتم موجود نہیں؟ استعارہ، داخلی کرب، بلندیِ تخیل اور بلا کی وحشت خیزی ایک ایک شعر کو آتش فشاں بنا دیتی ہے۔ میں ان تمام بنیادوں پر امام مظہر کو بیگنائی تہذیب کا شاہ کار بشری پیکر تصور کرتا ہوں اور یہ حسرت بھی رکھتا ہوں کہ کاش اس مرنجاں مرنج، زرخیز علمی، ادبی، روحانی اور خدمت اساس تہذیبی گہوارے کی از سر نوبازیافت ہو سکے۔
***
خالد مبشر کی گذشتہ نگارش:

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے