نئی فیکٹری (گیارہواں باب)

نئی فیکٹری (گیارہواں باب)

ذاکر فیضی 
نئی فیکٹری (پہلا باب)
نئی فیکٹری (باب دوم و سوم)
نئی فیکٹری (باب چہارم تا ہشتم)
نئی فیکٹری (باب نہم تا دہم)

(11)

معراج کے گھر پر آج کی میٹنگ میں ایک ساتھی اور بڑھ گیا تھا۔
پترکار مانو پہلی بار اس محفل میں شریک تھا۔ مانو کو پنکی کے اغوا سے لے کر بھکاری تک کی اسٹوری بتائی گئی۔
”دوستو! مانو اور میں پہلے ایک ہی اخبار میں کام کرتے تھے۔ بہت ایماندار آدمی ہیں۔ اگر یہ چاہتے تو میڈیا کے بڑے سے بڑے چینل یا اخبار میں جاکر اپنا شاندار کیرئر بنا سکتے تھے۔ موٹی تنخواہ حاصل کر سکتے تھے۔ ودیشوں کی یاترا کر سکتے تھے۔ مگر ایمانداری کے کیڑے اور دیش بھکتی کے جراثیم نے ان کو کاٹ رکھا ہے۔ یہ اپنے ملک کے لیے کُچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جو ملک کو ترقی، کامیابی اور اونچائی کی طرف لے جائے۔ ہمارا ملک کسی’سپر پاور‘ کا محتاج نہ ہو۔۔۔۔ اور جو چند چوکڑی بھر چنڈال اپنی خود غرضیوں میں دیش کو تباہ کر رہے ہیں، ان کا’ہلّا بول، پول کھول‘ کر سکیں۔ بہت بہادر آدمی ہیں۔ دوستو، میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ فلموں میں اکثر دکھایا جاتا ہے کہ گرل فرینڈ یا بیوی ان مردوں، لڑکوں پر جان دیتی ہیں جو بہادر ہوتے ہیں۔ ایماندار ہوتے ہیں۔ مگر یہ مانو صاحب ہیں، ان کی بیوی صرف اس لیے ان کو چھوڑ کر چلی گئی کہ ان کی ایمانداری اور بہادری ان کی سمجھ کے حساب سے اوّل درجے کی بے وقوفی ہے۔ اور ہمارے مانو صاحب ہیں کہ اپنے اصولوں سے سمجھوتا کرنے کو تیار ہی نہیں۔ ان کی بارہ سال کی بیٹی ہے۔ یہ اکیلے ہی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ بیوی صاحبہ نے تو اپنی الگ دنیا بسا لی ہے۔ اپنی سوچ کے لوگوں میں۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔۔۔ اب آپ لوگ مانو صاحب سے ملتے رہیں گے اور ان کی اور بہت سی خوبیاں آپ کے سامنے آتی رہیں گی۔“
ابھے کی بات جب مکمل ہو گئی تو مانو بولا: ”اوہ مائی گوڈ، ابھے یار تو نے تو مجھے ایک دم جھاڑ پر چڑھا دیا۔۔۔۔ دوستو، بس اس کو ایسے ہی تعریف کرنے کی عادت ہے۔“
سب لوگ ہنس پڑے۔ معراج بولا: ”کچھ بھی کہیں آپ مانو صاحب، ہمارا ابھے جھوٹ نہیں بولتا۔“ ہنسی، مذاق کے ساتھ چائے کا دور چلتا رہا۔ مانو نے گھڑی دیکھی اور بولا: ”بھئی معافی کے ساتھ عرض ہے کہ اب اصل مدعے پر آجائیں تو بہتر ہے۔ کیوں کہ دنیا کی سب سے قیمتی چیز آپ جانتے ہی ہوں گے کیا ہے۔“
معراج کے علاوہ سب بولے: ”وقت!“
وقت لفظ سن کر اچانک معراج کھڑا ہوا اور دیوار پر لگی گھڑی کو گھور نے لگا۔
جب وہ دو تین منٹ تک دیوار سے واپس نہیں آیا تو علی نے ابھے کو اشارہ کیا۔ ابھے تیزی سے اٹھا اور معراج کے پاس جاکر بولا: ”ارے یار معراج چلو۔۔۔بات شروع کرنی ہے۔ کیا حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ مشورہ دو بھئی۔۔۔۔“ ابھے کی اس بات پر معراج بولا: ”آں۔۔۔ہاں۔۔۔ہاں چلو۔۔۔“
کل اتوار تھا۔ دیپا کی بھی اسکول کی چھُٹی تھی۔ اس لیے وہ بھی اطمینان سے بیٹھی صلاح مشورے میں شامل تھی۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ کافی سوچ، بچار، صلاح مشوروں اور کئی ترکیبوں اور تدبیروں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے آخر یہ فیصلہ ہوا کہ سب سے پہلے مانو گلابی کلب پر اسٹوری کرنے کے بہانے سے وہاں جائے گا۔ وہاں کے منیجر سے دوستی کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور کسی دن باتوں ہی باتوں میں ابھے کی بے روزگاری کا ذکر کرکے اس کو وہاں نوکری دلانے کی کوشش کرے گا۔
اس دوران باقی سب لکڑی کے کارخانے ’پرکاش فرنیچر‘ میں اپنے طریقے سے اپنی پکڑ بنانے کی ترکیب لگائیں گے۔
سب لوگ اس بات پر متفق تھے۔ اور امید کی جارہی تھی کہ اس میں ضرور کامیابی ملے گی۔ دیپا نے بھی اپنی رضا مندی دے دی تھی کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنی نوکری چھوڑ کر گلابی کلب میں کام کرے گی۔ قیاس یہ لگایا جا رہا تھا کہ مردوں کے مقابلے لوگ عورتوں کی باتوں میں جلدی آجاتے ہیں۔ بس ایک بار گلابی کلب تک پہنچ جائیں۔
دیپا پہلی بار علی کے فلیٹ میں اس ارادے سے آئی تھی کہ آج یہیں رُکنا ہے۔ وہ سوچ رہی تھی، انسان جو سوچتا ہے، ویسا ہی ہو جاتاہے۔ آج سنیچر تھا۔ وہ صبح سے علی سے ملنے کو بے چین تھی۔ پورے پانچ دن کے بعد وہ آج علی سے ملی تھی۔
آج گھر سے نکلتے وقت اسے لگا کہ کہیں آج واپسی میں دیر نہ ہو جائے اور وہی ہو، اتنی دیر ہوگئی تھی کہ اب اس کا گھر جانا مناسب نہیں تھا۔ دادی گہری نیند میں ہوں گی۔ اس لیے دیپا، علی کے ساتھ چلی آئی۔
علی نے گھر کا دروازہ کھولا اور ایک طرف کو ہٹ گیا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ دیپا سے کیا کہے۔ جب کہ دیپا سوچ رہی تھی۔ کیا ہم دونوں میں سے کسی کو بھی نیند آپائے گی۔‘
رات کے دو بج چکے تھے۔ دونوں کو بھوک کا احساس ہو رہا تھا مگر دونوں اس بات کاذکر نہیں کر رہے تھے۔ وہ تو یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ آپس میں کیا باتیں کریں۔ دو کمروں کا یہ فلیٹ جس میں بیڈ صرف ایک ہی روم میں تھا۔ بیڈ روم میں پہنچ کر علی نے دیپا کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ ”مجھ سے ڈر تو نہیں لگ رہا۔“
دیپا کُچھ نہ بولی صرف مسکراتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
علی نے کہا: ”مجھے تو بھوک لگنے لگی ہے۔ کافی پیوگی۔“
دیپا فوراََ کھڑی ہو گئی۔ ”میں بناتی ہوں کافی آپ پہلے فریش ہو لو۔“
علی کو دیپا کی یہ بات اچھّی لگی۔ وہ مسکرایا۔ ”محترمہ، آپ میری مہمان ہیں۔ بیٹھ جایئے، میں کافی بناتا ہوں۔“
دیپا یہ سن مایوسی سے بیٹھ گئی۔ کُچھ نہ بولی۔ علی فوراََ اس کے احساس کو سمجھ گیا۔
علی نے کہا: ”دیکھو اگر کافی بنانی ہو تو ایک شرط ہے۔“
شرط لفظ سن کر وہ چونکی۔ اس نے نظریں اُٹھائیں اور دھڑکتے دل سے علی کی طرف دیکھا: ”شرط؟۔۔۔کون۔۔۔کون سی شرط؟“ اس کی زبان لڑکھڑائی۔
علی کو محسوس ہوا جیسے اس نے کوئی غلط بات کہہ دی ہے۔ اپنی جھینپ کو چھپاتے ہوئے بولا: ”یہی شرط کہ فرج میں بریڈ بھی ہے۔ سلائس بھی تیار کرنے ہوں گے۔۔۔“ دیپا مسکراتی ہوئی اُٹھی اور کچن میں چلی گئی۔
دیپا کے کچن میں جانے کے بعد، چند منٹ علی بستر پر ایسے ہی بیٹھا رہا۔ دیپا کا سراپا اس کی نگاہوں میں گھوم رہا تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی بے حد پُرکشش لگ رہی تھی۔ علی کا جی چاہا کہ وہ بنا آواز کیے، کچن میں جائے اور دیپا کو پیچھے سے اپنی بانہوں میں بھر لے۔
علی من ہی من بڑبڑایا۔ ’علی یہی موقع ہے۔ آج تو اپنی محبت کا اظہار کر ہی دے۔ وہ بھی تو تُجھ سے پیار کرتی ہے۔ موقع بھی ہے، محل بھی ہے۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔
مگر یہ خیال اس نے اپنے ذہن میں زیادہ دیر رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ سوچا، ’کہیں، دیپا اس کو غلط انسان نہ سمجھے۔‘ وہ کشمکش کا شکار تھا۔ اُس نے اپنے ذہن کو جھٹکا اور وارڈ روب کی طرف بڑھا۔ لوور اور ٹی شرٹ نکالی۔ دیوار پر ٹنگی تولیہ کو اُتارتا ہوا باتھ روم کی طرف چل پڑا۔
باتھ روم جاتے جاتے اس نے چوروں کی طرح کچن میں جھانکا۔
دیپا بریڈ سینک رہی تھی۔ ہلکی آواز میں گُنگنا رہی تھی۔ اس کی پیٹھ علی کی طرف تھی۔ دیپا کی سڈول گردن اور بازو اسے بہت پُر کشش لگے۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک قدم کچن میں رکھا اور بولا:
”دیپا، میں نہانے جا رہا ہوں۔ میرے بعد آپ نہا لینا۔ پھر ساتھ میں ناشتہ کریں گے۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے نا۔۔۔“
دیپا کے ہاتھ رُک گئے۔ اس کو اپنے سارے جسم میں گُدگدی سی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی گردن گھمائی۔ علی کی طرف دیکھا۔ تھوڑا شرارت سے بولی:
”جو حکم سرکا ر کا۔“
یہ سُن کر علی دیپا کو غور سے دیکھنے لگا۔ دیپا بھی اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔ چند منٹ دونوں ایک دوسرے کو ایسے ہی نہارتے رہے۔ اچانک دیپا کو جلنے کی بو آئی۔ بریڈ جل رہی تھی۔ وہ تیزی سے پلٹی۔ ہاتھ میں پکڑا چمچہ چھوٹ گیا۔
جلتے بریڈ کو ہاتھ سے اُٹھانے کی کوشش میں اس کی دو انگلیاں جل گئیں۔ وہ اُچھل کر پیچھے ہٹی۔ حلق سے ہلکی سی چیخ نکلی۔
علی دیپا کے پلٹنے سے باتھ روم کی طرف جانے لگا تھا، برق رفتاری سے گھوما اور دیپا کی جلی ہوئی انگلیوں کو بنا سوچے سمجھے اپنے مُنھ میں لے کر چوسنے لگا۔ دیپا اپنی تکلیف بھول گئی۔ وہ فوری طور پر اپنا کوئی ری ایکشن نہ دے سکی۔ بس یک ٹک پیار سے علی کو دیکھتی رہی۔ علی نے نگاہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو دیپا نے شرما کر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔
علی بولا: ”سوری۔“
دیپا تیزی سے پلٹی اور گیس بند کرنے لگی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئی تھیں۔ وہ صرف اتنا بول پائی: ”علی جاکر نہالو۔۔۔“
علی نے زمین پر گر چکی تولیہ اور کپڑے اُٹھائے۔ باتھ روم جانے کا ارادہ کیا۔ مگر تولیہ اور کپڑے کچن کی سلیپ پر رکھ دیے۔ چند سیکنڈ وہ دیپا کے پیچھے کھڑا رہا۔ دیپا کی زلفوں کی مہک کو اپنے دل و دماغ میں بھرتا رہا۔ دیپا بھی علی کے احساس کی خوشبو کو اپنے تن میں اترتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ علی کی گرم سانسوں کو اپنی گردن پر محسوس کر رہی تھی۔
علی نے غیر ارادی طور پر اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے، دیپا کو پیچھے سے اپنی باہوں میں بھر لیا۔ اور بولا:”دیپا، چلو ساتھ میں نہاتے ہیں۔“
یہ سُن کر دیپا تیزی سے گھومی اور دونوں ہاتھوں سے علی کا چہرہ پکڑ کر اپنے لرزتے لب علی کے پیاسے ہونٹوں پر رکھ دیے۔
***
’گلابی کلب‘ شہر کی آبادی سے تھوڑا دور بنایا گیا تھا۔مانو جب گلابی کلب پہنچا تو صدر دروازے سے ایک سیکیورٹی گارڈ دوڑتا ہوا آیا اور ذرا حقارت سے بولا: ”کہاں جاتا ہے رے بھائی!“
مانو نے کہا: ”یہ گلابی کلب ہے نا؟“
”ہاں۔۔۔۔مگر تیرے کو کہاں جانا ہے؟“
”مجھے گلابی کلب ہی جانا ہے۔“
گارڈ نے تیکھے لہجے میں پوچھا: ”ممبر شپ کارڈ ہے آپ کے پاس۔“ کُچھ سوچ کر گارڈ ’تیرے‘سے’آپ‘ پر آگیا۔
”نہیں ممبر نہیں ہوں میں گلابی کلب کا۔“ گارڈ نے تھوڑے غصّے سے کہا: ”کیا کام ہے رے بھائی، تیرے کو گلابی کلب میں۔۔۔۔۔ اگر کسی کام وام کی تلاش ہے، یہاں کوئی کام وام نہ رے بھائی۔“ گارڈ نے پھر سے اپنا لہجہ بدل لیا۔
مانو نے نرمی سے کہا: ”نہیں نہیں آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میں ایک جرنلسٹ ہوں۔۔۔ مطلب اخبار والا۔۔۔۔ آپ کے کلب پر کُچھ لکھنا چاہتا ہوں۔“
گارڈ مانو کے اخبار والا ہونے سے متاثر ہوا اور اس کو ہاتھ کے اشارے سے کلب کے باہر بنے گارڈ روم میں لے گیا۔ جہاں اس نے اپنے ساتھی سے بات کی۔ دوسرے گارڈ نے فون اٹھاکر کلب کے منیجر کو اطلاع دی۔
منیجرنے طلب کیا۔ گارڈ مانو کو ساتھ لے گیا اور منیجر کے دفتر میں داخل ہو کر اشارے سے کہا: ”وہاں، صاحب سے مل لیجئے۔“
منیجر کو تشویش تھی کہ کوئی اخبار والا یہاں کیسے آگیا۔ مانو نے منیجر کو بتایا کہ اس نے گلابی کلب کا بہت نام سنا ہے۔
منیجرسٹپٹایا۔ ”مطلب؟ کیا نام سنا ہے۔آپ نے۔۔“
” میں نے آپ کے کلب کا بہت نام سنا ہے کہ آپ کے یہاں بہت شاندار سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور آپ کے کلب کے ممبران میں نامی گرامی شخصیات ہوتی ہیں۔ بہت ہائی پروفائل ہے آپ کا کلب۔۔۔ وی آئی پی۔۔ بلکہ وی وی آئی پی۔“
منیجر بولا: ”مگر ہمارے یہاں آپ ممبر نہیں بن سکتے۔۔۔اس کے لیے۔۔۔“
اس سے پہلے منیجر اپنی بات پوری کرے۔ مانو بولا: ”آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ بھلا میری اتنی حیثیت کہاں کہ میں اس کلب کا ممبر بننے کے بارے میں سوچ بھی سکوں۔۔۔ میں تو معمو لی سا پترکار ہوں، میں تو بس اس لیے حاضر ہوا تھا کہ میں آپ کے کلب پر ایک اسٹوری لکھوں۔۔۔ اس غریب کا اس میں بھلا ہو جاتا۔۔۔ اگر آپ نہیں چاہتے تو۔۔۔ خیر۔۔۔“
”ویسے آپ اس میں کیا لکھیں گے؟“
مانو نے حیرت کا ناٹک کرتے ہوئے کہا: ”بھئی کیا لکھیں گے؟ وہی لکھیں گے جو کلب میں ہے۔۔۔ اب کلب میں کوئی چوری چکاری تو ہو نہیں رہی، جو میں اس کا ذکر کروں گا۔۔۔ بس آپ سب سے بات کی جائے گی اور جو کُچھ کلب میں فیسیلیٹیز ہیں ان کا ذکر ہوگا۔ یہاں کے خوب صورت مقام کی چند تصویریں وغیرہ۔“
”دیکھئے، پترکار صاحب، میں یہاں جوب کرتا ہوں۔۔۔ اس کلب پر آپ اسٹوری لکھنا چاہتے ہیں۔ بہت خوشی کی بات ہے۔۔۔۔ لیکن میں آپ کو اس کی اجازت کلب کے ڈائرکٹر صاحب سے لے کر ہی دے سکتا ہوں۔ اس لیے اگر آپ کل تشریف لائیں، تو بہتر ہوگا۔“
مانونے لاپرواہی دکھاتے ہوئے کہا: ”ٹھیک ہے ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے۔۔۔ خیر۔۔۔ یہ میرا کارڈ ہے۔۔۔ اگر چاہیں تو اس نمبر پر کال کر سکتے ہیں۔۔۔۔“
یہ کہتے ہوئے مانو نے منیجر سے ہاتھ ملایا اور باہر نکل آیا۔
***
دوسرے دن ہی گلابی کلب کے منیجر کا فون آگیا۔ کلب کے ڈائرکٹر نے اسٹوری کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ مانو فوراََ ہی اپنی مہم پر روانہ ہو گیا۔
وہ مسلسل ایک ہفتے تک کلب جاتا رہا۔ اس نے اپنی میٹھی زبان، ہنسنے بولنے کی صلاحیت سے کلب کے کئی ملازمین کے دل میں جگہ بنا لی۔ منیجر سے اس کی خاص دوستی ہو گئی۔ منیجر کو کویتائیں لکھنے کا شوق تھا۔ مانو کو کویتائیں سننے یا پڑھنے کا۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی یقین دلایا کہ اپنے اخبارمیں وہ منیجر کی کویتائیں چھاپے گا۔ مانو نے گلابی کلب پر اسٹوری اپنے اخبار میں نہایت اہتمام سے شائع کی۔ اس نے کلب کے تمام مثبت پہلوؤں پر بات کی۔ منیجر خوش تھا۔
اُس دن گلابی کلب کا منیجر اور مانو ایک بار میں بیٹھے ہوئے ڈرنک کر رہے تھے۔ دائیں، بائیں بیٹھے لوگوں کی باتیں اور ڈرنکس ٹکرانے کا ترنم فضا میں گونج رہا تھا۔ بار کی جس میز پر وہ بیٹھے تھے، وہاں روشنی کم تھی۔
منیجر اپنی کویتائیں سُنا چکا تھا۔ مانو تعریف کے ساتھ ایک بار پھر یہ وعدہ کر گیا کہ وہ یہ کویتائیں اپنے اخبار میں چھاپے گا۔
منیجر نے ڈرنک کی آخری سپ لی۔ اُسے پہلے ہچکی آئی، پھر ڈکار۔ مانو نے دوسری طرف چہرہ کر لیا۔
منیجر بولا: ”سور ی یار۔۔۔۔۔“ وہ سرور میں آگیا تھا۔ یہ اس کا تیسرا پیگ تھا۔ وہ آگے بولا: ”اچھّا یار پترکار مہودے۔۔۔۔“ منیجر نے پہلی بار مانو کو مہودے سے مخاطب کیا تھا۔
مانو سر جھکائے موبائل میں کسی کا میسج پڑھ رہا تھا۔ منیجر کے مہودے کہنے پر اس نے نگاہیں اُٹھا کر غور سے دیکھا۔
وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا: ”یار مانو جی۔۔۔۔۔ مجھے نہ کبھی کبھی آپ پر شک ہوتا ہے۔ آپ جو نظر آتے ہو، وہی ہو یا کُچھ اور۔۔۔۔۔“
”مطلب۔۔۔۔۔“ مانو کی زبان سے صرف ایک لفظ نکلا۔
”کبھی کبھی آپ پر شک ہوتا ہے کہ واقعی آپ کلب میں صرف اسٹوری کرنے آئے تھے یا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر مان لو محض اسٹوری کرنا ہی مقصد تھا تو اب بھی مجھ سے ملتے ہیں آپ، میری کویتائیں جھیلتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ بات مجھے کبھی کبھی ہضم نہیں ہوتی۔۔۔۔“
نشے کی جھونک میں منیجر کا شک اس کی زبان پر آگیا۔
مانو نے چند لمحے ایسا چہرہ بنایا جیسے وہ ناراض ہو، پھر زبردست قہقہہ لگایا۔
”ارے یار آپ کو تو منیجر ونیجر نہیں جاسوس ہونا چاہئے تھا۔۔۔۔۔ بہت گہرائی سے دور تک کی سوچتے ہیں۔“ چند منٹ دونوں کے درمیان خاموشی رہی۔
منیجر شرمندگی سے بولا: ”سوری یار۔۔۔۔ میں تو بس۔۔۔“
”نہیں، سوری ووری کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔“ وہ چند لمحے رُکا۔
ویسے آپ کا اندازہ بالکل صحیح ہے۔۔۔۔ آپ سے میری دوستی کا ایک مقصد اور بھی ہے۔
منیجر چونکا۔ اس کا نشہ ایک جھٹکے میں ہرن ہو گیا۔ اس نے دونوں ہاتھ میز پر رکھے۔ گردن کو آگے بڑھا کر بنا کُچھ کہے، مانو کو شک کی نگاہ سے دیکھا۔
”دیکھو یار، میں جانتا ہوں کہ آپ اپنے کام کے لیے بہت ایماندار ہو۔ مگر کیا ہے کہ میری تھوڑی سی مدد کروگے تو اس میں آپ کا بھی فائدہ ہوگا۔“
منیجر ذرا سا منھ بگاڑ کو بولا: ”میں سمجھا نہیں۔۔۔۔“
”دراصل، یہ اخبار کا کام تو میرا شوق ہے۔ جس کو میں پورا کرتا ہوں۔ اس سے کوئی خاص ارننگ نہیں ہوتی۔ میں گھر کے خرچے پورے کرنے کے لیے لوگوں کو نوکری بھی دلاتا ہوں۔ جس سے مجھے پہلی تنخواہ کی آدھی سیلری ملتی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ کے کلب میں سیلری اچھی ملتی ہوگی، کیوں کہ ہائی پروفائل کلب ہے آپ کا۔ اس لیے میں چاہتاہوں کہ اگر آپ کے کلب میں نوکریاں ہوں تو میں بندے لاکر دوں گا۔ ہم کسٹمر سے ڈیل کریں کہ پہلی تنخواہ ہم لیں گے۔ جس میں آدھے پیسے آپ کے اور آدھے میرے۔۔۔۔۔۔۔“
”اوہ سالا، یہ معاملہ ہے۔“منیجر کُچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر اپنا ہاتھ مانو کی طرف بڑھا کربولا: ”یوں تو گلابی کلب میں بندوں کی ضرورت پڑتی ہی رہتی ہے۔ آج کل بھی کئی پوزیشن خالی ہیں، کئی لوگوں کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ او کے۔ ڈن۔“
”تھینکس، دوست!“
منیجر نے ذرا رازدارنہ انداز میں کہا: ”ایک ایک کرکے بندوں کو بھیجنا۔ کلب میں جانے سے پہلے میں پرسنلی ملوں گا، تاکہ اس کو ساری بات پہلے ہی سمجھا دوں۔“
ڈیل پکّی ہونے کی خوشی میں منیجر نے ویٹر کو بلایا۔ ایک ایک اور ڈرنکس کا آرڈر اور دے دیا۔
منیجر سے ڈیل طے ہونے کے بعد، اسی دن شام کو سارے دوست معراج کے گھر پر جمع ہوئے۔ مانو نے چاروں دوستوں کو خوش خبری سنائی کہ گلابی کلب میں داخل ہونے کا راستہ مل گیا ہے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ کون گلابی کلب میں نوکری کے بہانے سے جاکر وہاں کے راز  جانے گا اور کون پرکاش فرنیچر جائے گا اور کون باہر کے کام سنبھالے گا۔
پانچوں ساتھی کافی دیر بحث و مباحثہ کے بعد آپسی رضامندی سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ابھے اور دیپا گلابی کلب جائیں گے۔ علی پرکاش فرنیچر میں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور معراج اور مانو باہر کا کام سنبھالیں گے۔
***
گلابی کلب تین حصّوں میں منقسم تھا۔ دونوں طرف باغات تھے، جن میں طرح طرح کے پھول اور پھلوں کے درخت تھے۔ سیدھا راستہ آگے جا کر تین سڑکوں میں بنٹ جاتا تھا۔ دائیں طرف دومنزلہ بہت خوب صورت عمارت تھی۔ اس عمارت کو عمدہ طریقے سے بنایا گیا تھا۔ عمارت کانام ’دانا پانی‘ تھا۔ یہ ریسٹورنٹ تھا۔ جس میں سینکڑوں قسم کے لذیذ کھانے نہایت حسین و جمیل لڑکیاں اور کسرتی جسم کے نوجوان لڑکے سرو کرتے تھے۔
سڑک کی دوسری طرف کی عمارت بھی اتنی ہی دل کش اور جاذبِ نظر تھی۔ اس عمارت کا نام ’رونق‘ تھا۔ اس عمارت میں ڈانس فلور تھا۔ پارٹی کے لیے مختلف قسم کے چھوٹے بڑے اور الگ الگ انداز سے بنائے گئے ہال تھے۔ فیشن شو کے لیے ریمپ بنایا گیا تھا۔
سڑک کے ٹھیک سامنے ایک اور عمارت تھی، وہ بھی دو منزلہ تھی۔ عمارت کا نام ’زندگی‘ تھا۔ اس عمارت میں کئی طرح کے سوئمنگ پُل تھے۔ نہانے، اور ’ریلکس‘ ہونے کے لیے مختلف مقامات تھے۔ ساتھ ہی ان ڈور گیمس کا بھی بھر پور انتظام تھا۔ جیسے کیرم، رمی، تاش اور دیگر بہت سے دل چسپ اور رنگ برنگے کھیلوں کا سامان موجود تھا۔۔ اس بلڈنگ کو پار کر کے، بیک لون تھا۔ جہاں کرکٹ، بیٹ منٹن، ٹیبل ٹینس اور اسی طرح کے کھیلوں کی سوویدھا تھی۔ اس کلب کو بنانے والے نے تفریح کے تمام لوازمات کا انتظام کیا ہوا تھا۔
دیپا کی تقرری ’دانا پانی‘ میں ہوئی تھی۔ وہ بحیثیت اسقبالیہ کام کرتی تھی۔ وہ یہ کا م پہلے بھی ایک کمپنی میں کر چکی تھی۔ اب اس کی کوشش تھی کہ جلد یہاں کے ساتھیوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرے۔ پتہ لگائے کہ بقول بھکاری یہاں سے نوجوان لڑکے، لڑکیاں کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔
گلابی کلب میں دیپا کی تقرری کے ایک ہفتے بعد ابھے بھی گلابی کلب میں ملازم ہو گیا۔ اس کی تقرری بابِ زندگی میں ہوئی تھی۔ وہ وہاں کھیل کے سامان کا انچارج تھا۔ اس کا کام تھا کہ جس وقت، جن صاحب کو کھیل کے لیے جس چیز کی ضرورت ہو، وہ وہاں مہیا کرائے۔ جس کے لیے ابھے کو پرانا ملازم ہیلپر کی حیثیت سے دیا گیا تھا۔ دِن، ہفتے اور مہینے گزر رہے تھے۔ دیپا اور ابھے گلابی کلب میں بے صبری سے کسی انہونی خبر کے منتظر تھے۔
دونوں ہی محنت اور ایمانداری سے کام کر رہے تھے۔ ساتھ ہی ان کی خوش اخلاقی اور سب کی عزّت و احترام کرنے کی عادت کی وجہ سے وہ ’گلابی کلب‘ میں مقبول ہو گئے۔
گلابی کلب میں ابھے نے اپنے ہیلپر سے اچھّی دوستی بنالی۔ ہیلپر کلب کے پرانے ملازمین میں تھا۔ ابھے کو یقین تھا کہ وہ ضرور جانتا ہوگا کہ ڈرائیور کہاں گیا؟ یا کلب سے جو نوجوان اچانک کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا راز ہے۔ اس لیے وہ اپنے ہیلپر کو کبھی کبھی گھر پر بھی لے جاتا اور شراب کا دور چلتا تھا۔
دیپا نے شالنی سے دوستی کر لی۔ وہ اکثر کینٹن میں مل جاتی تھی۔ کھاتے پیتے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا جاتا۔ پہلے رسمی باتیں ہوتی تھیں۔ پھر بے تکلفی بڑھتی گئی۔
شالنی ’رونق‘ نام کی عمارت میں استقبالیہ میز پر کام کرتی تھی۔ دیپا کو یقین تھا کہ وہ اپنے مقصدکو حاصل کرنے میں شالنی کی مدد لے سکتی ہے۔
***
مسٹر مال پانی نے گلابی کلب کے منیجر سے گلابی کلب میں نئے بھرتی ہوئے ممبران کی تفصیل مانگی۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ سارے ملازم یا ممبر نوجوان ہوں، جن کی عمر تیس سے  زیادہ نہ ہو اور خوب صورت اور صحت مند ہونے چاہئیں۔
مسٹر مال پانی کی میز پر پچاس ایسے نوجوانوں کی فہرست موجود تھی، جو تیس سال سے کم عمرکے تھے۔ ان میں اکیس لڑکیاں تھیں اور انتیس لڑکے تھے۔ گلابی کلب کا منیجر مسٹر مال پانی کے دفتر میں تھا۔ مسٹر مال پانی نے فہرست غور سے دیکھی۔ ہر ایک لڑکے اور لڑکی کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کیں۔ وہ سب کے تعلق سے تین باتیں ضرور پوچھ رہے تھے۔ اوّل عمر کیا ہے۔ دوم صحت کیسی ہے۔ اور سوم یہ کہ ملازم ہے یا ممبر ہے۔ اگر ممبر ہے تو اس کی فیملی بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ پچاس لوگوں کے بارے میں یہ چاروں سوال کرنے کے بعد مسٹر مال پانی نے بیس لوگوں کو منتخب کیا۔ جن میں بارہ لڑکے تھے اور آٹھ لڑکیاں تھیں۔ اس نے فہرست میں نشان لگا کر کہا: ”مجھے یہ بیس لوگ چاہیے۔ جلد سے جلد ان کو تیار کرو۔۔۔۔ یہ سب ’نئی فیکٹری‘ جائیں گے۔“ ان بیس لوگوں میں دیپا اور ابھے کا بھی نام شامل تھا۔
منیجر نے’گلابی کلب‘ کے تینوں سُپر وائزر کو یہ ذمے داری دی کہ وہ ان بیس لوگوں کو تیار کریں۔
سُپر وائزر نے دیپا کی ذمے داری شالنی کو اور ابھے کی ذمے داری ابھے کے ہیلپر کو سونپی۔ ہیلپر اور شالنی کا کام یہ تھا کہ وہ ان کو سیکس کرنے کے لیے اکسائیں۔ ان کے اندر جنسی خواہش کا دانو پیدا کریں۔
ابھے اس کا شکار آسانی سے ہو گیا۔ اس کے ہیپلر نے رونق عمارت میں کام کر رہی ایسی عورتوں سے تعلقات بنوا دیے، جن کی عمر ’نئی فیکٹری‘ میں جانے کی نہیں رہی تھی۔ جو عیاش عورتیں تھیں۔ جن کو ہر رات نئے نئے مردوں کا چسکا تھا۔ ویسے ہی شالنی نے اپنی یہ کوشش شروع کر دی کہ وہ اپنے مرد دوستوں کے ساتھ دیپا کے ناجائز تعلقات پیدا کر سکے۔
*
ابھے نے بہت سوچ سمجھ کر سارے حالات کو سمجھا اور اسے یہ سمجھتے دیر نہ لگی کہ اس کا ہیپلر کسی مقصد کے تحت اس پر یہ ’محبتیں‘ لٹا رہا ہے۔ وہ خود آگے بڑھنے لگا۔ ابھے نے کینٹین میں بلاکر دیپا کو سمجھایا کہ جو کُچھ میرے ساتھ ہو رہا ہو اگر وہ آپ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے تو آگے بڑھ جانا۔ ہمیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے یہ قربانی بھی دینی پڑے گی۔
کُچھ دنوں بعد ہی دیپا کے سُپر وائزر نے دیپا کو ایک ویڈیو کلپ دکھائی۔ جس میں وہ کلب کے ایک آدمی کے ساتھ سیکس کر رہی تھی۔ منیجر نے اس کو بلیک میل کیا کہ اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو یہ ویڈیو انٹر نیٹ پر اپلوڈ کر دی جائے گی۔
ایسا ہی ابھے کے ساتھ بھی ہوا۔ اس کو شالنی کی جنسی خواہش کو پورا کرنا پڑا تھا۔ جس کی ویڈیو بنالی گئی تھی۔ اس کو بھی مجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ منیجر کی بات مانے۔
ابھے اور دیپا نے دو تین دن رونے، خوف زدہ ہونے اور معافی مانگنے کا ناٹک کیا اور پھر منیجر کی بات ماننے پر راضی ہو گئے۔ اسی طرح باقی لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی تیار کیا جا رہا تھا۔ ان کو سمجھایا گیا تھا کہ جس ’نئی فیکٹری‘ میں آپ کو کام کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ وہاں سیلری پیکج تو شاندار ہوگا ہی ساتھ ہی آپ کو روز نئی نئی لڑکیوں، لڑکوں کے ساتھ مزے لینے کا موقع بھی ملے گا۔
’نئی فیکٹری‘ کے لیے مال کی نئی کھیپ تیار تھی۔ اس کھیپ کو اب گھر جانے کی اِجازت نہیں تھی۔ اُن کو گلابی کلب کے خفیہ کمرے میں رکھا گیا تھا۔ ان سب کو جہاں بھیجا جا رہا تھا۔ وہاں کے اصول سمجھائے جا رہے تھے۔ مگر ابھی بھی کئی بار پوچھنے کے باوجود یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ ’نئی فیکٹری‘ کہاں ہے۔ کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ منیجر صرف اتنا کہتا تھا۔ پریشان نہ ہوں۔ نئی فیکٹری اپنے ہی دیش میں ہے۔ آپ کہیں ودیش نہیں جا رہے ہیں۔ منیجر بھی بھلا کیسے بتاتا۔ اُسے خود اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ کون سی فیکٹری ہے؟ کہاں ہے؟ اس میں کون سا سامان بنتا ہے۔ وہ تو بس گلابی کلب کا غلام تھا۔ مجبور تھا۔ پر اپنی سیلری اورگلابی کلب کی طرف سے ملنے والی سہولیات سے خوش تھا بلکہ بہت خوش تھا۔ ابھے اور دیپا ذہنی کشمکش کا شکار تھے۔ دیپا کو خوف ستا رہا تھا کہ معلوم نہیں کہ اب کبھی علی اور دادی سے ملاقات بھی ہو پائے گی یا نہیں؟ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا اس نے گلابی کلب میں آکر غلط کیا، اسے نہیں آنا چاہئے تھا۔ وہ خود کو زندگی کے خوف ناک موڑ پر کھڑا محسوس کر رہی تھی۔ جہاں ہر طرف سیاہ رات تھی۔ یقین و بے یقینی کی کشتی میں سوار تھی۔ کیا پنکی مل پائے گی؟ کیا ابھے اور وہ مل کر دیش کے دشمنوں کا پردہ فاش کر پائیں گے؟
دوسری طرف ابھے کے خیالات بھی اس کو پریشان کر رہے تھے۔ وہ الگ طرح کی کشمکش کا شکار تھا۔ وہ سوچ رہا تھا۔ آخر گلابی کلب والے لڑکے، لڑکیوں کو کہاں غائب کر دیتے ہیں؟ کیا وہ پورن موویز بنانے کا کاروبار کرتے ہیں؟ یا پھر گلابی کلب کے ریسٹورینٹ میں انسانوں کا گوشت کھانے میں دیا جاتا ہے؟ یا پھر ان کو اپاہج کر کے ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے؟
ابھے اور دیپا دونوں ہی عجیب عجیب شک و شبہات میں مبتلا تھے۔ بہت سے سوالات تھے، جن کے وہ جواب چاہتے تھے۔
***
ابھے اور دیپا کئی دن سے گھر نہیں پہنچے تھے۔ یوں تو ان کے گھر پر ان کا انتطار کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ابھے اپنے دو کمروں کے فلیٹ میں  تنہا رہتا تھا۔ دیپا کے ساتھ اس کی دادی رہتی تھیں، مگر جس روز گلابی کلب میں نوکری جوائن کرنے کا فیصلہ لیا تھا، اس کے دو دن بعد ہی، اس نے دوسرے شہر میں رہ رہے اپنے کزن کے ساتھ دادی کو یہ کہہ کر روانہ کر دیا تھا کہ اس کی نوکری ایک غیر ملک میں لگ گئی ہے۔ اس کے باوجود تین لوگ ایسے تھے، جو بڑی شدّت سے ابھے اور دیپا کے منتظر تھے۔ علی، معراج اور مانو۔
معراج کے گھر پر تینوں دوست اسی مدعے کو لے کر سر جوڑے بیٹھے تھے۔
”اس بات کا تو پہلے سے ہی اندیشہ تھا کہ کسی روز ان دونوں میں سے کوئی نہ کوئی غائب ہوسکتا ہے، مگر دونوں ہی ایک ساتھ غائب ہو جائیں گے۔ کم سے کم میں نے ایسا نہیں سوچا تھا۔“ مانو نے کہا تو علی نے سوال اُٹھایا:
”میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ آخر یہ بندوں کو غائب کر کے، کرتے کیا ہیں ان کا“ 
”بھئی اگر بھکاری کی اسٹوری کو لے کر چلیں تو بھیک منگواتے ہیں۔ لنگڑا یا اندھا کرکے۔ اس کے علاوہ سیکس ریکٹ چلاتے ہو ں گے۔۔۔“ مانو کی یہ بات سن کر علی کھڑا ہو گیا اور بے قراری سے ٹہلنے لگا۔ اسے فکر ہونے لگی۔ طرح طرح کے خدشات ذہن میں گھومنے لگے۔ وہ خود پر غصّہ کرنے لگا۔ مجھے اس کی ضد نہیں ماننی چاہئے تھی۔ دیپاکی جگہ مجھے ہی جانا تھا۔
معراج بے چینی سے بولا: ”بھائی مانو کیسے بھی کر کے مجھے بھی گلابی کلب میں کام پر لگاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
”نہیں معراج۔۔۔۔“ علی فوراََ بولا۔۔ ”اب کے سے میں جاؤں گا، گلابی کلب، آخر ایسے کیسے زندہ انسان غائب ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کہیں مار وار تو نہیں دیتے۔۔۔۔ وہاں کا مالک نفسیاتی مریض ہو۔۔۔۔“
معراج اور علی اس بات پر ضد کرنے لگے کہ کس کو گلابی کلب جانا چاہئے، کس کو نہیں۔
مانو کہنے لگا: ”بھیجنے کو تو میں دونوں کو وہاں بھیج سکتا ہوں۔۔۔۔۔ پر آئی تھنک۔۔۔“ وہ چند لمحے رُکا۔ سر کھجاتے ہوئے بولا: ”معاملہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ایک آدمی گلابی کلب جاؤ اور ایک پرکاش فرنیچر کے لیے کوشش کرو۔۔۔۔۔“
معراج اور علی پھر اس بات پر بحث کرنے لگے کہ کون کیا کام کرے گا۔
مانو نے علی کو الگ لے جاکر سمجھایا: ”معراج اگر ضد کر رہا ہے تو اسے گلابی کلب میں جانے دو۔۔۔۔۔۔ آپ دوسرے کام کی طرف دھیان دو۔۔۔۔۔ معراج کا مزاج الگ طرح کا ہے۔ بات کو سمجھو۔۔۔۔ آپ یہیں رکو۔۔۔ ہم دونوں مل کر یہاں کا کام سنبھالیں گے۔ میں اکیلے سب کُچھ نہیں کر پا ؤں گا۔ میری ایک بیٹی بھی ہے۔ اس کی ذمے داری اکیلے میرے اوپر ہی ہے۔“
علی اس بات کو مان تو گیا تھا۔ مگر اس کا دل و دماغ دیپا کی طرف لگا ہوا تھا۔
جب کہ مانو یہ سوچ رہا تھا کہ جب وہ کلب کے منیجر سے ملے گا۔ معراج کو نوکری دلانے کے لیے تو کیا اسے اس بات کا ذکر کرنا چایئے یا نہیں کہ دیپا اور ابھے گھر کیوں نہیں آ رہے ہیں؟ وہ سوچتا رہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ جب منیجر سے ملاقات ہوگی تو اسی حساب سے بات کی جائے گی۔
***
مانو منیجر سے ملا۔ معراج کی نوکری کی بات ہو گئی۔ معراج کے بائیو ڈاٹا پر لکھے معراج کی ہائٹ اور اس کے وزن کے بارے میں پڑھ کر منیجر خوش ہوا۔ کیوں کے معراج ساڑھے چھے فٹ کا، لمبا چوڑا، صحت مند نوجوان تھا۔ ایسے لمبے چوڑے اور صحت مند لڑکوں کو گلابی کلب میں فوراََ ہی ملازمت مِل جاتی تھی۔
”اچھا ہاں سنو، جن دو بندوں کو آپ نے یہاں بھیجا تھا، ان کی فیملی سے آپ کے پاس کوئی آیا تو نہیں۔۔۔“ منیجر نے مانو سے پوچھا۔
مانو نے چونکنے کا ناٹک کرتے ہوئے کہا:
”نہیں تو۔ کیوں؟۔۔۔۔کوئی خاص بات ہے کیا؟۔۔۔۔۔ کوئی کانڈ وانڈ ہو گیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے میں ان کی فیملی کو نہیں جانتا۔ لوگ ایک دوسرے کے ٹچ یا لنک سے میرے پاس کام کی تلاش میں آ جاتے ہیں۔. ہاں اتنا ہے کہ جس کسی کو بھی میں کام دلا تا ہوں، اس کے بائیو ڈاٹا کی ایک کاپی میں اپنے پاس محفوظ رکھتا ہوں۔ ساتھ ہی اس کو کس کمپنی میں کام دلا رہا ہوں، اس کا بھی ریکارڈ مینٹن کرتا ہوں تاکہ ضرورت پڑنے پر کام آئے۔ کوئی خاص بات ہو تو بتاؤ۔۔۔۔۔“
منیجر نے بے نیازی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔
”بات وات کُچھ نہیں۔۔۔۔۔ بس کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ کلب کے مالک کو کسی کا کام پسند آجاتا ہے، مطلب اس میں کوئی خاص ٹیلنٹ نظر آتا ہے تو بوس اس کا پرموشن کرکے اپنی دوسری کمپنی میں روانہ کر دیتا ہے۔  کبھی کبھی یہ اتنا ارجنٹلی ہوتا ہے کہ۔۔۔۔ ایمپلائی کو اپنے گھر جانے کا بھی موقع نہیں مل پاتا اور فوراََ ہی دوسرے شہر بھیج دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔“
مانو نے ہنستے ہوئے، منیجر سے مذاقیہ انداز میں کہا:
”ابے سالے، تیرا بوس کہیں ایسا ویسا شوق تو نہیں رکھتا، لونڈیا بازی کا، یا وہ گے ہو۔۔۔۔۔۔ یا پھر تُم لوگ کوئی۔۔۔ سیکس ریکٹ چلاتے ہو۔۔۔۔“
منیجر نے اپنا ہاتھ اٹھا کر قہقہہ لگایا اور مانو کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہوا بولا:
”نہیں یار، سیکس ریکٹ ویکٹ کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔ البتہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا بوس گے ہے یا نہیں۔۔۔۔“ اپنی ہی بات پر منیجر زبردست طریقے سے ہنسا۔
”ہاں بھئی، مجھے پہلے ہی بتا دینا۔۔۔۔ کہیں نوکری دلانے کے لیے بندے لاؤں۔۔۔۔ اور بات کُچھ اور۔۔۔۔۔ تیرا تو جانے، میں کسی لفڑے میں پھنسنا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔ میری چھوٹی سی بیٹی ہے۔۔ مجھے اس کی پرورش کرنی ہے۔۔۔ کبھی کسی مصیبت میں پھنسا دے تو۔۔۔۔“
”ارے بھائی، اتنا مت گھبراؤ۔۔۔۔۔ میں بھی فیملی والا ہی ہوں۔“
یہ جُملہ منیجر تیزی سے کہہ کر کھڑا ہو گیا۔
مانو کو موقع مل گیا۔ وہ بھی منیجر سے ہاتھ ملا کر واپس چلاآیا۔
***

***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے