رمضان سے رمضان تک

رمضان سے رمضان تک

مسعود بیگ تشنہ
اندور، ہند

رمضان کی آمد آمد ہے. مسجدوں میں نمازی بڑھتے جارہے ہیں. گھروں میں سونے جاگنے کا نظام بدل گیا ہے. گھر گھر افطاری بن رہی ہے، سحری کی تیاری چل رہی ہے. مسجدوں میں افطاری کی تھالیاں پہنچ رہی ہیں. ریہڑی والے پھل فروٹ لیے گھوم رہے ہیں. کئی نکّڑوں اور چوراہوں پر ریہڑی والے اپنے ٹھیلے لگائے ہوئے ہیں. کوئی پھل فروٹ بیچ رہا ہے تو کوئی کھانے پینے اور تلن کی چیزیں تو کوئی ریڈی میڈ کپڑے تو کوئی مصنوعی زیورات. کچھ دکانیں پرانی ہیں تو کچھ نئی دکانیں کھل گئی ہیں. ٹیلروں کی سستی دور ہونے لگی ہے. چھوٹی بڑی دکانیں اور مال رمضان کے نام پر پرانا اسٹاک خوب سیل کر رہے ہیں. چھوٹی دکان سے لے کر مال تک رمضان سیل چل رہا ہے. کھانے پینے کی چیزوں کے ٹھیلے لگانے والے ادھر ادھر اپنا ٹھیّا بنانے کی جگت میں لگے ہیں. تو کھانے پینے کی نئی دکانیں بھی جگہ جگہ کھل گئی ہیں. ان سب کی رونق بڑے بازاروں کی رونق سے ٹکّر لیتی دکھ رہی ہے. ایسی رونق چھوٹے و بڑے بازاروں میں افطار اور سحر کے وقت عروج پر ہوتی ہے. ایسی رونق نہ صرف قابلِ دید ہوتی ہے بلکہ قابلِ شکم بھی ہوتی ہے. فقیروں کی ٹولیوں، مانگنے والوں، مدرسے والوں اور مسجد والوں نے پورے ماہ کا خیر خیرات، فطرہ، زکوٰۃ کا وصولی نظام ترتیب دینا شروع کر دیا ہے. کیا نزدیک کیا دور، مدارس کے سفیر کے سفیر چلے آ رہے ہیں.
خیرات، فطرہ اور زکوٰۃ مانگنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ایک گیا تو دوسرا آیا. کیا مسجد کیا گھر سب طرف مانگنے والوں نے گشت بڑھا دی ہے. ان کی گشت تبلیغی جماعت والوں کی گشت سے ٹکر لیتی نظر آ رہی ہے بلکہ ان پر سبقت لے جاتی نظر آ رہی ہے. گھروں سے رکابی میں یا تھالی بھر کر افطاری مسجدوں میں پہنچائی جا رہی ہے. یہ لیجے پہلا عشرہ تمام ہوا.
دوسرے عشرے میں مسجدوں اور رہائشی علاقوں میں ایمانی جوش بڑھ گیا ہے تو بازاروں میں خرید و فروخت بڑھ گئی ہے. چندے والوں کی ٹولیوں کی پھیریاں بڑھ گئی ہیں. مسجدوں میں اپنے اپنے مسلک والے مدرسوں کی تصدیق کر خیرات، زکوٰۃ، فطرہ لینے کی اجازت دی جا رہی ہے. کہیں مہاجر روہنگیائی مسلمان صدقہ و خیر خیرات طلب ہیں تو کہیں کشمیری مسلمان مدد کے خواستگار.
یہ لو دیکھتے دیکھتے تیسرا عشرہ بھی آ گیا. اللہ والے تنہائی میں کونوں میں طاق راتوں کی تلاش کر رہے ہیں تو عام نمازی بھی زیادہ سجدہ ریز ہو گئے ہیں. مسجدوں کی سجاوٹ بڑھادی گئی ہے. مسجد مسجد لنگر گلی گلی افطار. بازار سج گئے ہیں گویا عید بازار ہو گئے ہیں. یہ لو چھبیس واں روزہ ختم اور قرآن ختم! پہلے روزے سے ختم قرآن تک مسجد کے اماموں کے روح پرور بیان! پرہیزگاری کی تلقین! ختم قرآن!! کہیں تراویح میں پڑھے گئے پاروں کا خلاصہ تو کہیں جمعے کے بیان میں زکوۃ کے مسائل کا بیان! کہیں یوم القدس منایا جارہا ہے تو کہیں زکوٰۃ کے مسائل بیان کیے جا رہے ہیں. اس بیچ آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع بھی آ گیا. جمعۃ الوداع یوں آیا اور یوں وداع ہو گیا. اور جاتے جاتے نئے نئے بنے نمازیوں کو بھی رلا گیا! یہ لو ستائیس ویں تراویح بھی ختم! اب جوں جوں بازاروں کی رونق بڑھ رہی ہے مسجدوں کی رونق کم ہوتی جارہی ہے. بازاروں میں مردوں سے زیادہ خواتین خریداری کر رہی ہیں. یہ لو بادل کی اوٹ سے عید کا چاند نظر آ گیا. اب تراویح سے چھٹی اور کل کی عید الفطر منانے کی تیاری ابھی مغرب بعد سے ہی شروع! گھروں میں خشک میوے، سیویاں آ گئی ہیں. میوے کاٹے جارہے ہیں. چاند رات رت جگے کی رات ہو گئی ہے. اب ذکر اذکار دور از کار!
…… اب میری بھی بات ذرا کان کھول کر سن لو. چاہے تو دل پر پتھر رکھ کر سنو. رمضان کا نظام یعنی پرہیزگاری کا قیام اور دولت کی تقسیم کا تربیتی انتظام اور معاشرے میں معاشرتی استحکام. پرہیزگاری یعنی حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز کے ساتھ جائز اور حلال کمائی کھلائی اور خوفِ خدا کے ساتھ اچھے کاموں کی رغبت و برے کاموں سے پرہیز. دولت کی تقسیم یعنی حق حلال کی کمائی کے کچھ فی صد حصے کی کم کمائی والوں میں تقسیم اور نیک کاموں کے لیے سرمایہ کی دستیابی اور معاشی استحکام کی کوشش اور نچلے کچلے اور مظلوم طبقات تک سہولیات فراہمی کی سبیل. صدقات، فطرہ و زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے میں اس طرح معاشی استحکام اور دولت کی تقسیم کی کوشش!
…. مگر یہ کیا! حق دار ترسے انگارے برسے! زکوٰۃ لینے والا زکوٰۃ دینے والا نہیں بن پا رہا اور زکوٰۃ دینے والا یا تو جان چھڑا رہا ہے یا وہاں دے رہا ہے جہاں دینے کی ضرورت نہیں یا اسے دے رہا ہے جسے دینے کی ضرورت نہیں. اور تو اور یہ لنگر، یہ افطار پارٹیاں سب کالی کمائی سے چل رہے ہیں، بے چارے سوچ رہے ہیں کہ کالی کمائی کو سفید کرنے کا یہ کارِ خیر پھر کب اور کہاں ملنے والا ہے. ان بے ایمانوں کو کون سمجھائے کہ سفید دھن کو زکوٰۃ سے پاک کرنا ہے نہ کہ کالے دھن کو. مجھے تو غریبوں اور مسکینوں کی بڑھتی تعداد کو دیکھ کر بہت روحانی تکلیف ہو رہی ہے. جس قوم کو دنیا میں مثالی انسانی معاشرہ بن کر ابھرنا تھا وہ قوم غربت و افلاس میں مبتلا اور ذہنی طور پر قلاش نظر آ رہی ہے. مسجدیں جگ مگ کر رہی ہیں اور دل نور سے خالی ہیں.
رمضان سے رمضان تک کا روحانی سفر ختم ہوا. اب شیاطین بھی آزاد ہو جائیں گے اور ہم پھر اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد! شیاطین سے یاد آیا کہ شیاطین تو ماہِ رمضان میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے پا بہ سلاسل ہو جاتے ہیں، ان کی آزادی چھین لی جاتی ہے مگر جہلا اللہ توبہ! ان کی آزادی کو کون چھین سکتا ہے. یہ جاہل نوجوانوں کی ٹولی جو شبِ برات کو چھوڑ کر بارہ مہینے مسجد سے غائب رہتی ہے اچانک ماہِ رمضان میں مسجد میں اپنی آمد سے مسجد کی رونقیں بڑھا دیتی ہے. یہ نوجوانوں کی ٹولی مسجد کی سج دھج کا ذمہ رضاکارانہ طور پر اپنے سر لے لیتی ہے. یہ ٹولی رضاکارانہ طور پر ذمہ کیا لیتی ہے، ذمہ زبردستی لے لیتی ہے. مسجد کے باہر کی سج دھج تو خیر ٹھیک ہے، درونِ مسجد بھی جلنے بجھنے والے ننھے بلبوں کی روشنیوں کی جھالریں محرابوں میں اور یہاں وہاں لگا دی جاتی ہیں. ان جھالروں کے بلب نمازیوں کی ذہنی یکسوئی میں خلل ڈالتے ہوئے ایسے جلتے بجھتے ہیں گویا وہ ان رضا کار نوجوان جہلا کی عقل پر رو رہے ہوں یعنی بجھ رہے ہوں. چلو بھئی تم نے میری سن لی اب تم بھی اپنی سناؤ اور اپنی بھڑاس نکالو!
(11 اپریل 2024 ،اِندور ،انڈیا) 
مسعود بیگ تشنہ کی گذشتہ نگارش:بیمار ہوں تو اے رحمان جیسے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے