عبدالرحمٰن
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
دہلی- این سی آر
Email: rahman20645@gmail.com
الحمدللہ، مسلمان ہی نہیں، غیر مسلم حضرات بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ رمضان المبارک اللہ رب العالمین کی بے پایاں رحمت اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ اس بابرکت مہینے کے دوران ہمہ وقت برسنے والا ربانی فیضان کسی نہ کسی شکل میں سبھی انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔ قرآن مجید کے نزول کی ابتدا اور اطاعت کے ضمن میں روزے جیسی منفرد عبادت کے حکم کو اسی پاکیزہ مہینے سے وابستہ کر دیا جانا رمضان المبارک کی اہمیت اور اس کے تقدس کی واضح دلیل ہے۔ اس کے تیسرے اور آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کے وارد ہونے کی خوش خبری اور نمازیوں کو اعتکاف کی شکل میں اپنے رب کی قربت حاصل کرنے کا سنہری موقع مسلمانوں میں الگ قسم کا جوش و خروش پیدا کر دیتا ہے۔
پورے ایک مہینے تک صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکھے جانے والے روزوں کے درمیان مسلمانوں کو اپنی ان بنیادی جبلتوں پر مکمل کنٹرول کرنے کا حکم خود ان کے رحمٰن و رحیم پروردگار کی جانب سے صادر کیا جاتا ہے، عام حالات میں جن کے بغیر رہ پانا انسان کے لیے ممکن نہیں۔ روزوں کی ادائیگی کے دوران جائز اور حلال چیزوں پر بھی پابندی عائد کردینا، اللہ تعالیٰ کے پیش نظر اپنے بندوں کو متقی بنانا ہے۔ صاحب تقویٰ انسان بہترین انسان ہوتا ہے۔ دنیا میں بھی اس کو سچی سرخروئی حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں حاصل ہونے والی جنت تو خاص طور پر متقی ایمان والوں کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔ اطاعت کی اسی نوعیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنے روزہ دار بندوں کو روزے کی عبادت کے لیے اجر و ثواب کے اپنے کسی قانون کا پابند نہیں کیا ہے، بلکہ اس کا نعم البدل خود اپنی حیثیت اعلا کے مطابق اپنے پاس سے عنایت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
ماہ رمضان المبارک میں، مسلمان روزے کے تقدس کو بنائے رکھنے کی سعی کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، مگر انسانی کم زوری کے پس منظر میں روزے کی روح کے مطابق اپنے اخلاق و کردار کو بلند سطحی پاکیزگی سے ہم کنار رکھ پانے میں لغزش اور مختلف قسم کی کوتاہیاں کرتے ہوئے بھی دیکھتے جا سکتے ہیں۔ انھی کوتاہیوں کے مشاہدے پر مبنی مختصر نوعیت کے تین مضامین مندرجہ ذیل عناوین کے ساتھ پیش خدمت ہیں:
* تراویح کی نماز اور قرآن پاک سننے کے ضمن میں بڑھتی ہوئی بے اعتنائی
* تراویح پڑھانے والے حفاظ کرام کو بائیک/کار جیسے تحائف دینے کا ابھرتا رواج
* عید کی شاپنگ
تراویح کی نماز اور قرآن پاک سننے کے ضمن میں بڑھتی ہوئی بے اعتنائی
اس متعلق کہ تراویح کی نماز کس طرح ادا کی جائے اور قرآن مجید کو سننے میں کیا آداب ملحوظ رکھے جائیں، سوشل میڈیا پر کسی صاحب علم کا ایک نصیحت آمیز مضمون پوسٹ کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے: "رمضان میں تراویح کا قتل" اور ذیلی سرخی کے طور پر لکھا گیا ہے: "ہماری مسجدوں میں جو تراویح ہو رہی ہیں مجھے اس پر ڈر ہے کہ اس پر ثواب کم اور عذاب زیادہ ہے." بعد ازاں، موقر مصنف اپنے مضمون کی شروعات اس طرح کرتے ہیں: "قرآن کا مذاق ہو رہا ہے۔ جس تیز رفتار سے قرآن پڑھا جاتا ہے یہ کوئی طریقہ ہے قرآن پڑھنے کا …"
مگر پورے مضمون میں کہیں بھی، نماز و قرآن کے آداب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، مذکورہ عمل کی ادائیگی میں ہونے والی بے اعتدالی اور کوتاہیوں کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ مضمون نگار نمازیوں سے بہت ساری صالح امیدیں وابستہ کیے ہوئے تو نظر آتے ہیں، لیکن وہ اس حقیقت کا ادراک حاصل نہیں کر پارہے ہیں کہ مسلمانوں کی مسجد کے اندر اور مسجد کے باہر موزوں تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ امیدیں پوری نہیں ہورہی ہیں۔ زیر نظر تحریر میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں کے پس منظر میں کارفرما وجوہات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
فی الوقت، نماز تراویح کی ادائیگی اور اس میں قرآن ختم کرنے کی رسم رمضان المبارک میں زیادہ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے انجام پاتی ہوئی نظر آتی ہیں، اللہ رب العالمین کی رضا حاصل کرنے کے لیے نہیں؛ جب کہ بلند سطحی اجر و ثواب کا حصول اپنے پروردگار کی فرماں برداری اور اس کی رضا میں جینے پر ہی ممکن ہے۔ اس لیے، اس نہج پر سنجیدگی پیدا ہونے کی صورت میں مسلمانوں کے لیے تھوڑا قرآن پڑھنا اور سننا بھی کافی ہوسکتا ہے۔ یقیناً، زیادہ ثواب حاصل کرنے کی دوڑ میں آخرت کی کامرانی پیش نظر ہوتی ہے، مگر عمل میں غیر سنجیدگی مطلوبہ ہدف تک پہنچنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
اخروی زندگی کو کام یاب بنانے کا انحصار عمل کی تعداد پر نہیں، بلکہ عمل کی پاکیزگی پر ہے۔ یہاں زیادہ عمل کی تردید مقصود نہیں ہے۔ یہاں جو بات واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ عمل مقدار میں زیادہ ہو یا کم اس کا بارآور ہونا تبھی ممکن ہے جب خلوص نیت اور پاکیزہ حرکات و سکنات بھی اس سے وابستہ ہوں۔ مثلاً، تراویح کی نماز اور اس میں امام صاحب کے بہ آواز بلند قرآن پاک پڑھنے کو توجہ کے ساتھ سننا صرف اللہ رب العالمین کی خوشنودی کے لیے ہو، نہ کہ معاشرے میں نام و نمود حاصل کرنے کے لیے۔
اسی کے ساتھ، یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ معاشرے میں طرح طرح کے مذہبی بگاڑ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب عوام کے درمیان "نوافل" کو "فرائض" کی طرح لازم کردیا جاتا ہے۔ یہود کے گمراہ ہونے میں یہ وجہ بھی شامل ہے کہ وہ حرام و حلال کے متعلق اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کے مرتکب تھے۔ لازم سمجھنے کی وجہ سے، بیشتر لوگ تراویح کی نماز اور اس کے اندر قرآن پاک سننے کا فریضہ تو ادا کرنا چاہتے ہیں، مگر عدم استطاعت اور ذہنی طور پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے اس میں لگنے والے وقت اور ہونے والی مشقت کا تحمل نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً، دائیں بائیں الگ الگ قسم کے بگاڑ پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔
مثلاً، ہمارے معاشرے میں 10 دن، 5 دن یہاں تک کہ 3 دن میں پورا قرآن پاک سن کر پورے ماہ کے لیے تراویح مکمل کرنے کی غیر احسن روایت شروع ہوگئی ہے۔ جن مساجد میں قرآن مجید کا پڑھا جانا پورا ہو جاتا ہے وہاں کے بہت سارے نمازی مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ان کی نماز تراویح کی ادائیگی مکمل ہوگئی ہے، اور وہ اب رمضان المبارک کی بقیہ راتوں میں تفریح اور عید کی خریداری میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ اس صورت حال نے قرآنی پیغام کا سمجھا جانا تو درکنار، خود قرآن پاک کو اطمینان اور تجوید کے ساتھ پڑھا جانا بھی مشکل ترین امر بنادیا ہے؛ گویا ہر آدمی اس دوڑ میں شامل ہے کہ جلد از جلد تراویح میں کسی بھی طرح قرآن مجید مکمل ہو جائے۔ واضح رہے کہ مسلم معاشرے میں یہ کوئی صالح روایت قائم نہیں ہورہی ہے۔ پیدا شدہ حالات کو جلد از جلد درست کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
موجودہ صورت حال کو درست کرنے کے لیے قوم کے ان معزز علماے کرام اور دانشور حضرات کو جن کی بات مسلم عوام ابھی بھی انہماک کے ساتھ سنتے ہیں، مسلم نوجوانوں تک دین کو کسی مسلکی یا معاشرتی مصلحت کے بغیر پوری دیانت داری کے ساتھ پیش کرنے کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔ مسلم بچوں اور نوجوانوں پر یہ حقیقت واضح کی جانی چاہیے کہ تراویح بہ شمول وتر کی نماز حقیقتاً، تہجد کی نماز ہے جسے عشاء کے بعد پڑھنے کی اجازت مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے حاصل ہوگئی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ تہجد کی نماز مسلمانوں پر فرض نہیں ہے۔ حالاں کہ تہجد کی نماز ایک بے حد اہم نماز ہے، مگر مسلمانوں کے لیے اس کو نفل نماز کی حیثیت میں ہی رکھا گیا ہے۔
بےشک، ماہ رمضان المبارک کے درمیان صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نوافل ادا کرنا بھی بڑے اجر و ثواب اور خیر و برکت کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس جانب مسلم نوجوانوں کو ضرور رغبت دلائی جانی چاہیے تاکہ وہ جتنی بھی فرض اور نفل نمازیں ادا کریں، پورے انہماک اور شوق سے ادا کریں۔ ان شاء اللہ، اس طرح مساجد کا ماحول مزید پاکیزہ اور دیدہ زیب لگنے لگے گا۔ حقیقتاً، مسلمانوں کے صالح اعمال کے ضمن میں اصلی رکاوٹ غیر لازم کو لازم ٹھہرانے میں پوشیدہ ہے۔ بس ذمے دار حضرات کو سنجیدگی کے ساتھ، اس نقطے پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ اولاً مسلمان اپنے بچوں کو صرف "فرض" نماز کا پابند بنانے کی کوشش کریں، اور پھر انھیں موقع و محل کی مناسبت سے نفل نمازوں کی رغبت دلائیں۔ بلاشبہ، یہ حکمت عملی بہترین لائحہ عمل ثابت ہوگی۔
بات کو مزید واضح کرنے کے لیے، ہم مثال کے طور پر، عشاء کی نماز میں سترہ رکعات بیان کرکے اور ادا نہ کرنے پر عذاب کی وعیدیں سنا کر مسلم بچوں کو ڈرا تو سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے محبت اور نماز کے تئیں ان کی دل چسپی میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ تراویح اور وتر کی 23 رکعات کی ادائیگی میں ہونے والی لوگوں کی عدم دل چسپی اور بے اعتنائی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
اپنے پروردگار کو دکھانے کے بجائے، عبادت بھی اپنے گھر والوں اور محلے والوں کو دکھانے اور ان کی داد و تحسین حاصل کرنے کی غرض سے انجام پزیر ہوتی ہوئی نظر آنے لگی ہے، ورنہ نماز تو مسلمانوں کو غیر صالح حرکات سے روکنے والی چیز ہے.
تراویح پڑھانے والے حفاظ کرام کو بائیک/کار جیسے تحائف دینے کا ابھرتا رواج
مسلم معاشرے میں کافی لمبے وقت سے یہ روایت جلی آرہی ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں پڑھی جانے والی تراویح کی نماز میں مکمل قرآن مجید سنانے کی تکمیل کے موقعے پر متعلقہ امام محترم کو آنے والی عید کے پیش نظر اچھے قسم کے کپڑے اور معقول رقم کی شکل میں تمام نمازیوں کی طرف سے خوشی خوشی "عیدی" دی جاتی ہے تاکہ دوسرے خوش حال مسلمانوں کی طرح امام صاحب، ان کے بیوی بچے اور خاندان کے دوسرے افراد بھی خوشی کے ماحول میں عیدالفطر کا تیوہار منا سکیں۔ یقیناً، یہ ایک محمود روایت ہے۔ اس کے جاری رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
لیکن، موجودہ دور کے افراد اپنے ہر کام میں نمود و نمائش کو پسند کرنے لگے ہیں۔ مساجد میں بھی اس طرح کی جھلکیاں نظر آنی شروع ہو گئی ہیں۔ یقیناً، اچھے کام کے اظہار میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے؛ مگر نمائشی ذہنیت اگر مقصدیت میں شامل ہو جائے تو الٹا نتیجہ پیدا کرنے والے حالات بھی نمودار ہو سکتے ہیں۔ کسی مخصوص افادیت کے بجائے، صرف معاشرے میں نمائش اور واہ واہی حاصل کرنے کی غرض سے کیے گئے بہ ظاہر بڑے بڑے کام اور دیے گئے بڑے بڑے تحائف بھی مضر ثابت ہوسکتے ہیں۔ منہگے تحائف دینے والے افراد میں منفرد دکھنے کی چاہت استکبار کی نفسیات پیدا کر سکتی ہے اور دل میں دوسرے افراد سے داد و تحسین حاصل ہونے کی خواہش بھی۔
بلا شبہ، اس طرز کا ذہنی رجحان متعدد قسم کے مسائل پیدا کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔ آج کل، رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں میں اپنے اندر تقویٰ اور پاکیزگی کی مقدار بڑھانے کے بجائے، ظاہری دھوم دھام اور مصنوعی رونقوں کا دائرہ بڑھانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ قرآن مجید کی قرات مکمل ہونے کے موقعے پر، تراویح میں قرآن مجید پڑھنے والے امام صاحب، ان کے پیچھے سننے والے سامع حضرات اور اذان و اقامت کہنے والے موذن صاحب کی خدمت میں کار اور بائیک وغیرہ جیسے قیمتی تحائف دینے کا رواج ابھر رہا ہے۔ پھر کار، موٹر سائیکل اور اسکوٹی وغیرہ کی تصویریں سوشل میڈیا پر شائع کی جاتی ہیں اور متعلقہ مسجد کے مصلیان کی واہ واہی کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔
سنجیدہ غور و فکر کے بعد نظر آئے گا کہ تراویح کی نماز ادا کرانے والے حفاظ کرام کو کار، بائیک جیسے تحائف دینا قابل ستائش عمل نہیں ہے۔ بڑی مقدار میں چندہ کرکے امام صاحب کو لاکھوں روپے کی گاڑی گفٹ کرتے وقت اس سے بھی بڑی ذمے داری کے ادا کیے جانے کو بڑی آسانی سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ سبھی مسلمان اس حقیقت سے واقف ہیں اور عام طور پر اس مقام پر خاموش ہی رہتے ہیں کہ مساجد میں امام و موذن کی تنخواہیں بہت زیادہ قلیل ہیں۔ کئی خوش حال مسلمانوں کے گھروں میں بچوں کو ملنے والی پاکٹ منی (جیب خرچ) بھی امام صاحب کی تنخواہ سے زیادہ ہو سکتی ہے، جب کہ امام صاحب کو ایک پورے خاندان کی کفالت بھی کرنی ہوتی ہے۔
امام و موذن کو کار اور بائیک گفٹ کرنا ان کے لیے چند لمحات کی خوش سے زیادہ کچھ بھی نہیں، کیوں کہ تحفہ قبول کرتے ہی انھیں منہگے پیٹرول اور گاڑی کے رکھ رکھاؤ کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ حقیقتاً، امام و موذن کی یہ خوشی بھی دیرپا ہوسکتی ہے اگر متعلقہ مسجد کے نمازی گاڑی استعمال کرنے کا خرچ اٹھانے کا وعدہ بھی کرلیں۔ الغرض امام و موذن حضرات کو کار/بائیک یا کوئی دوسرا بڑا گفٹ عنایت کرنا ان کی فیملی کو کسی عیش میں مبتلا کر نے کے بجائے مزید تنگ دستی سے ہم کنار کر سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ، کار/بائیک دینے کی پریکٹس کو ہر مسجد میں عام بھی نہیں کیا جاسکتا، اور اس وجہ سے مختلف مساجد اور امام حضرات کے درمیان درجہ بندی وقوع پذیر ہونے لگے گی، جو مزید آگے بڑھ کر آئی پی ایل کی طرز پر اچھے حفاظ کی بولی لگنے کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔
اس طرح، عید کے موقعے پر کچھ معقول رقم دینے کا پرانا طریقہ ہی امام حضرات کے لیے فائدہ مند اور بقیہ افراد کےلیے بھی قابل عمل رہے گا۔ مزید، ایک مشت بڑے تحائف دینے کے بجائے امام کی ماہانہ تنخواہ کم از کم 30 ہزار روپے کردی جائے تاکہ اس کا گھر بھی کسی حد تک فراخی کے ساتھ چلنے لگے۔ اس کے علاوہ، اگر مسلمان اپنی مسجد کے قائد کی عزت افزائی کے طور پر اور عصری تقاضوں کے مد نظر، اس کی تنخواہ 50 یا 60 ہزار روپے مہینہ کردیں تو کیا کہنے.
عید کی شاپنگ
فطرت کے زیر اثر، انسان عام طور پر ہمیشہ اپنی بلند مقامی اور سرخ روئی کا خواہاں رہتا ہے، اور اسی وجہ سے بڑی حد تک خود غرض بھی۔ اسی پس منظر میں، آدمی دوسرے افراد کی فلاح و بہبود کا دھیان رکھنے کی نسبت صرف اپنے کام بنانے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ اخلاقی پستی کے موجودہ دور میں مذکورہ صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔ لوگ اپنے اپنے مفاد میں جینے لگے ہیں۔ نتیجتاً، انسانوں میں ردعمل اور انتقام کی نفسیات قوی تر ہوتی جارہی ہے۔
لیکن، مسلمانوں نے اپنے مذہب (اسلام) سے سیکھا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تنہا اس عظیم کائنات کا خالق و مالک ہے اور وہی جملہ مخلوقات کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کو بھی رزق فراہم کر رہا ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمارے پروردگار نے انسانی دنیا کو اس طرح مزین کیا ہے کہ یہاں کسی بھی انسان کے کسی بھی کام کو انجام تک پہنچانے کے لیے دوسرے انسانوں کا تعاون ناگزیر ہے۔ دنیا میں ہر شخص اپنے معاملات کی بجا آوری میں کسی نہ کسی شکل میں دوسرے اشخاص پر منحصر ہوتا ہے۔ اللہ رب العالمین کے تخلیقی منصوبہ سے واقف ہونے کی وجہ سے، مسلمان دوسرے انسانوں کے تئیں حریفانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے، ان کے ساتھ یک طرفہ خیر خواہی اور حسن سلوک کا معاملہ کرسکتا ہے۔
اوپر مذکور پس منظر میں، ماہ رمضان المبارک کے بعد آنے والی عید کے متعلق کسی مسلمان کا صرف مسلمان دکان داروں سے سامان خریدنے کی تبلیغ کرنا کسی حماقت سے کم نہیں۔ اس طرح کے مشورے اس لیے قابل التفات نہیں ہیں کہ ان کے پس منظر میں، صرف ردعمل اور انتقام کی نفسیات کارفرما ہوتی ہے۔ اس میں خیر کا کوئی پہلو نہیں۔ مسلمانوں کو اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے، ان لوگوں سے زیادہ وسیع النظر ہونا چاہیے جو خود مسلمانوں کی تجارت کا بائیکاٹ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بےشک، مدد و تعاون کا سلسلہ اپنے گھر، عزیز و اقارب سے ہی شروع ہوتا ہے اور پھر معاشرے کے دوسرے طبقات تک پہنچتا ہے۔ اس ضمن میں، ان ترجیحات پر عمل کرنا ایک دم درست فعل ہے۔ لیکن، جہاں تک کاروبار اور دکان داری کا تعلق ہے وہاں پر مال کے اوصاف، قیمت اور دکان دار کی اخلاقیات وغیرہ کو ترجیح ملنی چاہیے، نہ کہ ہندو-مسلمان پہچان کو۔ اس لیے، شاپنگ کی صحیح حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ سامان وہاں سے خریدا جائے جہاں سہی مال سہی ریٹ کے ساتھ ساتھ عزت و احترام کے ماحول میں دستیاب ہو۔
ایسا کرنے سے بازار میں ایمان داری، دیانت داری اور حسن اخلاق کا ماحول پیدا ہوگا، اور معاشرے میں بھائی چارے کو فروغ حاصل ہوگا۔ یقیناً، یہ خصوصیات کسی بھی معاشرے کو صحت مند معاشرہ بنائے رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں، اور "اپنا-پرایا" کرنے سے بدرجہا بہتر بھی۔ چوں کہ اسلام ایک انسان دوست مذہب ہے، اس لیے مسلمانوں کا ذہن بھی بلند سطحی خیر خواہی کا ہونا چاہیے۔ بلا شبہ، انسانی خیر خواہی ایمان کے بعد اسلام کی بنیادی قدر ہے۔
موجودہ دور میں، نفرتی ماحول سے متاثر ہوکر مسلمانوں نے اپنی یک طرفہ خیر خواہی کی صفت اور اس کی سطح میں پستی پیدا کرلی ہے۔ فی الحال، اخلاق و کردار کی یہی پستی مسلمانوں کی موجودہ کم زور حالت کی وجہ بن گئی ہے۔ اپنی زبوں حالی میں کسی کی سازش یا دشمنی کے اندیشے میں جینا، خود کو انسانی ترقی کی دوڑ میں مزید پیچھے کرلینے کے مترادف ہوگا.
[23.03.2025AD=22.09.1446 AH]
***
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:شادی شدہ عورتوں کے مسائل: ایک نفسیاتی اور مشاہداتی تجزیہ

رمضان المبارک کی روشنی میں چند گزارشات
شیئر کیجیے