مسعود بیگ تشنہ
طرح طرح کی مزاج پرسیاں دیکھ دیکھ کر دل ہوتا ہے کہ بیمار ہوں تو ایسے…. یعنی بیمار ہوں تو اے رحمان جیسے. بیمار کیا وہ تو دل کے جھٹکے کھا کر دو تین دن میں ہی ہشاش بشاش ہو کر الگ الگ اداؤں سے مزاج پرسی قبول کرنے لگے.
دل کا پہلا جھٹکا انہیں آیا تھا تو دل میں تنبیہ کر گیا تھا کہ سدھرے نہیں تو پھر ایک نہیں دو اسٹنٹ ڈلوا کر رہوں گا. یہ اللہ کا بندہ ایسے کہیں ماننے والا ہے. وہی ہوا جس کا ڈر تھا. سینے میں درد اٹھا، تکلیف بڑھی، اسپتال میں بھرتی ہوئے تو ڈاکٹر نے ایک نہیں دو اسٹنٹ کی تاکید جاری کر دی، مانو تو مانو نہیں تو پھر اپنی رِسک پر مرو. مرتا کیا نہ کرتا. ڈاکٹر اور گھر والوں کے آگے آج تک کسی کی چلی ہے کہ ان کی چلتی. وہ بھلے ہی نہیں مانیں کہ ستّر کی عمر بھی چل چلاؤ کی عمر ہوتی ہے. تابڑ توڑ اسٹنٹ وہ بھی دو دو ڈلوا ہی لیا.
واہ اے رحمان! عمر ستّر پار اور جوانی برقرار، وہی بے اعتدالیاں، وہی کام و دہن کی فعّالیاں، وہی صبح و شام، وہی صحبتیں، وہی شراب و کباب، وہی گل بہیّاں، وہی شباب، وہی طبیعت باغ و بہار، وہی یاروں سے چھیڑ چھاڑ. ادھر اسپتال سے گھر نہیں آئے کہ ملاقاتیوں کا تانتا بندھ گیا. ایک گیا تو دوسرا آیا. کوئی تحائف و عنایات کا گلدستہ لایا تو کوئی گلابوں اور کتابوں کا تو کوئی پھلوں اور فواکہات کے تھال کو سجا دھجا کر ساتھ لے آیا. اے رحمان گفٹ دینے میں پیچھے نہیں رہتے تو ریٹرن گفٹ دینے میں کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں، یعنی اے رحمان مزاج پرسیان کو اچھا کھلا پلا کر رخصت کرتے ہیں. مگر ہیں منھ پھٹ فرمائشی، گھر میں اللہ کا دِیا سب کچھ ہے مگر فرمائش کرنے سے نہیں چوکتے. ان کی فرمائش کیا پوری ہوتی ہے چوگنا نواز دیتے ہیں، جس سے انکار کسی کافر کو ہی ہو سکتا ہے. مزاج پرسیان کی کیا ہمت کہ ان عنایات کا انکاری ہو. اے رحمان کسی بھی موقع کو خاطر داری میں بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ جگر رکھتے ہیں.
اے رحمان سوشل میڈیا کا پیچھا نہیں چھوڑتے یا یہ کم بخت سوشل میڈیا ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا. دونوں ہی نیوز میں بنے رہتے ہیں. اور وہ بھی نیوز میں بنے رہتے ہیں جو اے رحمان کی سان پر تنے رہتے ہیں. اب عالمی اردو کانفرنس کی ہی بات کر لو. کانفرنس تو جیسے ہونا تھی ہوئی، اس سے زیادہ کَوَریج اے رحمان کے دل کے شدید دورے کو مل گیا. دورہ وہ بھی دل کا اور وہ بھی شدید. کچھ ہمدرد آس لگائے بیٹھے تھے بلکہ گھات لگائے بیٹھے تھے کہ کچھ انہونی ہو جائے. کچھ نہ ہوا تو ایک انہونی ہو گئی عالمی اردو کانفرنس کے بینرز سے نام غائب ہو گیا. نام جانے میں غائب ہو یا انجانے میں، ارے بھئی اس سے کیا فرق پڑتا ہے اے رحمان کو جو پہلے سے عالمی شہرت یافتہ ہیں. وہ عالمی، ان کا ٹرسٹ عالمی، ان کی لیکھنی عالمی، ان کا ادبی لین دین عالمی…. غرض ک ان کی ہر ادا پہلے سے ہی عالمی ہے تو پھر کسی کی کیا مجال کہ انھیں عالمی اردو کانفرنس سے بے دخل کرے. وہ عالمی اردو کانفرنس میں آن لائن غائب بھی رکھے گئے تو کیا ہوا ان کا ذکر تو عالمی اردو کانفرنس کے باہر سوشل میڈیا میں آف لائن اور آن لائن دونوں طرح گردش میں رہا نا! ہر چھوٹا بڑا اردو والا مزاج پرسیان میں شامل ہے. کوئی آگے آیا تو کوئی پیچھے. اطہر فاروقی آئے گویا انجمن (انجمن ترقی اردو) گھر تک آ گئی، ڈاکٹر شمس اقبال آئے گویا قومی کونسل آ گئی. ڈاکٹر شہپر رسول آئے گویا دہلی اردو اکادمی آ گئی. کیا پروفیسر کیا ڈاکٹر کیا دوست کیا دشمن، مزاج پرسیان کا اک سلسلہ ہے کہ ہنوز جاری ہے.
اے رحمان دلّی والے بھی ہیں اور دل والے بھی ہیں. دل کا روگ تو انھوں نے جوانی میں ہی لگا لیا تھا. وہ اس محبت و جوانی کے روگ کو منکوحہ بنا کر گھر میں مستقل طور پر لے آئے تھے. ایسی ہمت کوئی سچے دل والا ہی دکھا سکتا ہے کہ وقتی محبوبہ کو دائمی منکوحہ بنالے. ویسے مستقل مزاجی سے تو انھیں دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن پہلی محبت پر آمنا و صدقنا قناعت کر بیٹھے جو آج تک قائم ہے. یہ دنیا کے پہلے وکیل نہیں ہیں جنھیں اپنی محبت کے مقدمے میں دوسرے کو وکیل بنا کر نکاح کے بندھن میں بندھ کر محبت کی شادی رچانی پڑی، ایجاب و قبول کرنا پڑا.
جب بات محبت کی، کی ہے تو محبت کی زبان کی بھی بات کر لی جائے، یعنی اردو زبان کی جو محبت کی زبان ہے اور محبت کے ساتھ ساتھ تہذیب کی بھی زبان ہے بس اس کا قصور یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں یہ صرف مسلمانوں کی زبان ہے.اردو کتنی عالمی ہے، کتنی ہندی ہندستانی یہ تو لسانیات کے ماہر ہی بتا سکتے ہیں یا پھر وہ شاعر جو بیرون ملک بہ سلسلۂ ملازمت یا بہ سلسلۂ روزگار رہتے ہیں اور مشاعروں میں اردو کے نام پر عالمی ہو گئے ہیں. ایک عام ہندی ہندستانی تو یہی سمجھتا اور جانتا ہے کہ یہ آج بھی عام بول چال اور میل جول کی زبان ہے اور اس کا یہ حق اس سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا نہ موجودہ ہندی نہ بناوٹی انگریزی. اس کا کوئی لسانی علاقہ نہیں لیکن ہر علاقے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، یہی اس کی کمزوری بھی ہے اور یہی اس کی طاقت بھی. یہی خوبی اسے باہری بناتی ہے تو یہی اسے ہندستانی شہری. انگریزی کے بعد یہ دنیا کی واحد زبان ہے جس نے تغیر و تبدل کو اپنا شعار بنایا، اسے قائم رکھا اور دنیا کی زبانوں اور ہندستان میں بولی جانی والی کئی بولیوں اور زبانوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ بھی کیا ہم رنگ بھی کیا اور اپنا سترنگی وجود بھی قائم رکھا. یہ شاہوں کی زبان بھی ہے، یہ فقیروں کی زبان بھی، یہ عالموں کی زبان بھی ہے، عام انسانوں کی بھی، یہ ملّاؤں کی زبان بھی ہے اور پنڈتوں کی بھی. یہ زبان کٹھملّا بناتی ہے ایسا الزام جہالت کی انتہا ہے. کوئی بھی زبان متشدد نہیں ہوتی یہ انسان کا جارحانہ رویّہ ہے جو کسی بھی زبان کو برتنے میں متشدد بنا دیتا ہے جیسے یہی بیان کہ اردو کٹھ مُلّا بناتی ہے. ایسا جارحانہ رویّہ وہ بھی ایک نام نہاد یوگی اختیار کرے تو دکھ تو ہوگا ہی مگر یہ جارحانہ اور متعصبانہ سیاست ہے کہ کیا کیا نہ کروائے! یہی وہ زبان ہے جو بیسیوں صدی کی آخری نصف صدی سے فلمی شاعر ساحر سے غیر فلمی شاعر گلزار (گلزار دہلوی) تک کی سکھی بنی رہی اور موجودہ دور میں فاروق ارگلی جیسے سینیئر قلم کار سے اے رحمان جیسے دانشور قلم کار تک کی سکھی بنی ہوئی ہے.
فرض کیجیے کہ اے رحمان نہیں ہوتے تو کیا ہوتا. اے رحمان نہیں ہوتے تو کئی زبانوں کو جاننے والا ایک صاحبِ زبان اردو والا نہیں ہوتا، اے رحمان نہیں ہوتے تو ایک موقر اردو صحافی نہیں ہوتا، اے رحمان نہیں ہوتے تو اردو معاشرے اور اردو معاشرے کے مسائل کو اجاگر کرنے والا بے باک قلم نہیں ہوتا. اے رحمان نہیں ہوتے تو سپریم کورٹ کو ایک اچھا وکیل نہیں ملتا. اے رحمان نہیں ہوتے تو مسلم معاشرے کو آئینہ دکھانے والا اور اسی آئینے کو اجالنے والا بے لوث خدمت گار نہیں ہوتا. اے رحمان نہیں ہوتے تو عالمی اردو ٹرسٹ نہیں ہوتا. عالمی اردو ٹرسٹ نہیں ہوتا تو کم قیمت پر اچھا ادب کم ہی سامنے آتا. عالمی اردو ٹرسٹ نہ ہوتا تو فقیرِ اردو فاروق ارگلی صاحب کی جمنا نہیں بہتی (خود نوشت: اور جمنا بہتی رہی) نہ ہی کرخنداری دوست جناب دوست خان کی دستاویزی کتاب دہلی و قرب و نواح کی کرخندار بولی سے آج کے زمانے کے لوگوں کو آشنا کرتی کہ اس مٹتی کرخنداری بولی کی تاریخ کو جناب دوست خان نے ہمیشہ کے لیے دستاویزی شکل میں محفوظ کر دیا. اے رحمان نہیں ہوتے تو سرکاری، نیم سرکاری و غیر سرکاری اداروں، اکادمیوں اور انسٹی ٹیوٹز کی نکیل کسنے والا ایسا جری ٹائیگر کہاں ہوتا. اے رحمان زندہ ہے تو ٹائیگر زندہ ہے. تو پھر میں کیوں اس ٹائیگر کی مزاج پرسی کرنے میں پیچھے رہوں. آپ مزاج پرسی کو آئے ہیں تو ذرا ساودھان ہو جائیں. ان کی مزاج پرسی تو کیجے مگر محتاط ہوکر. اے رحمان میں یوں تو خوبیاں ہی خوبیاں ہیں مگر جناب ہیں بڑے پارہ صفت. کبھی کبھی قریبی لوگ بھی محفوظ فاصلے کا خیال رکھتے ہوئے بھی ان کی پارہ صفتی کے شکار ہو جاتے ہیں اور پارہ پارہ ہو جاتے ہیں، لیکن خدا کا شکر کہ کبھی رتّی کبھی ماشہ والے رحمان جلد ہی سراپا رحمان و مہربان بھی بن جاتے ہیں اور ڈھیروں عفو و درگزر کے ڈول برسا دیتے ہیں.
تو صاحبو! اب آخر میں ضروری بات سن لو! اے رحمان خود پر دل کا دورہ جھیل سکتے ہیں لیکن اردو پر پڑنے والے جان لیوا دوروں کو برداشت نہیں کر سکتے. جب تک فاروق ارگلی اور اے رحمان زندہ ہیں اور مجھ جیسے کروڑوں اردو کو برتنے والے زندہ ہیں، اردو زندہ رہے گی. کاش ہم بیمار ہوں تو اے رحمان جیسے مگر ہماری اردو پر کبھی جان لیوا دورہ نہ پڑے.
(28 فروری 2025 ،اندور ،انڈیا)
***
مسعود بیگ تشنہ کی گذشتہ نگارش: مزدور

بیمار ہوں تو اے رحمان جیسے
شیئر کیجیے