سفیر کرہ ارض

سفیر کرہ ارض

محمود الحسن عالمی
گجرات، پاکستان 

"عالمی ادارہ خلائی تحقیق" کی بلند و بالا عمارت پر رات کا گہرا سناٹا یوں چھایا ہوا تھا جیسے کائنات کی پراسرار تنہائیوں سے کوئی خاموش راز آشکار ہونے کو بے تاب ہو۔ خلا کے کسی نہاں گوشے سے ایک ایسی آواز موصول ہو رہی تھی جس نے نہ صرف ٹیلی اسکوپ انٹینا کو لرزا دیا تھا بلکہ دلوں میں ایک پُرحیرت لرزش پیدا کر دی تھی۔ مرکزی کمانڈ روم کی سفید روشنی میں جگمگاتی اسکرینوں پر ایک پیغام بار بار چمک رہا تھا:
”نامعلوم فریکوئنسی سگنلز ٹیلی اسکوپ نمبر 47 پر پکڑے گئے۔“
کمرے میں موجود تمام سائنس دانوں کے پُرفکر چہرے تجسس و حیرت کی ملی جلی کیفیت میں ڈوبے اِس پیغام کو خاموشی سے گھورتے جا رہے تھے۔آخر پروفیسر محمد علی اِس سکوت کو توڑتے ہوئے بولے:
” شاید یہ آواز ہماری کہکشاں کی عام سرگوشی نہیں ہے۔"
ان کی آواز میں ایک انجانی سی تھرتھراہٹ تھی، جیسے کوئی بھید اِن کے اندر سرسرانے لگا ہو۔
ڈاکٹر ودیا سشمتا جو فریکوئنسی تجزیات میں مہارت رکھتی تھیں، فریکوئنسی سگنلز کے باریک نمونوں کو بہ غور جائزہ لیتے ہوئے بولیں:
"مجھے بھی یہ آواز کسی خاموش سیارے کی نہیں، بلکہ کسی باشعور وجود کی سرگوشی لگتی ہے۔“
ڈاکٹر ودیا سشمتا کے یہ الفاظ کمرے میں سنسنی کی طرح پھیل گئے اور ہر ایک کے دل میں انجانے خوف اور مسحوریت کی لہر دوڑا گئے۔
سسٹم آپریٹر ڈیوڈ تھامسن بے صبری سے آگے بڑھتے ہوئے سسٹم کو فریکوئنسی ڈی کوڈنگ کے احکامات دینے لگے۔ بالآخر ایک صبر آزما انتظار کے بعد مصنوعی ذہانت پر مبنی سسٹم سافٹ ویئر نے فریکوئنسی سگنلز کو نہایت کامیابی کے ساتھ آواز کی صورت میں ڈی-کوڈ کر لیا۔ کمرے میں اب ہر کسی کی حیرت و استعجاب میں ڈوبی نظریں دھڑکتے دِلوں کے ساتھ ڈیوڈ تھامسن کو پلے بٹن دبانے کا کہہ رہی تھیں۔ ڈیوڈ تھامس نے بالآخر پلے بٹن دبا دیا۔ سسٹم اسپیکرز پر انسانوں سی آواز کی ایک لرزش ہوئی:
”زمین باسیو! آپ کائنات کی ہیبت ناک تاریکی میں تنہا نہیں ہیں۔ ہم آپ کو سن سکتے ہیں اور آپ ہمیں۔ہم آپ کی پڑوسی کہکشاں اندرومیڈه کے سیارے "زمردین" کے رہائشی ہیں۔ یہ آپ کی زمین سے تقریباً چھبیس لاکھ نوری سالوں کی مسافت پر واقع ہے۔
ہم زمردین باسی آپ انسانوں کی طرح باشعور زندگی، حقیقی ذہانت اور گہرے جذبات رکھتے ہیں۔ ہماری جسمانی ساخت بھی عین آپ سے مماثل ہے۔ آپ کی زمین اور ہمارا "زمردین" متوازی کائناتوں" /پیرالل یونیورسز کے ذریعے حیرت انگیز حد تک باہمی طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔
ہمارا آپ سے رابطے کا مقصد یہ ہے کہ ہم آپ کو اُس عظیم خطرے سے آگاہ کرسکیں جو آپ زمین باسیوں کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور جس سے ہم سابقہ صدیوں میں بال بال بچے ہیں، یعنی تیسری جنگ عظیم کا خطرہ۔ اِسی حوالے سے ہمیں آپ انسانوں کے بارے میں یہ شاید خدشہ لاحق ہے۔ کیونکہ آپ ابھی تک مختلف مذہبوں، وطنیتوں اور گروہوں کی نفرتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہم زمردین باسی جذبۂ ہمدردی کے تحت آپ انسانوں کو اِس عظیم خطرے سے حفظ ما تقدم آگاہ کر رہے ہیں کہ سنبھل جائیں، وگرنہ وہ وقت دُور نہیں کہ جب زمان و مکان میں آپ کا نام و نشان تک نہ رہے گا۔
ہمیں آپ کے جوابی پیغام کا انتظار رہے گا۔ آپ اپنے جوابی پیغام کو الیکٹرمیگنٹک سگنلز کی شکل میں خلا میں چھوڑ دیجیے گا۔ ہماری ٹیکنالوجی اِس قابل ہے کہ آپ کے الیکٹرمیگنٹک سگنلز کو چند لمحوں میں ہم تک پہنچاتے ہوئے ڈی-کوڈ کرسکتی ہے کیونکہ ہم نہ صرف سائنس و ٹیکنالوجی میں بلکہ کائناتی وقت میں بھی آپ سے پورے دو سو سال آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زمین پر اِس وقت 2050 عیسوی چل رہی ہوگی، جب کہ ہمارے سیارہ زمردین پر 2250ء عیسوی چل رہی ہے۔“
اُمید ہے کہ زمین اور زمردین کا یہ بندھن دونوں کہکشاؤں میں پُرامن نزدیکیوں کا باعث بنے گا۔“
"انسانیت کے ہمدرد، آپ کے پڑوسی، زمردین باسی۔“
یہ پیغام سن کر کمرے میں گہرا سکوت چھا گیا، جیسے اِن الفاظ نے وقت کو روک دیا ہو۔ کمرے میں موجود ہر فرد کے چہرے پر بیک وقت خوشی، خوف اور حیرت کے اثرات نمایاں تھے۔
”لیکن وہ ہمارے بارے میں اتنا کچھ کیسے جانتے ہیں؟ یعنی ہمارے سیارے کا محل وقوع، ہمارے حال و احوال اور ہماری زبان وغیرہ؟“ پروفیسر لی-لونگ چینگ فی البدیہ انداز میں بولے۔
”آپ نے سنا نہیں پروفیسر چینگ! وہ ہماری سائنس و ٹیکنالوجی سے پورے دو سو سال آگے ہیں۔ اِسی لیے اُن کے لیے یہ سب کچھ جاننا کچھ مشکل نہیں۔“ پروفیسر محمد علی نے اپنی پلکیں مخصوص انداز میں ہلکے سے اُٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
”پس ہمیں فوراً اس پیغام کا جواب تیار کرنا ہوگا۔ یہ زمین کی نمائندگی کا سب سے اہم تاریخی موقع ہے۔یہ پیغام ہمیں نہ صرف سائنسی طور پر بلکہ جذباتی اور نفسیاتی سطح پر بھی آزما رہا ہے۔ پس ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہمارا جواب نہ صرف ہماری سائنس و ٹیکنالوجی کا مظہر بلکہ بیک وقت انسانیت کی اخلاقی، روحانی، نفسیاتی اور معاشرتی ترقی کا بھی ہمہ جہت مظہر ہو۔" پروفیسر لی چینگ ڈاکٹر صاحب کی طرف جوابی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
"ہمیں فوراً ایک ٹیم تشکیل دینی چاہیے جو اِس پیغام کا جواب تیار کرے۔ اُس ٹیم میں تمام شعبہ ہائے علوم کے ماہرین شامل ہوں گے تاکہ ہمارا پیغام ہر پہلو سے جامع، رواں اور مکمل ہو۔“ ماہر فلکیات سائنس داں اینڈری پیوٹن جو سب کی باتوں کو نہایت خاموشی سے سن رہے تھے، اچانک بولے۔
میں پیوٹن صاحب کی اِس بات کی تائید کرتا ہوں کہ ہمیں اس پیغام کو محض ایک سائنسی دریافت کے طور پر نہیں، بلکہ ایک تہذیبی و نفسیاتی امتحان کے طور پر لینا چاہیے کہ ہمیں نہ صرف انسانی علم کا مظاہرہ کرنا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ ہم واقعی میں امن کے متلاشی ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
صبح کے ساڑھے گیارہ بجے مرکزی کمانڈ روم میں ایک بار پھر وہی پرجوش ماحول تھا۔ ماہرین نے پیغام کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے اِسے مصدقہ قرار دے دیا تھا۔ لہذا حکام بالا کی منظوری سے یہ خبر عالمی ادارہ خلائی تحقیق کی آفیشل ویب سائٹ پر ایک تفصیلی پریس ریلیز کے ذریعے نشر کر دی گئی۔ پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل میں لگی آگ کی مانند ڈیجٹل میڈیا سے سوشل میڈیا تک یوں پھیل گئی کہ پوری دنیا میں اک ولولہ خیز کہرام سا مچ گیا۔ عالمی سیاست و صحافت کے ایوانوں سے لے کر، عوامی مجالس و محافل کے چوراہوں تک سبھی میں اِس خبر کو لے کر چرچا تھا۔انسانیت کو جواب دینا چاہیے یا نہیں، اگر دینا چاہیے تو کیسے؟ اور اگر نہیں، تو کیوں نہیں؟ یہی سوالات ہر ایک زمین باسی کے ذہن میں گونج رہے تھے۔ لہذا اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا۔ پورے تین دن تک اقوام عالم کے حکمرانوں میں یہ اِسی فیصلے کے حوالے سے سرگرم بحث و مباحثہ ہوا۔ بالآخر حکمرانوں میں ایک اقلیت کی مخالفت کے باوجود اور ویٹو پاور کی خون آلود تلوار سے بال بال بچتے بچاتے فیصلہ جواب دینے کے حق میں ہوگیا۔
عالمی ادارۂ خلائی تحقیق کے صدر ڈاکٹر ایلڈن فری مین کی قیادت میں تیس ماہرین پر مشتمل ”سفیر کرہ ارض“ نامی ایک ایسی مخصوص کمیٹی تشکیل دی کہ جس میں ماہر فلکیات سے لے کر ماہر لسانیات تک تمام قدرتی و سماجی علوم کے بہترین ماہرین شامل تھے۔ کمیٹی نے چار دن کی کڑی محنت و ریاضت کے بعد ایک متفقہ پیغام جامع العلوم جج صاحبان کی پانچ رکنی شوریٰ کے سامنے پیش کردیا۔جج صاحبان نے پیغام کو تصحیح و تنقیح کے نازک مرحلے سے گزارنے کے بعد بالآخر حکام اعلا سے منظور کروا لیا۔ سسٹم آپریٹر ڈیوڈ تھامسن نے پیغام بھیجنے سے قبل حتمی معائنے کے پیشِ نظر پیغام کو بہ آواز بلند چلایا، سسٹم اسپیکرز پر اک خوش آواز جنبش ہوئی:
"انسانیت کی جانب سے زمردین کی معزز مخلوق کو سلام!
ہمیں آپ کا پیغام موصول ہوا اور یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ہم اِس بے کراں کائنات کی ہیبت ناکی میں تنہا نہیں ہیں۔ آپ کے الفاظ نے انسانیت کے وجود میں ایک انجانے خوف و ولولے اور بے پایاں تجسس کی لہر دوڑا دی ہے۔
آپ کا انتباہ ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔ تیسری جنگ عظیم کے خطرے کی جو تصویر آپ نے پیش کی، وہ درحقیقت ہمارے ذہنوں میں کئی گہرے سوالات پیدا کر رہی ہے۔
آپ نے اپنے پیغام میں فرمایا تھا کہ آپ تیسری جنگ عظیم کے ہولناک خطرے سے باحفاظت گزر چکے ہیں۔
پس ہم زمین باسی یہ جاننے کے لیے نہایت متجسس ہیں کہ وہ تدابیر کیا تھیں، جنھوں نے آپ کی دنیا کو نیست و نابودی کے آخری دہانے سے واپس کھینچ لیا تھا؟ آیا آپ کے پاس کوئی ایسا عالمی نظام ہے جو دنیا کی عظیم طاقتوں کو امن کے راستے پر مائل کر سکے؟ یا آپ کے پاس کوئی ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کی بدولت آپ عالمی امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟
پیغام کے دوسرے حصے میں ہم زمین باسیوں نے کرہ زمین کی تاریخ، انسانیت کی تہذیب و تاریخ اور سماجی و قدرتی علوم میں انسانی ترقی و ارتقا کے موضوعات پر مبنی ایک صوتی کتاب (آڈیو بک) کی ریکارڈنگ شامل کر دی ہے تاکہ جو آپ ہمارے متعلق جانتے ہیں وہ اُس جاننے سے پرکھا جاسکے کہ جو ہم اپنے متعلق جانتے ہیں۔
"امن کے خیرخواہ، آپ کے پڑوسی، زمین باسی"
ڈیوڈ تھامسن کے ایک بٹن دبانے سے یہ الفاظ الیکٹرمیگنٹک سگنلز کی شکل میں زمین کی حدود سے باہر خلا کی وسعتوں میں بکھر گئے۔ زمردین کا جدید کوانٹم گریویٹون ریسور خودکار طریقے سے چالو ہوا اور روشنی کی رفتار سے بھی کروڑوں گنا تیز رفتاری سے یہ سگنلز اپنی جانب کھینچنے لگا۔بلآخر تین دنوں کی مسلسل مسافت کے بعد یہ سگنلز زمردین تک پہنچ گئے۔
اِدھر زمین پر فکر مندی اور تجسس کی نئی لہر دوڑ چکی تھی۔ کیا زمردین باسی جواب دیں گے؟ اگر دیں گے تو کیسے اور کب؟ اور سب سے اہم یہ کہ کیا جواب دیں گے؟
دن گزرتے گئے۔ حکمران و وزرا، سائنسی و مذہبی علما، اہل فلسفہ و صحافت اور محبان قلم و دانش غرض عوام و خواص کے سبھی طبقات اپنی اپنی قیاس آرائیوں میں مصروف تھے۔ ڈیجیٹل و سوشل میڈیا پر نظریاتی مباحث اور رجحانات "ٹرینڈز" نے شدت پکڑ لی تھی۔ کچھ لوگ پُرامید تھے کہ زمردین باسی، زمین باسیوں کو تیسری جنگ عظیم کے منڈلاتے خطرے سے بچانے کے لیے کوئی حیرت انگیز حل فراہم کریں گے، تو کچھ بدگمان تھے کہ زمرین باسی محض ایک نئے استعماری خطرے کی گھنٹی ہے کہ آخر یہ باہر سے آنے والے کون ہوتے ہیں کہ ہم انسانوں کو انسانیت سیکھانے والے؟
بالآخر، ایک ہفتے بعد، رات کے تقریباً ساڑھے آٹھ بجے جب "عالمی ادارۂ خلائی تحقیق" کے مرکزی کمانڈ روم میں معمول کے مطابق ڈیٹا مانیٹر کیا جا رہا تھا۔ اچانک ٹیلی اسکوپ نمبر 47 کے اینٹینا پر پھر سے پُرزور لرزش ہوئی اور سسٹم کی مرکزی اسکرین پر پھر وہی پیغام جگمگانے لگا:
”نامعلوم فریکوئنسی سگنلز ٹیلی اسکوپ نمبر 47 پر پکڑے گئے۔“
کمرے میں موجود ہر فرد کے دل کی دھڑکن لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ سب کی نظریں سسٹم آپریٹر ڈیوڈ تھامسن پر جم گئیں، جو تیزی سے سگنلز ڈی کوڈنگ میں مصروف تھے۔ کچھ ہی دیر میں مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ ویئر نے اِن سگنلز کو ایک واضح آواز میں ڈھال دیا۔سسٹم اسپیکرز پر ایک بلند و پرعزم آواز گونجی:
"زمردین باسیوں کی جانب سے بھی زمین کی محترم انسانیت کو سلام!
"زمین باسیو! ہم آپ کے سوالات میں چھپی فکر مندی اور بے چینی کو بہ خوبی محسوس کرسکتے ہیں۔ عین کچھ اِسی طرح کے احساسات آج سے تقریباً دو صدیوں پہلے ہمارے بھی تھے۔ یعنی 2050ء میں ہماری دنیا بھی ایک ایسے سنگین دوراہے پر کھڑی تھی، جہاں زمردین باسیوں کو ہر وقت یہ خطرہ دیمک کی طرح کھائے جارہا تھا کہ ابھی جنگ عظیم کا نقارہ بجا اور ابھی سب ملیا میٹ ہوا۔ بالآخر جب دیمک کی کھوکھلایٹ آخری حدوں کو پہنچنے لگی تو زمردین کی مختلف قومیتوں، مذہبوں اور نظریوں میں بٹے ہم لوگ چار و ناچار ایک میز کے گرد جمع ہوگئے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک سنہری دن تھا یعنی 4 جنوری 2051ء۔
اقوام متحدہ کے صدر دفتر (ہیڈکوارٹر) میں زمردین کے تمام بڑے سیاسی و مذہبی پیشوا، حکما و وزرا، صحافی و فلسفی اور سائنس داں جمع تھے۔ مسلسل سات دن تک خوب بحث و مباحثے کے بعد بالآخر 11 جنوری کو  ہم ایک متفقہ معاہدہ بنام”معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین“ ترتیب دینے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ معاہدہ اِن گیارہ مختصر نکات پر مشتمل تھا:
ایٹمی ہتھیاروں کی تلفی:
ایٹمی ہتھیاروں کے حامل تمام ممالک ”معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین“ کے تحت آج سے اِس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے تمام تر ایٹمی ہتھیار جلد از جلد تلف کر دیں گے۔ایٹمی ہتھیاروں کی تلفی کے موقع پر اقوام عالم کی طرف سے متعلقہ ماہرین کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا کا بھی ایک وفد موجود ہوگا۔
نیز اِس معاہداتی شق کی رُو سے موجودہ تمام ممالک کو اِس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ ایٹمی تباہی سے وابستہ کوئی بھی صنعت بنانے کے ہرگز مجاز نہ ہوں گے۔اگر کوئی مملکت و ریاست اِس شِق سے روگردانی کی مرتکب قرار پاتی ہے تو اسے عالمی امن و سلامتی کے خلاف خطرہ شمار کرتے ہوئے معاشی اور سفارتی مکمل بائیکاٹ جیسی سخت عالمی پابندیوں سے دوچار کیا جاسکتا ہے یا پھر انتہائی اقدام کی صورت میں اقوام متحدہ کی افواج بھی کارروائی کرنے کا حق رکھتی ہیں۔
2۔اسلحے اور دھماکہ خیز مواد کی حدبندی:
”معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین“ کے تحت ہر قسم کے دھماکہ خیز مواد کی پیداوار کو صرف پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی تحسین و ترویج کی جائے گی۔ نیز تمام اسلحہ ساز کمپنیوں کی طلب و رسد کو کم سے کم کرتے ہوئے خصوصی روک تھام لگائی جائے گئی۔
3۔حقِ استرداد "ویٹو پاور" کا خاتمہ:
”معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین“ کے تحت اقوامِ متحدہ میں حق استرداد ”ویٹو پاور“جیسے غیر جمہوری قوت کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ موجودہ ویٹو پاورز ممالک کے ووٹوں کی قانونی حیثیت اب مساوی ہوگی۔ سلامتی کونسل میں فیصلے پر عمل داری کے لیے اب صرف اکثریتی ووٹوں کا جمہوری معیار رائج ہوگا۔ کسی بھی ریاست یا عالمی طاقت کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اپنی من مانی پالیسیوں کے تحت بین الاقوامی فیصلوں کو روک سکے۔ اقوام متحدہ یا کسی بھی عالمی ادارے کے فیصلے خالص جمہوری اور اکثریتی بنیاد پر کیے جائیں گے، تاکہ کوئی بھی ملک اپنی طاقت کی بنیاد پر دنیا کے امن کو یرغمال نہ بنا سکے۔
4۔آزادی و خود مختاری کا فروغ:
”معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین“ کے تحت ہر قوم و مملکت کا حق آزادی و خودمختاری تسلیم کیا جاتا ہے۔کوئی بھی قوم و مملکت کسی دوسری قوم و مملکت پر کسی طور سے بھی حکمرانی کی اہل نہیں ہے۔ بالخصوص ترقی یافتہ اقوام ترقی پذیر و پس ماندہ اقوام کی سیاست و معیشت میں بے جا مداخلت سے باز رہے گی۔
تعلیم، صحت، خوراک، زراعت، تجارت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر و پس ماندہ ممالک سے تعاون کو عملی طور پر یقینی بنائیں گے۔ تمام ممالک اِس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ انسانی حقوق کی پاس داری کو یقینی بنائیں گے اور کسی بھی قوم، مذہب، نسل یا عقیدے کے افراد کے خلاف تعصب، استحصال یا نسل کشی جیسے جرائم کو سختی سے روکا جائے گا۔ ایک ایسی عالمی امن فوج تشکیل دی جائے گی، جو کسی بھی جارح ملک یا گروہ کے خلاف کارروائی کر سکے گی تاکہ کسی بھی ممکنہ جنگ کو روکا جا سکے۔ کوئی بھی ملک خلا یا دوسرے سیاروں کے وسائل پر قبضہ نہیں کرے گا، بلکہ اِن وسائل کو تمام اقوام عالم کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کیا جائے گا۔
5۔ادارۂ متحدہ مذاہب عالم: 
”معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین“ کے تحت اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک ایسے ذیلی ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس میں تمام مذاہب و ادیان کے نمائندہ علماے کرام شرکت فرماتے ہوئے مذاہب کے مابین نظریاتی یکسانیت و عملی مطابقت کو فروغ دیں گے۔ نیز مذاہب کی انساںیت پرور اخلاقی تعلیمات کو خوب واضح کریں گے۔
مزید یہ کہ یہ بات بھی یقینی بنائی جائے کہ اِس ادارے کی فضا ہر قسم کی مذہبی منافرت، متشدد تعصبات اور تبلیغی مناظروں سے صاف و شفاف ہوگی۔ ادارے کی انتخاب و رکنیت میں بھی اِس حوالے سے خصوصی احتیاط برتی جائے گی کہ صرف اُنھی علماے مذاہب کا انتخاب کیا جائے  جو مذاہب کی اصل روح یعنی فلاح انسانیت، عالمی امن و امان اور بین الاقوامی عدل و انصاف جیسی اصطلاحات سے بہ خوبی واقف ہوں۔ ہر سالانہ اجلاس میں علماے مذاہب مذہبی اصلاحات و قوانین کی ایک متفقہ قرارداد مرکز اقوام متحدہ کو ارسال کریں گے۔ تاکہ مذاہب کی اخلاقی ارواح کا استحصال کرتے مادیت پرست دہشت گردوں اور مذہبی جنونیوں دونوں  سے فکری و عملی طور پر نمٹا جاسکے۔
6۔عالمی تفریحی صنعت کا قیام:
”معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین“ کے تحت اقوام متحدہ کے زیر اثر ایک ایسی عالمی تفریحی صنعت "انٹرنیشنل انٹرٹینمنٹ انڈسٹری" کا قیام عمل میں لایا جائے گا  جس کے ذریعے اقوام متحدہ میں درج انسانی حقوق کے اعلامیے (چارٹر) کو پیش کیا جائے گا، تاکہ انسانیت کی موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے دل و دماغ میں یہ بات رچ بس جائے کہ عالمی امن و امان اور عدل و انصاف کا استحکام کس قدر ضروری ہے اور اِس کے بگاڑ کے نتیجے میں تیسری جنگ عظیم کا ممکنہ خطرہ کس قدر تباہ کن اور ہیبت ناک ہوسکتا ہے۔
7۔اعلیٰ تعلیم کی فراہمی :
”معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین“ کے تحت اِس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ حصول اعلا تعلیم سے کسی قوم کا بھی بچہ محروم نہ رہے۔ نیز کسی بھی قوم کے تعلیمی نصاب میں ایسی تعلیم کو ہرگز پنپنے نہ دیا جائے گا، جس سے کسی بھی سطح پر قومی تعصبات کی بو واضح طور پر محسوس ہو۔ بالخصوص معاشی طور پر مضبوط ممالک اِس بات کا اہتمام کریں گے کہ وہ معاشی طور پر پس ماندہ ممالک کے پس ماندہ تعلیمی نظاموں کو پس ماندگی سے نکالنے کے لیے عطیات و قرضوں کے ذریعے مدد فراہم کریں گے کہ ایک لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ مدد وہ خود اپنی ہی کررہے ہوں گے کہ (مجموعی طور پر) ناخواندہ اقوام کو تعلیم یافتہ بنا کر مستقبل میں اپنی بقا کو ہی یقینی بنا رہے ہیں۔ کیونکہ خدانخواستہ ناخواندہ قوموں کے کسی فرد یا طبقے کی جہالت تلے اگر تیسری جنگ عظیم چھڑ گئی تو ایٹمی تباہی کے نتیجے میں نہ تو تعلیم یافتہ اقوام بچیں گی اور نہ ہی جہل زدہ اقوام۔
نیز معاہدے کی اس شق کی رو سے زمردین کی تمام اقوام اِس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ وہ اپنی 7 تا 18 سالہ پروان چڑھتی نئی نسلوں کو نصابی تعلیم کے تحت ایک ایسا علمی مضمون پڑھائے گی جس میں انسانیت پسندی، انسان دوستی، عالمی امن و امان، عالمی بھائی چارہ و اخوت، عالمی مساوات اور بین الاقوامی عدل و انصاف جیسی بلند پایہ اخلاقی اصطلاحات کو بتدریج تفصیلاً متعارف کروایا جائے۔
تمام ممالک کو اعلا تعلیم، سائنسی تحقیق، اور جدید ٹیکنالوجی تک برابر رسائی دی جائے گی۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی سائنسی اور تعلیمی ترقی کے فوائد ترقی پذیر اقوام تک پہنچائیں گے تاکہ تمام اقوام برابری کی سطح پر آگے بڑھ سکیں۔
8۔خوارک و معاش کی فراہمی:
بھوک، غربت و افلاس اور وسائل کی کمی اگر ایک حد سے گزر جائے تو یہ انسان کو جنگجو مزاج بنا دیتی ہے۔عین اِسی طرح اگر کسی قوم میں مجموعی طور پر یا وسیع پیمانے پر یہ مسائل شدت سے پیدا ہو جائیں تو پوری کی پوری قوم کی مجموعی نفسیات جنگجوانہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم زمردین باسی واقعی  یہ چاہتے ہیں کہ تیسری جنگ عظیم وقوع پذیر نہ ہو تو ہمیں اِس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی بھی زمردین باسی بنیادی خوراک اور ضروری معاش سے محروم نہ رہے۔ کیونکہ تاریخ ایسے قاتلوں سے بھری پڑی ہے، جنھیں غربت و افلاس اور تنگی معاش کی شدت نے ایک ظالم و سفاک قاتل بننے پر مجبور کر دیا۔
9۔صحت عالم:
ایک صحت مند معاشرہ ایک پُرامن قوم کو جنم دیتا ہے اور ایک بیمار معاشرہ ایک متشدد قوم کو پالتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم زمردین باسی واقعی  چاہتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ نہ چھڑے تو یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم زمردین باسیوں کی نفسیاتی و جسمانی بیماریوں کی حتی الامکان بیخ کنی کرے۔ خصوصاً اِس سلسلے میں نفسیاتی بیماریوں پر خصوصی توجہ دے کہ جدید نفسیاتی تحقیقات کے مطابق ہماری جنگی تاریخ کے سبھی بڑے جنگجو اور سفاک قاتلین تقریباً کسی نہ کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا تھے۔
10۔طبقاتی نظاموں کی حوصلہ شکنی:
"معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین“ کے تحت ہر قسم کے طبقاتی نظام چاہے وہ دولت کی تقسیم پر کھڑے ہو، قوم و ملک کی تقسیم پر یا مذہب کی تقسیم پر، الغرض ہر قسم کے طبقاتی نظاموں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ کیونکہ ہم زمین باسیوں کی ہزاروں سالہ جنگی تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ طبقاتی نظاموں میں ظالم اور مظلوم، حاکم اور محکوم کی باہمی کشمکش بڑی بڑی جنگوں کا پس منظر ثابت ہوئی ہے۔ لہٰذا اِس بات کا ضروری اہتمام ہوگا کہ طبقاتی نظاموں کی بجائے مساوات اور اخوت و بھائی چارے پر مبنی نظام کو ترویج دیں اور طبقاتی نظاموں کی اپنی قول و فعل سے تردید کریں.
دنیا کے قدرتی وسائل کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی کمیشن تشکیل دیا جائے گا، جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کوئی بھی قوم یا کارپوریشن ان وسائل پر ناجائز قبضہ نہ کر سکے۔ نیز دولت کی غیر مساوی تقسیم اور سامراجی استحصال کو ختم کرنے کے لیے ایک نیا عالمی اقتصادی نظام متعارف کرایا جائے گا، جس میں تمام ممالک کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ غریب ممالک کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے عالمی سطح پر ایک نیا مالیاتی فنڈ قائم کیا جائے گا جو انھیں خود کفیل بنانے میں مدد دے گا۔
11۔مذاکرات کا فروغ:
"معاہدہ نفاذ امن برائے زمردین" کے تحت تمام ممالک اور اقوام کو پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مسائل بات چیت اور سفارتی ذرائع سے حل کریں۔ کسی بھی جنگی تنازعے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت ایک مستقل "عالمی ثالثی کونسل" تشکیل دی جائے گی جو تمام ممالک کے اختلافات کو غیر جانب دار طریقے سے حل کرے گی۔ تیسری جنگ عظیم کے ممکنہ امکان کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی برکت تلے بین الاقوامی تعاون، مسلح افواج کے بیچ مذاکرات اور بین الاقوامی معاہدات کی توسیع کی جائے گی، تاکہ عالمی برادری کی مضبوط بنیادوں تلے جنگی تنازعات کو حل کرنے میں مدد مل سکے اور اِس کرہ زمردین پر انسانیت کی بقا کو یقینی بناتے ہوئے تیسری عالمی جنگ کے ممکنہ وقوعے کو جڑ سے اُکھیڑا جاسکے۔
زمین باسیو! یہ گیارہ نکاتی معاہدہ وہ واحد راہِ نجات تھی جس پر زمردین کے تمام ممالک، حکومتوں اور عوام نے یک جہتی کے ساتھ عمل کیا۔ اِس معاہدے کے نفاذ کے بعد آہستہ آہستہ زمردین میں نہ صرف عالمی جنگ کا خطرہ ٹل گیا بلکہ معاشرتی و سائنسی ترقی کی ایک نئی صبح طلوع ہوئی۔ آج، 2250ء میں، ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں جنگیں، بھوک، استحصال، اور استعماری طاقتوں کا کوئی وجود نہیں۔پس یہ بات پیش نظر رہے کہ حقیقی نجات باہر سے نہیں، بلکہ اندر سے ہی آتی ہے۔ غرض قوانین، تدابیر اور معاہدوں کے نفاذ سے بہت پہلے خود کو ذہنی، پر اِن کے لیے تیار کرنا پڑتا ہے۔ کیا زمین باسی ذہنی طور پر اتنے مظبوط ہیں؟ کیا زمین باسی واقعی  میں نجات کے متلاشی ہیں؟ کیا دنیا کے حکمران اپنی خود غرضی اور طاقت کی ہوس کو چھوڑ کر انسانیت کے مستقبل کے لیے متحد ہوں گے؟ کیا زمین باسی اشرف المخلوقات کے زعم سے نکل کر اپنی بقا کو یقنی بنا پائیں گے؟ یہ سوالات ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔"
"واقعی  یہ ایلینز زمینی حقائق سے بالکل نابلد ایک یوٹوپیا کی بات کر رہے ہیں." ڈاکٹر ایلڈن فری مین برجستہ ناقدانہ انداز میں بولے۔
"بعض انسانوں کو ہر حقیقت وجود پذیر ہونے سے پہلے یوٹوپیا ہی معلوم ہوتی ہے۔" پروفیسر محمد علی نے ڈاکٹر ایلڈن فری مین کی جانب دیکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔
"بہرحال جو بھی ہو، مجھے تو یہ شان دار لگا۔" ڈاکٹر ودیا شسمیتا نے طنز کی بھٹی میں ایک اور نشتر چلاتے ہوئے کہا۔
ارے بھئی ہمیں شان دار لگنے سے کیا ہوتا ہے، اصل میں تو تب مزے کی بات ہے  جب ان کو لگے  جو واقعی  اس پیغام  ہدف ہیں۔ پروفیسر لی لونگ چینگ نے ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"میں اِس پر اپنی ختمی رائے تب دوں گا جب حکام بالا اس پر کوئی فیصلہ صادر فرمائیں گے. خلا باز اینڈری پیوٹن ایک سرد آہ بھرتے ہوئے بولے۔
اگلے دن عالمی ادارہ تحقیق کے آفیشل بیانیے پر یہ جملے نمایاں تھے:
”زمردین باسیوں کے پیغام کے ابھی تک منتظر ۔۔۔ لگتا ہے کہ انسانیت کا زمردین باسیوں سے ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔“
★★★
محمود الحسن عالمی کی گذشتہ نگارش: جدید ادبی انقلاب ( آن لائن ادب کے تناظر میں)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے