🖋️ شعیب سراج
وادئ زیست مسکرائی ہے
آگ تم نے عجب لگائی ہے
کلفتیں، آہ و زاریاں، سپنے
زندگی بھر کی یہ کمائی ہے
کرکے برباد میرے دل کا جہاں
اس نے دنیا نئی بسائی ہے
خواب دیکھا ہے کتنا پیارا سا
اس کے شانے پہ موت آئی ہے
کر رہا ہے گلہ رقیبوں سے
اس میں اس کی ہی جگ ہنسائی ہے
ان سے ملنے کے بعد بھول گیا
"کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے"
راکھ ہو جائیں گے ہمارے دل
آگ تم نے جو یہ لگائی ہے
غم زمانے میں ہیں سراج بہت
جو مسرت بھی ہے پرائی ہے
***
شعیب سراج کی گذشتہ غزل :جڑیں گر رب سے تو طوفاں سہارا ہو بھی سکتا ہے
شیئر کیجیے