جدید ادبی انقلاب ( آن لائن ادب کے تناظر میں)

جدید ادبی انقلاب ( آن لائن ادب کے تناظر میں)

محمود الحسن عالمیؔ

ڈیجیٹل و انفارمیشن انقلاب کی حامل اکیسویں صدی میں نہ صرف ہمارا اُردو ادب بلکہ بین الاقوامی اور عالمی ادب بھی بنیادی طور پر اِن تین جہتوں کے زیر اثر انقلاب پذیر ہے۔ اول ذریعۂ اظہار کی سطح پر، دوم موضوعاتی و معنوی سطح پر اور سوم لسانی و اسلوبی سطح پر۔ انقلاب پذیری کی اِن ہمہ جہت سطحوں کی جڑیں ہمیں انیسویں اور بیسویں صدی کی زرخیز مٹی کی آغوش تخلیق میں مدغم ملتی ہیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں نظریات و افکار کی غیر معمولی پیش رفت اور سائنس و ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی بنیادی طور پر وہ دو اسباب و عوامل ہیں کہ جو اکیسویں صدی کی اول ربع میں ہی میری چشم زدن پر ادب کی ہمہ جہت انقلابی صورت کے خدوخال نمایاں کر رہے ہیں۔ ادب کی مذکورہ تین انقلابی جہات اپنی وسعت و جامعیت کے اعتبار سے الگ الگ مضامین کی متقاضی ہیں۔ لہٰذا زیر تحریر مضمون میں صرف ذریعہ اظہار کی سطح پر ادب کی انقلابی جہت بیان کی جارہی ہے۔
بیسویں صدی کی سب سے بڑی انقلابی ایجاد ”انٹرنیٹ" جہاں اکیسویں صدی میں ڈیجیٹل و انفارمیشن انقلاب کی بنیاد رکھ چکی ہے وہی اگر ہم بہ غور ملاحظہ فرمائیں تو میدان ادب میں بھی ذریعہ اظہار کی سطح پر جدید ادبی انقلاب کا سنگ بنیاد رکھ چکی ہے۔ پرنٹ میڈیا کی کاغذی اشاعت سے لے کر ڈیجیٹل میڈیا کی آن لائن اشاعت تک کے سفر نے ادب کی رسائی کو براعظمی سرحدوں سے نکال کر عالم گیر کر دیا ہے۔ آج اُردو ادب کے قاری کو محض چند کلک کے فاصلے پر نہ صرف بین الاقوامی ادب کا مطالعہ میسر ہے، بلکہ اپنی زبان کا ادب بھی عالمی سطح تک پہنچانے کی سہولت بہ آسانی میسر ہے۔ جب کہ یہی صورت حال دیگر زبانوں کے ادب کے ساتھ بھی ہے۔
ادب کے ذریعۂ اظہار میں در آئے اِس انقلاب کو بامائل اختصار کچھ یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ کاغذی اشاعت سے آن لائن اشاعت تک رسائی کا اِک سفر ہے۔ ادب کے کاغذوں پر پھیلی سیاہی سے نقش تحریروں سے اسکرین میگا پکسلز پر پھیلی یونی کوڈ تحریروں تک کا اک انقلابی سفر ہے۔ ادب کی روایتی مقامیت سے ڈیجیٹل عالم گیریت تک کا اِک سفر ہے۔ روایتی طرزِ کی ادبی مجالس سے آن لائن ادبی محافل تک کا اِک سفر ہے۔ جس کا ایک حالیہ جان دار نمونہ ہم سابقہ سالوں یعنی عالمی کوروناوبا 2019ء-2022ء کے دورانیے میں ہونے والے آن لائن مشاعروں اور تنقیدی اجلاس کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔
اِسی انقلابی جہت کے سبب روایتی ذرائع جیسے کتب و رسائل، اخبارات اور مشاعرے اب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ساتھ ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی ڈیجیٹل دنیا میں سوشل میڈیا، بلاگز، اور آن لائن اشاعت نے اردو ادب کو ایک نئی وسعت عطا کی ہے۔ اب ادب کے کسی بھی سطح کے لکھاری کا کام چند لمحوں میں دنیا بھر کے قارئین تک بلاتفریق پہنچ سکتا ہے، جس کے باعث ادب کی رسائی بے حد آسان اور وسیع ہوچکی ہے۔
آن لائن ادب، روایت سے برعکس ادب کے تخلیق و مطالعہ کا طریق یکسر بدل رہا ہے۔ قارئین اب محض کاغذی کتب و رسائل تک محدود نہیں بلکہ برقی کتب”ای بکس"، صوتی کتب "آڈیو بکس"، اور دیگر آن لائن ادبی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ جدید ذرائع نہ صرف ادب کی ترویج میں انتہائی موثر ثابت ہو رہے ہیں بلکہ نوجوان نسل کو ادب سے جوڑنے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ شاعری اور نثر دونوں اصناف ادب اب ویڈیوز، پوڈکاسٹ، اور لائیو سیشنز کی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں، جو نوجوانوں کے لیے زیادہ پرکشش ہیں۔
ادب میں ذریعہ اظہار میں در آئے اِس جدید انقلاب نے مصنفین کے لیے تخلیقی آزادی کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ آن لائن ادب میں بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے نئے اور غیر معروف لکھاری بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور انداز میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام پر شاعری، افسانے اور مختصر کہانیاں، یوٹیوب پر ادبی مباحث، اور واٹس ایپ گروپس میں ادبی تبادلۂ خیال اِس انقلابی جہت کی چند واضح مثالیں ہیں۔
نیز یہ کہ برقی کتب "ای-بکس"، صوتی کتب، "آڈیو بکس"، آن لائن کتب خانے، آن لائن ادبی و صحافتی ویب سائٹس، آن لائن ادبی لغات، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپلی-کشنز کی ایک ان گنت تعداد آن لائن ادب کے وسیع تناظر میں موجود ہے۔ جو اُردو ادب کی آن لائن اشاعت و ترویج کے حوالے سے وہ کام سر انجام دے رہی ہے جو شاید اُن کئی بھاری بھرکم مجلد کتابوں پر بھی مسلمہ طور پر حاوی ہے جن کا مطالعہ آج کی مصروف ترین سوشل میڈیا صارف نوجوان نسل کی افتادِ طبع پر گراں گزرتا ہے۔ لیکن اِس آن لائن ادب کی برکت تلے آج اکیسویں صدی کی یہ نوجوان نسل بھی ادب سے کسی نہ کسی طور پر نہ صرف وابستہ ہے بلکہ ادب کی محبت میں دل گرفتہ بھی ہے۔ میری مراد یہاں رومانوی شاعری کی صنف میں بالخصوص ہجر و وصال اور مزاج کی حامل شاعری سے ہے۔ میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق ہمارے نوجوانوں میں اِس وقت سب سے زیادہ اِسی ہجر و وصال کے موضوع سے وابستہ رومانوی شاعری المعروف عاشق معشوقی والی شاعری مقبول ہے، جسے انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سب سے زیادہ پڑھی، دیکھی اور سنی جانے والی شاعری کا اعزاز حاصل ہے۔ اب اِس شاعری میں جہاں فکری و فنی حوالے سے عمدہ شاعری تخلیق کرنے والے شعراے کرام موجود ہیں وہیں فکری و فنی حوالے سے نری سطحی پن کی حامل مقبول عام شاعری تخلیق کرنے والے شعرا بھی موجود ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ فکری و فنی حوالے سے اچھی شاعری کی بجائے نری سطحیت کی حامل مقبول عام شاعری کو سوشل میڈیا کے توسط سے زیادہ سامعین و شائقین میسر آرہے ہیں۔
غرض یہ کہ آج آن لائن ذرائع سے ہم تک مقبول عام ادب سے لے کر ادب عالیہ تک ہر قسم کا ادب بہ آسانی پہنچ رہا ہے۔ یہی پہلو میں آن لائن ادب کی بنیادی خصوصیت کے طور پر خیال کرتا ہوں کہ اُس جدید اکیسویں صدی میں کہ جس کے بارے میں یہ بجا طور پر یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ:
کا غذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
غرض کتابوں سے عشق کی اِسی آخری صدی میں آج کی مستقل کتابی مطالعے سے عاری نوجوان نسل اور مجلد کتب و رسائل کے مابین آن لائن ادب ایک آسان دسترس رابطے کا کام نہایت خوبی و شائستگی سے سر انجام دے رہا ہے۔
حتیٰ کہ آن لائن ادب کے حوالے سے یہاں تک سہولت آن پہنچی ہے کہ ادب کے تخلیق کاروں کے لیے اب روایتی کاغذ قلم کی بجائے جدید آن لائن ٹائپنگ سافٹ ویئرز موجود ہیں۔ زیر تحریر مضمون بھی میں روایتی کاغذ و قلم سے لکھنے کی بجائے جی-میل آئی ڈی سے وابستہ آن لائن ٹائپنگ سافٹ ویئر "مائیکرو سافٹ ورڈ" پر لکھ رہا ہوں۔ جہاں بہ طورِ کاتب میں روایتی کاغذ و قلم کی بندشوں سے مکمل طور پر آزاد اپنی تحریر کو جب چاہے اور جتنا چاہے مٹا سکتا ہوں، کاپی پیسٹ اور کٹ کرسکتا ہوں۔ جب کہ یہ سہولت کاغذی کتابت میں سلاست و نفاست کے ساتھ ہرگز موجود نہیں ہے۔ دوم یہ کہ روایتی کاغذی کتابت پر لکھی تحریر میں پروف پڑھتے وقت غلطیوں کی تصحیح کے نتیجے میں کاغذ پر بے ترتیبی کے تحت بدصورت سا منظر بن جاتا ہے اور اگر آپ کی لکھائی بھی میری طرح خوش خط نہیں ہے تو ایسی حالت زار میں نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ تحریر واضح تفہیم و قرات سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔ لیکن "مائیکرو سافٹ ورڈ" جیسے آن لائن ٹائپنگ سافٹ ویئرز کی برکت تلے ہمیں کسی ایسی بے ترتیبی، بد صورتی یا ابہامی صورت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مصںف کی تحریر اُردو کے خوب صورت نستعلیق رسم الخط میں اپنی بہترین تفہیم و قرأت کے ساتھ موجود رہتی ہے۔ نیز یہ کہ روایتی کاغذ و قلم پر لکھی تحریر کی حفاظت بھی خصوصی دیکھ بھال کی متقاضی ہوتی ہے۔ جب کہ "مائیکروسافٹ ورڈ" جیسے آن لائن سافٹ ویئر میں لکھی تحریر آپ کی جی-میل کی آئی- ڈی کے توسط سے خود بہ خود محفوط ہوتی رہتی ہے اور اِسے تب تک نہیں مٹایا یا کھویا نہیں جاسکتا کہ جب تک ہم بذاتِ خود اِسے مٹا/ "ڈلیٹ" نہ کر دیں۔
کبھی بڑے بزرگوں کے پاس بیٹھیے تو کاغذی خطوط و مکاتیب کی اصل اہمیت و منزلت آپ کو وہ بتلائیں گے کہ بھئی کیسے محض آج سے دو تین دہائیوں پہلے یہ بہ ظاہر نہایت ہلکے پھلکے نظر آنے والے کاغذی خط عاشقوں کے حالِ دل سے لے کر، کاروباریوں کے حساب و کتاب تک اور عوام و خواص کے حالات سے لے کر ریاست و سیاست کے معاملات تک سبھی کچھ کس قدر محکم رازداری کے ساتھ پہنچاتے تھے۔ بہ شرطیکہ اِس رازدارنہ تبادلے کے دوران کسی رقیب یا حریف کی نگاہِ شریر کے شر سے بھی محفوظ رہے اور کسی نام نہاد محسن کی متجسس نگاہوں سے بھی بچ رہے۔ اِن رازدارنہ شرائط کے علاوہ جوابی خط کا انتظار اکثر کس قدر صبر آزما واقع ہو جاتا تھا۔ یہ کوئی اُس عورت سے پوچھے کہ جس کے پردیسی شوہر کا جب حسبِ توقع مہینے کی مقررہ تاریخ پر جوابی خط نہ آتا تو وہ کس بے قراری سے اپنے گھر کی دہلیز تھامے اپنی آنکھوں میں صبر کا پُرنم طوفان لیے ڈاکیے کی آمد کی منتظر ہوتی تھی یا پھر کوئی اُس کاروباری مرد سے پوچھے کہ جس کی کاروبار میں اگلی حکمت عملی کا سارا انحصار جوابی خط پر ہوتا تھا۔ لیکن انتظار کی یہ گھڑیاں اور رازدارنہ شرائط و تحفظات تب سب اچانک مٹنے لگ گئے  جب اکیسویں صدی کی ابتدا میں ہمارے ہاں (یعنی برصغیر پاک و ہند میں) عوامی سطح پر موبائل سروسز کے ساتھ ساتھ کال پیکج و ایس-ایم-ایس سروسز متعارف ہونے لگی۔ پھر رہی سہی کسر 2004ء میں جی میل آن لائن پیغام رسانی اور پھر بالترتیب 2009ء میں واٹس ایپ اور 2011ء میں فیس بُک میسنجر جیسے تبادلۂ معلومات و مواصلات کے آن لائن بڑے پلیٹ فارمز کی ایجادات نے نکال دی۔ جنھوں نے پیغام رسانی کے روایتی نظام یعنی کاغذی خطوط و مکاتیب کو مکمل طور پر پیچھے دھکیل دیا۔ آن لائن پیغام رسانی کے اِس جدید نظام میں نہ رازداری کے حوالے سے خواہ مخواہ کے تحفظات مطلوب تھے اور نہ ہی انتظار کے صبر آزما پل۔ یعنی اب آپ جب چاہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے مطلوبہ شخص سے نہایت محکم رازداری، آسانی اور برق رفتاری سے رابطے کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً اِس آن لائن پیغام رسانی کا ہمارے اُردو ادب پر جو اثر پڑ رہا ہے، وہ میں اِس مثال کے ساتھ واضح کرنا چاہوں گا۔ ذرا چند لمحوں کے لیے فرضی طور پر تصور کیجئے کہ مرزا غالب، سر سید اور اقبال جیسی نہایت قد آور ادبی شخصیات اگر آج کی ہماری اِس جدید آن لائن ادبی انقلاب کی حامل اکیسویں صدی میں آنکھ کھولتیں تو نہ تو ہمارے پاس مکاتیبِ غالب کا ادبی ورثہ ہوتا، نہ خطوطِ سر سید کا اور نہ ہی خطوطِ اقبال کا۔ کیونکہ اِن سبھی حضرات کے خطوط و مکاتیب کاغذی پیراہن کے بجائے، سگنلز کی غیر مادی شکل میں واٹس ایپ، فیس بک میسنجر یا ٹوئٹر اِن باکس میں موجود ہوتے۔ جن تک رسائی تقریباً ویسے ہی ناممکن ہوجاتی کہ جیسے آج کے وہ جدید شعرا و ادبا کہ جو کل ایک دو صدی گزرنے کے بعد کلاسیکی معتبر حیثیت اختیار کر جائیں گے۔ اِن سب کے خطوط آج کاغذی پیراہن کے بجائے ہوائی سگنلز کے غیر مادی پیراہن میں ملبوس ہیں۔ جن تک  کی زندگی میں ہی باقاعدہ اجازت لیے دسترس حاصل کرنے کی صورت کے ماسوا تقریباً دیگر کسی راستے سے بھی دسترس حاصل کرنا انتہائی مشکل یا غیر اخلاقی امر ہوگا۔ لہٰذا آج کے جدید شعرا و ادبا کے مجموعۂ خطوط پر مبنی ادبی ورثے کو مرتب و تالیف کرنے کے حوالے سے میں نہیں سمجھتا کہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے پاس کوئی(قانونی یا اخلاقی) صورت ہوگی۔
عین اِسی طرح ہمارے ہاں (برصغیر پاک و ہند میں) صحافتی ادب کے ضمن میں کاغذی اخبارات و رسائل آج سے محض چند دہائیوں قبل کس مقام و منزلت پر قائم تھے۔ اِس پر بھی ایک تجزیاتی نگاہ ڈالیےکہ کیسے اخبارات و رسائل کی خبریں، مضامین و کالم عوامی خیالات و جذبات کی ترجمانی سے لے کر حکومتی و سیاسی کارروائیوں تک کتنے وسیع پیمانے پر موثر ثابت ہوتے تھے۔کیسے اخبارات ایک انسان کی اںفرای حیات سے لے کر ریاست و حکومت کے اجتماعی معمولات تک سبھی پر کچھ یوں یکسر اثر انداز ہوتے تھے کہ محض ایک اخبار کی چند سطریں ایک شخص کے انفرادی زوایہ نگاہ کی تبدیلی سے لے کر بڑے بڑے سیاسی انقلابات کا پیشِ خیمہ ثابت ہو جایا کرتی تھی۔اگرچہ کہ اب بھی اخبارات کسی حد تک ہماری روزمرہ کی زندگی میں انقلابی سطح پر فائض ہیں۔ لیکن میرے طالبانہ عالمانہ مشاہدے کے مطابق اب اِن کی حیثیت نوجوان نسل میں مقبولِ عام کی سند سے اُٹھ کردفتری یا کلاسیکی حیثیت کی حامل ہوچکی ہے۔یعنی اب آپ کو اخبارات یا تو سرکاری یا بعض غیرسرکاری دفاتر میں ملے گئے یا پھر اُن گھروں میں کہ جن گھروں کے بڑے بزرگ اخبار کے مطالعے کے حوالے سے باذوق واقع ہوئے ہیں۔عرض یہ کہ ہماری نئی نوجوان نسل کا صحافتی و سیاسی شعور سمیت مذہبی ،اخلاقی اور تفریخی رحجانات کی سمت طے کرنے والا قبلہ اب کاغذی صحافتی ادب نہیں بلکہ آن لائن ادب اور بالخصوص سوشل میڈیا کی دنیا ہے۔سوشل میڈیا کے حوالے سے ہماری نوجوان نسل کے پاس ٹویٹر،فیس بک،انسٹاگرام،اور واٹس ایپ جیسے بڑے آن لائن پلیٹ فارمز موجود ہے۔ جبکہ باقی رہی سہی کسر ٹی-وی نیوز چینلز نے نکال کر رکھ دی ہے۔لہٰذا اب نوجوان نسل کے پاس کاغذی اخبار و رسائل میں دلچسبی ظاہر کرنے کی کوئی خاص فرصت ہی نہیں رہی۔شاید یہی وجہ ہے کہ تقریبا تمام تر بڑے صحافتی ادارے اب کاغذی اشاعت کے ساتھ ساتھ آن لائن اشاعت کے ضمن میں برقی اخبار”ای-نیوز پیپر “ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔حتیٰ کہ کئی کاغذی اخبارت نے تو اب آن لائن مطالعے کی سہولت کے پیشِ نظر باقاعدہ ڈیجیٹل اپلیکشنز و سافٹ وئیرز کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آن لائن صحافتی چینلز بھی متعارف کروا دیے ہیں۔اِس بڑے پیمانے پر صحافتی ادب کی آن لائن اشاعت یہ ثابت کرتی ہے کہ اب اِس حقیقت سے صحافتی مدیران بھی بخوبی آشنا ہوچکے ہیں کہ صحافتی ادب کی اصل بقا اب محض کاغذی اشاعت میں نہیں بلکہ آن لائن اشاعت میں مضمر ہے۔لیکن معلوم نہیں کہ یہ بات ہمارے شعراء و ادبا کو کب سمجھ میں آئے گئی کہ صحافتی ادب کی طرح تخیلی ادب کی بھی اصل بقا محض کاغذی اشاعت میں نہیں بلکہ آن لائن اشاعت میں مضمر ہے۔لہٰذا ہم ادبا و شعرا کو روایتی کاغذی اشاعت کے ساتھ ساتھ جدید آن لائن اشاعت کے حوالے سے بھی اپنی ادبی تخلیقات چھپوانے کا بالضررو بندوبست کرنا چاہیے۔اگر ہم یہ واقعی ہی چاہتے ہیں کہ ہمارا لکھا ہوا ادب موجودہ اور بالخصوص آئندہ آنے والی جدید نوجوان نسلوں کے لیے بھی اپنی پوری دلچسپی کے ساتھ باآسانی دستیاب رہے۔
برصغیر (پاک و ہند) میں آن لائن ادب کے حوالے سے یہاں یہ دو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔اول یوٹیوب اور دوم فیس بُک۔یوٹیوب سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اَن گنت ایسے ادبی یوٹیوب چینلز موجود ہے کہ جو ادب کی روایتی ترویج کے ساتھ ساتھ نئی ادبی تخلیقات کی پیشکش میں بھی نہایت سرگرم و متحرک ہے۔نہ صرف موجودہ عہد کے کئی شعراء و ادباء کے آفیشل یوٹیوب چینل موجود ہے جو آئے روز اپنی نئی نت تخلیقات و مشاعروں کی رُوداد ایچ-ڈی کمرے کی عکس بندی میں پیش کر رہے ہیں بلکہ محبانِ اُردو ادب کی خدمات تلے کئی مرحوم روایتی شعراء و ادباء کے بھی یوٹیوب چینلز بھی موجود ہیں۔ جن میں کلیاتِ میر و سودا سے لے کر دیوان فیض و فراز تک اور میدان نثر میں خطوطِ غالب و اقبال سے لے کر منٹو و یوسفی کے نثر پاروں تک سبھی کچھ محفوظ کیا جا رہا ہے۔مزید یہ کہ کئی یوٹیوب چینلز پر ہمیں مختلف وڈیو تبصروں اور پوڈکاسٹس کے ذریعے جہاں ہمیں کئی ادبی تنقید و تحقیق کے اچھے نمونے دیکھنے کو مل رہے۔وہی ادبی شخصیات سے متعلقہ نظریات و تخلیقات کو سمھنے میں نہایت معاون کئی ڈاکو مینٹریاں ، فلمیں اور ڈرامے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اِن میں بطورِ اعلیٰ فنی نمونے کے فلم مرزا غالبؔ (1954ء)، ٹی-وی سریز مرزا غالبؔ(1988ء)،ڈاکو مینٹری میر تقی میرؔ (2015ء)،فلم منٹو (2018 ء) ، ڈرامہ منٹو (2015ء) ، فلم امراو جان ادا (2006ء برمبنی ناول مرزا ہادی رسوا) ، مٹھی بھر چاول (1978ء بر مبنی ناولِ امراتا پریتم) فلم خاک اور خون (1979ء برمبنی ناول نسیم حجازی) سمیت پی-ٹی-وی پاکستان اور دُور درشن انڈیا کی طرف سے پیش کردہ ادبی ڈراموں ، افسانوں اور ناولوں کی ایک لبمی فہرست مختلف یوٹیوب چینلز پر متفرق انداز میں موجود ہے۔
عین اِسی طرح فیس بک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی کچھ اِسی طرح کے حالات ہیں کہ فیس بک پر انفرادی سطح کی پروفائل پوسٹس سے لے کر اجتماعی سطح پر فیس بک گروپس پوسٹس تک سبھی میں روایتی و جدید ادبی تخلیقات پیش کی جا رہی ہے۔مزید یہ کہ فیس بک کے توسط سے ہی اکثر کتابی میلوں اور ادبی مقابلوں کی اطلاعات کی گونج ہمارے کانوں تک باآسانی پہنچتی رہتی ہے۔
ادب کے ذریعے اظہار میں یہ انقلابی جہت محض ایک تکنیکی سہولت نہیں بلکہ اپنے دامنِ فکر میں کئی ایک فکری مسائل بھی رکھتی ہے۔سب سے بڑا مسئلہ معیاری ادب کے تحفظ کا ہے، کیونکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر تحریروں کی بھرمار کے باعث غیر معیاری اور سطحی مواد کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں اصل اور گہرے تخلیقی ادب کو نمایاں کرنا ایک مشکل کام بن چکا ہے۔ مزید یہ کہ آن لائن اشاعت نے ادبی حقوق کے تحفظ کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے، کیونکہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزیوں کی روک تھام ایک قابل توجہ مسئلہ ہے۔
اردو رسم الخط، بالخصوص نستعلیق خط، کے بقا کا سوال بھی ادبی دنیا کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ رومن اردو کے بڑھتے ہوئے رجحان نے نہ صرف روایتی رسم الخط کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ نوجوان نسل میں اردو کے ادبی ذوق کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب میں قارئین کی دلچسپی تفریحی مواد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، جس سے سنجیدہ اور فکری ادب کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔
ڈیجیٹل دنیا میں مواد کی افراط ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود مواد کی کثرت نے قارئین کے لیے انتخاب کو مشکل بنا دیا ہے، اور وہ اکثر معیاری ادب کی پہچان کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، موجودہ مصروف طرزِ زندگی میں قارئین کے پاس سنجیدہ مطالعے کے لیے وقت نکالنا بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے مزید یہ کہ سوشل میڈیا نے مصنفین کو آزادی تو دی ہے، لیکن مقبولیت کی دوڑ میں کئی مصنفین معیاری تخلیق کے بجائے سطحی تخلیق پیش کر رہے ہیں۔
عرض اِسی مقام فکر پر ہمیں اِن سوالات کے پیشِ نظر مذکورہ فکری مسائل کو پرکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ آیا واقعی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر غیر معیاری اور سطحی ادب کی بھرمار نے سنجیدہ اور گہرے تخلیقی ادب کو پسِ پردہ دھکیل دیا ہے، یا یہ صرف ادبی رویوں میں تبدیلی کا نتیجہ ہے؟کیا اردو رسم الخط کے زوال کی اصل وجہ رومن اردو کا بڑھتا ہوا رجحان ہے، یا پھر یہ جدید طرزِ زندگی اور تعلیمی نظام کی ترجیحات کی تبدیلی کا شاخسانہ ہے؟کیا سوشل میڈیا نے واقعی ادبی معیار کو کمزور کر دیا ہے، یا اس نے نئے مصنفین کے لیے اظہار کے دروازے کھول کر ادبی تنوع میں اضافہ کیا ہے؟کیا قارئین کی سنجیدہ ادب میں عدم دلچسپی محض تفریحی مواد کی افراط کا نتیجہ ہے، یا یہ ایک وسیع تر سماجی، تعلیمی اور ذہنی ارتقا کا حصہ ہے؟
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:فن لینڈ کا تعلیمی نظام






شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے