اعظم کریوی: حیات اور شخصیت

اعظم کریوی: حیات اور شخصیت

ڈاکٹر جہاں گیر حسن
شاہ صفی اکیڈمی جامعہ عارفیہ، سید سراواں
ضلع کو شامی ( یوپی ) ، پن کوڈ : 212213

نام تخلص اور نسبتی صفت: اصل نام انصار احمد اور قلمی نام اعظم کریوی ہے۔ اس میں اعظم تخلص اور کریوی آبائی گاوں کرئی کی طرف منسوب ہے۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ استاذ نوح ناروی نے اُن سے پوچھا: اعظم! یہ تم اپنے نام کے ساتھ کریوی کیوں لکھتے ہو؟ اعظم کریوی نے جواب دیا: استاذ! بالکل اسی طرح جیسے آپ اپنے قصبے نارہ کی مناسبت سے ناروی لکھتے ہیں۔ اُستاذ! ایک دن آئے گا جب کرئی دور دور تک مشہور ہوگا۔(1)
ان کی یہ پیشین گوئی صد فی صد درست ثابت ہوئی کہ آج اعظم کریوی ایک دمدار ستارے کی مانند فکشن کی دنیا میں چمک دمک رہے ہیں۔
آباد اجداد کے نام: "فیاض احمد والد مکرم ہیں۔" قادر بخش جدا مجد ہیں۔ جب کہ اسرار احمد (کریوی) اور محمد احمد دونوں بالترتیب چھوٹے بھائی ہیں۔ اعظم کریوی اُن میں سب سے بڑے ہیں۔ 1947، سانحے کے شکار اعظم کریوی بھی ہوئے اور باوجودیکہ والدین سے بڑی محبت کرتے تھے برادر اوسط اسرار احمد کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔ اس کے برعکس والد مکرم فیاض احمد اور برادر اصغر محمد احمد نے ہندستان میں رہنا پسند کیا۔ اس طرح انھیں دو سانحوں سے دو چار ہونا۔ ایک والدین کے سایہ عاطفت سے محروم اور ایک آبائی وطن کی دردناک جدائی۔
اعظم کریوی کو والدین کریمین سے کس قدر محبت تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی اُس کے پاس والدین کا کوئی خط آتا تو وہ اسے پڑھنے کے بعد اپنے بچوں کو دیتے اور کہتے : بیٹا "اسے چومو، یہ تمھارے دادا دادی کا خط ہے۔(2) اعظم کریوی اپنی اولاد کو برابر سے کہتے رہتے تھے کہ ” میرا کہا بے شک ایک متعلق بہت ہی Touchy واقع ہوئے تھے۔ وہ سب کچھ سن لیتے تھے اور برا دشت بھی کر لیتے تھے لیکن اپنی ماں کے بارے میں بالخصوص وہ کچھ نہیں سن سکتے تھے۔ (3)
خاندانی نسب نامہ: مشربی سلاسل نقشبندیہ کی طرح سہروردیہ ایک اہم سلسلہ ہے۔ اس کے بانی عارف باللہ شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک مشہور و معروف شخصیت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی قدس سرہ گزرے ہیں جن کی خاندانی شرافت و نجابت کا ایک عالم قائل ہے، اور جن کی یادگار کے بہ طور بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی نامی ایک تعلیمی ادارہ پاکستان میں موجود ہے۔ یہ عظیم الشان دانش گاه 1975ء میں قائم کی گئی تھی۔ اعظم کریوی کا تعلق اسی معزز گھرانے اور خاندان سے تھا۔ کریوی خاندان کے ایک قلمی شجرے کے بہ موجب: شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی مشہور صوفی سلسلہ سہروردیہ کے رکن رکین تھے اور حسبا و نسبا پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے۔ بایں سبب کریوی خاندان بھی  ہاشمی کہلاتے ہیں۔ اس خاندان کا تذکرہ ”منبع الانساب" اور حکیم نجم التقی خاں رام پوری کی مشہور کتاب "آئین اُردو" میں بالتفصیل موجود ہے۔ اس خاندان کے مورث اعلی (شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی) کا مزار مبارک ملتان (پاکستان) میں زیارت گاہ ہر خاص و عام ہے۔(4)
یه با برکت اور نیک خاندان الہ آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں "کرئی" میں کیسے پہنچا؟ تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ غیر منقسم ہندستان کی مشہور و معروف شخصیت اور سہروردیہ سلسلے کے عظیم بزرگ حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی قدس سرہ کے نامور نبیرہ و خلیفہ حضرت شیخ عمادالدین شاہ اسمعیل قریشی ہاشمی کو ان کے علم و فضل کی بنا پر شاہان تغلق میں سے کسی بادشاہ نے الہ آباد میں ایک جاگیر عطا کی۔ لہٰذا وہ ملتان سے الہ آباد پہنچے اور موضع بمرولی میں آباد ہوئے۔ یہ موضع الہ آباد سے چھ میل دور مغربی طرف گنگا ندی کے داہنے کنارے پر واقع ہے۔(5) پھر آپسی اختلافات کے باعث خاندان کے کچھ افراد نے بمرولی کو خیر باد کہا اور الہ آباد کے مختلف علاقوں میں جا ہسے۔ خواجہ محمد اسی خاندان سے متعلق تھے چناں چہ انھوں نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ لب گنگا کورئی نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کو اپنا مستقل مستقر بنایا اور یہ خاندان 1947ء تک مقیم رہا۔(6)
اس طرح سہروردی خاندان کا قافلہ جو شاہ اسمعیل کے ساتھ الہ آباد آیا تھا اُس کی مختلف شاخیں الہ آباد و اطراف میں خوب پھیلیں اور سیاست و معاشرت پر اپنی علمیت وادبیت کے گہرے نقوش چھوڑیں۔ یہی وہ اسباب ہیں کہ اعظم کریوی کو اپنی خاندانی نجابت و شرافت کا غیر معمولی احساس تھا۔(7) چناں چہ اس کا اظہار وہ اس طور پر کرتے تھے کہ "پدرم سلطان بود“ کا نعرہ لگانا میں کچھ اچھا نہیں سمجھتا، ورنہ اپنے خاندانی بزرگوں کے تذکرے سے کئی صفحات بھر دیتا مختصر طور پر یہ سمجھیے کہ اللہ تعالی کے فضل سے سہروردیہ ایسے معزز خاندان کا ایک فرد ہوں۔(8)
انتباہ بجلی شجرے کے مطابق سلسلۂ نسب شیخ زکریا ملتانی کے نامور خلیفہ اور سہروردی سلسلے کے عظیم بزرگ حضرت اسمعیل رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے جس کی تائید اعظم کر بیوی کے اس دعوے سے ہوتی ہے: "مختصر طور پر یہ مجھے کہاللہ تعالی کے فضل سے سہروردی ایسے معزز خاندان کا ایک فرد ہوں۔" گو یا اعظم کریوی کا خاندانی رشتہ سہروردی سلسلے کے ایک بزرگ شیخ عماد الدین شاہ اسمعیل ملتانی سے ہونا تو امر واقعی ہے جو ان کی عظمت و شرافت کے لیے کافی ہے اور مزید کسی اضافی دلیل کی ضرورت نہیں۔ لیکن اُن کا سلسلہ نسب شیخ زکریا ملتانی قدس اللہ سرہ تک پہنچتا ہے اس تعلق سے حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے اور بالکلیہ انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ بھی امکان ہے کہ شیخ زکریا ملتانی سے شاہ اسمعیل ملتانی کا ارادتی تعلق ہونے کے ساتھ ساتھ نسبی تعلق بھی ہو مگر یہ ایک گمان ہی ہے امر محقق نہیں۔
خاندانی نسب نامہ درج ذیل ہے:
1- حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی قدس سره
2- حضرت شاہ اسمعیل (نامور نبیره وخلیفہ شیخ زکریا ملتانی)
3- خواجہ محمد
4- بشارت علی
5- جان عالم
6- قادر بخش
7- فیاض احمد
8 – انصار احمد (اعظم کریوی)
انتباہ: خاندانی قلمی شجرے میں حضرت شاہ اسمعیل ملتانی کو شیخ زکریا ملتانی کا نامور خلیفہ بتایا گیا ہے اور خالد کا خط بنام حامد کمال ناروی میں شیخ عماد الدین شاہ اسمعیل قریشی ہاشمی کو شیخ زکریا ملتانی کا پوتا/ بھتیجا کہا گیا ہے۔ پس اگر یہ دونوں ایک ہی ہیں تو ان کے والد ماجد کا کیا نام ہے یہ معلوم نہیں، پھر خواجہ محمد اور شاہ اسمعیل کے درمیان کیا رشتہ ہے یہ بھی واضح نہیں!! حالاں کہ ہم نے خالد بن عمر کے خط پر اعتماد کرتے ہوئے شاہ اسمعیل ملتانی کو شیخ زکریا ملتانی کا نبیرہ فی الحال تسلیم کر لیا ہے تا آنکہ کوئی اور تحقیق سامنے نہیں آجاتی۔ اسی لیے ہم نے ماقبل میں شاہ اسمعیل ملتانی کے ساتھ "نبیرہ" اور "خلیفہ" دونوں تحریر کیا ہے۔
تاریخ و سال پیدائش: اعظم کریوی 1899ء کو ہندستان میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن کورئی ہے جو پرگنہ (تحصیل) چائل ضلع اللہ آباد، اتر پردیش میں واقع تھا اور ضلع کو شامی میں واقع ہے۔(9) کورئی، بوڑھی گنگا کے کنارے ایک خوب صورت گھاٹ تھا جہاں بہ مشکل ساٹھ (60) گھر بستے تھے۔ آج بھی یہ گاؤں، بوڑھی گنگا کے کنارے واقع ہے۔ البتہ تعلیم و تعلم کے اعتبار سے آج کل اس گاؤں کی حیثیت پہلے جیسے نہیں رہی۔
انتباہ: ماہنامہ اخبار اعظم، اعظم نمبر میں 22 جون 1898ء سال و تاریخ پیدائش ہے اور مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کے لیے جس سرٹیفکیٹ کو درخواست کے ساتھ منسلک کیا تھا اُس میں 16 دسمبر 1901ء مندرج ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تاریخ و سال کے سلسلے میں حتمی طور پر کچھ کہنا بڑا مشکل ہے۔ لیکن چوں کہ اعظم کریوی نے بذات خود اپنا سال پیدائش 1899، درج کیا ہے، لہذا ہمارے نزدیک یہی زیادہ قرین قیاس اور درست معلوم ہوتا ہے۔ بایں سبب 1899ء کو ہی ہم نے لائق اعتبار اور درست تسلیم کیا ہے۔
کرئی گاؤں کا محل وقوع: کورئی گاؤں کے محل وقوع کے تعلق سے اعظم کریوی خود اپنی ایک تحریر "میں افسانہ کیوں کر لکھتا ہوں" میں لکھتے ہیں: میرا گاؤں کورئی، چائل پرگنہ ضلع الہ آباد میں گنگا جی کے کنارے واقع ہے۔ قریب پانچ سال ہوئے میں الہ آباد سے لاری پر کورئی کے لیے روانہ ہوا۔ الہ آباد سے گیارہ (11) میل پر ایک گاؤں کوئلہا رسول پور ہے، وہاں مجھے لاری سے اُترنا پڑا۔ اب کورئی پہنچنے کے لیے مجھے چھ میل پیدل چلنا تھا۔ (10) گویا اعظم کریوی کا آبائی وطن شہر الہ آباد سے سترہ (17) میل کی دوری پر دریائے گنگا کے کنارے واقع ہے۔
کرئی گاؤں کی وجہ تسمیہ: "کورئی" گاؤں کی وجہ تسمیہ مختلف تحریروں میں جو ہمیں ملی وہ یہ ہے کہ رام چندر جی کو جب بن باس ہوا اور اجودھیا سے روانہ ہوئے تو راجہ پور گھاٹ ہوتے ہوئے کورئی گھاٹ پر اترے۔ یہاں سیتا جی کی انگوٹھی اُن کی انگلی سے نکل کر دریائے گنگا میں گرگئی جے تلاش کرنے کے لیے دیوتا اور آسمانی وجود پانی میں اُترے۔ انگوٹھی تلاش کرنے کے دوران ایک جگہ بہت زیادہ کھدائی ہو گئی اور وہاں پر دریائے گنگا بہت گہرا ہو گیا، لہذا اسے "سیتا کنڈ" کہا جانے لگا۔ نیز کھدائی کے وقت دریائے گنگا کی تہہ سے نکلی ہوئی مٹی چوں کہ اُس کے دائیں کنارے پر رکھی گئی جس سے وہاں ایک اونچی جگہ بن گئی اس لیے اس جگہ کو پاس پڑوس کے لوگ "کورئی" کہنے لگے اور اس طرح "کورئی" نام قرب و جوار میں ہر طرف مشہور ہو گیا۔ انتباہ: اعظم کریوی کے آبائی گاؤں کا نام متعدد تحریروں میں مختلف طریقے پر درج ہے مثلا : کورئی، کوری، کرئی وغیرہ۔ ہمارے خیال سے درست املا "کورئی" ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ لفظ "کورائی بہ معنی کھودائی" کا متبادل ہونے سے زیادہ قریب ہے۔
عہد طفولیت اور پرورش: اعظم کریوی کے والد فیاض احمد علاقے کے بڑے زمین دار تھے، اس لیے اُن کا بچپن بڑی خوش حالی اور بے فکری میں بسر ہوا۔ چوں کہ کورئی کے ایک طرف دریائے گنگا واقع تھا اور ایک طرف کھیت کھلیان کی صاف و شفاف اور سرسبز فضا ئیں، اس لیے اعظم کریوی نے سیپیاں چننے کا بھی لطف اُٹھایا اور سیر و تفریح اور اچھلنے کودنے کا بھی مزہ لیا۔ شاید اسی خوش حالی اور بے فکری نے اُن کی طبیعت میں صفت ضد کا عنصر غالب کر دیا. کیوں کہ ان کے [والد] فیاض احمد جب کبھی باہر جاتے تو اعظم کریوی زبردست چیخ و پکار مچاتے اور زمین [پر] لوٹ لوٹ جاتے کہ ہم بھی ہمراہ چلیں گے۔چناں چہ ان سے عاجز آکر  انھوں نے یہ حل نکالا کہ کہیں جانے سے دو تین گھنٹے پہلے باغ میں گھوڑی، کاٹھی اور چارہ وغیرہ بھجوادیا کرتے تا کہ اعظم کو ان  کے نکلنے کا پتا نہ چل سکے۔(11) علاوہ ازیں اعظم انتہائی جری اور دلیر ہونے کے ساتھ بلا کی قوت فیصلہ رکھتے تھے۔ ایک بار فیاض احمد بسہڑی (بسیڑھی) شادی کی ایک تقریب میں گئے، اعظم بھی اُن کے ساتھ تھے۔ اُس وقت اعظم کی عمر بہ مشکل سات سال رہی ہوگی۔ لیکن غروب آفتاب کے بعد کسی کو کچھ بتائے بغیر تن تنہا کورئی واپس چلے آئے۔ بسیڑھی سے کورئی دو میل کے فاصلے پر تھا۔ (12) ایک اور خصوصیت جو اعظم کو ان کے معاصر بچوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ ہے اُن کی حسی قوت جس کے اثرات اُن کے افسانوں پر بہ خوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔
حصول تعلیم: چوں کہ گھرانا شریف و نجیب اور تعلیم یافتہ تھا اس لیے اعظم کریوی کی تعلیم و تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی گئی، تعلیم کی ابتدا گاؤں ہی سے ہوئی اور پھر مزید تعلیم کے لیے شہر کا رخ کرنا پڑا.(13) لہذا حصول تعلیم کی غرض سے اپنے ماموں احتشام الدین کے پاس سہارن پور گئے جہاں وہ پولیس انسپکٹر کی حیثیت سے تعینات تھے۔ وہاں اعظم کا داخلہ ایک اسکول میں کرایا گیا۔ اسی درمیان چندن نامی ایک پنڈت دوشیزہ سے محبت کا رشتہ استوار ہو گیا۔ جب اس کا شہرہ اہل خانہ تک پہنچا تو چندن کا اسکول جانا بند ہو گیا اور اس کے باعث ماموں کی طرف سے اعظم کو بھی بہت کچھ سخت و سست سننا پڑا۔
کچھ عرصہ بعد احتشام الدین کا تبادلہ علی گڑھ ہو گیا تو اعظم بھی اپنے ماموں کے ساتھ علی گڑھ پہنچ گئے لیکن ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ الہ آباد لوٹ گئے اور آگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اعظم کا داخلہ بورڈنگ اسکول میں کرادیا گیا۔(14) الہ آباد ہی میں انٹر پاس کیا اور ایف. اے میں داخلہ لیا لیکن ابھی ایف. اے کورس کا دوسرا سال ختم نہیں ہونے پایا تھا کہ تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا اور ملازمت کی طرف مائل ہو گئے۔
عہد ملازمت: آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ اعظم کریوی نے اپنی ملازمت کا آغاز کلرک سے کیا۔ اولین دفعہ وہ سہارن پور کے ایک سرکاری دفتر میں بہ حیثیت کلرک ملازم ہوئے۔ یہاں ایک بار پھر چندن سے ملاقات ہوئی اور پرانی یادیں تازہ کیا ہوئیں کہ محبت آمیز خط و کتابت کا دور شروع ہو گیا۔ لیکن جب اس معاشقے کی بات چندن کے قریبی رشتے داروں تک پہنچی تو وہ اعظم کے جانی دشمن ہو گئے۔ 1916ء میں میرٹھ چلے گئے اور 1920ء تک وہاں قیام پذیر رہے اور میرٹھ سے ہی سال 1919ء میں اُن کے رومانی خطوط پر مشتمل ایک مجموعہ "پریم پتر" کے نام شائع ہوا۔ اس کے بعد الہ آباد واپسی ہوئی اور یکم ستمبر 1921ء کو الہ آباد کے ایک فوجی ادارے میں عارضی سویلین کلرک کے طور پر بحال ہوئے۔ 18 مئی 1922ء کو مستقل کلرک بنائے گئے اور 18/ اکتوبر 1926ء تک الہ آباد میں ہی رہے۔
یہی وہ زمانہ ہے کہ اعظم کریوی ”ماہنامہ طوفان" الہ آباد کی ادارتی بورڈ سے منسلک ہوئے اور نوح ناروی کی سر پرستی میں نکلنے والے اس ماہنامے کے مدیر قرار پائے اور اس میں اُن کا پہلا افسانہ "پریم کی انگوٹھی" شائع ہوا۔
الہ آباد سے تبادلہ ہوا تو کوئٹہ چلے گئے اور 19 اکتوبر 1926ء سے 19 اکتوبر 1928، تقریبا دو سال تک جبل پور میں تعینات رہے۔ اس کے بعد بھی مختلف مقامات پر تبادلہ ہوتا رہا. لیکن ایک بار پھر میرٹھ جاپہنچے اور 12 اپریل 1941ء سے 22 دسمبر 1942ء تک ہیڈ کوارٹرز میرٹھ ڈسٹرکٹ کے وینٹری برانچ کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر مامور ہوئے اور اس درمیان کچھ دنوں کے لیے دہرہ دون میں بھی تعینات رہے۔
اعظم کر یوی کے لیے 1928-1942ء کا زمانہ تحریر و تالیف کے لحاظ سے بڑا زرخیز معلوم ہوتا ہے، مثلاً:
1 – زمانہ، نگار، الناظر، عصمت،مخزن، ہمایوں وغیرہ مشہور و معروف رسائل میں اعظم کے افسانے شائع ہوئے۔ 
2۔ اُن کی مختلف کتابیں منظر عام آتی ہیں، مثلاً: ایک کتاب "ہندی شاعری" 1931ء میں کتابستان، الہ آباد سے شائع ہوئی اور ایک کتاب "دیہاتی گیت" 1939ء میں ہندوستانی اکیڈمی، الہ آباد سے شائع کی گئی۔ جب کہ اُن کا اولین افسانوی مجموعہ "پریم کی چوڑیاں" 1942ء میں شائع ہوا۔ اس زمانے میں اعظم کریوی رسالہ اکبر کے شعبہ ادارت سے بھی منسلک رہے۔
اس کے بعد سال 1942-1943ء میں چھ سات مہینے کے لیے بنگال میں تعینات رہے، پھر انبالہ چلے گئے اور 1943ء سے 23 نومبر 1947ء تک انبالہ/ سباتھو میں رہے۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ کافی جد و جہد اور عمل پیہم کے بعد ہندستان کو آزادی ملی اور تشکیل پاکستان عمل میں آئی۔
1947-1924ء کا عہد افسانہ نگاری کے اعتبار سے انقلابی ثابت ہوا کہ اس دوران تقریبا چھ افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ مثال کے طور پر "شیخ و برہمن" اور "دکھ سکھ" یہ دونوں مجموعے 1943ء میں "انقلاب" اور "کنول" یہ دونوں مجموعے 1944ء میں، "ہندوستانی افسانے" اور "روپ سنگھار" یہ دونوں مجموعے 1945ء میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئے۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے، وہیں سرگودھا میں ملازم بحال ہوئے اور 24 نومبر 1947ء سے 29 دسمبر 1947ء تک رہنے کے بعد وہاں سے اُن کا تبادلہ راولپنڈی کر دیا گیا۔ یہاں وہ 30 دسمبر 1947ء سے 19 اگست 1948ء تک ہیڈ کوارٹر ڈویژن : 7 میں تعینات رہے،  پھر 10 اگست 1948ء سے 28 اگست 1948ء  تک انٹر سروس پبلک ریلیشن ڈائریکٹریٹ منسٹری آف ڈیفنس راولپنڈی میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد ملیر کینٹ تبادلہ ہو گیا، جہاں اعظم ہفتہ واری اخبار "مجاہد" کے مدیر رہے اور 29 اگست 1948ء سے 17 مئی 1949ء تک منصب ادارت سے وابستہ رہے۔ کچھ دنوں تک انگریزی اخبار "اسٹینڈرڈ" پاکستان کے ایڈوٹوریل شعبے میں بھی کام کیا، اور بالآخر اپنی ملازمت کی تیس سالہ مدت پورا کرنے کی بعد ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ وقفے وقفے سے کچھ عرصے تک سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ملازمت کرتے رہے۔ مثلا: ایک فرم "یونائیٹڈ نیشنز" کے دفتر میں کچھ عرصہ تک کام کیا اور کچھ دنوں تک حفیظ جالندھری کے پرائیویٹ سیکریٹری بھی رہے۔ جب کہ ضمیر جعفری کے ایک مضمون ”ڈاکٹر اعظم کریوی کے ساتھ دو سال" مشمولہ ماہنامہ ساقی کراچی، نومبر 1955، ص: 31 سے انکشاف ہوتا ہے کہ اعظم نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی 1953ء تک "مورال بلڈنگ محکمے" میں اُن (جعفری) کے ماتحت کام کیا۔
پاکستان ہجرت کر جانے کے بعد اعظم کریوی کی افسانہ نگاری میں کمی آگئی تھی اور فقط چند گنے چنے افسانے ہی لکھ پائے۔ اُن میں ایک افسانہ "مہاجر کی عید" اور ایک کہانی کا سلسلہ "دکھیا کی کہانی میری زبانی" قابل ذکر ہے۔ دکھیا کی کہانی میری زبانی کے عنوان سے ایک سلسلہ وار کہانی ماہنامہ "عصمت" کراچی کے لیے شروع کیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور مذکورہ کہانی کا یہ سلسلہ پانچ کے عدد پر ہی رک گیا۔ 
ازدواجی زندگی: اعظم کریوی نے یکے بعد دیگرے کل چار شادیاں کیں، بیویاں اور اُن سے ہونے والی اولاد کی تفصیل حسب ذیل یہ ہے:
بیویاں / زوجات
1- خلیق النساء: یہ قریبی رشتے دار کی دختر تھی جس سے کریوی کی پہلی شادی ہوئی لیکن ان کی پہلی بیوی زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکی۔
2- چندن عرف چاند سلطانہ: چندن سے شادی کیسے ہوئی؟ اس کی تفصیل جاننے کے لیے افسانہ ” کنول پڑھنا مناسب رہے گا۔ ہمارے خیال سے اعظم کریوی کی آب بیتی کا مطالعہ افسانہ کنول میں بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔
3- نام معلوم نہیں: یہ افتخار احمد کی والدہ ہے، اعظم کریوی نے جب ان سے نکاح کیا تھا تو غالباً یہ بچہ تھیں۔
4-خیر النساء بیگم : ( تفصیل ندارد )
اولاد امجاد
بیٹے:
1 – اسلم : یہ خلیق النساء کے بطن سے پیدا ہوا، اور ہندستان ہی میں سکونت اختیار کی۔
2 مہتاب احمد: یہ چندن عرف چاند سلطانہ کا بیٹا تھا جو 22 سال کی عمر میں قیام میرٹھ کے دوران نہر میں ڈوب کر انتقال مر گیا۔ اس کی موت کا اثر اعظم پر کافی گہرا پڑا، جس کی وجہ سے کچھ دنوں تک وہ کافی اضطراب و پریشانی میں بھی رہے۔
3- افتخار احمد (تیسری بیوی کے بطن سے)
4۔ نیر اعظم (تیسری بیوی کے بطن سے)
5 سلیم اعظم ( چوتھی بیوی خیر النساء کے بطن سے)
6- خالد اعظم (چوتھی بیوی خیر النساء کے بطن سے)
8- عزیز احمد ( تیسری بیوی کے پہلے شوہر سے )
8- حبیب احمد ( تیسری بیوی کے پہلے شوہر سے)
بیٹیاں :
چندن عرف چاند سلطانہ سے تقریبا سات بیٹیاں پیدا ہوئیں:
1 – خورشید سلطانہ
2- اختر سلطانہ
3- قمر سلطانہ (یہ کوئٹہ میں پیدا ہوئی اور صرف آٹھ ماہ زندہ رہی)
4- ثریا سلطانہ
5 نجمہ سلطانہ
6 شمع سلطانہ
7- ناہید اعظم
تیسری بیوی سے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
8- زينت النساء 9- تہذیب النساء 10 – فرحت یاسمین
خیر النساء سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
11 – صالحہ 12 – مبوتی (صبیحہ بھی) (15)
گو یا ڈاکٹر اعظم کریوی کی تقریبا 20 اولاد ہوئیں جن میں 8 لڑکے اور 12 لڑکیاں شامل ہیں۔
وفات: اعظم کریوی جو کبھی انتہائی معیش و عشرت کی زندگی بسر چکے تھے آخری عمر میں انھیں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اُن کی پیشانی ذرہ برابر بھی شکن آلود نہیں ہوئی۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ایک بار پھر کہانی لکھنے کی طرف مائل ہوئے اور سچی کہانی پر مشتمل ایک سلسلہ دکھیا کی کہانی کے نام شروع کیا اور ابھی اُس کے غالباً چار پانچ سلسلے ہی شائع ہوئے تھے کہ اُس کہانی کے سبب جان لیوا حملہ ہوا اور 1955ء میں اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔
شخص و عکس: اعظم کریوی کے اوراق حیات پلٹنے سے انداز ہ ہوتا ہے کہ اعظم کی شخصیت تضادات کا مجموعہ ہے۔ ایک طرف احباب متعلقین انھیں تیز مزاج، غصیلے، کھردری طبیعت کا مالک بتاتے ہیں تو دوسری طرف اصدقا انھیں نازک مزاج، زندہ دل، بذلہ سنج، ہمدرد اور دوست نو از شخصیت کہتے ہیں۔ مثلا برادر اوسط اسرار احمد کریوی اپنے مضمون "ذکر اعظم کریوی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ضدی طبیعت پائی تھی اور تیز غصہ والے تھے۔ (16) یہاں تک کہ اپنے غصے کی تیزی کے باعث انگریز وغیرہ کو گالی دینے اور انگریز افسروں کو پیٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ بایں سبب وہ ترقی نہ کر سکے جب کہ اعظم کے ساتھی نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ فوج میں اُن کی ترقی نہ ہونے کی وجہ صرف اُن کا غصہ تھا۔ (17) اس کے برعکس ایک مراسلہ جو اعظم کریوی نے 1934 ء کے اخیر میں نیرنگ خیال لاہور کے ایڈیٹر کو لکھا تھا اس کے بہ موجب: اعظم بڑے نازک مزاج اور جذباتی معلوم ہوتے ہیں۔ مراسلہ میں درج ہے کہ شور و غل سے بہت گھبراتا ہوں۔ دل پر کسی خاص واقعہ یا نظارہ کا اثر ہوا کہ میں تنہائی میں افسانہ لکھنے بیٹھ جاتا ہوں، اس عالم میں اگر میرے کسی کرم فرما نے پکارا، یا میرے بچوں نے شور مچایا تو پھر لاکھ کوشش کرنے پر بھی اس وقت اپنے افسانے کو مکمل نہیں کر سکتا۔ چناں چہ اس نقص کی وجہ سے سال میں دو چار ہی اوریجنل افسانے لکھ پاتا ہوں۔ (18)
اعظم کریوی اپنے والدین کے بڑے چہیتے، لاڈلے اور پیارے تھے، اور اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس سے پیشتر فیاض احمد کی جو بھی اولاد ہو ئیں وہ زندہ نہیں رہ سکیں۔ اگر اعظم کریوی باحیات رہے تو اس لیے کہ ان کے والدین نے کسی بزرگ سے ان کے لیے دعا کرائی تھی جسے اللہ تعالی نے شرف قبولیت بخشا۔ غالباً بزرگ ہی کی دعا کا اثر تھا کہ وہ اقربا پروری اور انسان دوستی کی مثال تھے۔ کیوں کہ اپنے عزیز واقارب سے انھیں بڑی محبت تھی۔ گاؤں کے غریب غربا سے خلوص کے ساتھ ملتے تھے اور گاؤں کے لوگوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ چھوٹی ذات کے ہندؤں، مثلاً: چمار، پاسی، گوالے اور دوسرے غریب لوگوں کے پاس بیٹھ کر ان کا دکھ درد بانٹا کرتے تھے۔ (19) لیکن اُن کی شخصیت کا یہ پہلو بڑا ہی حیرت انگیز ہے کہ وہ اپنے اعزہ و اقارب کی عزت کرنے اور ان سے حد درجہ محبت رکھنے کے باوجود اپنے بیٹوں کو رشتے داروں سے دوری بنائے رکھنے کی تاکید و تلقین کرتے تھے۔ بہ قول افتخار احمد: والد صاحب مجھ کو سمجھاتے تھے کہ رشتے داروں سے اور خاندان والوں سے کوئی تعلق نہ رکھنا، خاندان میں رشتہ دینا نہ رشتہ لینا۔ یہی تمھارے حق میں بہتر ہے۔ وہ دادا کے علاوہ کسی سے نہیں ملاتے تھے (20) اور اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ اعظم کریوی اپنے خاندان والوں سے اُن کی بعض غلط حرکات کے باعث بدظن تھے، کیوں کہ والد صاحب کا کہنا تھا کہ رشتے دار دھو کے باز ہیں۔ اُنھوں نے جعلی شجرے بنائے۔ یہ اپنے کو مقید کرنا ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ (21) لیکن ان سب باتوں کے باوجود خاندان کے بڑوں کی عزت اور ان سے محبت رکھنے پر کوئی حرف نہیں آتا، کیوں کہ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی وہ اپنے خاندان کے بڑوں کی عزت اور ان سے محبت کرتے رہے۔ پھر رہ گئی یہ بات کہ اپنے بچوں کو اُن سے دوری بنائے رکھنے کی تاکید و تلقین کی تو میرے خیال میں اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
1 – اہل خاندان کی غلط حرکتوں کے سبب ان کے بچوں کو کوئی نقصان نہ ہو۔
2۔ اُن کے بچے خاندان والوں کی بے عزتی نہ کر دیں۔
3۔ یا وہ رسم و رواج توڑنا چاہتے تھے جو خاندان والوں نے اپنا رکھا تھا کہ شادی بیاہ خاندان سے باہر نہیں ہونی چاہیے۔
کیوں کہ وہ خاندانی حد بندیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے، انھوں نے بعد میں جو تین شادیاں کی وہ بھی خاندان سے باہر ہی کی تھیں۔
جناب ضمیر جعفری جو 1953 ء میں "مورال بلڈنگ محکمے‘‘ کے تحت ملازمت کے دوران ساتھ رہے، وہ ڈاکٹر اعظم کریوی سے بہت متاثر تھے اور ان کی پرکشش اور انسان دوست شخصیت سے کافی مرغوب و متحیر بھی تھے۔ اپنے مضمون "ڈاکٹر اعظم کریوی کے ساتھ دوسال‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اعظم کریوی کی شخصیت اور کردار کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا چاہوں تو وہ لفظ ہے ’’حیرت انگیز‘‘۔ کیوں کہ ان کی زندگی کا جو بھی گوشہ سامنے آیا اُسے حیرت انگیز پایا۔ (22) 1951ء میں ملیر کینٹ کے محکمہ "مورال بلڈنگ‘‘ میں اُن کا تقرر ہوا تو حفیظ جالندھری کے توسط سے انھیں پہلی بار دیکھنے کی مسرت حاصل ہوئی۔ دفتر میں تو دونوں ساتھ ساتھ رہتے ہی تھے، رہائش بھی پاس پاس ہونے کی وجہ سے جلد ہی ہم دونوں میں کافی اخلاص پیدا ہو گیا۔ دفتر اور گھر قریب قریب تھا اس لیے بسا اوقات ہم لوگ شام کا کھانا بھی دفتر ہی میں منگوالیا کرتے تھے۔ (23) محکمانہ تعلقات بہت جلد دوستانہ محبت میں ڈھل گئے۔ ہم لوگ کسی مشترکہ دفتر کے کارکنان سے زیادہ دکھ سکھ کے شریک اور ایک کنبے کے افراد معلوم ہوتے تھے۔ مرحوم کے الفاظ میں مرشد، ڈاکٹر صاحب اور بھائی صاحب! (24) دفتر سے اُٹھتے تو حفیظ جالندھری کے یہاں جا بیٹھتے اور ظاہری بات ہے کہ اس حالت و کیفیت میں ڈاکٹر صاحب سے بے تکلف ہوئے بغیر میرے لیے کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر کبھی عمر میں فرق کے باعث میں کچھ فاصلہ قائم کرنے کی کوشش بھی کرتا تو وہ آگے بڑھ کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیتے۔ حجاب و تکلف کے وہ سخت مخالف تھے۔ دفتر میں مجھ سے پہلے ہی روز کہنے لگے کہ میں تو آپ کو بھائی کہا کروں گا اور فی الحقیقت میرے ساتھ ان کا سلوک ہمیشہ بڑے بھائی کا سا رہا۔ (25)
اعظم کریوی کے مزاج و شخصیت سے متعلق اپنے ایک مکتوب بنام حامد کمال ناروی، مورخہ 3 اگست 1922ء میں ضمیر جعفری لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں دو بیویوں والے کو اتنا بذلہ گفتار اور اتنا بے فکر کسی کو اور کبھی نہیں دیکھا۔ (26) اور شاہد احمد دہلوی اپنا مجموعی تاثر یوں دیتے ہیں کہ اعظم کریوی ایک عجیب و غریب انسان تھے۔ (27)
اعظم کریوی نے کچھ دنوں تک لکھنو میں بھی قیام کیا جہاں اُن کی ملاقات ڈاکٹر عبادت بریلوی سے ہوئی۔ اس ملاقات میں اُنھوں نے اُن کو کیسا پایا، اپنے ایک مکتوب بنام حامد کمال ناروی، ۱۶ دسمبر ۱۹۹۲ء میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اعظم کریوی کے بارے میں میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ سچ ہے کہ وہ ایک زمانے میں لکھنو تشریف لائے تھے اور چند ماہ اُن کے ساتھ میں نے گزارے لیکن ان کی شخصیت بہت عجیب تھی، اتنی عجیب کہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اُن سے میری ملاقاتیں رہیں لیکن اب میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیسے آدمی تھے۔ میں نے ہمیشہ انھیں اچھا دوست پایا۔ دانش محل میں روزانہ تشریف لاتے تھے اور اُن سے روزانہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ (28)
ڈاکٹر اعظم کریوی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد جب وہ تقریبا 50 / 52 سال کے تھے اس وقت بھی نہایت محنت مستعدی اور ایمان داری سے اپنی ذمے داری ادا کرتے تھے۔ مختلف النوع مصائب و مسائل میں گھرے ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی بھی اپنے فرائض منصبی سے سمجھو تہ نہیں کیا اور نہ اپنے معمولات میں کبھی کوئی رکاوٹ آنے دی۔ ریٹائر ہونے سے چند سال پہلے اخراجات کی کثرت اور وسائل کی کمی سے ہجوم افکار نے اعظم کریوی کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ وہ پہلے کی طرح اب تنو مند تو نہیں تھے لیکن ان کے حو صلے پوری طرح پست نہیں ہو سکے تھے اور ان کی فرض شناسی اور فرض کی ادائیگی متاثر نہیں ہو سکی تھی۔ (29) معمولات کے اتنے بڑے پابند تھے کہ ایسے انسان میں نے اپنی زندگی میں بہت کم دیکھے ہیں۔ احساس فرض کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ ان کی زندگی ایک سزا با مشقت معلوم ہوتی۔ پاسبان عقل ہر وقت دل پر مسلط۔ (30) 1951ء میں وہ پنشن کی حد پر جا پہنچے تھے۔ زندگی کچھ اس بے دردی سے ان کے اوپر سے گزری تھی کہ وہ اپنی عمر سے بھی کوئی پندرہ برس زیادہ معمر نظر آتے تھے۔ رخسار پچک گئے تھے۔ ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ دہلے پتلے، لاغر کمزور، آنکھیں اندر کو کہیں اتنی دور چلی گئی تھیں کہ چہرے پر ناک ہی ناک رہ گئی تھی۔ مگر اس کے باوجود بلا کے مستعد تھے۔ غضب کے چوکس و چوبند اور کارفرما کار کشا۔ دیکھنے میں وہ تکان کا مجسمہ دکھائی دیتے تھے مگر تھکنا وہ جانتے ہی نہ تھے۔ وہ اس مقام پر تھے جہاں تکان خود تھک کر بیٹھ جاتی ہے۔ (31) اُن کی گھریلو زندگی کا پھیلائو ان کے وسائل و آمدنی کے بس کا روگ نہ تھا۔ معاملات الجھے ہوئے بھی تھے مگر یہ ناممکن تھا کہ محض ان کی کاہلی یا بے پروائی کے سبب کوئی معاملہ الجھنے پائے یا دیر تک الجھا رہے۔ جس وقت ان کو جس مقام پر ہونا چاہیے وہ وہاں ضرور ہوتے۔ (32) اور ایسے عالم میں اگر ان کا کوئی سچا ہمدرد و غم گسار تھا تو وہ تھی اُن کی بوسیدہ سی بائیسکل، جو زندگی کے تمام مشکلات میں ان کے ساتھ ساتھ رہی اور تمام طرح کے فرائض منصبی کی ادائیگی میں اُن کی مدد کرتی رہی۔ مثال کے طور پر اپنی تمام تر ذمے داریاں اور گھر یلو کام کاج اس بائیسکل پر سر انجام دیتے تھے اور ہائیسکل بھی اسی طرح چلاتے تھے جیسے کوئی بیمار گھوڑا لدا ہوا تانگہ گھسیٹ رہا ہو۔ (33)
گو یا اعظم کریوی کی حیات کا ابتدائی دور جس قدر آسودہ حالی میں بسر ہوا، اس کے برعکس اُن کی زندگی کا آخری دور کسمپری اور تنگ حالی میں گزرا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے بچنے میں گھوڑی اور کاٹھی کی شاہی سواری کا لطف اٹھایا تو ضعیفی میں انھیں ٹوٹی پھوٹی اور کھٹارا بائیسکل کی  رفاقت برداشت کرنی پڑی۔ وہ خود کو مصروف رکھنے میں یقین رکھتے تھے اور خالی بیٹھنا انھیں سخت نا گوار تھا۔ بہ قول ضمیر جعفری: ملیر سے ڈیوٹی ٹرک لے کر ہم لوگ جب کبھی کراچی جاتے تو اعظم اپنی ہائیسکل بھی اس میں رکھ لیتے، جہاں ٹرک نہ جا سکتا وہاں وہ بائیسکل پر ہو آتے۔ بازار میں اچھے بھلے چلتے چلتے اچانک معذرت کر کے یکبارگی غائب ہو جاتے۔ پھر اللہ معلوم کہاں کا چکر کاٹ کر اچانک کسی موڑ پر آن ملتے۔ گو یا ابھی تھے ابھی نہیں ہیں۔ آرام ان کی سرشت ہی میں نہ تھا۔ دوستوں کی بے تکلف صحبتوں میں ان کی گفتگو پر بھی مشقت کا گمان ہوتا۔ اعظم کو میں نے آرام سے فارغ بیٹھا کبھی نہ دیکھا۔ بعض اوقات گمان ہوتا کہ فارغ بیٹھنے سے انھیں شدید تکلیف ہوتی تھی۔ دفتر تو خیر دفتر تھا، گھر پر بھی جب ملے تو ہمیشہ مصروف ملے۔ کبھی چار پائی کا بان ادھیٹر رکھا ہے۔ کبھی دھوتی باندھے گھر کی صفائی میں جٹے ہیں۔ کبھی نواسے نواسوں کے حلقے میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ کچھ نہیں کر رہے ہیں تو بائیسکل پر چڑھے کسی طرف ہی چلے جارہے ہیں۔ ( 34 ) اُن گھریلو ذمہ داریوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی ایک لمبی لسٹ ہوتی تھی اور کب کیا انجام دینا ہے وہ سب ان کی ٹیبل ڈائری میں مندرج رہا کرتے تھے، مثلاً : ۶ تاریخ کو افتخار کی فیس، ۹ کو یو بو کا امتحان، ۱۳ کو مارٹن روڈ پر لکڑی، ۱۵ کو لاڑکانہ حساب، ۲۰ کو بڑی بیگم کے گھی، ۲۴ کو بچوں کو لے جانا وغیرہ وغیرہ۔ (35) پھر بھی وہ بڑے اطمینان و سکون سے اپنے کام میں مصروف رہتے اور بڑی سے بڑی ذمہ داری کو بھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ گو یا اعظم کریوی کی شخصیت ایک ایسے مضبوط مجسمے کی طرح تھی جو باد باراں کی تند یورشوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور اپنی جگہ اٹل رہتی ہے۔ (36)
بہ حیثیت سوشل ورکر: چوں کہ اعظم کریوی کا آخری زمانہ کسمپری اور کلفت میں گزرا اس لیے وہ سامنے والے کا دکھ درد بہ خوبی سمجھتے تھے۔ بنابریں دوسروں کے دکھ درد میں کام آنا وہ اپنا فرض منصبی جانتے تھے، اور پیرانہ سالی میں لوگ عام طور پر آرام طلب واقع ہوتے ہیں بلکہ ایک گلاس پانی کے لیے بھی کسی نہ کسی کی مدد کے طالب ہوتے ہیں، لیکن اعظم کی شخصیت اس اعتبار سے منفرد اور قابل رشک نظر آتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے گھر یلو کام کاج بذات خود کرنے میں فرحت و انبساط محسوس کرتے تھے بلکہ دوسرں کے کام آنے میں بھی انھیں یک گونہ فرحت و سرور کا احساس ہوتا تھا۔ وہ اکثر آتے جاتے اپنے آس پاس والوں سے پوچھتے کہ کسی کو کچھ منگا نا تو نہیں ہے؟ یہاں تک کہ کبھی کبھی تو پڑوس کے کچرے بھی خوشی خوشی باہر پھینک آتے تھے۔ یہاں تک کہ نماز کے لیے جاتے ہوئے بھی وہ کچرا وغیرہ مانگ کر لے جاتے تھے۔ (37) اور اسی بس پر نہیں تھا بلکہ خانہ داری کے انتظام و انصرام میں ان کی مشق و مہارت کا یہ عالم تھا کہ از راہ محبت اپنے ہم پیشہ ضمیر جعفری کے بعض گھر یلو انتظامی امور بھی انھوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ (38)
یہی وہ انسانی جذبہ تھا جو اعظم کریوی کو کام، کام اور صرف کام میں مصروف کر رکھا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اس میں یقین رکھتے ہوں کہ زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے آرام ۔ یہ گمان اس طور پر بھی یقین میں بدل جاتا ہے کہ انھوں نے جو بھی کام کیا وہ نہایت انہماک اور لگن کے ساتھ کیا، چاہے وہ گھریلو امور ہوں، چاہے انسانی جذبے کے تحت کوئی کام، یا پھر دفتری امور ہوں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی تو دفتر کا وقت ختم ہو جاتا پھر بھی وہ دفتری کاموں میں مشغول رہتے اور بقایا کاموں کو نپٹاتے رہتے۔ یعی دفتر کا وقت ختم ہوچکا ہوتا اور حفیظ صاحب آوازیں دے رہے ہوتے کہ ڈاکٹر صاحب آئیے ! دن بھر کی محنت کے بعد اب کچھ گپ شپ  ہوجائے مگر وہ ہیں کہ اب نئے سرے سے دفتر کھول کر یٹھ گئے ہیں۔ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتے: مرشد! مجھے ابھی معذور ہی سمجھئے، بہت کام بقایا پڑا  ہے۔ آپ افسر سہی محکمہ تو مجھی کو چلانا ہے ۔کام نہ ہوتا تو پیدا کرلیتے، حفیظ صاحب دفتری ڈرافٹوں میں شعر کی جامعیت کے قائل تھے اور ڈاکٹر صاح افسانوی پھیلائو کے، ان کی کوشش ہوتی کہ ڈرافٹ مرزا غالب کی غزل ہو، ان کی کوشش ہوتی کہ ڈرافٹ میں تمہید، پلاٹ، مرکزی خیال، نقطہ عروج سب کچھ ہو۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ کام پیدا ہوتا رہتا۔ (39) اور ایک دن آخر وہی ہوا جو ہونا تھا کہ اعظم کریوی کی صحت بگڑنے لگی، کیوں کہ قوت برداشت سے زیادہ کام کا اثر  صحت پر تو پڑنا لازمی تھا، لہذا وہ چوطرفہ مسائل و مشکلات، مثلاً : ضعف و نقابت، کثرت کاز، مالی پریشانی اور سیاسی افراتفری کے شکار ہوئے بغیر نہ رہ سکے لیکن ایسے عالم میں بھی انھوں نے خود کو قابو میں رکھا اور حالات کی سنگینی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے جہد مسلسل اور عمل پیہم کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ حالاں کہ اخیر سال میں صحت کمزور، آمدنی قلیل، تین چار کنبوں کی کفالت کے باعث اعظم کا رنگ مرنے سے پیشتر ہی زرد ہو چکا تھا۔ نہ جانے وہ زندگی کے کتنے محاذوں پر لڑ رہے تھے مگر زندگی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر ہرگز آمادہ نہ تھے۔ جس جس طرح کی مادی و ذہنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے انھیں دیکھا گیا، اگر کوئی اور ہوتا تو مدتوں پہلے گھٹنے ٹیک دیتا مگر وہ برابر لڑتے جارہے تھے۔ رہے،(40) اوپر سے ہجرت اور مہاجر ہونے کے باعث اُن کی پریشانیوں میں اور اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اُس پر ملازمت سے سبک دوشی نے رہی سہی ان کی کمر بھی توڑ دی اور وہ ان چاہا مشکلات و مصائب میں گھرتے چلے گئے۔
بہ حیثیت انسان نواز: اس سے قطع نظر کہ اعظم کریوی بچپن میں ضدی اور غصہ ور طبیعت کے مالک تھے، جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ان کے اندر انسان دوستی اور احباب نوازی کا جذبہ بڑھتا گیا۔ چناں چہ جو کبھی بچوں کے شور و غوغا سے گھبرایا کرتے تھے اور کبھی کبھی بچوں کو ان کی شرارتوں پر انھیں طمانچے بھی ماردیا کرتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ انھی پوتوں اور نواسوں کے ساتھ وقت گزارنے لگے۔ پھر ان کی یہ محبتیں اور شفقتیں صرف اپنوں تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ زندگی میں جو کوئی بھی ایک بار ان سے مل لیا، یا اتفاقا کسی سے بھی کوئی ملاقات ہو گئی تو بھی اس کو ہمیشہ یادرکھتے اور جب دوبارہ اُس سے ملاقات ہوتی تو اُس کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آتے۔ شاہد احمد دہلوی مدیر ماہنامہ "ساقی‘‘ کراچی کے بہ قول: اتفاق سے اُن سے پہلی  ملاقات میرٹھ کے نو چندی میں ہوئی۔ تعارف ہوتے ہی گلے لگایا کہ نہ جانے کب سے ترسے پھڑ کے ہوئے تھے۔ پھر اُس پر سخت مصر کہ نہیں ، میرے ساتھ میرے گھر چلو، میرٹھ میں کہیں اور ٹھہرے ہی کیوں؟ بہ مشکل تمام انھیں اس پر رضا مند کیا کہ کل دوپہر کو قافلہ آپ کے یہاں آئے گا اور خوب جی بھر کے باتیں ہوں گی۔ اگلے دن ہم گئے تو ڈاکٹر صاحب خاطر و مدارات میں بچھے جاتے تھے اور بار بار شکوہ کرتے تھے کہ میرٹھ آپ آئیں اور کہیں اور ٹھہر جائیں؟ کئی گھنٹے اُن سے باتیں ہوتی رہیں۔ شام کی گاڑی سے ہمیں دہلی جانا تھا۔ جب ہم چلنے لگے تو ڈاکٹر صاحب رنجیدہ ہو گئے اور اُس وقت تک ہمارا ساتھ نہ چھوڑا جب  تک کہ  ہمارے تانگے روانہ نہیں ہو گئے۔ (41) اور لوگوں سے راہ و رسم اور شناسائی پیدا کرنے میں بھی اعظم بڑے تیز واقع ہوئے تھے۔ راہ چلتے چلتے بس یا ٹرم میں بیٹھے بیٹھے، اجنبی لوگوں سے اچھی خاصی جان پہچان بنا لیتے تھے۔ ٹیلیفون کرتے ہوئے کوئی غلط نمبر مل جاتا تو اکثر و بیشتر اس اتفاقیہ تقریب کو با قاعدہ تعارفی تقریب کے قالب میں ڈھال دیتے تھے اور کمال تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو یاد بھی رکھتے تھے۔ البتہ! گہری دوستیاں قائم کرنے کی طاقت اُن میں نہ تھی لیکن جس کسی سے بھی اخلاص کا رشتہ ایک بار قائم ہو جاتا تو وہ دیدہ و دل اس کے سامنے فرش راہ کر دیتے تھے۔ (42)
حالاں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اعظم کریوی سخت مالی بحران کا شکار تھے پھر بھی انھوں نے احباب نوازی سے منہ نہیں موڑا۔ پرانے تعلقات کے رکھ رکھاؤ، احترام اور وضع داری میں اپنی معذوریوں، مجبوریوں کو یکسر بھول جاتے تھے۔ ایک مرتبہ کراچی سے اپنی سائیکل پر سوار واپس آئے اور کہنے لگے: بھائی صاحب کل شام کا کھانا ہمارے یہاں کھائے گا۔ خیریت تو ہے؟ میں نے تعجب سے پوچھا۔ معلوم ہوا کہ ہندوستان کے ایک مشہور شاعر جو ان دنوں کراچی آئے ہوئے تھے، انھیں کھانے پر مدعو کر آئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اُن کے ساتھ 15-20 دیگر اصحاب بھی، جو اُس وقت جناب شاعر کی خاطر داری میں مصروف تھے۔ فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ اس ایک دعوت کا لایا ہوا قحط مہینوں اب میرے گھر میں رہے گا مگر بھائی صاحب مدت کے بعد ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ ملنے چلا گیا تو اب کیا کرتا… اُن سے کیا کہتا؟ (43) گویا اعظم کریوی کے لیے یہ مکن نہ تھا کہ کوئی آدمی ان کے قریب رہے اور ان کے اخلاص، اُن کے انکسار، ان کی ہمدردی اور تعلقات میں ان کی گرمجوشی سے متاثر نہ ہو پائے۔ وہ جس کسی کے قریب جانا چاہتے تو انتہائی کشادہ دلی سے اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیتے۔ اُن کی شخصیت شہد اور موم کی بنی ہوئی تھی۔ میں نے کبھی ایک سنگریزے کی کسک بھی ان میں محسوس نہیں کی۔ مزاج ایسا پایا تھا کہ اس مزاج کا آدمی جہاں کہیں بھی مل جائے تو اسے اٹھا کر دفتر میں رکھ لینا چاہیے، مثلا : ملائم متحمل اور معاملہ فہم (44) اور ان تمام باتوں کے پیچھے اُن کی غیر معمولی ذہانت کارفرما تھی۔ وہ جب بھی کوئی رائے دیتے تو بڑے سلیقے سے دیتے۔ ضمیر جعفری بتاتے ہیں کہ معاملات پر اپنی ایک رائے بھی رکھتے، موقع محل دیکھ کر اُس کا اظہار بھی ضرور کرتے، مگر سب کچھ اس سلیقے کے ساتھ کہ گویا اپنی کوئی رائے ہی نہیں۔ کوشش یہ ہوتی کہ ڈائریکٹر صاحب (حفیظ جالندھری) اُن کی رائے خود اپنی رائے سمجھ کر اس پر عمل کریں۔ وہ اپنے نقطہ نظر کو واشگاف الفاظ میں بیان نہیں کرتے تھے، بلکہ افسر کو گھیر گھار کر اس تک لے آتے تھے۔ اپنے کام کی اہمیت، اس کی مقدار و معیار پر روشنی ڈالنے کا ملکہ ان میں وافر انداز میں تھا۔ (45)
اعظم کریوی کی انسان دوستی کے شاہد وہ خطوط بھی ہیں جو انھوں نے اپنے احباب اور متعلقین کو لکھے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اُن کے خطوط، مجموعہ کی شکل نہ پاسکے اور اگر کچھ شائع بھی ہوئے تو انھیں قابل اعتنا نہ سمھا گیا۔ مختلف مواقع پر شاہد احمد دہلوی اور اعظم کریوی کے ما بین مراسلاتی تعلقات قائم رہے، چناں چہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ان (اعظم کریوی ) کے خطوط سے بڑی محبت ٹپکتی تھی ۔ (46) انھوں نے وقتا فوقتا یوسف کمال ناروی کے نام بھی کئی خطوط لکھے جن سے اُن کی شخصیت پر بہ خوبی روشنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر 23 ستمبر 1944ء کے اپنے ایک خط میں وہ لکھتے ہیں: والد صاحب، والدہ صاحبہ محسن صاحب، مرشد، نور مر شد، ماسٹر صاحب، بڑے بابو کو سلام، بچوں کو پر خلوص دعائیں۔ (47) اور 13 دسمبر 1944ء کو ایک دوسرے خط میں لکھا کہ میری بیگم آپ کو دعا کہتی ہیں۔ بچے سلام عرض کرتے ہیں۔ نمبردار بحساب عمر بچوں کے نام سن لیجے : افتخار احمد، زینت النساء، تہذیب النساء نیر اعظم، نیر اعظم سب سے چھوٹے ہیں۔ قیصر و توصیف سلمہ کو بہت بہت دعا ئیں۔ ہاں! میں نے دریافت کیا تھا کہ والد صاحب کا جو تبا دلہ کلکتہ ہو گیا تھا وہ منسوخ ہوا، یا نہیں؟ مگر آپ نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا۔ میری طرف سے والدہ صاحبہ، والد صاحب، مرشد، محسن صاحب، نور جہاں، ماسٹر صاحب، بڑے بابو، ڈرائیور صاحب و جملہ پرسان حال کو سلام (48) اس طرح سے نام بنام سلام و دعا میں بھیجنا، یہاں تک کہ ڈرائیور کو بھی سلام، اعظم کریوی کی انسان دوستی کی واضح دلیل ہے۔
مذہب و ملت نوازی: اعظم کریوی کی پیدائش اور تعلیم و تربیت جس خاندان میں ہوئی اُس کا ماحول مذہبی اور دینی تھا۔ اُنھوں نے اپنے خاندان کو حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی قدس سرہ سے منسوب کیا ہے۔ جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور شریعت و طریقت کے امام تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مذہیی اور دینی رجحان ان کو ورثے میں ملا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پختہ مذہبی اور دین دار طبیعت کے مالک تھے۔ اسلامی عقائد سے انھیں بڑی رغبت تھی اور مذہبی اکابرین سے بھی انھیں خاصہ لگاؤ تھا، بلکہ وہ اسلامی احکام و شعائر کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔ منقول ہے: دوسری عالمی جنگ (1944-1943ء) کے وقت اُن کا تبادلہ بنگال میں کردیا گیا۔ وہاں سے محمد یوسف کمال ناروی کی درخواست پر ان سے ملنے کے لیے بنڈیل جنکشن، ناروی صاحب کے گھر گئے۔ اس وقت وہ انگریزی پتلون میں تھے لیکن پتلون کے نیچے چوڑی دار پائجامہ پہن رکھا تھا۔ جب نماز کا وقت ہوا تو اُنھوں نے پتلون نکال دی اور چوڑی دار پائجامہ میں نماز ادا کر لی۔ اس طرح انھیں نماز ادا کرنے میں کوئی قباحت اور دقت نہیں ہوئی۔ (49) حکیم اسرار احمد کریوی لکھتے ہیں کہ اعظم کریوی بڑے خشوع و خضوع سے نماز ادا کیا کرتے تھے اور سورۂ یٰس کی تلاوت با قاعدگی سے کیا کرتے تھے۔ (50) ناہید اعظم کا کہنا ہے کہ اُن کو شہدائے کربلا سے بھی بڑی عقیدت تھی اور اس کا واضح ثبوت سات اشعار پر ان کا ایک سلام ہے جو ماہنامہ "اخبار اعظم‘‘ کراچی، جون جولائی 1990 ء کے شمارے میں شایع ہوا ہے۔ یہ مذہبی وملی جذبہ ہی تھا کہ اُنھوں نے "ایودھیا مسجد‘‘ پر ایک تفصیلی مضمون لکھا، اور اس میں ہندو مسلم تنازع، مسجد کی تاریخ اور حکومت کی سستی و کاہلی اور اُس کی جانب داری و تعصب کو نمایاں کیا۔ یہ مضمون ”خلافت‘‘ میں 1937 ء میں شائع بھی ہوا تھا۔ سال 1955 ء میں  جب اعظم کریوی ایک جانکاہ حملے میں اس دنیا سے چل ہسے تو اس وقت خراج عقیدت کے طور پر خلافت کے ایڈیٹر رئیس احمد جعفری نے اُن کی شخصیت پر ایک مضمون بنام ’’ڈاکٹر اعظم کریوی مرحوم‘‘ لکھا تو اُس میں اُنھوں نے ایودھیا مسجد پر مشتمل مضمون کے بارے میں با تفصیل ذکر کیا ، وہ لکھتے ہیں: ’’اجودھیا کی مسجد کا ہنگامہ چل رہا تھا۔ یہ واقعہ غالباً 1937 ء کا ہے۔ میں ’’خلافت‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ اس مسجد سے متعلق ایک مفصل مقالہ جو بہترین معلومات پر مشتمل تھا، جس  میں مسجد کی تاریخ، ہند و مسلم تنازع کی تاریخ، حکومت کے تساہل اور جانب داری کی مستند اور مفصل تاریخ درج تھی، میرے پاس آیا۔ نیچے اعظم کریوی کے دستخط تھے۔ میں نے اُسے پڑھا اور نمایاں طور پر خلافت میں شائع کیا۔ پھر اسی پر پے در پے مقالات ادارت لکھے۔ حکومت نے ضمانت طلب کرنے کی تیاریاں کیں لیکن کیس اتنا مضبوط تھا کہ نہ کر سکی۔ مضمون نگار کا نام معلوم کرنا چاہا۔ میں نے بتانے سے انکار کر دیا۔ مراسلہ مانگا۔ میں نے کہا وہ ضائع ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب فوج میں ملازم تھے۔ میرے اس طرز عمل سے بہت متاثر ہوئے۔ یہ واقعات ان کے علم میں آچکے تھے۔ محبت بھرے خط آنے لگے۔۔۔۔‘‘ (51) ’’خلافت‘‘ کے ایڈیٹر محترم رئیس جعفری کی مذکورہ تحریر سے اعظم کریوی کی مذہبی و ملی جذبے کے ساتھ ان کی حق گوئی اور بے باکی کا بۃ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
حب الوطنی: شاہد احمد دہلوی کے مطابق اعظم کریوی نے عرصہ دراز تک دیہات میں زندگی گزاری اور ڈاکٹر حامد کمال ناوری کا یہ کہنا کہ اعظم کریوی زیادہ تر اپنے وطن سے باہر رہے اور شہر میں ان کا وقت زیادہ گزرا؛ ان دونوں باتوں میں مطابقت تلاش کرنے کے بجائے یہاں یہ دیکھنا اہم ہے کہ اعظم کریوی کو اپنے وطن اور گاؤں سے کس قدر محبت تھی اور انھیں علاقہ اور علاقہ کے باشندوں کا کس قدر خیال تھا؟ اب چاہے وہ دیہات میں زیادہ رہے ہوں یا شہر میں، بہر صورت انھیں اپنے وطن اور گاؤں سے حد درجہ محبت تھی۔ یہی وہ اصل وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے قلمی نام ’’اعظم‘‘ کے ساتھ اپنے گاؤں ’’کرئی‘‘ کی نسبت کے باعث ’’کریوی‘‘ لکھنا شروع کیا۔ اس سے متعلق ایک مرتبہ شاعر نوح ناروی نے اعظم کریوی سے دریافت کیا: اعظم ! اپنے نام کے ساتھ کریوی کیوں لکھتے ہو؟ تو اُنھوں نے جواب دیا: استاذ! میں چاہتا ہوں کہ میرا گاؤں پوری دنیا میں مشہور ہو، اور ایک دن دیکھئے گا کہ میرے گاؤں کا نام پوری دنیا میں ضرور مشہور ہوگا۔ اور آج اُن کا یہ کہنا سچ ثابت ہو رہا ہے کہ آج ایک معمولی گاؤں ”کرئی‘‘ دنیا میں معروف ہے۔ نیز اس میں دو رائے نہیں کہ اعظم کریوی تعلیم و تعلم یا پھر ملازمت کے سلسلے میں اپنے وطن سے باہر رہے مگر وہ ہمہ دم اپنی وطن دوستی کا ثبوت فراہم کرتے رہے۔ مثلا جب بھی وہ کچھ تحریر کرتے تو اس تحریر کے آخر میں اپنے گاؤں کا نام ضرور لکھتے۔ چناں چہ جب ہندی شاعری کا دیباچہ لکھا تو اس کے خاتمے میں اپنا نام اور اپنے گاؤں کا نام اس نہج پر لکھا:
اعظم کریوی
کورئی ، الہ آباد
25 اگست 1928
جب کہ اس وقت اعظم کریوی کی پوسٹنگ کوئٹہ میں تھی لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے نام کے ساتھ کوئٹہ کی جگہ اپنے چھوٹے سے گاؤں کرئی کا نام لکھا جو ان کے آبائی وطن سے بے لوث محبت اور مثالی لگاؤ کی دلیل ہے۔ اسی طرح اپنے افسانہ "پریم کی لیلا‘‘ میں اپنے وطن کا ذکر اس طور پر کیا ہے کہ گو یا ان کا گاؤں نہایت ہی مشہور و معروف گاؤں میں سے ایک ہو مثلاً : "کورئی گھاٹ کے پاس گنگا جی کے کنارے الہ آباد کے ضلع میں ایک گاؤں رام چورا ہے۔‘‘  یہاں ”کورئی‘‘ گھاٹ کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ ”کورئی‘‘  گھاٹ کے بالمقابل ’’گنگا جی‘‘، ’’الہ آباد‘‘ اور "رام چورا‘‘ زیادہ مشہور تھا۔ بلکہ صرف اتنا کہہ دینا بھی کافی تھا کہ گنگا جی کے کنارے الہ آباد ضلع میں ایک گاؤں رام چورا ہے۔ لیکن اعظم کریوی نے اپنے غیر معروف گاؤں کو بھی اس طرح پیش کیا کہ جیسے وہ کوئی مشہور عالم گاؤں ہو۔ یہ بھی اپنے گاؤں اور وطن سے ان کی محبت کی واضح دلیل ہے۔
ملازمت کے سلسلے میں اعظم کریوی ملک کے مختلف گوشوں میں رہے لیکن جہاں کہیں بھی رہے وطن اور گاؤں کی یاد انھیں ستاتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب جہاں انھیں اظہار کا موقع ملا اپنے گاؤں سے محبت اور وطن دوستی کا مظاہرہ کر بیٹھے۔ خواہ نثر کے توسط سے ہو یا نظم کی توسط سے، مثلاً:
اعظم تمام عمر غریب الوطن رہا
خانہ بدوش ہوں کہیں دنیا میں گھر نہیں
وطن میں عید نہ منا پانے پر اپنے غم کا اظہار کچھ اس انداز سے کرتے ہیں:
ہم تو ہیں پردیش میں اعظم منائیں عید کیا
دید کے قابل مگر اہل وطن کی عید ہے
اعظم کریوی کے کئی خطوط ایسے بھی ہیں جن سے ان کی وطن دوستی ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر 13 دسمبر 1944ء کو انھوں نے ایک خط محمد یوسف کمال ناروی کے نام لکھا۔ اُس میں وہ لکھتے ہیں کہ سخت انتظار کے بعد نارہ شریف کا چلا ہوا خط مجھے یہاں ملا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ اب تک وطن کی فضاؤں سے لطف اندوز ہور ہے ہوں گے۔ چناں چہ میں بغرض یاد دہانی خط لکھنے ہی والا تھا کہ آپ کا گرامی نامہ مل گیا۔ بہت خوشی ہوئی۔
پھر 20 اگست 1946ء کو انبالہ چھاؤنی سے محمد یوسف کمال ناروی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ آپ کا 17 راگست کا کارڈ ملا۔ آخر آپ ہگلی سے جو پھسلے لب گنگا پہنچے۔ وطن پہنچ ہی گئے۔ اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ والد صاحب بھی فیض آباد آ گئے۔ یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے۔ بنڈیل ہزار رومانی مقام ہو مگر ’’حب وطن از ملک سلیماں خوش تر‘‘۔ اب آپ الہ آباد آ گئے ہیں تو آپ سے ان شاء اللہ جلد جلد ملاقات ہوتی رہے گی۔ یہاں کا موسم خوش گوار ہے، میرے الہ آباد کا کیا حال ہے؟ (52)
خلاصہ یہ کہ اپنے وطن سے ایسی محبت کون کر سکتا ہے۔ اعظم کریوی نے یہ نہیں لکھا کہ الہ آباد کا کیا حال ہے؟ بلکہ یہ لکھا ہے کہ ”میرے الہ آباد کا کیا حال ہے؟ الہ آباد کے ساتھ ’’میرے‘‘ کا لفظ وجدانی کیفیت کا مظہر ہے۔ (53) لیکن یہ کون جانتا تھا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ اعظم کریوی نہ صرف اپنے وطن سے دور ہو جائیں گے بلکہ اپنے گاؤں اور وطن کی گود میں سونے کے بجائے دیار غیر میں ایک مہاجر کی طرح دنیا سے رخصت ہوں گے۔

تحریک آزادی: ایک غیور قوم اور سچے ہندوستانی کی طرح اعظم کریوی بھی آزادی کے حامی اور دلدادہ تھے۔ انگریز اُنھیں ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملازمت میں جو ترقی انھیں ملنی چاہیے تھی وہ نہ مل سکی، کیوں کہ اعظم کریوی دفتر میں بھی انگریزوں اور اُس کے بہی خواہوں کے آداب تعظیم اُن کی مرضی کے مطابق نہیں کر پاتے تھے، اور کبھی کبھی نوبت تو اس حد تک پہنچ جاتی تھی کہ اعظم کریوی انگریز افسروں سے بھڑ بھی جاتے تھے۔ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اعظم کریوی خفیہ طور پر قومی اور ملی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ خود بھی ولایتی سامان سے احتراز کرتے اور دوسروں کو بھی اس بات کی ترغیب دیتے کہ وہ لوگ بدیسی سامان کے بجائے دیسی سامان استعمال کریں اور بدیسی دکانوں کے بجائے دیسی دکانوں سے چیزیں خریدیں۔ انگریز بیزاری اور آزادی کی خواہش صرف اُن کے قلب کے اندر ہی نہیں تھی بلکہ یہ سب باتیں اُن کی تحریروں اور افسانوں میں بھی باقاعدگی سے نظر آتی ہیں۔ اس تعلق سے ان کے افسانے "انقلاب‘‘، ’’کرنی کا پھل‘‘ وغیرہ بہ طور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر اعظم کریوی ویسے تو مطلق انگریز سے نالاں تھے، لیکن بالخصوص اُن کی بدسلوکی اور ہندوستانیوں کے ساتھ ان کا غیر انسانی رویہ انھیں بالکل پسند نہیں تھا۔ ان کے متعدد افسانے ایسے ہیں جن میں انگریزوں کی بدسلوکیوں اور ان کی غیر انسانی حرکتوں کو عوام الناس کے سامنے واضح طور پر پیش کیا ہے۔ چناں چہ اپنے ایک افسانے میں وہ لکھتے ہیں کہ سرکاری ملازم ہو کر بھی وہ پوشیدہ طور سے ملی اور قومی کاموں میں بہت حصہ لیتے۔ ولایتی دکانوں کے بجائے وہ ہمیشہ دیسی سے سودا سلف خریدتے تھے۔ونے کرشن ایسے مشہور لیڈر کا درشن کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب آگے بڑھے۔
انگریزوں کا جو گھٹیا رویہ ہندوستانیوں کے ساتھ جاری تھا اُس پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ کلکتہ جانے والی گاڑی پلیٹ فارم کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی اور ونے کرشن دوسرے درجے میں بیٹھنے لگے، جیسے ہی وہ کھڑکی کھول کر کمرے میں داخل ہونے لگے اندر بیٹھے ایک یورپین صاحب بہادر نے ڈانٹ کر کہا: "یو، کالا آدمی کی گاڑی نہیں ۔‘‘و نے کرشن نے کہا: کیوں، میرا روپیہ بھی کالا ہے؟ میرے پاس سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ ہے۔‘‘
ایک تو حکم نہ ماننا اور دوسرے گستاخانہ جواب ایک کالے آدمی کی طرف سے سفید چمڑے والا نہ سہن کر سکا۔ اُٹھا اور دھوتی قمیص ریشمی چادر اوڑھنے والے سوراجی لیڈر کو پلیٹ فارم پر ڈھکیل دیا، اور اس کے ری ایکشن میں اسٹیشن پر اس انگریز کی جو درگت بنی اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: جو والنٹیر اور قوم پرست لوگ و نے کرشن کو پہنچانے آئے تھے وہ سب اُن کی بے عزتی ہوتے دیکھ کر آپے سے باہر ہو گئے۔ ووالنٹیروں نے بندے ماترم کا نعرہ لگایا اور دو تین آدمی کمرے میں گھس کر صاحب بہادر کو باہر کھینچ لائے اور چاروں طرف سے بے بھاؤ کے پڑنے لگے۔ شور و غل سن کر اس طرف گارڈ آرہا تھا وہ صاحب بہادر کی گت دیکھ کر چپ چاپ بریک وان میں گھس گیا، بڑی مشکل سے سمجھ دار لوگوں نے صاحب بہادر کو بچا لیا۔ (54) یہ تمام مناظر در اصل اعظم کریوی کی آزادی کی حمایت اور انگریز سے نفرت کو بیان کرتا ہے۔ مذکورہ افسانے میں اعظم کریوی نے اپنے دلی جذبات اور چشم دید حال پیش کیا ہے کہ کس طرح قومی و ملی پروگرام میں وہ چھپ چھپا کر حصہ لیتے مجاہد آزادی سے ملاقات کرتے (جیسا کہ ونے کرشن سے ملاقات کی)، اور اس طرح ملازمت میں رہتے ہوئے ملکی وملی مفاد کے لیے سرگرم عمل رہے۔
مصادر و ماخذ
(2-1) ماہنامہ اخبار اعظم، کراچی، اعظم کریوی نمبر، جون و جولائی، 1990ء ص: 62 (6-3) اردو افسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب: 2 فصل: 4 ( قلمی نسخہ ) (7) ماہنامہ اخبار اعظم، اعظم نمبر، جون جولائی، 1990، ص: 62 (9-8) میرا پسندیدہ افسانہ ہس : 105 ، مصنفہ بشیر بندی بحوالہ اخبار اعظم، کراچی (13-10) ماہنامہ اخبار اعظم ، اعظم نمبر ، جون جولائی ، 1990 ، ص : 62 (14) میرا پسندیدہ افسانہ، ص: 106، مصنفہ بشیر ہندی بحوالہ اختبار اعظم، کراچی، 1990ء (15) اردو افسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب: 2 فصل: 4 ( قلمی نسخہ ) (16) ماہنامہ اخبار اعظم، اعظم کریوی نمبر، جون جولائی، 1990،

(17) اردو افسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ باب : 2 فصل : 4 ( قلمی نسل )

(18) مابنامہ نیرنگ خیال سالنامہ نمبر، دسمبر 1934ء ص: 30

(21-19) اردو افسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریو ی کا حصہ، باب : 2 فصل: 4 ( قلمی نسخہ)

 (22-25) ماہنامہ ساقی کراچی، نومبر، 1955 ص(32-31)

(26) اردو افسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب : ۱۲ فصل : ۳ ( قلمی نسخہ )

(27) ماہنامہ ساقی کراچی، نومبر ۱۹۵۵ ، ص: ۳۱۔۳۲

(29-28) اردو افسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ ، باب : 2 فصل : 4 ( قلمی نسخہ )

(30-31) ماہنامہ ساقی کراچی، نومبر، 1955 ، ص(32 )

(32-35) ماہنامہ ساقی کراچی، نومبر، 1955ء بص(33 )

(37-36) اردو افسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب : 2 فصل : 4 ( قلمی نسخہ )

 (38-39) ماہنامہ ساقی کراچی نومبر، 1955ء ص(32)

(40) حوالہ سابق ص : 34

(41) حوالہ سابق ص : 12

(42) حوالہ سابق ص : 34

 (43-45) حوالہ سابق ص:33

(46) حوالہ سابق ص : 12

(4947) اردو افسانے کی تشکیلی روایت میں اعظم کریوی کا حصہ، باب : 2 فصل : 4 ( قلمی نسخہ )

(50) ماہنامہ اخبار اعظم ، کراچی ، جون جولائی 1990 ، ص : 26

(51) روزنامہ زمیندار، لاہور، 27 جون 1955ء

(53-52) اردو افسانے کی تشکیلی روایت میں ڈاکٹر اعظم کریوی کا حصہ ص: 320-321

(54) افسانہ ” کرنی کا پھل‘‘

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے