مشروم یا پام ٹری

مشروم یا پام ٹری

غضنفر
علی گڑھ، انڈیا

حقانی القاسمی کا نام کوئی پہلی بار سنتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک لمبے چوڑے، لحیم شحیم، بھرے پرے جسم، دراز قد و قامت، عبا قبا میں ملبوس سفید ریش، اونچی ٹوپی اور نورانی چہرے والے شخص کی شبیہ ابھر آتی ہے اور جب اس نام سے چھپی وہ تحریریں پڑھتا ہے تو چنتن منن میں لیٖن (مشغول) ایک ایسے دارشنک اور چنتک کی چھوی جھلملا اٹھتی ہے جو جسم کی جمالیات کی تلاش میں بہت دور تک نکل گیا ہو اور اس تلاش و جستجو میں جس نے اردو ادب کا سارا سرمایہ کھنگال لیا ہو اور اس سفر میں جو ہندو دیو مالاؤں کا رس اور یس دونوں کو گھول کر پی گیا ہو۔
اس کے نام سے شائع شدہ نگارشات کے مطالعے کے دوران ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس کے زبان وبیان میں ناٹیہ شاستر والے سارے رس بھی گھل گئے ہوں.
اس کی تحریروں کے انبار اور اس انبار میں بار بار ہونے والے اضافے پر دھیان دیجیے تو اس ڈھیر سے ایک جناتی ہئیولا بھی نکل آتاہے اور کانوں میں یہ صدا گونج پڑتی ہے:
"کیا حکم ہے میرے آقا۔"
اور جو آقا سے حکم ملتے ہی مطلوبہ شے کو آن کی آن میں حاضر کر دیتا ہے۔
مگر جب وہ جیٌد عالم، گنی گیانی دارشنک، مہان چنتک اور قدِ آدم جن لگنے والا شخص نظر کے سامنے آتا ہے  تو یک لخت اس کا جناتی ہیولا سکڑ کر بوتل میں پہنچ جاتا ہے
تاڑ کو تل میں بدلتا دیکھ ذہن کو زور کا جھٹکا لگتا ہے اور دیکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ آسمان سے زمین پر آ گرا ہو۔
ذہن میں بنی شبیہ کا ایک بھی نقش باقی نہیں رہتا۔ نہ قد وقامت، نہ جسامت نہ جثہ نہ جبٌہ، نہ نور نہ تیج، نہ رنگ نہ انگ۔
اب جو دکھتا ہے اس میں ایک بوٹا سا قد، ایک دبلا سا جسم، ایک سادہ سا حلیہ، ایک بنجر ویران سراپا۔
مگر حیرت کی بات یہ کہ حقیقت عیاں ہو جانے کے بعد بھی بیشتر آنکھیں جن میں نسائی زیادہ ہوتی ہیں، خواب ٹوٹنے کے بعد بھی حقانی القاسمی سے دور نہیں ہٹتیں بلکہ کچھ تو اور قریب پہنچ جاتی ہیں۔ قریب پہنچنے والیوں کو جوڑنے لگیے تو دیو مالا کی طرح ایک دیوی مالا بھی بن جائے۔
قربت کا اصل سبب تو وہ دیویاں ہی جانیں۔ البتہ ہم اتنی قیاس آرائی ضرور کرسکتے ہیں کہ ایسی شخصیتوں کے پاس بیٹھنے میں نہ تو بیٹھنے والے کو کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے متعلقین کو کسی طرح کا کوئی اندیشہ. ان میں سے کوئی بھی کسی طرح کی نفسیاتی پیچیدگی کا شکار نہیں ہوتا کہ یہاں پیچیدگیوں والے تار میں کرنٹ ہی نہیں دکھتا۔ مگر غیر متعلق لوگوں کو یہ جلوہ دیکھ کر واقعی رشک آتا ہے جیسا کہ معصوم مراد آبادی قبول بھی کرتے ہیں:
"جب وہ کسی تقریب یا سیمنار کی زینت بنتے ہیں تو وہاں ہمیں دیکھ کر رشک آتا ہے کہ خواتین انھیں چاروں طرف سے گھیرے رہتی ہیں۔ کاش ہم بھی حقانی القاسمی کی طرح اتنے ہی خوبصورت اور دل نشیں ہوتے."
خاکہ نگار معصوم مراد آبادی نے بڑی معصومیت سے جو مزاح آمیز معصوم سا طنز کیا ہے اسے محسوس تو سب نے کیا مگر وہ طنز بھی معصوم ثابت ہوا۔ دیویاں محفلوں میں حقانی کو گھیرنے سے باز نہیں آئیں اور نہ ہی حقانی نے گھیر سے بچنے کی کوئی کوشش کی۔ البتہ اس طرح کی گرم محفلوں کی آنچ سے بعض رشک کرنے والوں کے جذبۂ رشک میں حسد کی چنگاری بھی شامل ہو گئی۔
خواتین ادیبوں کو قریب آنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بے ضرر معصوم آدمی آسانی سے ان پر ان کے من کے مطابق لکھ دیتا ہے اور چونکہ اس کے قلم میں گرمی ہے اور اس کے گرم خامے کا لوہا تقریبا سبھی مانتے ہیں اس لیے اس کے قلم کے لوہے کی کچھ نہ کچھ گرماہٹ تو انھیں بھی مل ہی جاتی ہے۔ اور حقانی القاسمی کو بھی لذًتِ لمسِ لطافت کے ساتھ ساتھ ان سرو قامت ادیبوں کو منہ چڑھانے کا بھی موقع ہاتھ آ جاتا ہے کہ چھوتے رہو آسمان مگر سچ تو یہی ہے نا کہ نہ فلک کے تارے تمھارے ساتھ ہیں اور نہ ہی زمین کے ستارے تمھارے پاس۔
اورمجھے دیکھو کہ زمین پر رہ کر بھی انجموں کے جھرمٹ میں ہوں اور مرکزِ کہکشاں بنا ہوا ہوں۔
وہ ایسے ایسے لوگوں کےساتھ بھی تصویریں کھنچواتے ہیں جن کے پہاڑی قد کے سامنے وہ ایک گلہری لگتے ہیں۔فیس بک پر کسی کسی کے ساتھ ان کی بعض تصویروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی پام ٹری کی جڑ کے پاس کوئی مشروم اگ آیا ہو مگر وہ اس طرح کی تصویریں کھنچوانے میں احتیاط نہیں برتتے اور نہ ہی انھیں احتراز ہے۔ شاید انھیں اس حقیقت کا احساس ہے کہ پام کا پھل تو گر کر نیچے آ جاتا ہے مگر مشروم اونچے اونچے فائو اسٹار ہوٹلوں میں پہنچ جاتا ہے۔
کسی ماہرِ نفسیات نے تحلیلِ نفسی کے ذریعے جو نتیجہ نیپولین بونا پاٹ کے بارے میں اخذ کیا تھا کہ اس کا امپائر دراصل اس کے اس احساس کمتری کے نتجے میں قائم ہو پایا جو اپنے قد کو لے اس کے اندر پیدا ہو گیا تھا. کمتری کے اس احساس کو مٹانے کے لیے اس نے اپنی ذات کی شناخت کی۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچانا اور ایک بڑا امپائر کھڑا کر دیا۔ امپائر کی اونچائی میں لوگ ایسے کھوۓ کہ وہ یہ بھول گئے کہ امپائر کھڑا کرنے والے کا قد کیسا ہے۔ ماہر نفسیات کا یہ نتیجہ کیا یہاں بھی منطبق نہیں ہوسکتا۔
یہاں بھی تو ویسا ہی ہوا ہے۔ یہاں بھی تو ایک نیپولین اسی احساس سے گزرا ہے اور اس احساس کو مٹانے کے لیے ایک ادبی امپائر کھڑا کر دیا ہے۔ بہر حال سبب جو بھی ہو مگر یہ سچ ہے کہ ہمارے سامنے موجود شخص ایک صاحب علم اور قد آور نقاد ہے۔
مگر نقدِ ادب اور میدانِ علم و دانش میں جتنا قابلِ قدر اس کا کنٹربیوشن ہے اور جتنا بڑا اس کا قد ہے، ویسی اس کی قدر نہ ہو سکی۔ اسے وہ سہولتیں میسر نہ ہو سکیں جن کا وہ حق دار تھا۔ اس کے ساتھ کے لوگ آج پروفیسری کے عہدے اور شعبوں کی کرسیِ صدارت پر متمکن ہیں اور چین کی نیند سو رہے ہیں اور یہ ان سے ہزار گنا قابل ہونے اور اردو شہد چٹانے اور دودھ پلانے والی زبانوں کو بھی اچھی طرح جاننے کے باوجود برسوں سے خانہ بدوشوں کی طرح ادھر سے اُدھر بھٹکتا پھر رہا ہے۔ اوپر سے مختلف طرح کی بیماریوں اور معاشرت کے معاملات کا بوجھ نحیف کندھوں پر۔
کچھ دنوں قبل ایک پروگرام کے دوران ممبئ میں حقانی کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ تکلیف اتنی بڑھی کہ انھیں اسپتال میں جبراً بھرتی کرانا پڑا۔ جبراً اس لیے کہ وہ نہیی چاہتے تھے کہ وہ اسپتال میں رہیں اس لیے کہ انھیں اپنی اوقات اور اسپتالوں کے خراجات کا پتا تھا، یہ تو کہیے کہ جس ادارے میں وہ عارضی بلکہ (contactual) ملازم ہیں، اس کا سربراہ رحم دل نکلا کہ جس نے سارے خرچ کی ذمے داری خود اٹھالی۔ وہ چاہتے تو اچھے اسپتال میں جم کر قاعدے سے اپنا علاج کرا سکتے تھے کہ ان کی جیب سے کچھ نہیں جا رہا تھا مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے زندگی کو داو پر لگا دیا۔ اسپتال سے جلد باہر آگئے مگر اپنے ضمیر کو مرنے نہیں دیا۔ اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔حقانی کا یہ کردار ان کے قد  کو اور اونچا کر دیتا ہے۔
حقانی اپنے محسن کو کبھی نہیں بھولتے جب کہ اکثر دیکھا گیا کہ مرنے کے بعد اس کے اپنے بھی اسے
بھلا دیتے ہیں۔ صلاح الدین پرویز کو سبھی بھول گئے مگر حقانی نے صلاح الدین کے گزر جانے کے بعد بھی اسے یاد رکھا اور ان پر ایک بہت ہی جذباتی اور رقت آمیز مضمون لکھا جسے پڑھ کر لوگوں کی آنکھیں گیلی ہوگئیں۔ رلانے والی تحریر اسی وقت خلق ہو پاتی ہے جب تخلیق کار کے دل میں آنسو ہوں۔ حقانی کے دل کے آنسو ان کی کئی تحریروں میں چھلکی ہیں۔
حقانی ہمیشہ صحافت کے پیشے سے جڑے رہے۔ ان کے ہاتھ میں اخبارات بھی رہے اور رسائل وجرائد بھی، انھوں نے صحافتی تقاضے بھی پورے کیے مگر اپنی حسِ جمال سے کبھی بھی رو گردانی نہیں کی۔ صحافت میں بھی اپنے ادبی جمالیاتی جوہر کے نقوش سلیقے سے چھوڑتے چلے گئے.
حقانی چاہتے تو خود بھی اپنے دور کے ہتھ کنڈوں کو اپنا کر اپنی دنیا سنوار لیتے۔ اب تک تو وہ کسی کرسیِ صدارت پر بھی متمکن ہو چکے ہوتے مگر انھوں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ وہ اپنے پائدار پایۂ علم کو بھی بیساکھی لگا دیں۔ چنانچہ زندگی کو لڑکھڑانے تو دیا مگر اپنے علم و دانش کو اپاہج نہ ہونے دیا۔ ٹھیک ہے انھیں اچھی ملازمت نہ ملی۔ وہ ہمیشہ ہی عارضی رہے اور عارضی ملازمت کے کرب کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے عارضیت کی اذیت کو خود جھیلا ہو، مگر اس عالم میں بھی وہ لڑکھڑائے نہیی بلکہ دوسروں کو سنبھالا بھی۔ سننے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ انھوں نے کئی گمنامی میں پڑے ادیبوں کو روشنی میں لا دیا اور کچھ کو تو صاحبِ کتاب بھی بنا دیا۔
حقانی کی شخصیت کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ کوئی انھیں کچھ بھی کہے، کتنا بھی چھیڑے، جس حد تک چاہے پروبھوک کرے مگر وہ کسی قسم کے منفی ردٌعمل کا اظہار نہیں کرتے، ایسی صورت حال میں بھی خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ خلافِ مزاج چھیڑ چھاڑ پر بھی خاموش رہ جانا یا اسے ہنس کر ٹال دینا یہ ایسا مشکل کام ہے جو کسی کم زور انسان کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے چھپن انچ کا سینہ ہونا چاہیے اور ایسا چوڑا سینہ دیکھنا ہو تو ایک بار آپ بھی دیویوں کے جھرمٹ میں گھس جائیے اور ان کی موجودگی میں بھی حقانی القاسمی کو چھیڑ کر دیکھیے وہاں آپ کو چھپن انچ کی چھاتی ضرور دکھ جائے گی۔
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش : ایک درخشاں قمر کی آمد کی دھمک

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے