محمد اویس سنبھلی
رابطہ: 9794593055
صفدر امام قادری کی شخصیت اردو کے علمی و ادبی حلقوں میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ماہر استاد کے طور پر بھی وہ اپنی منفردشناخت رکھتے ہیں۔ نئی نسل کے ذہنی اور فکری ارتقا میں ان کی مساعی جمیلہ کا اعتراف ضروری ہے۔ تنقیدی و تبصراتی مضامین، کالم، سفرنامے، خاکے اور شخصی تاثرات پر مشتمل اب تک اُن کی تین درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
ظفر کمالی اردو کے مشہور شاعر، ادیب، نقاد اور محقق ہیں، ادب اطفال کے حوالے سے بھی ان کو جانا پہچانا جاتا ہے۔ 2022ء میں ادب اطفال کے لیے انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ظفر کمالی کی تازہ کتاب ’’صفدر امام قادری: شخصی نقوش‘‘، صفدر صاحب کی شخصیت، علمی و ادبی خدمات اور ان کی زندگی کے نشیب و فراز کا احاطہ کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ صفدر امام قادری سے ظفر کمالی کی والہانہ محبت کا اظہار فلیپ پر موجود اُن رباعیوں سے بھی ہوتا ہے جو صفدر امام قادری کے لیے انھوں نے لکھی ہیں۔
608؍ صفحات پر مشتمل اس کتاب سے قبل ظفر کمالی نے صفدر امام قادری کی تنقیدی و تدریسی خدمات پر 125؍ رباعیات کہیں اور انھیں ’’سوغات‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ ’سوغات‘ محض 72؍ صفحات پر مشتمل کتاب ہے، بلکہ اسے ’صفدر نامہ‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ’سوغات‘ سے دو رباعیاں پیش خدمت ہیں:
صفدرؔ کا مکاں ہے کہ ہے کاشانۂ علم
لوگ اُس کو سمجھتے ہیں مے خانۂ علم
ہر وقت وہاں رہتی ہے پیاسوں کی بھیڑ
دن رات چھلکتا ہے پیمانۂ علم
٭
دیکھی ہیں ظفرؔ اُس نے غضب کی جنگیں
جھیلی ہیں حَسَب اور نَسَب کی جنگیں
اُن جنگوں سے اس نے یہ سلیقہ سیکھا
لڑتا ہے خموشی سے ادب کی جنگیں
ظفر کمالی نے ’سوغات‘ میں صفدر امام قادری کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں پر رباعیاں پیش کی ہیں۔
پیش نظر کتاب ’’صفدر امام قادری: شخصی نقوش‘‘ کی ابتدا میں عرض مرتب تحریر کرنے کے بعد ظفر کمالی نے ’’کچھ بیاں اپنا‘‘ کے عنوان کے تحت صفدر امام قادری کے سوانحی نوعیت کے دو مضامین کتاب میں شامل کیے ہیں، جن کے مطالعہ سے ان کی تعلیمی، تدریسی، ادبی اور تصنیفی زندگی کے بارے میں پتا چلتا ہے، مزید صفدر امام قادری کی شخصیت پر تحریر کیے گئے چار خاکے بھی کتاب میں شامل ہیں۔ ظفر کمالی نے اس کتاب میں متعدد شہ سرخی کے ذیل میں صفدر امام قادری کی شخصیت اور فن کے حوالے سے اردو کے اہم ادیبوں، نقادوں اور ان کے شاگردوں کے کم و بیش چالیس مضامین شامل کیے ہیں نیز صفدر امام قادری کے دو انٹرویو اور ظفر کمالی کے نام صفدر امام قادری کے 54؍ خطوط بھی کتاب کا حصہ ہیں، جن سے قاری پر صفدر امام قادری کی شخصیت اور زندگی سے متعلق نئے انکشافات سامنے آتے ہیں۔ کتاب میں عبدالوہاب قاسمی کا صفدر امام قادری کی تصنیفات و تالیفات سے متعلق ایک تفصیلی تعارف بھی شامل ہے جو ان کے ادبی اور علمی کاموں سے قاری کو متعارف کراتا ہے۔ آخر میں نوشاد احمد کریمی اور امان ذخیری نے صفدر صاحب کو منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا ہے۔
صفدر امام قادری کے علمی و ادبی سرمایہ اور تنقیدی و تحقیقی کاوشوں سے متعلق بھی ظفر کمالی نے اہم کام کیا ہے۔ ’’صفدر امام قادری فکری وفنی زوایے‘‘ کے عنوان سے ظفر کمالی کی تازہ تصنیف گزشتہ برس 2024ء میں منظر عام پر آئی ہے، جس میں صفدر امام قادری کی علمی، ادبی تنقیدی اور تحقیقی خدمات کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔ 640؍ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ظفر کمالی نے عرض مرتب کے عنوان سے صفدر امام قدری کی کتابوں پر اجمالی گفتگو اور ان کے تحریری اسلوب و انداز بیان پر کلام کرتے ہوئے ایک بھرپور مقدمہ کے ساتھ صفدر امام قادری کی تمام تصنیفات پر متعدد اہل علم و ادب کے تبصروں اور مضامین کو نہایت جستجو کے بعد جمع کیا ہے، کتاب کا انتساب صفدر امام قادری کے والد محترم کے نام ان الفاظ میں ہے:
’’صفدر امام قادری کے والد بزرگوار، ادیب اور شاعر مجھ سے بے پناہ شفقت رکھنے والے بزرگ مرحوم اشرف قادری کے نام۔‘‘
عرض مرتب کے بعد اولاً غضنفر کا ایک مقالہ ’’صفدر امام قادری: یہی اک شہر میں ایسا بچا ہے‘‘ کے عنوان سے شامل ہے جس میں غضنفر نے صفدر امام قادری کی تنقیدی نظر اور تنقید نگاری پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ پیش نظر کتاب میں اردو کے نئے اور پرانے لکھنے والوں کے مضامین شامل ہیں۔ صفدر امام قادری کی کتاب ’’صلاح الدین پرویز کا آئڈینٹٹی کارڈ‘‘ پر یوسف ناظم، فاروق احمد صدیقی، عطا عابدی، نسیم احمد نسیم کی چار تحریریں شامل ہیں، ’’اردو زبان و ادب کی مختصر تاریخ‘‘، ’’سید محمد حسن‘‘، ’’مشاہدات‘‘، ’’روشن ہے ریگزار‘‘، ’’یہ زمین کچھ کم ہے، ’’سرپٹ گھوڑا‘‘ اور ’’ظفر کمالی: شخصیت اور فنی جہتیں‘‘ پر ایک ایک تحریر کو جگہ دی ہے۔ ’’نئی پرانی کتابیں‘‘ صفدر امام قادری کی وہ پہلی تصنیف ہے جس سے انھیں قبول عام حاصل ہوا۔ الفیہ نوری نے اسے مرتب کیا ہے۔ کتاب میں 22؍ تبصرے شامل ہیں۔ فن نقد و تبصرہ پر صفدر امام قادری کو مکمل عبور حاصل ہے۔ ان تبصروں میں ان کی تنقیدی ذہانت جھلکتی ہے۔ مذکورہ کتاب پر مختلف اہم شخصیات کے ایک درجن تبصرے مرتب نے شامل کیے ہیں۔ اسی طرح ’’ذوق مطالعہ‘‘ پر تین مضامین، ’’محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور اور دیگر مضامین‘‘ پر پانچ تحریریں، ’’عہد سرسید کے ادبی و علمی نقوش‘‘ پر دو تبصرے، ’’عرض داشت‘‘ پر آٹھ تحریریں شامل ہیں۔ ’’جانے پہچانے لوگ‘‘ سے متعلق بارہ تحریریں ہیں جس میں انیس الرحمان، غضنفر، اقبال حسن آزاد، سلمان عبد الصمد وغیرہ کے تبصرے شامل ہیں۔ ’’بنگلہ دیش کو میں نے دیکھا‘‘ پر جاوید دانش، علی احمد فاطمی، محمد ذاکر حسین کے علاوہ چھ تبصرے شامل کتاب ہیں۔ ’’میرے والدین‘‘ پر مفتی ثناء الہدی قاسمی اور افشاں بانو کے تبصرے، ’’صحافت: دو صدی کا احتساب‘‘ سے متعلق تسلیم عارف، محمد ولی اللہ قادری کی دو تحریریں نیز صفدر امام قادری کی کتاب ’’کچھ اور مضامین‘‘ پر غزال ضیغم، شہاب اعظمی اور مقصود دانش کی تحریروں کے علاوہ تین مزید تبصرے پڑھنے کو ملتے ہیں۔
پیش نظر دونوں کتابوں کی اشاعت سے صفدر امام قادری کے علمی، ادبی اور تنقیدی سرمایے کی ایک مکمل تصویر ابھر کر قاری کے سامنے آجاتی ہے، صفدر امام قادری کی شخصیت، فکر و فن کے حوالے سے ظفر کمالی کی یہ دونوں کتابیں امید ہے اردو کے ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی۔
٭٭٭
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:گلدستوں میں شعرائے اعظم گڑھ اور ان کا نادر کلام

صفدر امام قادری: شخصی نقوش اور فکری و فنی زاویے
شیئر کیجیے