اصل انگریزی عنوان: (The Stateless Person’s Tale)
افسانوی مجموعہ: Refugee Tales
تخلیق : عبد الرزاق گرناه
انگریزی سے ترجمہ : وسیم احمد علیمی
رابطہ نمبر: 61294 78359
(اس کہانی کے خالق عبدالرزاق گرناہ کو ۲۰۲۱ء کانوبل انعام برائے ادب دیا گیا تھا. یہ انعام انھیں فکشن میں نو آبادیاتی نظام کے اثرات اور ہجرتوں کا کرب بیان کرنے کے لیے دیا گیا۔ وہ خود بھی مہاجر تھے. ۱۹۶۰ء کی دہائیوں میں تنزانیہ سے انگلینڈ ہجرت کر گئے. ان کا بچپن تنزانیہ کے زنزیبار میں ہی گزرا. یہیں وہ ١٩٣٨ میں پیدا ہوئے. انگلینڈ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہیں بقیہ زندگی ادب کے پروفیسر کے طور پر گزار رہے ہیں۔ ان کی ادبی تخلیقات میں دس ناول، مختصر کہانیاں اور ہم عصر فکشن پر تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ ان کے موضوعات ہجرت کے مسائل، جنگ، فاقہ کشی اور تہذیبوں پر نو آبادیاتی اثرات ہیں۔)
***
آپ پوچھتے ہیں میں یہاں کب سے ہوں. تو سن لیں، اب یہ میرا بارہواں سال ہے، اور اس بات کا یقین کرنے کے لیے اکثر ایک سے زیادہ بار گننا پڑتا ہے تاکہ میں درست تعداد تک پہنچ سکوں۔ یہاں مجھ پر ایک بڑا عرصہ گزرا ہے۔ ان تمام وقتوں میں، میں ہوم آفس اور ایک کے بعد ایک دفتر کے درمیان ٹھوکریں کھاتا رہا ہوں۔ میں جب ہوم آفس کہوں تو اس سے میری مراد یہ نہیں کہ میں وہاں جاتا ہوں یا کسی سے ملتا ہوں بلکہ مجھے صرف خط موصول ہوتے ہیں۔ یہ کرو وہ کرو ورنہ…
کسی کارروائی کے دوران ان کا تعاون نہ کرنا بھی انھیں سخت ناگوار گزرتا ہے چہ جائیکہ ان کی نافرمانی کرنے کی جرأت کی جائے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ ان خطوط میں کیا ہے۔ دھمکیوں، رعایتوں کی منسوخی، حراست اور جلا وطنی کی ایک لمبی فہرست.
ان کا سب کرنا دھرنا مجھے جلا وطن کرنے کے لیے ہی تو ہے۔ ۲۰۰۹ ء میں میری گرفتاری کے بعد مسلسل نو سالوں
سے ان کی کوشش جاری ہے۔ مجھے ایک سال سے زائد قید کی سزا سنائی گئی جس کا مطلب تھا کہ رہائی کے بعد میں خود بخود جلا وطن کر دیا جاؤں گا۔ عدالتیں جان بوجھ کر ایسا کرتی ہیں۔
صرف ایک سال کی سزا سناتی ہیں تا کہ ہوم آفس ہمیں جلا وطن کر سکے لیکن اس مقصد میں ان کے ہمیشہ کامیاب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں قانون ہے اور نیک دل وکیل ہیں جو انھیں روکتے ہیں، یا کم از کم ان کی بدنیتی کو موخر کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ مجھے ملک بدر نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ دیس قبول نہ کرلے جہاں وہ مجھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میں ملک ج… کا رہنے والا ہوں۔ میں وہاں سے بھاگ نکلا کیونکہ میری جان کو خطرہ تھا، لیکن ہوم آفس کا کہنا ہے کہ اب وہاں کوئی خطرہ نہیں اور میں بحفاظت واپس جا سکتا ہوں۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ وہ جو بھی کہیں، ملک ج۔۔۔ مجھے قبول نہیں کرے گا کیونکہ میرے پاس وہاں کی شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی کاغذ نہیں ہے۔
میں نے خود کو بے وطن کے طور پر متعارف کرانے کی درخواست جمع کی ہے۔
اگر میں تصدیق شدہ بے وطن ہوتا تو میرے پاس رہائش ہوتی، میں کام کر سکتا اور ملک کی ترقی میں تعاون کرتا اور پھر بہت دن بیت جانے کے بعد شہریت کے لیے درخواست بھی دے سکتا تھا، مگر یہ بھی ایک الجھا ہوا مسئلہ ہے۔ حالانکہ قانون مجھے خود کو بے وطن ثابت کرنے کے لیے درخواست جمع کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ ہوم آفس ہے جو سفری دستاویزات کے لیے سفار تھا نے بھیجتا رہتا ہے تا کہ مجھے ملک بدر کر سکیں۔ میں اب تک تین بار سفارت خانہ جا چکا ہوں اور ہر بار دو مجھے بھگا دیتے ہیں کیونکہ میرے پاس ایسا کوئی کاغذ نہیں جس سے میری شہریت ثابت ہو۔ اس آخری دفعہ تو وہاں ایک خاتون نے میرا مذاق بھی اڑایا۔ "تم اب بھی یہیں ہو" اس نے کہا۔
"ہوم آفس بار بار یہاں بھیج کر تمھارا وقت کھا رہا ہے۔ تم جتنا چاہو یہاں کا چکر کاٹ لو ہمارا جواب ہمیشہ ایک جیسا ہی رہے گا جب تک کہ تم کا غذات لے کر نہ آجاؤ جس سے ثابت ہو کہ تم ملک ج۔۔۔ کے باسی ہو۔"
"جب ہوم آفس کا حکم ہو کہ سفارت خانے جاؤ تو مجھ بے چارے کے پاس یہاں آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، ور نہ وہ کہیں گے کہ میں تعاون نہیں کر رہا اور مجھے حراست کے اندھیرے کنویں میں پھینک دیں گے۔ وہ مجھے کسی بھی وقت حراست میں بھیج سکتے ہیں، یہی میری قانونی حیثیت ہے۔ میں شکایت نہیں کرنا چاہتا۔ وہ مجھے جانے کو کہتے ہیں، میں چلا جاتا ہوں۔"
میرے پاس کا غذات کیوں نہیں ہیں ؟ میں ہنستا ہوں اپنی نادانی اور بد قسمتی پر۔
جب میں ملک ج۔۔۔ میں تھا اور قتل نسواں کے خلاف عیسائی مزاحمت کی وجہ سے اپنی جان کے بھوکوں سے بھاگا پھر رہا تھا، تب وہاں برنارڈ نامی ایک انگریز آدمی تھا جس نے میری مدد کی تھی۔ وہ ایک عیسائی این جی
او میں ملازم تھا جہاں اس نے میری بھی نوکری لگوادی تھی۔ وہ واقف تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے کیونکہ جو لوگ مجھے ڈھونڈ رہے تھے وہ کئی بار میری ٹوہ میں دفتر تک بھی آئے تھے۔ میں بھاگنے کے لیے بے تاب تھا لیکن میرے انگریز دوست برنارڈ نے یہاں آنے کا مشورہ دیا۔ وہ میرا پاسپورٹ لے گیا اور ایک ہفتے بعد ویزا کی مہر لگوا کر واپس کر گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے یہ کیسے کیا؟ کیوں کہ عموما ویزا حاصل کرنا بڑا جھمیلا والا کام ہے: انٹرویو دو بہت زیادہ پیسے پھونکو، تصدیق کے لیے پرایا ملک بھیجو اور ڈھیر سارا وقت کھپاؤ۔
اس نے کہا یہ سب مت پوچھو۔ سو میں نے نہیں پوچھا۔ دوستوں اور رشتے داروں نے کسی طرح بھاڑے کا پیسہ اکٹھا کیا اور میں اپنے انگریز دوست کے ساتھ لندن چلا گیا۔
میں اس کا بہت شکر گزار تھا کہ اس نے میرے لیے بہت کچھ کیا اور سفر میں میرے ساتھ بھی گیا۔ میں نے اس سے پہلے یوروپ کا سفرنہیں کیا تھا ایسے میں اس کی موجودگی مجھے تسلی دیتی تھی۔ ہوائی اڈے کے عہدیداروں نے مجھ سے کچھ سوالات کیے اور جتنا جواب دے سکتا تھا میں نے دیا، یہ جانے بغیر کہ وہ یہ سوال کیوں پوچھ رہے ہیں۔ میں نے صحیح جوابات دیے ہوں گے کیونکہ انھوں نے مجھے بطور وزیٹر خیر مقدم کیا تھا۔ جب ہم گیٹ سے گزر رہے تھے اور ٹرمینل میں آنے والوں کے ہجوم میں تھے، میرے انگریز دوست برنارڈ نے میرا پاسپورت مانگا۔ اس نے کہا کہ اس کے لیے پاسپورٹ رکھنا زیادہ محفوظ ہے اور میں ہوم آفس جا کر کہوں گا کہ میں پناہ کے لیے آیا ہوں۔ میں نے اسے اپنا پاسپورٹ دے دیا اور اس نے مجھے پتے کے ساتھ ایک کاغذ دیا:
ہوم آفس لونار ہاؤس،
پہلی منزل، 40 ویلزلی روڈ،
کروڈن CR9 2BY
پل بھر میں وہ رفو چکر ہوگیا اور آج تک کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ میں نہیں جانتا کہ میں نے اس کو اپنا پاسپورٹ اتنی آسانی سے کیوں دے دیا۔ میں نے اس پر بھروسہ کیا کیونکہ اس نے پہلے ہی میری بہت مدد کی تھی۔
اس نے میرا پاسپورٹ کیوں لیا۔ شاید اس کی نیت اچھی ہو یا شاید خود کو محفوظ کرنے کے لیے، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس نے میرے لیے ویزا کیسے حاصل کیا تھا، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ میرا ویزا مناسب طریقے سے حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ اس میں کچھ نہ کچھ جھول تھا یا شاید اس آدمی کی حفاظت کرنا تھا جس نے اس کی مدد کی تھی۔ اس کے ہجوم میں غائب ہونے کے فورا بعد مجھے عقل آگئی تھی کہ اب دوبارہ میں اسے نہیں کھوج پاؤں گا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور یہ کہ ہفتے کے آخر کا دن ہے اور کروڈن میں ہوم آفس پیر کی صبح تک نہیں کھلے گا۔ اس وقت تک بھی مجھے ان اندھیروں کا علم نہیں ہوا تھا جو عنقریب میرا مقدر ہونے والے تھے۔
چونکہ دفتر بند تھا اس لیے سیکورٹی گارڈ نے مجھے اس جگہ کا پتہ دیا جہاں میں رات گزار سکتا تھا۔ پھر اگلے دن میں کروڈن واپس گیا جہاں مجھ سے پوچھ گچھ کی گئی اور انٹرویو لیا گیا اور عارضی رہائش گاہ پر بھیج دیا گیا۔ مجھے یہ سمجھنے میں کئی ہفتے لگے کہ حکام مجھے پسند نہیں کرتے، کہ وہ مجھ سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، شاید انھیں یقین نہیں تھا کہ ملک ج۔۔۔ میں میری جان کو خطرہ ہے۔ انھوں نے رہنے کے لیے میری درخواست ٹھکرادی اور مشیر المہاجرین نے مجھے اپیل کرنے کا مشورہ دیا۔ میری درخواست دوبارہ ٹھکرا دی گئی اور میں نے دوبارہ اپیل کی۔ درخواست مستردگی اور اپیل کے چکر میں مہینے گزر گئے۔ اس وقت تک، میں گلاسگو میں رورہا تھا اور اپنی کاہلی سے آہستہ آہستہ شکست کھا رہا تھا۔
مجھے دیے گئے پتے پر رہنا پڑا۔ میں بالکل کنگال تھا۔ میرے پاس بنیادی ضروریات کے لیے صرف ایک کارڈ کے سوا پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔ میں سفر نہیں کر سکتا تھا اور سب سے تکلیف دہ یہ کہ میں اپنے ذہن اور جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے کوئی کام بھی نہیں کر سکتا تھا۔
ارے ہاں، کام کے چکر میں ہی تو میں پکڑا گیا۔ میں جھوٹی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے کام مانگنے گیا تھا اور میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے میرے پاس کوئی کاغذ نہیں تھا۔ وہ کاعذات کسی ایسے شخص کے تھے جو گلاسگو میں میری ہی طرح لا چار تھا۔ اس کو رہنے کی اجازت تھی اور وہ نوکری کرنے کا بھی مجاز تھا لیکن فوری خاندانی ضرورت کے سبب اسے گھر جانا پڑا۔ اگر وہ مزاحمت کرنے وہاں نہیں جاتا تو اس کا خاندان اپنی زمین سے ہاتھ دھو بیٹھتا اور اگر وہ وطن واپس چلا گیا تو مہاجر کی حیثیت کھو دے گا اور واپس نہیں آسکے گا لیکن اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ میں نے اس کے کاغذات ادھار لیے اور ایک ایجنسی میں کام کے لیے رجسٹر کرانے چلا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایجینسی کا کارکن کیسے جانتا تھا کہ دستاویزات میری نہیں ہیں۔ اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بس مجھ سے میرے تجربات اور کام کی نوعیت کے بارے میں سوالات پوچھے۔ پھر اس نے کہا کہ اسے جا کر ایک فارم یا اس جیسی کوئی چیز لانی ہے۔ بس یوں گیا اور یوں آیا۔
کچھ ہی منٹ میں پولیس والے آگئے، ان کے پاس دو کاریں تھیں اور وہ چار لوگ تھے جو اپنے کام سے خوش لگ رہے تھے۔ وہ مجھے اچک لے گئے اور جیل میں ڈال دیا۔ اگلی صبح میں عدالت میں تھا۔
وہ بہت جلدی میں تھے اور سب کچھ ختم کردینا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے مجھے کسی کو فون کرنے یا وکیل سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔ مجھ پر کسی غیر کی جگہ خود کو رجسٹر کرانے کی کوشش کا الزام نہیں لگایا گیا، بلکہ غیر قانونی طور پر ملازمت میں ہونے کی بات کہی گئی۔ مجھے نہیں معلوم کیوں۔ شاید اس سے ان کا کیس مستحکم ہوتا ہوگا۔ کوئی ثبوت نہیں، کوئی بحث نہیں، کوئی دفاع نہیں۔ یہ سب کچھ منٹوں میں ختم ہو گیا اور مجھے چودہ ماہ قید کی سزاسنائی گئی اور رہائی پر جلا وطن کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ مجھے جیل بھیج دیا گیا۔ نہیں، میں جیل کے متعلق بات نہیں کرنا چاہتا۔ ( یہ نہایت تکلیف دہ ہے ) مجھے چند مہینوں کے بعد جلد رہا کر دیا گیا اور اسٹرھاوین کے انگویل ڈٹینشن سینٹر بھیج دیا گیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ ایسے لوگوں کو قید رکھتے ہیں جنھیں جلا وطن کیا جاتا ہے۔ انگویل سے ، مجھے ایک اور امیگریشن ریموول سینٹر بھیجا گیا اور کئی مہینوں کے بعد س ۔۔۔۔ بھیجا گیا جہاں میں اب درخواست، اپیل اور مستردگی کے بعد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہوں۔ میں یہاں اتنا پرانا ہو چکا ہوں کہ خود کو دوسرے آنے جانے والوں کا انچارج محسوس کرتا ہوں۔ میں اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ ہر کوئی صفائی میں حصہ لے اور کسی قسم کا ہنگامہ نہ ہو۔
اریٹیریا سے دو آدمی ہیں، آدمی کیا لڑ کے ہیں، ایک آئیوری کوسٹ کا رہنے والا ہے اور ایک روسی۔ ہاں، ایک سفید نام روسی ہے، چیچن یا تا تاری یا دوسری قسم کا روسی نہیں ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اسے حیرت ہونی چاہیے کی آخر اس نے ایسا کیا گل کھلایا ہے کہ اسے ہم جیسے افریقی بھیڑیے ساتھی نصیب ہوئے۔
پولیس نے مجھے گرفتار کیا اور عدالت نے سزا سنانے میں اتنی جلدی کی کہ مجھے اپنا سامان اور کاغذات تک لینے کی مہلت نہیں دی گئی۔ میں نے کاغذات کے بارے میں پوچھا بھی مگر انھوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہاں کچھ نہیں ہے۔ میری گرفتاری کے بعد سب کچھ ضائع کر دیا گیا، میری بیوی اور بچوں کی تصویر، میرا اسکول کا سرٹیفکیٹ، میری پیدائش کا سرٹیفکیٹ، ایڈریس کی کتاب سب کچھ. انھوں نے وہ سب کچھ کوڑے کباڑ میں پھینک دیا ہوگا۔ چنانچہ جب ہوم آفس نے مجھے مشورہ دیا کہ سفری کاغذات حاصل کرنے کے لیے سفارت خانے جاؤں تا کہ وہ مجھے ڈی پورٹ کر سکیں اور یہاں تک کہ وہ میرا لندن کا کرایہ بھی ادا کر دیتے لیکن میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا جس سے میں ثابت کر سکوں کہ میں ملک ج.۔۔ کا رہنے والا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں میری ان مجبوریوں کے باوجود وہ مجھے بار بار سفارت خانہ بھیجنے سے باز نہیں رہیں گے۔ شاید انھوں نے انہیں سوچا کہ میں کتنی کوششیں کر رہا ہوں یا شاید اس کے پیچھے کوئی سوچ ہی نہیں ہے، صرف ایک مشین ہے جس کے کل پرزوں میں ظلم کا پروگرام فٹ کر دیا گیا ہے۔
میں یہاں بارہ سال سے ہوں جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا تھا۔ مجھے اب بھی کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں اپنے چرچ اور رضا کارانہ طور پر ایک ایسی تنظیم کا ہاتھ بتاتا ہوں جو ہاسٹل میں رہنے والوں سے ملتی ہے اور مشورے دیتی ہے۔ ان میں سے بیشتر شرابی ہیں یا سابق مجرم ہیں۔ مجھے اس کام کے لیے اٹھارہ ہفتوں کی ٹریننگ دی گئی، اس لیے میں ایک کوالیفائیڈ کونسلر ہوں۔ میں نے ایک ایکسیس کورس کے لیے بھی درخواست جمع کی تھی لیکن مہاجر ہونے کی وجہ سے اسٹوڈنٹ لون نہیں ملا۔ میں نے ایک ایڈلٹ سوشیل کیئر کورس بھی کیا جس کی فیس ایک مہاجر تنظیم نے ادا کی تھی. اور باہوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن جان کٹنے لگتی ہے جب آپ کے پاس وقت بے تحاشا ہو اور بچوں کی بہت سی اداس یادیں ستانے لگیں جو بہت دور ہیں اور اب بڑے ہوچکے ہیں.
میری عمر ۵۹ سال ہے اور میں محسوس کر سکتا ہوں کہ وقت میرے ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے۔ مجھے مسلسل سردرد رہتا ہے، ہائی بلڈ پر یشر کی بھی شکایت ہے اور ابھی حال ہی میں ذیابیطس (شوگر) کی تشخیص ہوئی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ میں مایوسی کا شکار ہوں اور اس کے لیے مجھے ادویات لکھ دی ہیں۔ میں نے کہا مجھے ڈپریشن یا تناؤ کے لیے دوا کی ضرورت نہیں، میں اپنی آزادی چاہتا ہوں۔ کئی کئی دن تک کھلا آسمان دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔
میں جانتا ہوں کہ دوبارہ زندگی شروع کرنے کا بس اب ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ بے وطن مہاجر کے طور پر اپنی شناخت حاصل کروں لیکن اس کے لیے بھی برسوں سے انتظار کر رہا ہوں۔ میں نے آخری درخواست ایک سال پہلے دی تھی، جس کے نتیجے میں مجھے ایک بار پھر سفارت خانے بھیجا گیا تھا جہاں مجھے وہی سب بتایا گیا جو بارہا پہلے بھی بتایا جا چکا ہے۔ کوئی کا غذات نہیں، ملک ج۔.۔ کے سفر کے کاغذات نہیں۔ میں ملک ج… نہیں جانا چاہتا۔ وہاں میری زندگی محفوظ نہیں ہے۔ مجھے ایک بے وطن مہاجر کے طور پر شناخت حاصل کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مجھے کام کرنے اور اس ملک کی ترقی میں حصہ لینے کی اجازت مل سکے۔
ہوم آفس اتنا ظالم کیوں ہے؟ کیا انگریز لوگ انھیں اتنا ہی سفاک دیکھنا چاہتے ہیں؟ وہ سب اس طرح بے رحم نہیں ہو سکتے۔ ان میں بعض بہت نیک دل بھی ہیں۔ کبھی تو وہ وقت آئے گا جب ہوم آفس کا کوئی فرد کہے گا کہ آئیے اس بے چارے افریقی کا عذاب ختم کریں اور اسے کام کرنے دیں۔ آخر میں نے کیا کیا ہے کہ وہ میرے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں؟ اگر انھوں نے اس بار مجھے ٹھکرایا تو میں اپنا بوریہ بستر باندھوں گا اور ہوم آفس جاؤں گا اور ان سے کہوں گا کہ مجھے جہاں چاہیں بھیجیں، خواہ مجھے درمیان سمندر ہی کہیں اٹھا کر پھینک دیں۔
***
صاحب ترجمہ کی گذشتہ نگارش:کیا ہر دو زبانوں کا عالم مترجم بھی ہے؟