("مزید شگفتگی" کے خصوصی حوالے سے)
محمد اشرف یاسین
(ریسرچ اسکالر، دہلی یونی ورسٹی)
زیرِ غور کتاب "مزید شگفتگی (خاکے، انشائیے اور رپورتاژ)" پروفیسر ابن کنول (1957-2023) کی خاکوں پر مشتمل کتاب "کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی" کی اگلی کڑی ہے۔ "مزید شگفتگی" نامی اس کتاب میں خوش مذاق: پروفیسر شریف حسین قاسمی، خوش گفتار: صدیق الرحمٰن قدوائی، قصہ گو: سید محمد اشرف، آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی: جاوید دانش، ولی صفت: ولی اختر ندوی، کتاب دوست: سید شاہد مہدی، سدا بہار: پروفیسر اختر الواسع، خاک پوش، خاکہ نگار: مجتبیٰ حسین، خاتون مشرق: پروفیسر شمیم نکہت، انتہائی شریف ترقی پسند: شارب رودولوی، ماہر اقبالیات: پروفیسر عبد الحق، شاہد علی خان: ہر دیئے کی مٹی میں روشنی تمہاری ہے، اُردو کا خوش پوش ناقد: ڈاکٹر عتیق اللّٰہ، پرویز سے شہر یار تک، ڈاکٹر خلیق انجم روہیلہ، خاقانئی جامعہ: پروفیسر خالد محمود وغیرہ پر سولہ(16) خاکے ہیں۔ عالمی یومِ اردو، اعزازیہ جمع زادِ راہ، ایوارڈ، رسمِ اجراء، آدم گھر اور غالب کا سفرِ کلکتہ: غالب کی زبانی کے عناوین سے چھے(6) انشائیے ہیں، جب کہ سفرِ حیدرآباد کے نام سے ایک رپورتاژ بھی ہے۔ اس طرح کتاب میں خاکے، انشائیے اور رپورتاژ ملا کر مشمولات کی تعداد تیئیس بنتی ہے۔
کتاب میں شامل سبھی خاکے اتنے دل چسپ، عمدہ، پُر مزاح اور رواں ہیں جو فردًا فردًا گفتگو کے متقاضی ہیں، استادِ محترم ڈاکٹر عزیر اسرائیل(عزیر احمد) کے سہ ماہی، رسالہ، "اُردو ریسرچ جرنل، ابن کنول" (جولائی 2022 مارچ 2023) میں بھی پروفیسر ابن کنول صاحب کی خاکہ نگاری پر تین مضامین شامل ہیں۔ لہذا وقت کی تنگ دامنی کے پیشِ نظر خاکوں پر بحث نہ کرتے ہوئے اب چند جملے پروفیسر ابن کنول صاحب کی انشائیہ نگاری اور رپورتاژ نگاری کے متعلق پیش کیے جارہے ہیں۔
ترقی پسند تحریک کی چوتھی کل ہند کانفرنس 1945 میں حیدر آباد میں منعقد ہوئی تھی، رپورتاژ کی شکل میں اس تقریب کی دل چسپ روداد کرشن چندر (1914-1977) نے اپنی کتاب "پودے" (1947) میں پیش کی ہے۔ اسی حیدرآباد سے پروفیسر فاروق بخشی کے سبک دوش ہونے پر منعقد ہونے والی الوداعیہ تقریب میں پروفیسر ابن کنول نے شریک ہوکر "رپورتاژ سفر حیدرآباد" کے نام سے پیش کیا۔ اس رپورتاژ میں پروفیسر ابن کنول نے اپنے بہت ہی خاص دوست اور ترقی پسند رومانی شاعر پروفیسر فاروق بخشی کی حیدرآباد میں پذیرائی کو جس والہانہ انداز میں پیش کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے یہ احساس بہت شدت اختیار کر لیتا ہے کہ اے کاش ہماری زندگی میں بھی ایک عدد ایسا دوست ضرور ہو جو ہماری خوشی اور غم میں ہمارا برابر کا شریک ہو۔ پروفیسر ابن کنول نے اسی رپورتاژ میں ایک جگہ لکھا جو اس تقریب کے حسبِ حال ہے۔
"مجھے حیدرآباد میں فاروق بخشی کی یہ عزت افزائی اور قدردانی و محبت دیکھ کر رشک ہو رہا ہے۔ ہم سب مردہ پرست ہیں، کسی کے لیے تعریفی کلمات مرنے کے بعد ادا کرتے ہیں۔ فاروق بخشی خوش قسمت ہیں، انھیں اپنی زندگی میں ہی یہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حیدر آباد کے پانچ سالہ قیام کو یہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔" (رپورتاژ سفر حیدرآباد، صفحہ نمبر 189)
اس رپورتاژ سے پہلے بھی پروفیسر ابن کنول نے پروفیسر فاروق بخشی پر ایک خاکہ لکھا ہے جو ان کی کتاب "کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی" میں شامل ہے۔ جو اسی رپورتاژ کی طرح بہت ہی دل چسپ اور مزاح سے لبریز ہے۔
غالب کے انتقال کے بعد سے اب تک سیکڑوں قلم کار، محققین، ناقدین، ڈراما نگار، افسانہ نگار، ناول نگار، پینٹرس، خطاط، وائس اوور آرٹسٹ، شارحین اور مترجمین نے غالب اور ان کی تخلیقات کو اپنی تخلیق و تحقیق اور دل چسپی کا موضوع بنایا۔ غالب کی زندگی کا ایک نہایت دل چسپ واقعہ، کلکتہ کا سفر بھی ہے۔ مندروں کے شہر بنارس پر مبنی غالب کی مثنوی "چراغِ دیر" بنارس میں غالب کے قیام کی یادگار ہے۔ اُردو کے پانچ الگ الگ شارحین نے اس مثنوی کی شرح لکھی ہے۔ (اسے پروفیسر صادق نے مرتب کیا ہے اور دہلی اُردو اکیڈمی نے شائع) غالب نے کلکتہ کا سفر فیروز پور سے شروع کیا اور کانپور، لکھنؤ، فتح پور، باندہ، موڈہ، چلہ تارا، الہ آباد (موجودہ نام پریاگ راج) سے بنارس ہوتے ہوئے کلکتہ پہنچے۔
اس سفر میں غالب کا باندہ سے قیام کے متعلق بعض دل چسپ حقائق کا انکشاف اسٹیج پر موجود پروفیسر صغیر افراہیم نے بھی کیا ہے۔ غالب کی ایک دوسری مثنوی "مثنوی بادِ مخالف" کلکتہ میں ٹھہرنے کی روداد ہے۔ استادِ محترم پروفیسر ابن کنول نے بھی اپنے مخصوص اور شگفتہ انداز میں "غالب کا سفرِ کلکتہ: غالب کی زبانی" لکھا ہے۔ اس انشائیے میں ابن کنول رقم طراز ہیں۔
"سنو صاحب زادے! اُس وقت میری عمر کوئی تیس برس ہوگی۔ سترہ برس سے جبسِ دوام میں تھا، تیرہ برس کی عمر میں بیڑیاں ڈال دی گئی تھیں۔ کچھ دن کے لیے آزادی چاہتا تھا سو پنشن کا بہانہ کر کے گھر سے نکل پڑا، ورنہ دلی میں بیٹھ کر بھی ریزیڈنٹ کو درخواست دے سکتا تھا۔ سفر میں تو اخراجات بھی ہوتے ہیں اور تکلیف بھی۔ لیکن آزاد رہنے کے لیے آدمی سب برداشت کرتا ہے، سو میں نے بھی کیا۔ تین ہزار کلومیٹر کا سفر تھا، کلو میٹر اس لیے بتا رہا ہوں کہ تم کوس کا مطلب نہیں سمجھو گے۔" (مزید شگفتگی، صفحہ نمبر 200)
غالب کے طرز میں لکھی گئی اس خوب صورت نثر میں غالب کا رنگ و آہنگ بھی ہے اور سلاست و روانی بھی، حسنِ تعلیل بھی ہے اور انشائیہ کا مخصوص اسلوبِ بیان بھی۔ جس طرح طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا اسد اللّٰہ خاں غالب کے لیے قیامت تھا اسی طرح طرزِ غالب میں انشائیے کے ایک خاص اسلوب کی لطافت و آمیزش سے انشائیے، خاکے اور رپورتاژ لکھنا کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ یہ اسلوب برسوں کی ریاضت اور مشق و ممارست کے بعد پیدا ہوتا ہے۔
وزیر آغا کے بہ قول طنز و مزاح کے پانچ فنی حربے ہیں۔ موازنہ (Comparison)، زبان وبیان کی بازی گری، مزاحیہ صورتِ واقعہ (Humorous Situation)، مزاحیہ کردار (Humorous Character) اور پیروڈی یا تحریف وغیره۔ پروفیسر ابن کنول نے طنز و مزاح کے ان فنی حربوں سے اپنے خاکوں اور انشائیوں میں بہت کام لیا ہے۔
الغرض 205 پانچ صفحات پر مشتمل یہ کتاب اُردو کی خاکہ نگاری، انشائیہ نگاری اور رپورتاژ نگاری میں ایک گراں قدر، بے حد اہم اور خوب صورت اضافہ ہے، یہ کتاب پروفیسر ابن کنول کی باقیات سے تعلق رکھتی ہے، ممکن ہے کہ پروفیسر ابن کنول کی کچھ مزید کتابیں بھی ہوں جو بعد میں شائع کی جائیں۔ میں محمد اشرف "انجمن شاگردانِ ابن کنول" کی طرف سے اس اہم اور خوب صورت کتاب کی اشاعت پر محترمہ صبیحہ ناصر (پروفیسر ابن کنول صاحب کی اہلیہ) کو صمیمِ قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:کتاب: باغ کا دوسرا دروازہ

پروفیسر ابن کنول کی رپورتاژ اور انشائیہ نگاری
شیئر کیجیے