پروفیسر اختر الواسع
علیزے نجف ایک ایسی خاتون مصنفہ کا نام ہے جو کہ سوچنے کا ہنر رکھتی ہیں اور سوچتے ہوئے جو کچھ صحیح سمجھتی ہیں اس کا برملا اظہار بھی کرتی ہیں۔ میں ان سے کبھی ملا نہیں ہوں لیکن میرا ان سے ایک علمی رشتہ ہے، اس رشتے کو اصغر گونڈوی کے لفظوں میں کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
علیزے نجف کے علمی ذوق و شوق کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف لکھتی ہیں بلکہ انھوں نے بہ طور انٹرویو نگار اپنی ایک نمایاں پہچان بنائی ہے، وہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی علمی شخصیات سے ان کے فن اور مہارت سے متعلق بے باکی سے سوال کرتی ہیں، وہ اس طرح سوالات کو ترتیب دیتی ہیں جو شعور کے ارتقا میں معاون ہوتے ہیں۔ اس سوال و جواب سے قاری بھی یقینا علم کی نئی جہت سے استفادہ کرتے ہوں گے۔
کچھ وقت پہلے مجھ خاکسار کا بھی انھوں نے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، اس طرح ان کے توسط سے مجھے بھی ایک بڑے حلقے تک پہنچنے کا موقع ملا ہے، شاید ایک کثیر تعداد میں لوگوں سے انٹرویوز لینے کا ہی اثر ہے کہ علیزے نجف کے نظریات و خیالات میں وسعت پائی جاتی ہے۔
علیزے بیٹی مجھے اس لیے بھی عزیز ہیں کہ وہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں غیر معمولی دل چسپی رکھتی ہیں۔ اس وقت میں ان کی تصنیف کردہ کتاب ”کیا ہم زندہ ہیں؟“ پر اپنے تاثرات پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، جیسا کہ انھوں نے کہا کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو صحیح زاویے کی تلاش میں ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ واقعی یہ ایک الگ زاویے سے لکھی گئی ہے. روایتی اسلوب سے ہٹ کر مختلف انداز میں انھوں نے اپنی بات کو عام زندگی سے متعلق کر کے پیش کیا ہے۔
یہ کتاب اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں علیزے نے ہمیں اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو کس طرح دیکھتے اور سمجھتے ہیں؟ کیا محض سانس لینا ہی زندگی یے؟ نہیں بلکہ سانس لیتے ہوئے اپنی اندرونی شخصیت کے زندہ رہنے پر ہی ہم زندگی کو صحیح معنوں میں محسوس کر سکتے ہیں اور اسے جی سکتے ہیں۔ لیکن معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس کا علم ہی نہیں اور ہم کب اندر سے مرجاتے ہیں ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ بہ قول بنجامن فرینکلن:
’’کچھ لوگ پچیس سال کی عمر میں مر جاتے ہیں لیکن 75 سال کی عمر میں انھیں دفن کیا جاتا ہے۔‘‘
اس کتاب سے متعلق کینیڈا کے ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد سہیل نے لکھا ہے:
’’علیزے نجف نے نرگسیت، برین اسٹورمنگ، ایموشنل انٹیلی جینس، ریزیلینس اور مسموم مثبت رویے، اوور تھنکنگ، ذہنی غربت جیسے گنجلک، دشوار اور پیچیدہ نفسیاتی مسائل کے بارے میں عام فہم زبان میں لکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ کام صرف وہی ادیب کر سکتا ہے جس کی اس موضوع پر ہی نہیں، بلکہ زبان پر بھی مکمل دسترس ہو۔‘‘
علیزے نے اس کتاب میں نفسیاتی صحت کی اہمیت پر خاطر خواہ بات کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس پر بھی ہمارے سکون اور خوشی کا انحصار ہوتا ہے، اس لیے نفسیاتی صحت کا خیال رکھنا ہم سبھی کے لیے بہت ضروری ہے. اس کے لیے نفسیاتی صحت سے جڑے بنیادی عوامل کے بارے میں جان کاری حاصل کرنا اور اس کا اپنی عام زندگی میں خیال رکھنا بہت ضروری یے، اس کے ساتھ ساتھ اس آگاہی کو پھیلانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ فطری طور پر ہم میں سے ہر انسان کامیاب اور پرسکون زندگی جینا چاہتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں ہے، اس کا اعتراف علیزے نجف نے ںھی کیا ہے، ساتھ میں ان وجوہات کو بھی بتایا ہے کہ اکثر لوگوں کی یہ خواہش کیوں نہیں پوری ہو پاتی، اس کتاب میں علیزے نجف کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے زندگی کے کئی پیچیدہ مسائل سے متعلق پیدا ہونے والے بنیادی سوالوں کے جوابات مہیا کرنے کی کوشش کی ہے۔ علیزے نجف نے نیل ڈونلڈ والش کے قول کا ذکر کرتے ہوئے اس کے ذیل میں اپنے خیال کو کچھ اس طرح لکھا ہے:
’’زندگی اسی وقت شروع ہوتی ہے جب ہم اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلتے ہیں۔‘‘
”یہ ایک بامعنی قول ہے جس کی تہہ میں ایک بڑی حقیقت پنہاں ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ اپنے عمل اور رویوں میں تبدیلی پیدا کیے بغیر نتائج میں تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں اور سابقہ نتیجوں کو دیکھ کر اپنا احتساب کرنے کے بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ایسے میں بہ قول علیزے نجف یہ سوال ذہن میں پیدا ہونا فطری ہے کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ غور و فکر کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ایسے کمفرٹ زون میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں جہاں پر ہم کسی طرح کی اضافی کوشش اور تبدیلی کی قطعی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس ضمن میں ہماری ساری امیدیں دوسروں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ہم عارضی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ اس سے جڑے ہوئے منفی پہلوؤں کے بارے میں سوچنا بھی پسند نہیں کرتے۔ بہ قول جان آگسٹس شیڈ:
’’جہاز بندرگاہ پر محفوظ ہوتا ہے لیکن جہاز کو بندرگاہ کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔‘‘
اس کے تحت علیزے نجف سوال قائم کرتی ہیں اور ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں کہ اگر جہاز کو بندرگاہ پر باندھ دیا جائے تو کیا ہم اس بندھے ہوئے جہاز پر بیٹھ کر اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں؟ کبھی بھی نہیں۔ اسی طرح سے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم کمفرٹ زون میں رہ کر اپنی زندگی کو کامیاب بنا لیں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مواقع کبھی ختم نہیں ہوتے لیکن بہ قول شخصے: ’’کامیابی مسائل میں مواقع ڈھونڈنے سے ملتی ہے۔‘‘ علیزے نے اس ضمن میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کامیابی مسائل کی عدم موجودگی سے نہیں ملتی بلکہ مسائل میں موجود مواقع کو پہچاننے اور اس کو بروقت استعمال میں لانے سے ملتی ہے۔
اس طرح علیزے زندگی میں فیصلہ سازی کو بہت اہمیت دیتی ہیں کیوں کہ فیصلے عمل کا آغاز ہوتے ہیں، وہ کہتی ہیں :
”ہمارے یہاں بد قسمتی سے بچوں میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کی باقاعدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ والدین بچوں کے زیادہ تر فیصلے خود کرتے ہیں۔بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے باوجود بھی والدین انھیں اپنے فیصلوں کا پابند بنائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماں باپ کو اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے اور وہ انھیں مشکل میں نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے وہ ان کے فیصلے خود کرتے ہیں تاکہ غلطی کا امکان نہ رہ جائے۔ وہ ہمیشہ ان کے لیے ڈھال کی طرح کھڑے ہوتے ہیں، ان کوششوں سے بہ ظاہر ماں باپ یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ بچوں کی بھلائی اور ان کی بہتری کے لیے ہی ایسا کرتے ہیں جب کہ خاموش زبان میں انجانے میں ہی سہی وہ بچوں کی صلاحیتوں پر شک کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دماغ کے اس حصے کی نشوونما نہیں ہو پاتی جس سے فیصلے لیے جاتے ہیں، اس طرح وہ انحصار پسند ہو جاتے ہیں۔“
یہ تصویر جو کہ علیزے نے کھینچی ہے یہ اکثر گھروں میں دیکھی جا سکتی ہے، والدین کو اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے، یہ کتاب اس ضمن میں ان کے لیے معاون ہو سکتی ہے۔ علیزے نجف نے اس کتاب میں اس کے علاوہ اور کئی اہم موضوعات پر بات کی ہے جیسے ”ذہنی غربت ایک سنگین مسئلہ“، ”عادت کی طاقت“، ”خاندان کی لیڈرشپ“، ”خوش رہنا سیکھنا پڑتا ہے“ اور ”ٹاکسک پازیٹیوٹی“ وغیرہ وغیرہ۔ ہماری ذہنی و جذباتی صحت ہمارے لیے اتنی ہی اہم ہونی چاہئے جتنی اہم ہماری جسمانی صحت ہے، اس کو بھی مسلسل توجہ، دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، علیزے نے اس کی وضاحت اس قول سے کی ہے:
’’دماغی صحت ایک منزل نہیں بلکہ ایک پراسس ہے جس کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کس طرح گاڑی چلارہے ہیں، اس بات سے نہیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔‘‘
علیزے نجف نے اس طرح کی منفرد کتاب تصنیف کر کے ہمیں ایک نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کیا ہے، انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
”انسان کی خوشی اور سکون کا انحصار جن بنیادی عناصر پر ہے، اس میں سے ایک اہم عنصر ہماری صحت ہے۔ اس میں جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی، نفسیاتی اور روحانی صحت بھی شامل ہے۔ ہمارے یہاں جسم کو لاحق ہونے والی بیماریوں اور حفظان صحت کے اصولوں سے سبھی آگاہ ہیں لیکن نفسیاتی و ذہنی بیماریوں کے حوالے سے آگاہی کا تناسب آبادی کے مقابل ابھی بھی تشفی بخش نہیں۔ زندگی نشیب و فراز کا مجموعہ ہے۔ اس زندگی میں کامیابی و ناکامی ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں، ہم کامیابی کو تو فخریہ انداز میں گلے لگاتے ہیں اور اسے اپنا کارنامہ بتاتے ہیں لیکن ناکامی کے تئیں اس سے بر عکس رویہ رکھتے ہیں، ہم اسے کسی اور کے سر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں۔ یہ ایک غیر ذمہ دار اور بے اصولی پر مبنی رویہ ہے۔“
ناکامی کی ذمہ داری سے علیزے نجف نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ کامیاب ہونے کے لیے ناکامی کی صد فی صد ذمہ داری قبول کرنا ضروری ہے۔ کامیابی اپنے ہر عمل کی صد فی صد ذمہ داری قبول کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں:
”ہم کامیابی کو اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتے ہیں، لیکن ناکامیوں کو اپنی غلطیوں اور غلط فیصلوں کا شاخسانہ سمجھنے سے آخری حد تک گریز کرتے ہیں، ایسا ہم لوگ اس لیے کرتے ہیں، کیوں کہ ہم لاشعوری طور پر ہمیشہ خود کا دفاع کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم غلطیوں کے ادراک کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔“
علیزے نجف کی اس کتاب ’’کیا ہم زندہ ہیں‘‘ کا آغاز اسی عنوان کی ایک نظم سے ہوتا ہے جو کہ اس کتاب کا حاصل بھی ہے اور وہ کچھ یوں شروع ہوتی ہے:
جانے کیوں ہم جسم سے روح کے
نکل جانے سے خوفزدہ ہوتے ہیں
ہم صرف انھیں لاشوں پہ روتے ہیں
جو حرکت نہیں کر سکتیں
پتہ نہیں کیوں لوگ شمشان اور قبرستان تک
پہنچ جانے والوں کو مردہ کہتے ہیں
جب کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں
جنھیں مرے ہوئے ایک زمانہ گزرجاتا ہے
لیکن انھیں قبر جیسی آرام گاہ نہیں ملتی
کیوں کہ تقدیر کے قاضی کا ازل سے یہ فتویٰ ہے
جب تک لاش میں حرکت باقی رہے گی
اس کو دفن کرنا حرام ہے
ہم حرام موت مرنے سے ڈرتے ہیں
لیکن اپنی روحوں کی حرمت و تقدس کی
ہر روز پامالی پہ
ہمیں کوئی دکھ نہیں ہوتا
علیزے نجف کی اس کتاب کو پڑھ کر جہاں ان کے باشعور ہونے کا اندازہ ہوتا ہے وہیں اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ زندگی سے جڑے اہم موضوعات پر کس قدر مضبوط گرفت رکھتی ہیں۔ انھوں نے جن بیش قیمت حوالے اور ریسرچ رپورٹ کو اس کتاب میں شامل کیا ہے اس سے انھوں نے اپنی ذہنی جودت کا ثبوت دیا ہے، اس سے ان کے مطالعے کی وسعت اور گہرائی کا بھرپور پتہ چلتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص علیزے نجف کی ہر بات سے اتفاق رکھے لیکن یہ بات عین سچ ہے کہ اسے بہ آسانی جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا، یہ کتاب ہم کو روایتی فکر سے ہٹ کر عام معمولات زندگی میں سوچنے اور غور و فکر کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
میں اردو زبان میں اس طرح کی ایک نادر روزگار کتاب لکھنے کے لیے علیزے نجف کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اس اہم موضوع پر ان کا تخلیقی سفر روز افزوں جاری رہے۔
٭٭٭
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس شعبہ اسلامک اسٹڈیز ہیں)
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: معروف دانشور پروفیسر اخترالواسع سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو