سید فخرالدین بَلے کا مکتوب بہ نام ڈاکٹر وزیر آغا

سید فخرالدین بَلے کا مکتوب بہ نام ڈاکٹر وزیر آغا

(شاعرِ کرب آنس معین کے غم زدہ والدِ گرامی سید فخرالدین بلے کا مکتوب بنام ڈاکٹر وزیر آغا) 
‎‎
اسلم خان بلڈنگ ،
چوک نواں شہر. ملتان
۔16مٸی1986

ڈاکٹر وزیر آغا صاحب مکرم ! تحیات و السلام علیکم

آپ کا مکتوب ملا درماندۂ فرصت ہونے کے سبب تاخیر سے جواب دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں. یوں بھی آنس کی غیر معمولی موت سے گھر کے سب افراد ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، بکھر گئے ہیں۔ اور خود کو سنبھالنے، سمیٹنے اوراس غم کے ساتھ جینے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

اپنی اولاد سبھی کو پیاری ہوتی ہے جب کہ آنس فی الحقیقت بہت ہی پیارا بچہ تھا۔ عہدِ طفلی میں کھیل کے دوران یا کھلونوں اور ٹافیوں وغیرہ پر بچے جھگڑ بھی پڑتے ہیں، لیکن آنس کو ہم نے اس زمانے میں بھی بھائیوں، بہنوں یا کسی اور سے کبھی جھگڑتے نہیں دیکھا۔ وہ کم آمیز ضرور تھا مگر عموما مسکراتا رہتا تھا۔ سب اس سے بہت پیار کرتے تھے اور وہ بھی سب سے بہت محبت کرتا تھا۔ دھبہ توبڑی چیز ہے وہ اپنے لباس پر معمولی سی شکن تک برداشت نہیں کرتا تھا. حیرت ہے کہ جو کسی غیر کو بھی دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا اپنوں کو اتنا بڑا غم کیسے دے گیا۔ اس کی کوئی ایموشنل پروبلم (emotional problem)
بھی نہیں تھی۔ شادی کے لیے لڑکی کے انتخاب کا معاملہ بھی اس نے یہ کہہ کر گھر والوں پر چھوڑ دیا تھا کہ اس کی نظر میں سب سے بہتر لڑکی وہ ہوگی جو کنبے میں بہتر طور پر ایڈجسٹ (adjust) ہوسکے۔ اس کی نہ کسی سے کوئی چپقلش تھی اور نہ ہی گھر یا باہر کا کوئی ایسا مسئلہ جو کسی الجھن کا سبب بنتا۔ بینک میں جہاں وہ کام کرتا تھا، چھوٹے بڑے سب اس کی شرافت اور صلاحیت کے معترف تھے۔ حال ہی میں اس نے فارن ایکس چینج کی تربیت میں امتیاز حاصل کیا تھا اور اس کی فارن پوسٹنگ متوقع تھی۔ ان حالات میں خود کشی جیسا اقدام بعید از قیاس نہیں تو کیا ہے؟

جس دن یہ سانحہ پیش آیا میں اسلام آباد میں تھا اور آنس کی والدہ کراچی گئی ہوئی تھیں۔ گھر پر اس کی چھوٹی بہن اور دو بھائی عارف اور ظفر تھےجن کے ساتھ وہ رات گئے تک ہنستا بولتا رہا۔ اگلے دن وہ گھر سے خوش و خرم گیا اور خون میں ڈوبا ہوا آیا۔ اس کی موت کے متعلق ہماری کل معلومات وہ خط ہے جو اس نے اس اقدام سے ایک دن پہلے لکھا تھا۔ اور اس کی جیب سے برآمد ہوا. اس خط کی نقل آپ کو بھیج رہا ہوں جس سے بس اتنا ہی پتا چلتا ہے کہ اس نے زندگی کا "آخری ورق" پڑھنے کی عجلت میں جان دے دی۔

المیہ یہ ہے کہ ہم اس کی تخلیقات اور باتوں کو محض شاعری سمجھتے رہے۔ اس کے بھائی بہنیں اور احباب ”دانشور“ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کی چھوٹی بہن اس سے اکثر کہتی تھی ”آنس بھائی آپ کی شاعری میں تو بس اندر اور باہر کے آدمی میں جنگ ہی ہوتی رہتی ہے۔“ البتہ سرگودھا میں سب سے پہلے آپ نے آنس کی سوچ کو غیر معمولی اور اس کے لہجے اور اشعار کو چونکا دینے والا کہا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اس کے بعض اشعار سے تو مجھے خوف آتا ہے۔ اسی طرح کوئی پانچ برس پہلے اس کے شعر سن کر جوش صاحب اور فیض صاحب نے جہاں بے پناہ داد دی تھی وہاں اس تشویش کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس کی سوچ اور لہجہ نہ صرف بڑا انوکھا بلکہ جھنجھوڑ دینے والا ہے۔ کاش اس وقت ہم نے اس کے فکری رویے کی طرف دھیان دیا ہوتا اور جس داخلی کرب میں وہ مبتلا ہو گیا تھا اس سے نجات کی کوئی راہ نکالی ہوتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

اس نے شاعری کا آغاز 1977 میں کیا اور نو برسوں میں ڈھائی سو سے زیادہ غزلیں اور ڈھیروں نظمیں کہیں جن میں حقیقت ذات و کائنات کی دریافت اور معرفت و اماں کی یافت کےلیے ظاہر و باطن کی کشمکش کا وہ تسلسل نمایاں ہے جو بالآخر اس کی موت پر منتج ہوا۔ یوں تو وہ سب سے خندہ پیشانی سے ملتا تھا لیکن جن سے ملتا تھا ان سے ایک فاصلہ بھی برقرار رکھتا تھا۔ وہ اپنا کلام چھپوانے، سنانے اور مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتا تھا کیونکہ اس کے خیال میں شعر فہمی ہر شاعر کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار اس نے اپنی غزلیں اور نظمیں ”اوراق“ میں اشاعت کے لیے ضرور بھیجیں ہیں یا کسی کے اصرار پر بعض اخبارات و جرائد کو دی ہیں۔ لیکن کہتا وہ یہی تھا کہ ”کوئی غزل یا نظم چھپ بھی گئی تو کیا ہوگا؟“ بہر حال اربابِ شعر و دانش کی ایک قابلِ لحاظ تعداد ایک مدت سے اس کی مداح ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اپنے عہد کا مصطفی زیدی تھا اور بعض کا خیال ہے کہ اسے اپنے دور کا شکیب جلالی سمجھا جائے جب کہ بعض احباب کا کہنا ہے کہ دراصل شکیب اپنے زمانے کا آنس معین تھا۔ جب کہ فی الحقیقت آنس کے کرب کی علت، نوعیت اور کیفیت قطعی مختلف تھی۔ آپ نے درست لکھا ہے کہ بظاہر وہ اتنا پُرسکون تھا کہ اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کے اندر اتنا بڑا طوفان کھول رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سے پہلے آپ ہی اس کے اشعار اور لہجے سے چونکے تھے اور آپ نے ہمیں بھی خبردار کیا تھا اور اب آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ آنس کے اشعار میں بالکل شکیب جلالی والا کرب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے کرب اور اس سے جھلکنے والے خوف کی نشاندہی بھی سب سے پہلے آپ ہی نے کی تھی اور اب اس کی سوچوں کے متلاطم دھاروں اور لہجے کی گھمبیرتا کی روشنی میں اس کی تخلیقات کی علت و حکمت اور اثر آفرینی کی دریافت میں بھی آپ سے بہتر رہنمائی کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ امید ہے آپ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود آنس کے لیے کچھ وقت ضرور نکالیں گے اور اسے پوری طرح جاننے اور قریب سے دیکھنے کا سامان کریں گے.

والسلام

طالبِ دعا
فخرالدین بلے
۔16مئی1986
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :آنس معین

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے