آغا حشر کے ڈراموں کا فنی ارتقاء

آغا حشر کے ڈراموں کا فنی ارتقاء

ڈاکٹر محمد اقبال 

ہندوستان میں ڈراما کا آغاز بہت پہلے ہوچکا تھا مگر اردو ڈراما کو اہمیت بخشنے میں واجد علی شاہ کا بڑا اہم رول رہا۔ چوں کہ ان کے ڈرامے دربار کے اندر ہی کھیلے جاتے تھے، ایسے میں عوام سے ان کا رشتہ کوسوں دور ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام میں مقبول نہ ہوسکے ۔ دوسری طرف امانت لکھنوی نے عوام کا خاص خیال رکھتے ہوئے ایک ڈراما لکھا جو ’’ اندر سبھا ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور عوام میں بھی بہت مقبول ہوا۔ ’’اندر سبھا‘‘ دوسرے شہروں میں بھی اسٹیج کیا گیا اور اسی نہج کے دوسرے ڈرامے بھی لکھے گئے ۔ بمبئی میں پارسی تھیٹرس کی وجہ سے اردو ڈرامے کو اور بھی تقویت ملی اور آگے بڑھنے کے راستے ہم وار ہوگئے۔
آغا حشر ایک اچھے ڈراما نگار ہی نہیں بلکہ ایک کامیاب شاعر بھی تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ عشرت رحمانی آغا حشر کے متعلق اس طرح رائے قائم کرتے ہیں :
’’ حشر نہ صرف بہترین ڈراما نگار تھے بلکہ شاعر بھی تھے۔ ‘‘
(اردو ڈرامے کی تاریخ و تنقید ، از عشرت رحمانی، صفحہ نمبر ۱۸۸)
آغا حشر اردو ڈراما کے آسمان پر ایک تابناک ستارہ کے مانند ہیں ، جن کی تابناکی سے آج بھی ڈراما کی محفل منور معلوم ہوتی ہے۔ جب انھوں نے ڈراما لکھنا شروع کیا اس وقت ہر طرف سید مہدی حسن احسن لکھنوی کا طوطی بول رہا تھا۔ آغا حشر نے اپنا پہلا ڈراما ’’ آفتاب محبت‘‘ ۱۸۹۷ ؑ میں لکھا، مگر اس ڈراما کو مقبولیت نہ مل سکی بلکہ احسن لکھنوی نے اس ڈراما کو دیکھ کر اسے ’’ بچپن کا کھیل ‘‘ سے تعبیر کر دیا تھا ۔ آغا حشر کو احسن لکھنوی کی یہ بات بالکل نشتر کی طرح ان کے دل میں چبھ گئی ، چوں کہ آغا حشر ایک اچھے شاعر بھی تھے مگر انھوں نے ڈراما کی طرف خاص توجہ کی اور خون جگر صرف کرنے کے بعد ایک ڈراما کی تخلیق کی جو ’’ مرید شک ‘‘ کے نام سے مقبول ہوا۔ اس ڈراما کو لکھتے وقت انھوں نے اس دور کے پسند اور ناپسند کے علاوہ اسٹیج اور عوام کا خاص خیال رکھا تھا۔ یہ ڈراما حشر کی فنکارانہ زندگی کا نقش اول ثابت ہوا۔ عشرت رحمانی آغا حشر کے ڈراموں پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’۔۔۔۔ حشر کا فن قدیم و جدید اردو اسٹیج کے درمیان ایک ارتقائی منزل کا نشان تھا، جس نے اپنے عہد کے ابتذال اور بد ذوقی  کی پامال روش میں خوش گوار تبدیلیاں کیں اور ہیئتی کمزوری اور جدید فنی تدابیر کاری کے باوجود اردو ڈرامے کو ترقی سے روشناس کرایا اور اس لحاظ سے وہ اپنے دور کے انقلانی ہیرو اور خاتم مانے جاسکتے ہیں ۔ ‘‘
(اردو ڈراما کا ارتقا ؑ ، از عشرت رحمانی ، صفحہ ۲۱۲ )

آغا حشر نے سنگلاخ زمین پر چل کر بھی ڈراما نگاری کے لئے راستہ ہموار کردیے ۔ اردو تھیٹرس کی روایت کو فنی لوازم اور پیش کش کے اعتبار سے ایک نئے موڑ پر لاکھڑا کیا۔ گرچہ دور آغاز میں ان کے ڈراموں میں جدید فنی توانائی اور فکر کی بلندی کی کمی ہے لیکن یہ کمیاں اس دور کے اسٹیج کا خاصا تھیں ۔ اگر وہ اس عام روش سے ہٹ کر ڈرما نگاری کا نیا اسلوب پیش کرتے تو شاید ان کے ڈرامے کو وہ شہرت نہ ملتی ۔ اور دیگر کمپنیاں بھی انھیں کوئی موقع فراہم نہ کرتیں ۔ چوں کہ آغا حشر ایک انسانی نباض بھی تھے اس لئے انھوں نے ہر دور میں عوام کو متاثر کیا ہے ۔ ظہیر انور نے انھیں ایک عوامی ڈرما نگار تسلیم کیا ہے ۔ وہ اس طرح رقم طراز ہیں ۔:
’’۔۔۔آغا حشر نے عوام کی نبض کو انتہائی سلیقے سے اپنی گرفت میں لیا تھا۔ وہ ایک زبردست عوامی ڈرما نگار تھے اور عوام کے لئے ہی ڈراما لکھا کرتے تھے۔ ‘‘
( ڈراما فن اور تکنیک از ظہیر انور ، صفحہ ۱۷۲)

آغا حشر کے متعلق اقبال کرشن کچھ اس طرح فرماتے ہیں ۔:
’’۔۔۔ عوامی ڈراما نگاری کے ضمن میں اس حقیقت سے چشم پوشی بھی بد دیانتی ہوگی کہ آغا حشر نے اپنا فن عوام کے ذوق کے آگے رہن نہیں رکھا تھا ۔ انھوں نے اپنی جدت پسندی اور اعتماد کے سہارے ڈراما نگاری کو ترقی دینے کی کوشش کی اور انجام کار ان کے آخری دور کے ڈرامے بلوغت کا پتہ دیتے ہیں ۔‘‘
’ بحوالہ : ڈرما فن اور تکنک از ظہیر انور ، صٖحہ ۱۷۲)

آغا حشر نے عوام کے ساتھ ساتھ اسٹیج کا بھی خاص خیال رکھا ہے ۔ ڈراما صرف لکھنے پڑھنے تک محدود نہیں بلکہ ڈراما کرکے دکھانے کا فن بھی ہے یعنی ڈراما کے ساتھ اسٹیج کا بڑا گہرا رشتہ ہے یا یوں کہا جائے کہ ڈراما اور اسٹیج کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ آغا حشر اسٹیج کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھے ۔ انھوں نے اپنے ڈراموں کو اسٹیج کی تیکنک یعنی پیش کش کے جدید تقاضوں سے بھی ہم آہنگ کردیا۔ محمد کاظم کا ماننا ہے کہ آغا حشر شروعاتی دور سے ہی فنی تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ وہ ان کے ڈرامے پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’ آغا حشر نے اپنے ابتدائی ڈرامے میں ہی اپنی ذہانت ، جدت پسندی اور فنکارانہ صلاحیت کے بدولت  مکالمے کے ذریعے جذباتی تاثر ، فنی بصیرت اور شدت عمل کا ایک خوب صورت امتزاج پیش کیا ہے۔ ‘‘
( آغا حشر کاشمیری عہد اور ادب ، از ارتضی کریم (ترتیب) صفحہ ۳۲۳)

آغا حشر کے ڈراموں میں فنی ارتقاء کا جائزہ لینے کے لئے ان کی ڈراما نگاری کے مختلف ادوار کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ ہر دور میں آغا حشر کے یہاں حالات اور ماحول کے مد نظر فن کے معیار میں بلندی کا احسا ہوتا ہے ۔ آغا حشر کے ڈراموں کو ناقدین اور محققین نے چار ادوار میں منقسم کیا ہے ۔ پہلا دور ۱۸۹۹۔۱۹۰۱ء تک میں پھیلا ہوا ہے. اس دور میں انھوں نے پانچ ڈرامے تخلیق کیے ۔ ان میں مرید شک اور اسیر حرص کو زیادہ شہرت ملی ۔ چوں کہ اس دور میں نثر کے بجائے نظم کا بول بالا تھا۔ مکالموں میں اشعار کی کثرت ہوا کرتی تھی ۔ عبارت مقفی اور مسجع ہوتی تھی ۔ گانوں کی بھرمار ہوتی تھی ۔ چوں کہ یہ سارے لوازمات ڈراما نگاری کے لئے ضروری خیال کیے جاتے تھے۔ آغا حشر نے عوام کی پسند کو دیکھتے ہوئے اپنے مکالمے میں اشعار شامل کئے ، مقفی اور مسجع عبارت سے سجایا اور خطابت کا انداز اختیار کیا ۔ ان کے ڈراموں میں جگہ جگہ ظرافت کا احساس بھی ہوتا ہے بلکہ ابتدائی ڈراموں میں ظرافت کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ ان کے یہاں جذبات پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ نمامعلوم ہوتے ہیں ۔ اس دور کا ایک ڈراما ’’ اسیر حرص” کے مکالمے پیش کیے جاتے ہیں ، دیکھئے :

چنگیز: یہ کیا کام کیا تو نے جنوں کا ؟

رستم: ظالم ! نتیجہ خوئے بدنام ہے یہی* دنیا میں اہل ظلم کا انجام ہے یہی 

چنگیز: رستم ، میرا غصہ تجھ کو دوست سمجھ کر چھوڑتا ہے اور تو مجھ پر یہ ستم توڑتا ہے۔

رستم: جہاں میں ظلم سے تیرے مچا اندھیرا ہے* جہاں کا گر ہے تو دشمن تو پہلے میرا ہے

چنگیز: چرکے دیتا ہے مجھے تو نشتر گفتار ہے* یوں نہیں سمجھا اگر، لے سمجھ تلوار سے 

رستم: بول، اب کیا تیرا غرور ہوگیا* نشہ غرور کا کہاں کافور ہوگیا؟ 

درج بالا مکالمے کو پڑھنے کے بعد اس بھید کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ حشر نے کس قدر اپنے مکالمے میں اشعار کا استعمال کیا ہے اور قافیہ پیمائی سے کام لیا ہے ۔ ان کے استعمال کے باوجود ان کے یہاں جدت پسندی اور تخلیقی صلاحیت کی جھلک صاف نظر آتی ہے ۔ 

دوسرا دور ۱۹۰۲۔۱۹۰۸ء تک کا ہے۔ اس دور میں انھوں نے بہت کم ڈرامے لکھے ۔ اس دور میں انھوں نے صرف تین ڈرامے ہی تخلیق کئے ۔ ان کے نام ’’ شہید ناز ‘‘ ، ’’ سفید خون‘‘ ، اور ’’ صید ہوس ‘‘ ہیں ۔ اس دور کے سبھی ڈرامے کام یاب اور دل کش ہیں ۔ اس دور کے ڈراموں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ملتی، مگر انھوں نے مکاملے کو چھوٹے چھوٹے فقروں سے سجایا اور اشعار بھی پہلے کے بہ نسبت کم معلوم ہوتے ہیں۔ جب کہ ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس دور کے ڈراموں میں پلاٹ اور تدبیر کاری میں تبدیلی کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں ۔ سفید خون کے مکالموں پر غور فرمائیں۔ 

دل آرا: جناب ! اول تو آپ کو بہن کے ہاں جانے سے فضول انکار ہے، دوسرے جب میرے نوکر موجود ہیں تو پھر آپ کا سو نوکر رکھنا بے کار ہے۔

خاقان: اچھا تو میں پچاس ہی پر صبر کروں گا۔

دل آرا: یہ بھی زیادہ ہیں ۔ 

خاقان: اچھا پچیس ۔

دل آرا: یہ بھی بہت ہیں ۔ 

خاقان: اچھا تو بیس۔

دل آرا: اوہوں ۔

خاقان: دس۔

دل آرا: اجی ایک آدمی کافی ہیں بس۔ 

درج بالا مکالموں کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح انھوں نے چھوٹے چھوٹے فقروں کے استعمال سے مکالمے کو بالکل آسان اور دل چسپ بنادیا ہے۔ مگر قافیہ پیمائی دیکھنے کو مل جاتی ہے جیسے انکار ہے ، اور ’’ بے کار ہے ‘‘ وغیرہ ۔ 

تیسرا دور ۱۹۰۱۹۔ ۱۹۰۲۰ ء تک میں پھیلا ہوا ایک طویل مدت ہے  جس میں انھوں نے صرف سات ڈرامے تحریر کئے ۔ اس دور میں ’’ سلور کنگ‘‘ ، ’’ خوب صورت بلا‘‘ اور ’’ یہودی کی لڑکی ‘‘ کو زیادہ مقبولیت ملی۔ یہ ڈرامے اسٹیج پر بہت زیادہ پیش کئے گئے ۔ اس دور کے ڈراموں کے پلاٹ شیکسپئر کے ڈراموں سے اخذ کئے گئے ہیں مگر آغا حشر نے فنی چابک دستی سے پلاٹ میں ہندوستانی رنگ و آہنگ پیدا کردی ہے ۔ ان کے کردار بھی شیکسپئر کے کرداروں سے جدا گانہ معلوم ہوتے ہیں ۔ ’’ خوب صورت بلا‘‘ ایک طبع زاد ڈراما تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں انھوں نے واقعات کے جوڑ سے خوب کام لیا ہے  مگر اس میں بہت حد تک سلاست و روانی پیدا کردی ہے۔ چوں کہ فن موسیقی سے خوب واقف تھے۔ اس لئے ان کے گانوں میں دل کش نغمگی اور موقع و محل کے اعتبار سے طرز ادا میں حسین ترنم کا احساس ہوتا ہے۔ 

اردو ڈراما کے لئے یہ اہم دور تھا۔ اس دور میں ان کے طرز نگارش میں نکھار پیدا ہونے لگا تھا۔ اور پلاٹ اور ہئیت میں بھی تبدیلی آنے لگی تھی ۔ ڈراما ’’ یہودی کی لڑکی ‘‘ پیش کش کے اعتبار سے جدید دور کے اسٹیج کی زینت تصور کیا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کے موثر انداز بیاں اور اپنی پر کشش مکالموں کی وجہ سے عوام و خواص دونوں طبقوں میں بہت زیادہ پسند کیا گیا تھا۔ جوش اور خطابت کا انداز نمایاں ہے۔ کردار بہت حد تک حقیقت سے آراستہ و پیراستہ ہیں ۔ ’’یہودی کی لڑکی‘‘ میں مکالمہ نویسی کا انداز دیکھئے : 

عذرا : راحیل ! راحیل ! کیوں محبت میں اندھی ہوگئی ہے؟ 

راحیل : اس لئے کہ اب اور کچھ نظر نہیں آتا 

عذرا ؛ کیوں اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہی۔

راحیل : اس لئے کہ قبر میں جاوؑں گی تو بے وفاؤں کے ظلم سے نجات پاؤں گی۔ 

عذرا : عدالت اس کی باتوں کا یقین نہ کرے، اس پر ضرور کسی نے جادو کر دیا ہے۔ 

درج بالا مکالموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آغا حشر نے اپنے مکالمے میں سادگئ بیان کا خاص خیال رکھا ہے۔ انھوں نے اشعار بہت کم استعمال کئے ہیں ۔ انھوں نے مقفی اور مسجع عبارت سے خود کو دور رکھا ہے۔ 

چوتھا دور ۱۹۱۹ سے ۱۹۳۰ پر مشتمل ہے ۔ اس دور میں انھوں نے تیرہ ڈرامے لکھے ۔ اس دور کو ڈرامے کے لئے ایک زر خیز دور سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ کیوں کہ گیارہ سال کی مدت میں انھوں نے تیرہ ڈرامے لکھ ڈالے ۔ اس دور کے ڈراموں میں موضوعات کا تنوع اور فن کی گہرائی کا امتزاج ملتا ہے ۔ اس دور کو انقلانی دور سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہاں آغا حشر روایت سے بغاوت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں  اور نئے شعور کی شمع روشن کرتے ہیں ۔ ان کے نئے افکار و خیالات ، زندگی کے سنجیدہ پہلو اور سماجی و تہذیبی اصلاح دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔ انھوں نے مقفی عبارت سے پرہیز کیا ہے اور اپنے اسلوب نگارش میں سادگی و پرکاری کو جگہ دی ۔ اپنے ڈراموں کے زریعے شعوری طور پر عوام کی ذہنی تربیت کا اہتمام کیا۔ ڈراموں میں آغاز سے انجام تک پلاٹ میں سنجیدگی پیدا کردی ۔ آغا حشر نے تسلسل اور یک رنگی کے ساتھ ڈرامائی جوش اور حقیقی توازن کو برقرار رکھا۔ آخری دور کے ڈراموں پر بحث کرتے ہوئے شاہد حسین صاحب اس طرح رقم طراز ہیں : 

’’ البتہ ان کے آخری دور کے ڈراموں میں نہ ہی قافیے کی جھنکار اور نہ ہی شعر خوانی کی بھر مار، کردار موزوں مناسب انداز میں گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ‘‘ 

(بحوالہ : آغا حشر کاشمیری ، از  (مرتب) ارتضی کریم ، صفحہ ۳۱۴) 

چوتھے دور میں ڈراما ’’ رستم و سہراب ‘‘ کو غیر معمولی شہرت ملی ۔ اس ڈرامے میں جذبات کی بھر پور عکاسی ملتی ہے۔ اس میں زبان و اسلوب کی شیرینیت ، مکالموں کی بے ساختگی اور برجستگی، اشعار کی رنگینی ، تشبیہ کا حسن ، استعارے کی دل کشی بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ اس دور کے ڈراموں میں گانے کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے ۔ آغا حشر نے فن کو گہرائی عطا کی ہے۔ ان کے کردار حقیقی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے یہاں اچھے کردار دیکھے جاسکتے ہیں ، کرداروں کا انتخاب وہ کس طرح سے کرتے ہیں خود ان کی زبان سے سن لیجئے : 

’’ میں اپنے ڈرامے کے کرار اپنے دوستوں ، آشناؤں اور ملاقاتیوں کے حلقے میں انتخاب کر لیا کرتا ہوں اور بعض اوقات انھیں اپنی دنیائے تخیل ہی میں پیدا کرلیتا ہوں ۔ ایک بار میں فلم دیکھنے گیا نام تو شاندار تھا ڈیولز ہالیڈے (Devils Holiday) لیکن دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی ۔ مگر ایک بات سے میں بہت متاثر ہوا۔ اس میں ایک عورت کا کیریکٹر بہت جازب نظر تھا۔ وہ گناہ و ثواب کی قیود سے بالکل آزاد تھی ۔ میں نے کہا کہ اسے ڈرامے کی ہیروئن ہونا چاہئے ۔ دو سال تک اسی فکر میں رہا اور پھر میں نے ’’ دل کی پیاس ‘‘ لکھا جو مجھے اپنے ڈراموں میں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ ‘‘ 

( ادبی دنیا ( سالنامہ) از منصور احمد ۱۹۲۵ ، صفحہ ۹) 

رستم و سہراب آغا حشر کا ایک کامیاب ڈراما ہے ۔ اس ڈرامے کو عام و خاص دونوں طبقوں میں پسند کیا گیا۔ ان کا اسلوب نہایت ہی دل کش اور دل چسپ ہے ۔ اس میں ادبیت اور شعریت کا امتزاج پایا جاتا ہے ۔ 

کس طرح یہاں سہراب گرد آفرید کی محبت میں مبتلا ہوکر اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے ۔ دیکھئے: 

’’ سہراب : محبت، محبت تو زندگی کی حلاوت ہے ، دل کی جنت ہے، روح کا نشہ ہے ، دنیا کا حسن ہے، عروس آفرینش کا سنگار ہے، دوشیزہء فطرت کی رنگینی شباب کی فردوس آفرینی ہے ۔ 

زندہ ہے تجھ سے کیف طرب کائنات میں 

تو نغمہ ازل ہے رباب حیات میں 

آسودگی روح نشاط نظر نہیں 

دنیا میں کچھ نہیں ہے محبت اگر نہیں ‘‘ 

آغا حشر کے ڈراموں کا فن کے اعتبار سے جائزہ لینے کے بعد یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ انھوں نے فن ، عوام اور اسٹیج کو سامنے رکھ کر ہی اپنے ڈراموں کی تخلیق کی ہے۔ ان کے ڈراموں کو کامیاب بنانے اور شہرت کا درجہ بخشنے میں فن ، عوام اور اسٹیج کا بڑا اہم رول رہا ہے ، کہا جاسکتا ہے کہ یہ تینوں لوازم مثلث بن کر ہمیشہ ان کے ڈراموں میں چار چاند لگاتے رہے ۔ ان کے علاوہ انھوں نے مختلف موضوعات کو اپنے ڈراموں میں شامل کیا ۔ ان کے یہاں سماجی ، سیاسی ، تہذیبی ، اقتصادی ، معاشرتی ، تاریخی، نیم تاریخی جیسے موضوعات جگہ پاتے رہے ۔ انھوں نے سبق آموز اور سنجیدہ پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا۔ آغا حشر کے ڈراموں میں چند خامیاں بھی پائی جاتی ہیں مگر خوبیاں اتنی ہیں کہ خامیاں دب سی گئی ہیں ۔ ان کے فن میں جو کمیاں یا خامیاں نظر آتی ہیں وہ ابتدائی دور کے ڈراموں میں ہیں مگر آخری دور تک پہنچتے پہنچتے ان کا فنی شعور بہت بالیدہ اور باروشن ہوگیا۔ پروفیسر آل احمد سرور اپنی کتاب تنقیدی اشارے میں آغا حشر کی ڈراما نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کے مزاج اور فن دونوں میں ایک ساتھ تبدیلی رونما ہوئی اور ترقی کے راستے ہموار ہوئے ۔ 

آل احمد سرور کے اقتباس پر راقم اپنی گفتگو ختم کرنا چاہتا ہے۔ 

’’ آغا نے ڈرامے کے ذریعے روپیہ بھی کمایا اور شہرت بھی حاصل کی یہی نہیں بلکہ انہوں نے ڈرامے کے فن کو بھی بلند کیا۔ خود بھی فن کی منزلیں طے کیں اور فن کو بھی ترقی دی ۔ اس میں اپنی بلند آہنگ شخصیت اور بے پناہ قدرت سے وسعتیں پیدا کیں ۔ جذبات کے ہیجان میں طوفان کا زور اور موجوں کا شور دکھایا ۔ تیز شہنائی اور تند نقارے سے کان بہرے بھی کئے اور ہلکی اور لطیف کیفیتوں سے روح میں اہتزاز بھی پیدا کیا۔‘‘ 

( بحوالہ آغا حشر کاشمیری اور اردو ڈراما ، از ڈاکٹر انجمن آرا انجم ، صفحہ ۳۰۴) 

 

کچھ صاحب مقالہ کے بارے میں : 

نام : محمد اقبال (ڈاکٹر) 

والد کا نام : مولانا محمد مصطفی اشرفی 

جائے پیدائش : اورنگ آباد ب،ہار 

تاریخ پیدائش : ۲؍ اکتوبر ۱۹۸۲

تعلیم : بی ایے آنرس (اردو) مولانا آزادکالج ، کولکاتا 

         ایم ایے ، ایم فل ، پی ایچ ڈی ( جواہر لال نہرو یونیورسٹی ) 

پیشہ : درس و تدریس ، شعبہ اردو ، ہگلی محسن کالج (مغربی بنگال ) 

تصانیف: 

(۱) بسمل عظیم آبادی شخصیت اور فن 

(۲) کلام بسمل 

(۳) چمنستان بسمل 

(۴) دیوان حافظ 

(۵) گلستان حافظ 

(۶) آب رواں (تحقیقی و تنقیدی مضامین ) مرتبہ

(۷) قرۃ العین حیدر کے ناولوں کا سماجی و تہذیبی مطالعہ 

ایوارڈ:  ’’ بسمل عظیم آبادی شخصیت اور فن ‘‘ پر قاضی عبد الودود ایوارڈ من جانب بہار اردو اکاڈمی 

موبائل : ۷۹۸۰۸۳۳۲۷۴

برقی پتہ : miqbal_jnu@yahoo.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے