نہیں سمجھا کوئی میری نمی کو (غزل)

نہیں سمجھا کوئی میری نمی کو (غزل)

معشوق یوسف

نہیں سمجھا کوئی میری نمی کو
کہاں لے جاؤں اپنی بے بسی کو

اندھیرا، درد کتنا سہہ رہا ہے
خبر اے کاش ہوتی روشنی کو

یہاں پر اور بھی ہیں خوب صورت
مرا دل چاہتا ہے پر اسی کو

محّبت بھی عجب ہے نا، کہ دیکھو
کسی کی فکر، رہتی ہے کسی کو

برا ہونے کے ساتھ اچھا بھی ہے وہ
خبر اس کی بھی بولو ہے کسی کو

یہ پیدائش سے اب تک رو رہی ہے
نہ جانے چاہیے کیا زندگی کو

میں شاعر یونہی تھوڑی بن گیا ہوں
صنم کی طرح چاہا شاعری کو

کہ ہر اس شخص سے ہے جنگ میری
کہے گا جو برا میرے نبی کو

کئی خوبی بھی ہے معشوق مُجھ میں
مگر لوگوں نے دیکھا بس کمی کو

شاعر کا تعارف:
اصل نام معشوق یوسف
قلمی نام: معشوق
پیدائش :08/02/2001
آبائی وطن : پرتاپ گڑھ، یوپی، انڈیا
موجودہ قیام: سائن دھاراوی، ممبئی
تعلیم: ابتدائی تعلیم ساتویں تک یو پی، کے پرتاپ گڑھ ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں ماندھاتا Mandhata میں حاصل کی.
پھر ممبئی آ گئے اصل پڑھائی یہاں سے شروع ہوئی.
ہائی اسکول محمد عمر رجب میونسپل سیکنڈری اسکول (مدنپورا، ممبئی) سے کیا۔
انٹر مہاراشٹرا کالج سے کیا
فی الوقت مہاراشٹر کالج میں بی اے سال دوم کے طالب علم ہیں.
رابطہ: 9004523537

مزید دو غزلیں:

غزل

اب یہ میرا پتا پا گئے
درد پھر مجھ کو تڑپا گئے

میرے خوابوں کے سارے محل
میرے حالات ہی ڈھا گئے

کرتے کرتے خوشی کی تلاش
غم کے بازار میں آ گئے

جن سے اُمید خوشیوں کی تھی
بن کے غم سر پہ وہ چھا گئے

جاؤ خوشیو تمہیں الوداع
اب تو غم ہی مجھے بھا گئے

بھوک اُمید کی مر گئی
اس قدر دھوکے ہم کھا گئے

خواہشوں کے جو گُل تھے کھلے
دل ہی میں سارے مرجھا گئے

اُن سے معشوق پوچھا تھا حل
اور وہ مجھ کو اُلجھا گئے
…………
غزل

تمہاری فکر مجھ کو کم نہیں ہے
مگر اب اس طرح ہر دم نہیں ہے

محض اک صبر ہی میری دوا ہے
ہمارے زخم کا مرہم نہیں ہے

تمہارے بن پریشانی بہت ہے
مگر میں کہہ رہا ہوں غم نہیں ہے

چلو مانا قضا میں درد ہے پر
تمہارا عشق بھی کچھ کم نہیں ہے

مجھے معشوق ہر کوئی سمجھ لے
مری غزلوں میں پیچ و خم نہیں ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے