قلم، قلم کار اور چِنٹوٗشطرنجی

قلم، قلم کار اور چِنٹوٗشطرنجی

ذاکر فیضی 

مُلک کے تمام قلم کاروں پر غیر اعلانیہ پابندی تھی۔ لکھنے پر نہیں، وہ لکھنے پر جِس پر حاکمِ وقت کو اعتراض ہو۔ زیادہ تر قلم کاروں نے عہدوں اور انعامات کے عوض اپنے خیالات و نظریات حاکمِ وقت کے حوالے کر دیے تھے۔
مگر وہ ضِدّی قلم کار کسی قیمت پر راضی نہیں تھا۔ وہ لکھتا رہا، عوام کے ساتھ ہو رہے ظلم و زیادتی کے خلاف۔وہ لکھتا رہا، ایک دم بے خوف اور بنا کسی لالچ کے۔ وہ اپنے بے حد عزیز قلم سے حاکمِ وقت کی پول کھولتا۔ اس کی مکاریوں کا ذکر کرتا۔
اُس کو برابر دھمکیاں مل رہی تھیں۔ جان سے مارنے کی۔ خاندان کو تباہ کرنے کی۔ مگر وہ ستّر سال کا بوڑھا۔اِنصاف کی بات کر رہا تھا۔ عوام کے حقوق کی بات کر رہا تھا۔ مُلک کی ترقی کے بارے میں سوال پوچھ رہا تھا۔
اِس وقت بھی وہ مُلک کے تازہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اپنی نئی کہانی ”چنٹو شطرنجی“ لکھنے کی سوچ رہا تھا کہ تب ہی اس کا دس سال کا پوتا آیا۔ ایک بار پھر وہی ضد کرنے لگا: ”دادو، اپنا یہ قلم مجھے دے دو نا۔۔۔۔پلیز۔۔ مجھے بہت اچھّا لگتا ہے یہ قلم۔۔۔۔۔ پلیز۔ یہ قلم میرا پسند کا دیدہ ہے۔“ پوتے کو جب قلم پر زیادہ ہی پیار آتا تو پسندیدہ کو ’پسند کا دیدہ‘ کہنے لگتا۔
قلم کار نے پوتے کی طرف محبت سے دیکھا: ”میری جان، میں تو خود چاہتا ہوں کہ یہ قلم آپ لے لو۔ مگر ابھی تھوڑا بڑے تو ہو جاؤ۔۔۔۔ جان میری۔۔۔ یہ قلم آپ ہی کا۔ آپ ہی اس قلم کے وارث ہو۔۔۔۔۔ آپ کے پاپا تو پولیس افسر بن گئے ہیں۔ انھوں نے تو لکھنے پڑھنے سے دوری اختیار کر لی ہے۔“
پوتے نے دادا کے گلے میں باہیں ڈال کر اُن کا گال چوما: ”او کے دادو، یہ قلم آپ مجھے جلدی دے دے نا۔۔۔ آئی لو یو دادو۔“
پوتا دوڑتا ہوا اپنی دادی کے پاس دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
قلم کار نے اپنا پیارا سا قلم اُٹھایا اور کہانی لکھنے لگا:
وہ بچپن سے ہی بے حد شرارتی تھا۔ اپنے بڑے بھائیوں کے کھلونے اور کھانے پینے کی چیزیں لے اڑتا تھا۔ اس کا باپ اس کی فطرت کو سمجھتے ہوئے اس کو ’چنٹو‘ کہتا۔ چنٹو ذہین تھا۔ دس سال کی عمر میں ہی شطرنج کھیلنے لگا تھا۔ شطرنج کے کھیل میں وہ بڑے، بڑوں کے کان کاٹ لیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ محلے میں چنٹو شطرنجی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ کالج کے دوسرے سال میں اس نے کالج اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں حصّہ لیا۔ وہاں بھی اس نے اس طرح شطرنجی پن دکھایا کہ وہ یونین کا صدر منتخب ہو گیا۔ اور اُس کے بعد سیاست کی شطرنج کھیلنے کا خیال اس کے دماغ میں کلبلایا۔
ان دنوں کالج میں کسی وجہ سے کلاسز نہیں ہو رہی تھیں۔ فیس جمع کرنے اور دیگر دفتری کام کے لیے اسٹاف آ رہا تھا۔ کالج کے سال ِاوّل کی ایک لڑکی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ فیس جمع کرنے آئی تھی۔لڑکی’سورج کو پیلا‘ ماننے والے فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ فیس جمع کرنے کے لیے کاؤنٹر پر کھڑی اپنی کسی دوست سے بات کر رہی تھی اور اس کا بھائی ذرا فاصلے سے کھڑا فون میں ڈوبا ہو اتھا۔
چنٹو اپنے ساتھیوں کے ساتھ، اس بات پر صلاح مشورہ کر رہا تھا ’کیا حکمتِ عملی تیار کی جائے کہ نیشنل میڈیا کی نگاہ میں آئے اور اُس کا سیاسی کیرئیر شروع ہو سکے۔‘ اچانک چنٹو کی نگاہ اُس لڑکی کے بھائی پر گئی، جو اپنی بہن کے ساتھ آیا تھا، فوراََ ہی چنٹو کے دماغ کی بتّی روشن ہوئی۔ اس نے اپنے دوستوں سے کہا۔ ”چلو، میٹھا تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ آج تھوڑا اکڑوا ہوجائے۔“ اس کے ساتھیوں نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
چنٹو نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ ”پیلی ٹوپی۔“
وہ آگے بڑھے۔
چنٹو نے سب سے پہلے ایک تھپّڑ لڑکے کو رسید کیا اور بولا: ”ابے پیلئے۔۔۔۔ تیری اتنی ہمت، کہ تو یہاں پیلی ٹوپی پہن کر آئے۔۔۔۔۔چل پیلی ٹوپی اتار۔۔۔۔۔۔“
لڑکے کی ناک سے خون نکلنے لگا۔ وہ روتے ہوئے بولا: ”پیلی ٹوپی تومیں اتار ہی لوں گا۔ آپ لال ٹوپی کیوں پہنے ہو؟ یہ بتاؤ“
یہ سنتے ہی سارے لڑکے آگ بگولہ ہو گئے۔۔۔۔۔ ”ابے، لونڈیا بازی کرنے ہمارے کالج میں آیا ہے اور ہم سے۔۔۔۔۔۔ مارو سالے کو۔۔۔۔“ سارے لڑکے ’پیلی ٹوپی‘ پر ٹوٹ پڑے۔
شام تک ملک کے سارے قومی چینلوں پر خبر چلائی جارہی تھی کہ ایک پیلے فرقے کا لڑکا کالج میں گھس آیا۔
چینلوں پر ڈبیٹ ہو رہی تھی کہ آخر لڑکے کا ارادہ کیا تھا۔ کیا وہ کسی لال سمودائے کی لڑکی کو ’لوجال‘ میں پھنسانا چاہتا تھا۔
اخباروں میں بھی سوالیہ نشان کے ساتھ سُرخیاں تھیں:
کیا نوجوان دہشت گرد تھا؟
کیا اُس کے پاس گن تھی؟
جب کہ چنٹو شطرنجی کی تعریف ہو رہی تھی کہ کس طرح سے چنٹو نے دلیری سے حالات کو قابو میں کیا۔
چنٹو نے چینلوں کو انٹر ویو دینے شروع کر دیے۔ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا شروع کیا۔ ان ویڈیو کے ذریعے اس نے سورج کو پیلا ماننے والوں کے خلاف مہم چھیڑ دی۔ ان کو دہشت گرد، دیش کا دشمن قرار دے دیا۔ اور فیصلہ سنا دیا کہ سارے ہی ’پیلیوں‘ کو دیش نکالا دے دیا جائے۔ یہ دیش صرف اور صرف سورج کو لال ماننے والوں کا ہے۔
سرخیوں میں رہنے کی وجہ سے بااقتدار پارٹی کے ایک لیڈر نے چنٹو سے رابطہ قائم کیا۔
ملاقات میں طے پایا کہ اگر راج نیتی میں کوئی بڑا مقام حاصل کرنا ہے تو چنٹو کو کوئی بڑا کام کرنا ہوگا۔ لیڈر نے سمجھایا:
”چھوٹے چھوٹے کام جیسے کہ پیلی ٹوپی والے کو پیٹ دینا، محض اس سے کام نہیں چل سکتا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ آپ کسی محلے کے سبھا سد ہو جاؤگے۔“
چنٹو نے ہاتھ جوڑ دیے۔ ”صاحب، آپ ہی کُچھ بتائیں کہ میں کیا کروں۔ آپ بڑے لیڈر ہیں۔ آپ کا لمبا تجربہ ہے۔“
لیڈر نے نہایت سنجیدگی سے کہا: ”دیکھو، اب کوئی نیا ’جال‘ تیار کرو۔ یہ جو ’لو جال‘ وغیرہ ہیں نا، اب پرانے سے ہو گئے ہیں۔ اس میں پبلک کی دل چسپی کم ہو رہی۔۔۔۔ تھوڑا ہوم ورک کرو۔۔ کوئی ’نیا جال‘ بنو۔۔۔۔“
چنٹو محنت و لگن کے ساتھ کسی نئے’جال‘ کی تلاش میں لگ گیا۔
کئی دن کی تلاش و جستجو کے بعد آخر کار اسے امید کی کرن نظر آئی۔ وہ دریا کنارے اپنے ہم مسلک، سورج کو لال ماننے والی عبادت گاہ میں جانے لگا۔ جہاں ایک خدمت گار عبادت گاہ کے احاطے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا۔ وہ بہت ہی عقیدت کے ساتھ عبادت گاہ میں صفائی، ستھرائی اور دوسرے چھوٹے موٹے کام کرتا تھا تاکہ سچّی خوشی پراپت ہو۔ اصلی گیان حاصل کر سکے۔
اپنے مقصد کو پورا کرنے لے لیے چنٹو شطرنجی کی نگاہِ انتخاب اسی خدمت گار پر گئی۔
چنٹوشطرنجی خدمت گار سے راہ و رسم بڑھانے لگا۔ چند روز کے بعد اس نے یہ خیال خدمت گار کے دماغ میں انڈیلنا شروع کر دیا کہ ’سورج کو لال ماننے والے‘ خطرے میں ہیں۔ اُن کی عبادت گاہیں خطرے میں ہیں۔ ‘ہم سب کو کُچھ کرنا ہوگا۔‘
خدمت گار سیدھا سادہ، معصوم انسان تھا۔ چھل کپٹ، دغابازی، بے ایمانی وغیرہ سے ایک دم ناواقف۔ وہ اپنی قوم کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے پر تیار ہو گیا۔ سوچا مرنے سے پہلے اپنے دھرم کی رکشا کر لوں۔
چنٹو کی اسکرپٹ تیار تھی۔
چند روز کے بعد۔
شہر کے بس اڈّے پر چنٹو اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ خدمت گار بھی ساتھ میں تھا۔
ایک بس پیچھے کسی شہر سے آکر رُکی۔ کنڈکٹر کھڑکی پر کھڑے ہو کر آگے آنے والے مقامات کے نام لے کر مسافروں کو بلانے لگا۔ بس میں کافی سیٹ خالی تھیں۔ چنٹو کے ایک ساتھی نے آکر بتایا۔
”سامنے والی بس میں، جس میں بس کنڈکٹر سواریوں کو بلا رہا ہے۔ اس میں پیلے سمودائے کی فیملی بیٹھی ہے۔“
چنٹو شطرنجی آگے بڑھا اور بس میں داخل ہو گیا۔ اس نے بس میں بیٹھے مسافروں کا جائزہ لیا۔
تین سیٹر ایک سیٹ پر کھڑکی طرف پیلا نقاب لگائے ایک عورت بیٹھی ہے۔ برابر میں پانچ چھ سال کی ایک بچّی کھڑی، کھڑکی میں جھانک رہی تھی۔ عورت کی برابر میں اس کا شوہر بیٹھا تھا۔ جس کی گود میں سال، ڈیڑھ سال کا بچّہ تھا۔
چنٹو بس سے باہر آیا۔ ایک ساتھی سے بولا: ”جا، جاکر اس کی برابر میں بیٹھ جا۔ جب تک کہ باقی سیٹ نہیں بھر رہی ہیں۔ بعد میں جب بس چلنے والی ہوگی تو میں خدمت گار کو بھیجوں گا۔ تو وہاں سے اٹھ جانا۔ اور خدمت گار کو بیٹھا دینا۔ تو پیچھے بیٹھنا۔۔۔۔۔ باقی تو سب میں تم لوگوں کو سمجھا ہی چکا ہوں۔“
طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق خدمت گار بس میں داخل ہوا۔ چنٹو کا ایک ساتھی پیچھے بیٹھا۔ جب بس چلنے لگی تو بائک پر سوار ہو کر چار لڑکے بس سے معمولی دوری بناکر چلنے لگے۔ ان کے پیچھے چنٹو شطرنجی اپنی بائک پر آرہا تھا۔
بس میں خدمت گار کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ سورج کو پیلا ماننے والی فیملی سے جھگڑا شروع کرے۔
بس چل رہی تھی۔ خدمت گار عادت کے مطابق سمٹا بیٹھا تھا۔ وہ کشمکش میں تھا کہ برابر میں بیٹھے انسان سے زبردستی کا جھگڑا کیسے کرے۔ اسے ایسا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لڑائی جھگڑے کا مزاج نہ تھا۔ حالانکہ چنٹو نے ایک ایک بات سمجھائی تھی کہ سیٹ پر بیٹھنے کے چند منٹ بعد زبردستی آدمی کی طرف سرکنا شروع کرنا اور پھر جھنجھلا کر کہنا: ’ارے سنبھال کر بیٹھنا۔۔۔۔زبردستی پھیل کر بیٹھا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے گرائے گا کیا۔‘ چنٹو نے یہ بھی سمجھایا تھا کہ پھُسپھسانے والے انداز میں پیلے سمودائے کے لوگوں کو برا بھلا بھی کہتے رہنا۔ اور جبب وہ غصّہ کرے تو اسے آتنک وادی اور ودیشی کہنا۔۔۔ جس سے وہ یقینا بھڑک اٹھے گا۔۔۔۔ بعد کا کام پیچھے ہمارے ساتھی کا ہوگا۔۔۔ اس کے بعد کسی خاص جگہ پر بس روکی جائے گی۔۔۔۔ جہاں سے آگے کی کاروائی میں اپنے ہاتھ میں لے لوں گا۔“
خدمت گار سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر وہ شروع کہاں سے کرے۔ پھر بھی اس نے ادھر ادھر پہلو بدلے اور جھجھک کے ساتھ آدمی کی طرف کھسکنے کی کوشش کی۔ وہ آدمی اور سمٹ کر بیٹھ گیا۔ اس کی گود میں جو ڈیڑھ سال کا بیٹا تھا۔ اس کا نرم ہاتھ خدمت گار کے کاندھے سے لمس پا گیا۔ خدمت گار نے اپنے مزاج کے بر خلاف اور پلان کے مطابق بچّے کی طرف نفرت سے دیکھنے کی کوشش کی۔
بچّہ خدمت گار کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئی۔ بچّہ بھر پور معصومیت سے مسکرایا۔ پیلے سمودائے کے آدمی کی بیٹی بھی خدمت گار کو دیکھ رہی تھی۔ ماں نے بچّی سے کہا: ”ہیلو بولو۔۔۔۔“
خدمت گارنے کوئی جواب نہیں دیا۔ چہرہ دوسری طرف کر لیا۔
بچّہ اُچھل اچھل کر باپ کی گود سے خدمت گار کی طرف لپکنے لگا۔ خدمت گار اس کو نظر انداز کرتا رہا۔
بچے کے باپ کو محسوس ہوا کہ لال فرقے کا یہ خدمت گار ان کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُس نے اپنے بچے کو دوسری طرف کی ران پر بٹھا لیا۔ مگر وہ خدمت گار کو لبھانے کی کوشش کرتا رہا۔ خدمت گار نے مجبور ہو کر بچے کی طر ف دیکھا۔ بچہ بھر پور انداز سے مسکرایا اور خدمت گار کی طرف ہمکنے لگا۔ خدمت گار کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا۔ وہ بچّے کے باپ سے بولے۔ ”بہت پیارے بچے ہیں۔ آپ کے۔۔۔۔“
باپ بولا: ”بچّے تو سورج کا روپ ہوتے ہیں شری مان۔۔۔“
بچی نے مسکرا کر خدمت گار کو دیکھا۔
خدمت گار نے ہاتھ بڑھا کر بچی کے سر پر رکھا اور بولے: ”سدا سکھی رہو۔“
اب خدمت گار بچوں سے مسکرا مسکرا کر بارتیں کرنے لگا۔ چھوٹے والے بچے کو انھوں نے گود میں لے لیا۔
پیچھے بیٹھا چنٹو کا ساتھی حیران و پریشان یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے چنٹو کو فون ملا دیا۔
اسی درمیان ریلوے اسٹیشن آگیا۔ پیلے سمودائے کی فیملی نے خدمت گار سے احترام کے ساتھ اجازت لی اور بس سے اتر کر اسٹیشن کی طر ف چل دی۔ چنٹو کا ساتھی بھی کھڑا ہوا اور خدمت گار کو اُترنے کا اشارہ کیا۔
چند منٹ کے بعد پیچھے سے چنٹو اور اس کے ساتھی آگئے۔ چنٹو کو ساری بات معلوم ہوئی تو وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے خدمت گار سے پوچھا: ”کیوں بے۔۔۔۔ میں نے تُجھ سے کہا تھا کہ پیلیوں سے جھگڑا کرنا۔۔۔۔ اور اُنھیں ’لال سورج کے نعرے‘ لگانے پر مجبور کرنا ہے۔۔۔ تو نے ایسا کیوں نہیں کیا۔“
”مگر۔۔۔۔۔“ خدمت گار نے حیران و پریشان ہو کر چنٹو سے کہا: ”مگر وہ تو بہت اچھے لوگ تھے۔۔۔ انھوں نے مجھے اپنی کھانے پینے کی چیزوں میں شامل ہونے کے لیے کہا۔۔۔۔۔ اور ان کے معصوم بچے مجھے ہیلو بول رہے تھے۔۔۔۔۔۔ بھلا ان سے ’جے لال سورج کی‘ کہلوانے کی کیا ضرورت ہے؟“
چنٹو غصے سے بولا: ”چل۔۔۔چل جلدی سے۔۔۔’لال سورج کی جے ہو‘ بول۔۔۔۔“
خدمت گارنے بے حد حیران و پریشان ہوکر پہلے چنٹو کو دیکھا۔ پھر سب کو دیکھنے لگا۔ جیسے اسے یقین ہی نہیں آتا ہو کہ بھلا کوئی لال سمودائے کے خدمت گار سے لال سورج کی جے ہو کا نعرہ لگانے کی بات کہہ سکتا ہے؟
چنٹو پھر غصے میں دہاڑا: ”ابے۔۔۔لال سورج کی جے بول۔ تو ’سوشل جال‘ میں پھنس چکا ہے۔ اب تو لال سمودائے کا نہیں رہا۔۔۔ اب تو پیلے سمودائے کا ہو چکا ہے۔“ یہ کہہ کر چنٹو نے ایک تھپڑ اُس کے رسید کر دیا۔
زندگی میں پہلی بار کسی نے خدمت گار کو تھپڑ مارا تھا۔ اُس نے غُصّے میں کہا: ”نہیں بولوں گا۔۔۔۔۔“
یہ کہتے ہوئے خدمت گارنے چنٹو کو دھکا دیا۔ چنٹو اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ لڑکھڑایا اور دیوار کے نیچے بہہ رہی نالی میں گرا۔ سڑک پر جارہے لوگ ہنسنے لگے۔
یہ دیکھ کرچنٹو اپنا آپا کھو بیٹھا۔ سائیکل کی مرمت کی دکان سے ایک لوہے کا راڈ اٹھایا اور خدمت گار کے مارتے ہوئے چیخا۔۔”بول۔۔۔ لال سورج کی جے ہو بول ۔۔۔۔ جے ہو لال سورج کی بول۔۔۔۔۔“
چنٹو خدمت گار پر وار کرتا رہا۔ اس کے ساتھی ویڈیو بناتے رہے۔
خدمت گار روتے ہوئے حیرت اور معصومیت سے بولا: ”میں تو سورج کو لال ماننے والا ہی ہوں۔۔۔ پھر۔۔۔؟“
”ابے تو اب سورج کو لال ماننے والا نہیں رہا۔۔۔ ’سوشل جال‘ کا شکار ہو کر سورج کو پیلا ماننے والا ہو چکا ہے۔“
چنٹو نے ایک اور وار خدمت گار پر کیا اور بولا: ”چل جلدی بول۔۔۔۔ جے ہو لال سورج کی۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔“
چنٹو کا غصّہ کم نہیں ہو رہا تھا۔ وہ دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اسے کسی اور کی بھی تلاش ہے۔
قلم کار نے کہانی مکمل کی اور اپنا قلم میز رکھتے ہوئے سوچا۔ کہانی کا یہی اختتام صحیح ہے یا پھر۔۔۔۔۔۔۔
ٹرین میں بیٹھی پیلے سمودائے کی فیملی کو کسی لال سمودائے کی فیملی کے ساتھ بھائی چارے کا سین دکھا کر قومی یکجہتی کی مثال پیش کی جائے تاکہ ثابت ہو کہ سورج کو لال ماننے والا ہر انسان چنٹوشطرنجی نہیں ہے۔
یا پھر۔۔۔۔۔
کسی ٹی وی چینل پر ایک اور نئے جال ’سوشل جال‘ پر ڈبیٹ کراکر چنٹو کو قومی ہیرو بنایا جائے۔
قلم کار یہی سوچتے ہوئے اُٹھا اور واش روم کی طرف چل دیا۔
واش روم سے آنے کے بعد وہ چائے بنانے لگا۔
تقریباََ ایک گھنٹے بعد وہ لکھنے کی میز پر واپس آیا۔
اس نے سوچا، ایک بار کہانی شروع سے پڑھتا ہوں۔ کہانی کا اختتام ابھی باقی ہے۔ اس نے مسودہ اُٹھایا اور پڑھنے لگا۔
مگر۔۔۔۔ یہ کیا؟
قلم کار پریشان ہی نہیں حیران بھی تھا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
وہ سوچنے لگا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
کہانی ’چنٹو شطرنجی‘ سے اس کا مرکزی کردار شطرنجی غائب تھا۔ قلم کار ایک بار پھر پڑھنے لگا۔ لیکن شطرنجی نہیں ملا۔ اس نے ایک ایک سطر کو غور سے دیکھا۔ جہاں جہاں شطرنجی کا نام تھا، وہ جگہ خالی تھی۔ باقی تمام کردار موجود تھے۔ سارے الفاظ اپنی جگہ تھے۔ سارے جُملے اپنی ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ مگر شطرنجی غائب تھا۔
قلم کار نے پہلے ایسا کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ نہ ہی کبھی کسی سے سُنا تھا کہ کہانی سے کوئی کردار غائب ہوجائے۔ پر اس کے ساتھ ایسا ہوا تھا۔ قلم کار نے گھبرا کر سڑک پر پڑے ادھ مرے خدمت گارسے پوچھا: ”شطرنجی کہاں ہے؟“
خدمت گار کراہتے ہوئے بہ مشکل بولا: ”وہ بہت غصّے میں ہے۔ لگتا ہے وہ آپ کی تلاش میں نکلا ہے قلم کار۔۔۔۔“
اچانک قلم کار کو محسوس ہوا، کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ قلم کار نے آہستہ سے گردن گھمائی تو دیکھا، کھڑکی میں باہر کی طرف شطرنجی موجود تھا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھی۔ اس نے میز کی طرف نشانہ لگا رکھا تھا۔ اس جگہ کا نشانہ جہاں قلم کار کا قلم رکھا تھا۔
قلم کار نے شطرنجی کو ڈانٹتے ہوئے کہا: ”شطرنجی! یہ کیا شرارت ہے،چل واپس کہانی میں۔۔۔ بھلا کوئی کردار ایسا کرتا ہے کیا؟“ پھر قلم کار تھوڑا سا ڈرتے ہوئے بولا۔۔۔ ”کیا ارداہ ہے تیرا۔۔ آخرکیا چاہتا ہے تو۔۔۔؟“
شطرنجی زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔۔۔ ”بوڑھے قلم کار، تو پریشان نہ ہو۔۔۔۔ میں تجھے مارنے نہیں آیا ہوں۔۔۔تو تو جلدی مر ہی جائے گا۔۔۔ تو کمزور بوڑھا اور لاچار ہے۔۔۔۔ میں آیا ہوں قلم کا قتل کرنے۔۔۔ یہ لے۔۔۔“ یہ کہہ کر شطرنجی نے فائر داغ دیا۔ قلم کار برق رفتاری سے اُچھلا اور پستول سے نکلی گولی اور قلم کے درمیان آگیا۔
”دھائیں!“ گولی قلم کار کے دل میں سما گئی۔ اُس نے قلم کو بچا لیا۔
”کیا ہوا۔۔۔ یہ کیسی آواز ہے۔۔۔۔“ قلم کار کی بیوی گولی کی آواز سُن کر تیزی سے دوڑتی ہوئی قلم کار کے کمرے میں آئی۔
قلم کار کا مردہ جسم پڑا تھا اور اُس کا خون تیزی سے فرش پر اپنی جگہ بنا رہا تھا۔
قلم کار کی بیوی چیختے ہوئے بولی۔۔۔ ”یہ کیا ہوا۔۔۔ کیسے ہوا؟۔۔۔ کِس نے مارا ہے؟“
تب ہی قلم کار کی بیوی کی نگاہ کھڑکی کی طرف اُٹھی۔۔۔۔
کھڑکی میں قلم کار کا پولیس افسر بیٹا کھڑا تھا۔ اس کی پستول ابھی تک تنی ہوئی تھی۔ وہ شرمندگی اور دُکھ کے ساتھ کھڑکی کی سلاخوں سے سر ٹکائے سسک رہا تھا۔ ماں سے نظر ملتے ہی وہ بلک بلک کر رونے لگا۔ماں نے قہر آلود نگاہوں سے بیٹے کو دیکھا۔ پوتا دادی سے چمٹ کر اور زور سے رونے لگا۔
قلم کار کا بیٹا گھر کے اندر آیا اور اپنی ماں سے بولا: ”ماں! مجھے معاف کردو ماں۔۔۔۔ مُجھ سے کہا جاتا تھا۔ تمھارے باپ کو تو مرنا ہی ہے۔ اگر تُم ماروگے تو تُمہاری نوکری بچ جائے گی۔ میں نے ان کی بات نہیں مانی تھی ماں۔۔۔۔ مگر کل جب مجھ سے میرے سینئر نے کہا کہ ہم جانتے ہیں تمہارا بیٹا کِس اسکول میں پڑھتا ہے۔۔۔ تو۔۔۔۔“
قلم کار کی بیوی پوتے سے لپٹی سر جھکائے سسک سسک کر روتی رہی۔
تب ہی قلم کار کاپوتا دادی سے الگ ہوا۔ آہستہ آہستہ چلتا ہوا قلم کار کی میز تک پہنچا۔ اس نے دادا کا قلم اُٹھایا اور روتے روتے دادا کی لاش سے بولا:”دادو، آج سے یہ قلم میرا ہونا دادو۔۔۔“
پوتے کی بات سُن کر قلم کار کی بیوی نے غرور و فخر کے ساتھ گردن اُٹھائی اور اپنے بیٹے کو گھورنے لگی۔
اپنے بیٹے کی بات سُن کر قلم کار کے بیٹے کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے قدموں کے تلے کی زمین لرز رہی ہے۔ کھسک رہی ہے۔
***
ذاکر فیضی کی یہ تخلیق بھی پرھ سکتے ہیں : نئی فیکٹری (پہلا باب)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے