حسن دکھانے سے زیادہ چھپانے میں نظر آتا ہے: غضنفر

حسن دکھانے سے زیادہ چھپانے میں نظر آتا ہے: غضنفر

حسن دکھانے سے زیادہ چھپانے میں نظر آتا ہے
غضنفرسے طیب فرقانی کی بات چیت

کثیر الجہات شخصیت غضنفر کے بارے میں تعریفی و توصیفی کلمات کی ضرورت نہیں۔ ان کی ادبی خدمات کا دائرہ نہ صرف وسیع و وقیع ہے بلکہ جہان ادب کے نئے ستارے ان کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ زیر نظر گفتگو میں غضنفر سے ان کے تخلیق کردہ افسانوی ادب سے متعلق چند امور دریافت کرنے کوشش کی گئی ہے، تاکہ افسانوی ادب میں ان کے رحجان، رویے، نظریے، محرکات، موضوعات، زبان و بیان اور امتیازات وغیرہ ہمارے سامنے آسکیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
طیب فرقانی: آپ کے دو افسانوی مجموعے ہمارے پیش نظر ہیں۔ میرا سوال ہے کہ افسانہ اور کہانی میں کیا کوئی فرق ہے؟
غضنفر: بہت بنیادی سوال آپ نے کیا ہے۔ یہ سوال بہتوں کو پریشان کرتا ہے اور ان دونوں لفظوں کو لے کر ادب کے طالب علموں کے ذہن میں بڑا کنفیوژن رہتا ہے۔ صرف طالب علم ہی کیوں یہ دونوں لفظ ادیبوں اور استادوں کو بھی پریشانی میں ڈالے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں کو کہانی اور بڑوں کے لیے تخلیق کی گئی مختصر افسانوی تحریر کو افسانہ سمجھتے اور کہتے ہیں۔ اگر کسی نے ایسی تحریر جو بچوں کے لیے لکھی گئی ہے اسے افسانہ کہہ دیا تو اسے ٹوک بھی دیتے ہیں۔ کچھ لوگ دونوں کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ان دونوں میں کوئی فرق نہیں سوائے اس کے کہ کہانی ہندی زبان کا لفظ ہے اور افسانہ اردو زبان کا۔ دونوں زبانوں میں ایک افسانوی صنف مختصر افسانہ اور سنچھپت کہانی کے نام سے رائج ہے جو اردو اور ہندی میں مغرب کی ایک افسانوی صنف شارٹ اسٹوری کی تقلید میں شروع ہوئی۔ اردو میں اس صنف کے لیے مختصر افسانہ یا افسانہ کے ساتھ ساتھ کہانی کا لفظ بھی رائج ہو گیا۔ اس طرح اردو میں کہانی افسانہ کے مترادف کے طور پر استعمال ہونے لگی اور اس اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ جو افسانہ ہے وہی کہانی ہے اور جو کہانی ہے وہی افسانہ ہے۔ اور اس کا بین ثبوت وہ کتابیں ہیں جو اردو کے سرکاری اور غیر سرکاری مؤقر، معیاری اور مستند تعلیمی اور اشاعتی اداروں سے شائع ہوئی ہیں، جن کے نام: اردو کے منتخب افسانے، اردو کے تیرہ افسانے، کہانی کی کہانی، اردو کی بیس کہانیاں، منٹو کے افسانے، اردو افسانے، فسادات کی کہانیاں۔۔۔ اور بھی بہت سی ایسی کتابیں ہیں جن میں وہی سب افسانوی تخلیقات ہیں جو دونوں طرح کے ناموں سے شائع ہوئی ہیں۔
طیب فرقانی: تو کیا افسانہ اور کہانی دونوں کو ایک ہی سمجھا جائے؟ یا ان دونوں میں کچھ فرق بھی ہے۔ یا دونوں دو طرح کی تخلیقات پیش کرتی ہیں؟
غضنفر: ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا کچھ ایسے مقامات ہیں جہاں کہانی کی جگہ لفظ افسانہ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ای۔ایم فاسٹر اپنی کتاب ناول کے فن میں اجزائے ترکیبی سے جہاں بحث کرتا ہے وہاں کہانی کا بھی ذکر کرتا ہے اور کہانی کو ناول کی ریڑھ کی ہڈّی بتاتا ہے۔ کیا ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ افسانہ ناول کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ناول کے فن پر بات کرتے وقت کسی نقاد یا فکشن نگار نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ سب نے کہانی ہی لکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہانی افسانے سے کچھ مختلف چیز بھی ہے جو ناول میں بھی موجود ہوتی ہے۔ اور یہی وہ شے ہے جو نانی امّاں کے قصے کہانیوں میں بھی ہوتی ہے۔
طیب فرقانی: ہمیں یہ بھی بتائیں کہ بچوں کی کہانی کو بچوں کا افسانہ کہا جا سکتا ہے کہ نہیں؟
غضنفر: کچھ لوگ کہتے ہیں۔ اور بچوں کی کہانیاں بھی صرف واقعات کے بیان یا اخلاقی حکایات تک محدود نہیں رہتیں۔ ان میں بھی مختصر افسانے کے سارے لوازمات ہوسکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں۔ ان میں بھی فنی باریکیاں ہوتی ہیں۔ ان میں بھی افسانوی فسوں سازی ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی واضح خط فاصل کھینچنا آسان نہیں۔ ویسے اس پر بحث ہونی چاہیے اور مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
طیب فرقانی: اپنے افسانوں پر لکھی گئی تنقید و تجزیے سے آپ کتنے مطمئن ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی بنائی ہوئی افسانوی لکیر کو آپ کے قاری پکڑنے میں کام یاب ہوئے؟
غضنفر: ہمارے یہاں فکشن تنقید کا سارا زور، اگر سارا نہیں تو بہت حد تک موضوع و مواد کی تفہیم پر ہوتا ہے، اسلوب اور تکنیک پر بات بہت کم ہوتی ہے۔ چنانچہ میرے افسانوں کے تجزیے میں بھی یہی رجحان و رویہ غالب نظر آتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو زیادہ تر تجزیے اطمینان بخش محسوس ہوتے ہیں مگر میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے اس آرٹ پر بھی داد ملے جو زبان و بیان کی مدد سے میں نے دکھانے کی کوشش کی ہے اور اس فن کی تشکیل میں سر کھپانے کے ساتھ ساتھ میں نے خونِ جگر بھی صرف کیا ہے۔ مگر میرے آرٹ کی داد اسی وقت مل سکتی ہے جب پارکھی نظر وہاں تک جائے اور یہ دیکھ پائے کہ کہاں کہاں پر کن کن لفظوں نے تصویریں بنائی ہیں اور کن لفظوں سے موسیقی پھوٹی ہے۔ کس جملے نے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہے اور کہاں کوزہ سمندر بن گیا ہے؟ مگر ہمارے پارکھیوں کی نظر تھیم کو پکڑنے اور پلاٹ کی پیچیدگیوں کو سلجھانے میں ہی سارا دم خم لگا دیتی ہے، اس کے پاس اتنی قوت بچتی ہی نہیں ہے کہ وہ زبان وبیان کی باریکیوں تک پہنچے اور ان کی کرشمہ سازیوں کو ہائی لائٹ کر سکے۔ کچھ پارکھیوں نے اس جانب نظر ڈالی ضرور ہے مگر اس سے اس فن کار کے دل کو اطمینان کیسے ہو سکتا ہے جس نے منظر اور پیکر بنانے میں اپنی انگلیاں زخمی کر لی ہوں۔
طیب فرقانی: آپ کے افسانوں میں جنس ندارد ہے۔ یہ شعوری ہے یا غیر شعوری؟ شعوری ہے تو اسباب کیا ہیں؟
غضنفر: آپ نے اس جانب توجہ دلائی تو مجھے بھی احساس ہوا کہ میرے افسانوں میں جنس یا جنسی معاملات نہیں ہیں، جب کہ میرے ناولوں میں خوب ہیں۔پانی سے لے کر مانجھی تک جنس کی کارفرمائی ہے اور خوب ہے۔ اتنا تو طے ہے کہ ایسا قصداً ہرگز نہیں ہے۔ یہ اتفاق ہی ہو سکتا ہے کہ جو فن کار اپنے ناولوں میں جنس کو صرف لاتا ہی نہیں ہے بلکہ اسے موضوع بھی بناتا ہے، وہ بھلا اپنے درجنوں افسانوں میں سے کسی ایک افسانے میں بھی جنس کو کیوں نہیں لا پاتا ہے۔ اس کی کوئی ٹھوس وجہ تو سمجھ میں نہیں آتی مگر اب جو آپ کے کہنے پر اس جانب ذہن دوڑاتا ہوں تو ایک بات سامنے آتی ہے جو ممکن ہے لا شعوری طور پر یہ وجہ رہی ہو کہ سیاسی اور معاشرتی مسائل کا دباؤ میرے ذہن و دل پر اتنا زیادہ اور زوردار رہا ہو کہ جنس ان کے نیچے دب کر رہ گیا ہو۔ میرے نزدیک جنس کوئی ٹیبو (taboo) نہیں ہے کہ میں اسے نہ چھوؤں بلکہ میں نے اپنے بعض ناولوں میں اس طرح چھوا ہے کہ کچھ لوگوں نے اعتراض تک کیا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا اعتراض غیر منطقی اور اعتراض برائے اعتراض تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرے ان جنسی بیانات سے انھوں نے بھی حظ اٹھایا ہو گا کہ وہ بیانات اس لیے پیش کیے گئے کہ کردار کے اندر جنسی ہیجان پیدا کرنا مقصود تھا کہ یہی وہاں پر کہانی کی صورت حال کا تقاضا تھا۔
طیب فرقانی: آپ نے لکھا ہے ”کہانی منجمد سماعت میں راستہ بناسکتی ہے“، میرا سوال ہے کیسے؟
غضنفر: کہانی اتنی پاور فل ہوتی ہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ یہ سامنے کا مشاہدہ ہے کہ کہانی روتے ہوئے بچے کو چپ کرا دیتی ہے۔ اس کی ضد سے اس کا دھیان بھٹکا دیتی ہے۔ رگوں میں جوش بھر دیتی ہے۔ آگ میں کودنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اسی طرح یہ اپنی گرمی سے منجمد سماعتوں کی برف کو پگھلا دیتی ہے۔ جو لوگ کچھ بھی نہیں سننا چاہتے وہ بھی کہانی سننے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کہانی کار اپنا پیغام ایسے لوگوں کے دل و دماغ تک بھی پہنچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
طیب فرقانی: آپ کے افسانوں میں زبان کی خصوصی تشکیل، تراش خراش اور زیب و زینت کیا اس لیے ہے کہ آپ اپنے ہم عصروں سے ممتاز ہوجائیں؟
غضنفر: ممکن ہے میرے لا شعور میں یہ سبب بھی رہا ہو مگر شعور کی سطح پر اس کا سبب یہ ہے کہ میرے خیال میں حسن جو کسی بھی فن لطیف کا ایک لازمی اور بنیادی عنصر ہوتا ہے، کی تشکیل بنا لسانی جادو گری کے ممکن نہیں ہے۔ جن لوگوں کو یہ جادو آتا ہے وہ اپنے فن پارے میں اس بنیادی عنصر کو چمکانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ اسی لسانی جادو کا کمال ہے کہ منٹو اور پریم چند کے قلم سے اس طرح کے جملے نکل پائے ہیں:
”لا، ہاتھ دے، ایسی خبر سناؤں کہ تیری گنجی کھوپڑی پر بال اُگ آئیں۔“ (منٹو)
”آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پاؤں پیٹ میں ڈالے سو رہے تھے جیسے دو بڑے اژدہے کنڈلیاں مارے پڑے ہوں اور بدھیا ابھی تک کراہ رہی تھی۔“ (پریم چند)
میری کوشش ہوتی ہے کہ تحریر تخلیقی نگارش ہو جائے۔جملے چست درست ہو جائیں۔ عبارت اس طرح گٹھ جائے کہ ڈھونڈنے پر بھی کہیں جھول دکھائی نہ پڑے۔ وہ اس طرح بن سنور جائے کہ نگاہ پڑے تو پڑی رہ جائے اور وہاں سے اٹھے تو ایسی بصیرت لے کر اٹھے کہ حواس منور ہو جائیں۔ لفظ کھلے تو معانی کا دریا امنڈ آئے۔ گوہر والی سیپیاں تہ سے اٹھ کر سطحِ آب پر آ جائیں۔ حروف محاکات بنا دیں اور اصوات سر تال سجا دیں۔
طیب فرقانی: آپ نے ہندی الفاظ کا استعمال اس لیے کیا ہے کہ اردو ہندی ایک ساتھ آئیں۔ افسانوں کا ہندی ترجمہ کیوں نہیں کروایا؟
غضنفر: یہ بات نہیں کہ ہندی اردو دونوں زبانیں ایک ساتھ آئیں یا اردو اور ہندی دونوں زبانوں والے میری تحریروں کی جانب متوجہ ہوں بلکہ ہندی کے الفاظ بعض صورت حال کی عکاسی کے وقت اس لیے لانے پڑے کہ مجھے اردو کے مناسب الفاظ نہ مل سکے۔ کہیں کہیں پر قصداً ہندی کے الفاظ سے کام لینا پڑا کہ صورت حال یا کیفیت کی ترجمانی ہندی کے لفظوں سے ہی ممکن تھی۔ اور کچھ ہندی الفاظ تو ہمارے روز مرہ کا حصہ بن چکے ہیں، تو وہ تو ہمارے نہ چاہنے کے باوجود ہماری تحریر میں در آتے ہیں اور چوں کہ وہ اردو لفظوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اس لیے وہ اجنبی بھی نہیں لگتے۔ میرا سارا زور کمیونیکیشن پر رہتا ہے، اس لیے جہاں مجھے لگتا ہے کہ اردو سے بات نہیں بنے گی تو بلا تکلف میں ہندی لفظ استعمال کر لیتا ہوں، مگر اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ ہندی کے ایسے لفظ لائے جائیں جو آسان ہوں اور اردو لفظوں کے ساتھ میل بھی کھاتے ہوں۔ میرے زیادہ تر قاری میرے اس لسانی عمل کو apriciat بھی کرتے ہیں یا کم سے کم ناک بھوں نہیں چڑھاتے، کیوں کہ وہ بھی زبان کے اس فطری عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں اور کمیونیکیشن کی آسانی کو ضروری سمجھتے ہیں۔
رہی بات ترجمے کی تو ہندی میں میرے بہت سے افسانے منتقل ہوئے ہیں، بعض لوگوں نے ترجمہ کیا ہے، بلکہ ہندی کیا انگریزی اور پنجابی میں بھی۔ جیسے افسانہ خالد کا ختنہ ”سنت“ کے عنوان سے پنجابی میں کسی نے ترجمہ کیا تھا۔ ساہتیہ اکیڈمی کے رسالہ سمکالین بھارتیہ ساہتیہ میں افسانہ کڑوا تیل کا ترجمہ ہوا ہے۔ اسی طرح سے ایک ہندی یونی ورسٹی ہے اس کا ایک افسانہ نمبر نکلا تھا تو اس میں خالد کا ختنہ کا ترجمہ ہوا تھا۔افسانہ پہچان کا بھی ترجمہ ہوا تھا۔ سرسوتی اسنان جو ہے وہ کرم یگ، اس زمانے میں نکلتا تھا، اس میں اس کا ترجمہ ہوا تھا۔ فردا فردا تو تراجم آئے لیکن کتابی شکل میں ابھی تک ہمارے افسانے ہندی میں منتقل نہیں ہو سکے۔ کئی بار جی چاہا کہ کتابی شکل میں آئے۔ ایک بار ہم نے کوشش کی وانی پرکاشن والوں سے تو انھوں نے کہا کہ ہم آپ کا ناول کہانی انکل چھاپ دیں گے تو انھوں چھاپ دیا، پھر الہ آباد کے نیرا سدن والے نے اپنے پبلیکیشن سے دویہ بانی چھاپ دیا۔ مانجھی کو میں نے گیان پیٹھ میں جمع کیا تھا تو انھوں نے شروع میں کہا تھا کہ ہم اس کو چھاپیں گے بعد میں ان کی پالیسی کا کوئی مسئلہ آڑے آگیا، جس کی وجہ سے انھوں نے معذرت کر لی۔ اس کے بعد ہم نے کوشش نہیں کی۔ ویسے ہماری کہانیوں کی زبان کیونکہ ہندی سے زیادہ قریب ہے یا یوں کہیے کہ یہ زبان وہ ہے جو آج بولی جاتی ہے یعنی جس میں اردو، ہندی، انگریزی کے مخلوط الفاظ ہیں اور ہم آہنگ، تو ہندی میں بھی کتابی صورت میں آنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی لائے لیکن ابھی تک کتابی صورت میں ہندی میں افسانے نہیں آ سکے ہیں اور آجاتے تو ظاہر ہے کہ ہندی والے بھی اس سے مستفید ہوتے۔ اسی طرح سے عتیق اللہ صاحب نے ایک ہندی کے پرچے میں، جس میں 55 یا 53 اردو کے افسانے ہندی میں منتقل ہوئے تھے، اس میں میرا افسانہ ہاؤس ہوسٹس تھا۔ اس کی بڑی تعریف بھی ہوئی تھی انڈیا ٹوڈے میں اور مختلف جگہوں پر شایع تبصروں میں۔ ہندی میں اچھا رسپانس ملتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی ترجمہ کر دے تو اچھی بات ہے۔
طیب فرقانی: فرقہ پرستی پر مبنی آپ نے متعدد افسانے لکھے۔ ابتدائی افسانوں میں آپ زیادہ غیر جانب دار نظر آتے ہیں، بعد کے افسانوں میں آپ جانب دار ہوتے جاتے ہیں۔اس کے اسباب کیا ہیں؟
غضنفر: فرقہ پرستی ہمارے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے اور مختلف صورتوں میں آئے دن ہم اس سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے ایک قوم کے تحفظ کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے اور اس کی شناخت کا بھی۔ ایسے میں کوئی بھی حساس فن کار اس سے بچ نہیں سکتا۔ لہذا میں بھی اس سے دوچار ہوا بلکہ میں کچھ زیادہ ہی دوچار ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ میری اس موضوع پر ایک سے زیادہ کہانیاں موجود ہیں۔ اور ان میں فرقہ پرستی کے الگ الگ روپ رنگ نظر آتے ہیں۔
پہلے مجھے لگتا تھا کہ فساد برپا کرنے میں دونوں قوموں کا ہاتھ ہے، دونوں ہی برابر کے قصور وار ہیں۔ اس لیے شروع کی کہانیوں میں میرا قلم غیر جانب دار بن کر لکھتا رہا مگر دھیرے دھیرے یہ انکشاف ہوتا گیا کہ زیادہ تر فسادات تو سازش کے تحت منصوبہ بند طریقے سے برپا کیے جاتے ہیں۔ ممکن ہے بیلنس کرنے کا رویہ اپنی روایت سے میرے اندر بھی در آیا ہو مگر جیسے جیسے حقیقت کا انکشاف ہوتا گیا ویسے ویسے میرا قلم بھی بے باک ہوتا گیا اور کچھ دنوں بعد میرے خامے میں ایسی بے خوفی آ گئی کہ علامہ اقبال کا یہ مصرع مجھ پر بھی صادق آنے لگا کہ
چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبال
طیب فرقانی: افسانہ ققنس اور تصویر تخت سلیمانی کی تخلیق کے محرکات کیا ہیں؟
غضنفر: یہ سوال آپ کے ذہن میں غالباً اس وجہ سے آیا ہوگا کہ ان دونوں افسانوں میں ققنس کا ذکر ہوا ہے مگر ان کے محرکات وہ خیالی پرندہ نہیں ہے، جو نہایت خوش رنگ اور خوش گلو ہوتا ہے اور جس کے منقار میں ایک ہزار سوراخ ہوتے ہیں اور جو ہر ایک سوراخ سے ایک پر اثر راگ نکالتا ہے بلکہ پہلی کہانی ”ققنس“ کا محرک وہ سیاسی صورتِ حال ہے جو مدتوں سے میری پتلیوں کو زخمی اور دیدوں کو لہولہان کرتا رہا ہے اور ”تصویرِ تختِ سلیمانی“ کا محرک عالمی سطح پر روا رکھا جانے والا حکمرانوں کا وہ رویہ ہے جو ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے خو ب صورت حربے استعمال کرتا ہے۔ دونوں کہانیوں میں ققنس ایک حربے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ دونوں میں اس پرندے کی آواز اور اس کی دیگر خصوصیات سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
طیب فرقانی: آپ کے اس جواب سے ایک اور سوال ذہن میں آیا کہ آپ کے افسانوں میں سیاست اس طرح نظر نہیں آتی جس طرح آپ کے بعض معاصرین مثلاً مشرف عالم ذوقی، عبدالصمد، شموئل احمد وغیرہ کے یہاں نظر آتی ہے، بالکل صاف شفاف میان سے نکلی چمچماتی ہوئی تلوار کی طرح۔ آپ سیاست کو میان میں بند کرکے رکھتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟
غضنفر: آپ کا مشاہدہ بالکل درست ہے۔ سیاست میرے یہاں ڈھکے چھپے انداز میں آتی ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ سیاست اگر صاف شفاف صورت میں آتی ہے تو ایسے میں اسے صحافت بن جانے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یعنی عین ممکن ہے کہ اس صورت میں سیاست صحافت بن جائے اور افسانویت کا خون ہو جائے۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میں ادب میں پردے کا حامی ہوں۔ میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حسن دکھانے سے زیادہ چھپانے میں نظر آتا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ سیاسی معاملات و موضوعات کو دوسرے ذرائع شاید زیادہ باریکی اور شد و مد کے ساتھ پیش کرنے لگے ہیں کہ ان کے پاس وسائل بہت ہیں۔ ایسے میں ادیب کے لیے زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ادبی گر استعمال کرے اور ایسے زاویوں سے سیاست کو دکھائے کہ اس میں جاذبیت پیدا ہو جائے۔
طیب فرقانی: آپ خود کو کسی ازم سے نہیں جوڑتے، با وجود اس کے آپ کو ”جدیدیت“ کا باغی قرار دیا جاتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ آپ کے افسانوں میں علامت کا استعمال کیا آپ کو جدیدیت کے رجحان سے قریب نہیں کرتا؟
غضنفر: یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جو ادیب اپنی تخلیقات میں علامتیں استعمال کرتا ہے وہی جدیدیت کے رجحان کا حامی ہوگا یا وہی جدید کہلائے گا۔ در اصل یہ بھی ان پروپیگنڈوں میں سے ایک ہے جو جدیدیت کے متعلق پھیلائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ رموز و علائم تخلیقی اوزار (tools) ہیں جن سے ہر زمانے میں تخلیق کاروں نے کام لیا۔ اس کی کارفرمائی کے جوہر شاعری میں تو مدتوں سے دکھائی دیتے آ رہے ہیں، افسانے میں بھی جدیدیت کے رجحان کے آغاز سے قبل اس کا استعمال شروع ہو گیا تھا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جدیدیت کے زمانے میں اس کا زور بڑھا، جس کے اسباب سے یہاں بحث نہیں۔ یہاں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں نے اپنی کہانیوں میں علامتیں اس لیے نہیں استعمال کیں کہ مجھ پر جدیدیت کا غلبہ تھا یا یہ کہ میں اس رجحان سے متاثر تھا۔ میں نے تو علامتیں اپنے افسانوں میں اس لیے استعمال کیں کہ ان افسانوں کے موضوعات کا تقاضا تھا کہ میں علامتی پیرایۂ بیان استعمال کروں۔ اگر اس بنیاد پر کوئی مجھے جدید افسانہ نگاروں کے خانے میں رکھتا ہے تو رکھے، میں کیا کرسکتا ہوں۔ بعض نقاد مجھے ترقی پسند بھی ثابت کرتے ہیں، اس کے لیے ان کی اپنی منطق ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ میں خود کو کسی رجحان یا تحریک سے نہیں جوڑتا۔
طیب فرقانی: شمس الرحمن فاروقی نے شاعری کو فکشن پر اور ناول کو افسانے پر ترجیح دی ہے، آپ نے ان تینوں اصناف میں طبع آزمائی کی۔ میں اس پر کسی سوال سے بچتے ہوئے صرف آپ سے اظہار خیال چاہتا ہوں۔
غضنفر: فاروقی صاحب نقاد ہیں انھیں فیصلہ صادر کرنے کا حق ہے اور ان کا اس طرح کا بیان دینے کا رویہ بھی رہا ہے۔ اور ان کی باتوں کی ایک معقول طبقے نے پیروی بھی کی۔ اور ان کے نظریوں سے ایک بہت بڑے ادبی حلقے نے جم کر اختلاف بھی کیا۔ میرے لیے کسی کو کسی پر ترجیح دینا آسان نہیں ہے۔ مجھے تینوں اصناف پسند ہیں۔ تینوں کے اپنے اپنے دائرے ہیں۔ خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ میں نے تینوں کو ہی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ہر جگہ خود کو کمفرٹیبل محسوس کیا، البتہ یہ بات میں ضرور کہوں گا کہ ناول میں کھلنے، کھیلنے اور کھلنے کے مواقع زیادہ ہیں۔
طیب فرقانی: مشہور افسانہ نگار اور فکشن کے معتبر نقاد نیر مسعود نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ غضنفر کی مخصوص ادا ہے جو ان کے بعض افسانوں میں بہت نمایاں ہے کہ وہ اپنی کہانی کو ایک چلتے ہوئے اور جانے بوجھے راستے پر آگے بڑھاتے ہیں اور جب قاری کو اس جانے بوجھے راستے پر جانی بوجھی منزل قریب محسوس ہونے لگتی ہے تو کہانی ایک پگڈنڈی پر گھوم جاتی ہے مگر غضنفر اس کا خیال رکھتے ہیں کہ یہ گھماؤ کسی اچانک اور ڈرامائی موڑ کی طرح قاری کے ذہن کو دھچکا نہ پہنچائے۔ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں اور کس طرح کرتے ہیں؟
غضنفر: وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا کہ میں ایسا کیوں کرتا ہوں، مگر جب نیر مسعود صاحب نے اس طرف توجہ دلائی تو واقعی کئی کہانیاں میرے سامنے گھوم گئیں جن میں یہ صورت حال موجود ہے۔ میں نے جب غور کیا کہ ایسا بار بار کیوں ہوا ہے تو مجھے محسوس ہوا کہ شاید میرے اندر کا کہانی کار یہ چاہتا ہے کہ قاری کے سامنے وہ انجام نہ آئے جو کہانی پڑھتے وقت وہ سوچ رہا ہوتا ہے، اس سے کہانی کی دل چسپی بنی رہتی ہے اور قاری کے سامنے توقع کے برخلاف جب کوئی دوسرا انجام سامنے آتا ہے تواس کی فکر کو ایک نیا زاویہ مل جاتا ہے اور کہانی کے اثرات دیر تک اس کے دل و دماغ پر طاری رہتے ہیں۔ میں ایسا کس طرح کر پاتا ہوں اس کا جواب بھی آسان نہیں ہے۔ شاید میرے اندر کا کہانی کار اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ قاری کو کس طرح باندھ کر رکھا جاتا ہے۔
طیب فرقانی: آپ کے افسانوں میں فلسفیانہ بیان یا شعور کی رو کی روشنی میں دوسری جزئیات کو شامل کرنے کا عمل نمایاں نظر نہیں آتا، اس پر روشنی ڈالیں۔
غضنفر: میرے افسانوں میں فلسفیانہ بیان تو ہوتا ہے مگر اس طرح نہیں کہ وہ افسانوی تحریر کے بجائے نرا فلسفہ لگنے لگے، جیسا کہ بعض فکشن نگاروں کے یہاں لگتا ہے۔ میرے افسانوں میں فلسفہ یا فلسفیانہ بیان گھل مل جاتا ہے، اس لیے وہ کسی فلسفیانہ مضمون کی طرح دکھائی نہیں دیتا یا الگ سے ٹنکا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ اسی طرح میرے کچھ افسانوں میں کہانی کے موضوع کے تقاضے کے مطابق شعور کی رو کی تکنیک سے بھی کام لیا گیا ہے مگر وہاں بھی تکنیک کو افسانوی مواد سے اس قدر ہم آہنگ کر دیا گیا ہے کہ جب تک باریکی سے نہ دیکھیے وہ رو دکھائی نہیں دے گی۔ افسانہ لکھتے وقت میرے ذہن میں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ کسی خاص طرح کے موضوع یا انوکھے خیال سے یا کسی جدید یا مشکل تکنیک کے استعمال سے قاری پر رعب ڈالنا ہے یا اپنی فن کاری کا کسی کے دل و دماغ پر سکہ بیٹھانا ہے۔ ہاں یہ بات ذہن میں ضرور رہتی ہے کہ کچھ ایسا لکھا جائے جو نیا ہو۔ دوسروں سے مختلف ہو اور جو داخلی اور خارجی دونوں طرح کے دباؤ کو کم کرکے سر خوشی دینے والا ہو۔
طیب فرقانی: نئی نسل کے افسانہ نگاروں سے آپ کے توقعات کیا ہیں؟
غضنفر: کچھ دنوں قبل نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کے ایک ورک شاپ کے دوران نئی نسل کے چار قلم کاروں، شہناز رحمان، توصیف بریلوی، نہاں رباب اور احسن ایوبی سے میں نے سوال کیا کہ کچھ اپنی نسل کے افسانہ نگاروں کے نام بتائیے جن کی افسانوی تخلیقات سے آپ مطمئن ہوں یا جو قابل ذکر ہوں۔ ان سب نے مایوسی اور بے اطمینانی کا اظہار کیا۔ میں نے بھی نظر دوڑائی تو مجھے لگا کہ ان کا مشاہدہ صحیح ہے۔ مجھے بھی چونکانے والا کوئی فن کار نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی ایسی تخلیق ہی یاد آئی جس نے ذہن پر اپنے اثرات چھوڑے ہوں۔
ہاں فیس بک پر کچھ پوسٹ ایسے دکھائی دیتے رہتے ہیں کہ نئی نسل کے کسی فن کار نے بالکل نئے انداز کا فکشن پیش کر دیا ہے۔ کسی نے فکشن میں کوئی نیا کارنامہ انجام دے دیا ہے مگر زمین پر ان کا ذکر کہیں سنائی نہیں دیتا۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ تخلیقات لوگوں تک پہنچ نہیں پاتیں مگر بجوکا، یک لو، ڈار سے بچھڑے، گنبد کے کبوتر، نیو کی اینٹ، سنگار دان، نیم پلیٹ، کڑواتیل، زہرا وغیرہ جیسی کہانیاں تو دور دراز تک پہنچ گئی تھیں جب کہ ان کے زمانے میں ترسیل و ابلاغ کے وہ ذرائع بھی نہیں تھے، جو آج ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فکشن رک گیا ہے۔ نئی نسل بھی اپنا انہماک دکھا رہی ہے۔ خدا کرے ان کا یہ انہماک رنگ لائے اور فکشن پریمیوں کو ایک نئے رنگ میں رنگ دے۔
طیب فرقانی: آپ کو نہایت فعال اور متحرک تخلیق کار مانا جاتا ہے، جس کا تخلیقی سفر نصف صدی تک پھیلا ہوا ہے، میرا سوال آپ کی فکشن تخلیق سے متعلق ہے۔ آیا فکشن میں آپ سب کچھ کہہ گئے جو کہنا چاہتے تھے یا عمر کے اس پڑاؤ پر بھی کوئی فکشن تخلیق، منتطر ہے؟
غضنفر: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ادب کی تخلیق کے تئیں میں خود کو متحرک پاتا ہوں۔ میرا دل انسانی حیات و کائنات کے معاملات و حالات پر دکھی ہوتا رہتا ہے اور میراذہن ہر وقت ان کے اسباب و عوامل پر سوچتا رہتا ہے، ان کے تدارک کی فکر بھی کرتا رہتا ہے اور اس ضمن میں میری تخلیقی سرگرمیاں ہمہ وقت جاری رہتی ہیں۔
پھر میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنی تخلیقات کی پذیرائی پر خوش تو ہوتے ہیں مگر کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا بیسٹ آنا ابھی باقی ہے اور یہ احساس میرے خامے کو کبھی ساکت ہونے نہیں دیتا۔ اسے ہر وقت سر گرم عمل رکھتا ہے۔ صاف لفظوں میں کہوں تو دوسری اصناف کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایک ناول بھی پروسیس میں ہے، دعا کیجیے کہ وہ بھی جلد سے جلد مکمل ہو جائے۔
طیب فرقانی: میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا اور قیمتی گفتگو فرمائی۔ ہمارے سوالات کے جوابات آپ نے فراخ دلی سے دیے، امید ہے کہ اس گفتگو سے آپ کے افسانوی ادب کے تعلق سے کئی جہتیں روشن ہوں گی.
٭٭٭
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش: احسان قاسمی: اردو افسانے کا معتبر فن کار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے