احسان قاسمی: اردو افسانے کا معتبر فن کار

احسان قاسمی: اردو افسانے کا معتبر فن کار

طیب فرقانی 
رابطہ : 6294338044 
احسان قاسمی ستر کی دہائی سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ان کا پہلا افسانہ ”پہلا پتھر“ ١٩٧٦ء میں شایع ہوا تھا۔ قریب نصف صدی کی ریاضت ان کے افسانوں میں شامل ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان کے افسانوں کی تعداد ان کے معاصر افسانہ نگاروں سے بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے تخلیقی ذہن کا دامن تنگ اور افسانے کی طرف طبعی میلان کم ہے۔ جہاں تک میں انھیں جانتا ہوں، وہ بینک کے مینیجر تھے۔ اس پیشے سے جڑے افراد کے پاس وقت کی کمی کا مسئلہ ہمیشہ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احسان قاسمی نے سبک دوشی کے بعد متعدد شان دار افسانے لکھے۔ جن میں موضوعاتی تنوع اور فنی چابک دستی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف وہ شاعر بھی ہیں اور محقق بھی۔ ہندستان کے صوبہ بہار کے زرخیز خطہ ”سیمانچل“ کی ادبی و علمی تاریخ پر لکھنے والوں میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ”دشت جنوں طلب“ دعوت مطالعہ دیتا ہے۔ وہیں ”سیمانچل کے افسانہ نگار“ ان کی ایسی تحقیقی کتاب ہے جس میں اس خطے کے فراموش شدہ افسانہ نگاروں کو امر کردیا گیا ہے۔ یہ کتاب یہاں کی افسانوی سرگرمیوں کی ایسی روداد ہے جسے حوالے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس میں افسانوں کے نمونے بھی ہیں اور افسانہ نگاروں کے کوائف بھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ادارت و اشاعت کی ذمہ داری بھی سنبھالی اور ”عکس“ نامی رسالہ بھی جاری کیا تھا۔
ان باتوں کا ذکر اس لیے ضروری ہے تاکہ اندازہ کیاجاسکے کہ ان کی ادبی سرگرمیاں کیسی متنوع اور کثیرالجہات ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی افسانہ نگاری اور شعر سازی یکساں رواں دواں رہیں۔ ان کے استاد پروفیسر طارق جمیلی نے ان کی اس خوبی کو بڑے خوب صورت انداز میں سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ کتنے ہی بڑے ادیبوں نے شاعری سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا لیکن نباہ نہ سکے اور نثر کی طرف آئے۔ احسان قاسمی کا ہنر یہ ہے کہ انھوں نے شاعری اور افسانہ نگاری دونوں کو یکساں اہمیت دی اور تخلیقات پیش کرتے رہے۔ شاعر لفظوں کا انتخاب سلیقے سے کرتا ہے اور انھیں سلیقے سے مرتب کرتا ہے، افسانہ نگار موضوع کا انتخاب سلیقے سے کرتا ہے اور انھیں سلیقے سے بیان کرتا ہے۔ دونوں الفاظ کی مشترکہ وراثت سے تشکیل پاتے ہوئے بھی الگ الگ راہوں پر چلتے ہیں۔ اگر دونوں ایک دوسرے کی اقلیم میں گھسنے کی کوشش کریں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں، فن کار کا اصل ہنر اس بات میں دکھتا ہے کہ وہ اپنے رخش تخلیق کو کس طرح قابو میں رکھتا ہے۔ احسان قاسمی کے فن کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انھوں نے ایک فن کو دوسرے فن کی اقلیم میں داخل ہونے نہیں دیا اور کام یاب ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کے افسانوں کی زبان کہانیوں کی زبان ہے۔ مابعد جدید کہانیوں کی زبان۔ ان کے افسانوں میں کسی ازم، رجحان یا تحریک کے زیر اثر ہونے کا بھی ثبوت نہیں ملتا۔ حالاں کہ ان کے قریبی ساتھیوں میں ان رجحانات کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے فن کو ایک قلندر کی طرح برتا، اور اپنی فکر و سوچ کو پوری طرح اپنے قابو میں رکھا۔
ان کے افسانوں کے موضوعات میں کافی تنوع ہے۔ اور تکنیک میں بھی وہ نئی راہوں کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ اسلوب وہی اختیار کرتے ہیں جو کہانی اور کردار کے مناسب ہو۔ ان کی کہانیوں کی زبان میں سادگی ہے، تصنع کا گزر نظر نہیں آتا۔ ان کے یہاں صورت حال کا بیان کم کم ہوا ہے۔ ایک خاص بات جو مجھے ان کی کہانیوں میں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ کسی خیال کو نقش کرنے کے لیے اس کے پس منظر کو بڑی گہرائی سے ابھارتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں مختصر ہوتے ہوئے بھی ایک طویل کہانی کا لطف دیتی ہیں۔ ان کا افسانہ ”تم“ مجھے ایک عمدہ اور مکمل ناول کی ماہرانہ تلخیص معلوم ہوتی ہے۔ اس افسانے میں احسان قاسمی نے سماجی و تہذیبی تاریخ کو افسانوی بیانیہ بنانے میں جو مہارت دکھائی ہے، یہ ان کے فن کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس افسانے میں المیہ منظر خوش گوار بن گیا ہے۔ ایسا کم ہوتا ہے۔ المیہ نگاری افسانہ نگاروں کا محبوب حربہ رہا ہے۔ لیکن احسان قاسمی اس میں جدت پیدا کردیتے ہیں۔ اور جواز بھی پیدا کرتے ہیں:
”آخر نئی نسل کو بھی تو اسی دھرتی پر پھولنا پھلنا ہے۔جب نئی کلیاں نکلتی ہیں تو پرانے پھولوں کو بکھرنا ہی پڑتا ہے۔“
اس افسانے میں ”تم ملی تو تھیں ……!“ کی تکرار نہ صرف قصے کی بنت کو مضبوط بناتی ہے بلکہ ان کی فنی چابک دستی کے جلوے بھی بکھیرتی ہے۔
احسان قاسمی نے ہجرت اور انہدام بابری مسجد جیسے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ انھوں نے صرف موضوع کا احاطہ کرکے اظہار خیال و اظہار ذات والا رویہ نہیں اپنایا ہے بلکہ مسئلے کی حقیقت سے خوب واقف نظر آتے ہیں اور اپنے قاری کے سامنے مسائل کی پیش کش میں تفکر کی راہیں بھی ہم وار کرتے ہیں۔ افسانہ مہاجر سرحد کے دونوں طرف رہنے والے ایسے لوگوں کی کہانی ہے جنھیں تحقیر بھری نگاہوں سے کچلا جاتا ہے۔ نہ یہاں سے جانے والے کا درد کم ہوا اور نہ رہ جانے والے کو تحفظ کا یقین۔ یہ افسانہ انسانوں کے ازلی دکھ کی کہانی ہے جس میں اقل اسباب اور اقلیتی کردار کا دکھ سب سے بڑا دکھ ہے۔ اس میں ایک انسان کا دوسرے انسان کے تئیں تعصب کو مرکزی خیال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اور تعصباتی جذبے کی تطہیر کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح پرایشچت افسانہ اپنے تشکیلی عناصر میں انہدام بابری مسجد کی کہانی ہوتے ہوئے اس ازلی نفرت اور تعصب کی کہانی بن جاتی ہے جس میں ایک لاش ابد تک یوں ہی پڑی ہوئی ہے۔ افسانے کا آخری جملہ: ”لاش اب تک ویسی ہی پڑی ہے!!!“ حاصل کہانی ہے۔ یہ کہانی مابعد انہدام کی کہانی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے اثرات و کیفیات کی کہانی ہے۔ اس طرح موضوعاتی اعتبار سے ایک ہی سرچشمے سے نکلنے کے باوجود یہ کہانی ایسی دوسری کہانیوں سے الگ ہے جو فکر و احساس کی نئی جوت جگاتی ہے۔ میں یہاں احسان قاسمی کے تین ایسے افسانوں کا ذکر کرنا چاہتاہوں جن میں جنس کا بیان آیا ہے۔ یہ ہیں: آئس برگ، لال کبوتر اور نمک حرام۔ یہ کہانیاں ہندستانی سماج میں خواتین کے مسائل کا بیان ہیں۔ ان میں مختلف طبقوں کی خواتین ہیں۔ سب کے مسائل الگ الگ ہیں۔ ان کا درد الگ الگ ہے۔ اور اس کی وجہیں بھی الگ الگ ہیں۔ یہ افسانے احسان قاسمی کی سماجی اور معاشرتی فہم اور دردمندی کے بھی عکاس ہیں۔
آئس برگ ایک میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلقات کی محرومی کے حوالے صارفی تہذیب کا بیانیہ ہے۔ ایک ایسی آئس برگ جو صارفی تہذیب کی مصروف زندگی نے انسان کے ذہن و دل پر مسلط کی ہے۔ اس میں اعلا متوسط طبقے کی بیوی شوہر سے اس آئس برگ کو توڑدینے کی خواہش مند ہے۔ اس خاص لمحے کو احسان قاسمی نے یوں بیان کیا ہے:
”ٹپ……ٹپ……ٹپ۔۔۔۔ ٹپ۔۔۔۔۔۔ برف کی سل بہت دھیرے دھیرے۔۔۔۔ بالکل غیر محسوس طور پر پکھل رہی تھی۔
یہ نیا احساس جانے کب اس کے وجود میں در آیا لیکن برسوں کی خشک مٹی پر ٹپکتے پانی کی بوندوں کا پھیلتا گیلا پن اور مٹی کی سوندھی مہک در وجود پر ہلکے ہلکے دستک دینے لگی تھی۔ اس نے بے اختیار بائیں جانب دباؤ بڑھایا۔ اُس کا بایاں بازو ڈاکٹر حیدر کے دائیں بازو سے مس ہورہا تھا۔ سامنے سومیندو جھیل بالکل شانت کیفیت میں لیٹی تھی۔ کون جانے اوپر سے شانت نظر آنے والی اس جھیل کی گہرائیوں میں بھی کوئی ہلچل نہاں ہو۔ اس لمحے سے قبل وہ بھی سو میندو جھیل کی طرح ہی بالکل شانت تھی۔ لیکن آج یہ کون سا معجزہ رونما ہورہا تھا؟ حیدر کے بازو سے یہ کیسی حرارت اس کے جسم و جاں میں منتقل ہو رہی تھی جو برسوں سے جمی برف کی سل کو پکھلا ئے دے رہی تھی؟ اُس کے اندرون ذات میں بوندوں کے ٹپکنے کی صدا صاف صاف سنائی پڑ رہی تھی۔۔۔۔۔ ٹپ۔۔۔۔۔ ٹپ۔۔۔
”کیسا لگا میرک (Mirik)؟“ حیدر نے دریافت کیا تھا۔
”بہت خوبصورت!۔۔۔۔۔ خوابوں کی سرز مین سا“
”ذرا بیٹیوں کی جانب بھی دیکھو، کیا کر رہی ہیں۔““
اس میں رومان کے لیے رومان انگیز فضا خلق کی گئی ہے۔ دارجلنگ کی خوب صورت وادیوں میں دو خشک سوتوں کے پھوٹ پڑنے کی آہٹ، اس میں حقیقی مقام پر افسانوی فضا خلق کرنا احسان قاسمی کا کارنامہ ہے۔ جھیل کی گہرائی، بوندوں کا ٹپکنا، گہرائیوں میں ہلچل ہونا اس کیفیت کا فن کارانہ بیان ہے جو ایک عورت کے دل میں ارمان کی طرح مچل رہا ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت کا روپ لے سکا؟ اور کیوں نہیں لے سکا؟ احسان قاسمی قاری کو اس کی وجوہات کے تعاقب میں لگا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اور قاری کے ذہن میں فکر کی کئی لکیریں ابھر آتی ہیں۔ اس میں اعلا متوسط طبقے کی ایک خاتون کا کرب نمایاں ہوجاتا ہے۔
افسانہ لال کبوتر میں دہری کہانی کی تکنیک کے حسن کے علاوہ اس کی زبان اور منظرنگاری میں فن کاری بھی اپنے عروج پر ہے۔ وقت کی دراز ہوتی ایک باریک لکیر افسانے کے دروں سے جھانکتی ہے۔ پریم چند کے زمانے کے دیہات اور احسان قاسمی کے زمانے کے گاؤں کا امتزاج کہانی کی معنویت کو بڑھاتا ہے۔ اس میں دو لڑکے گاؤں کی ایک معصوم لڑکی کے جسم کا استعمال اور استحصال محبت، طاقت اور فریب کے اوزار سے کرتے ہیں۔ گاؤں کی ایک بھولی اور معصوم لڑکی ایک لڑکے کے بازوؤں کی مچھلیوں کو ارمان کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس سے ملاقات کے ایک وعدے پر سب کچھ چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں ملنے چلی آتی ہے۔ اس میں لڑکے کا باز کی طرح جھپٹنا اور لڑکی کا کبوتر کی طرح گردن ڈال دینا معنی کی کئی پرتیں چڑھاتا ہے۔
”بہاری نہ جانے کب اس کے پہلو میں آبیٹھا تھا۔ اس کی زبان گنگ ہو گئی۔ بس وہ ٹکرٹکر اس کا منھ دیکھتی رہی۔ بہاری دھیرے سے پھسپھسایا ……’منیا! ……“ اور اس نے بے اختیار اسے اپنی گود میں سمیٹ لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ احتجاج کرتی اس نے اپنے پتھریلے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیا۔ وہ مدہوش سی اس کی بانہوں کے حلقہ میں ڈھلکی رہی۔ بہاری اس کی گداز بانہوں کو سہلاتا رہا اور اسے کچھ خبر بھی نہ ہوئی کہ کب اور کیسے بہاری کے ہاتھ کہاں کہاں پہنچ گئے؟ گرمی سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر جما برف پگھلنے لگا اور پگھل پکھل کر نشیب میں بہنے لگا۔ پہاڑوں کی ننگی چوٹیاں تن کر کھڑی ہو گئیں۔ موجیں کناروں سے سر مارنے لگیں اور جس ندی پر اس نے برسوں سے بندھ باندھ رکھا تھا وہ گیلے ریت کے گھروندے سا بھسبھسا کر ڈھ گیا۔ وہ ساحل پر یوں بچھ گئی جیسے دھوبی کپڑے دھو کر پسارتے ہیں۔ پھر ندی کی طوفانی موجیں کناروں کو توڑ کر باہر نکل آئیں اور کھیت کھلیان باغ باغیچے سب ڈوب گئے۔ اس سیلاب بے کنار میں وہ خود بھی غرقاب ہونے لگی تو جان بچانے کے لیے زور زور سے ہاتھ پاؤں پھینکتی رہی۔ رفتہ رفتہ ندی کا تموج کم ہوا۔ سیلاب کا زور ٹوٹا تو ندی کناروں میں سمٹنے لگی۔ وہ نچوڑے ہوئے زرد کپڑے کی مانند چاند کی یرقان زدہ روشنی میں ساحل کے ریت پر بچھی رہی۔“
اس اقتباس میں بہاری کے ہونٹ کو افسانہ نگار نے ”پتھریلے ہونٹ“ کہا۔ اس کے کئی معنی ہوئے، کھردرے ہونٹ، جو دیہاتی فضا اور مزدوری کے کام کی وجہ سے کھردرے ہوجاتے ہیں۔ چوں کہ باز کی چونچ سخت ہوتی ہے اس لیے افسانہ نگار نے اس کے ہونٹوں کو پتھریلا کہا، اور یہ بھی کہ پھول کی پنکھڑی کو کچلنے کا منظر بیان کرنا مقصود ہے، اس لیے افسانہ نگار نے اس کے ہونٹوں کو ”پتھریلے ہونٹ‘‘ کہا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ احسان قاسمی کا فن اکہرا نہیں ہے بلکہ ان کے بیان میں گہری معنویت ہے۔ اسی طرح ”پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کا پگھلنا اور نشیب میں بہنا“، ننگی چوٹیوں کا تن کر کھڑے ہوجانا، موجوں کا سر ٹکرانا، گیلے ریت، گھروندے، دھوبی کے کپڑے کی طرح ساحل پر بچھ جانا، کھیت کھلیان اور باغیچے کا ڈوب جانا، ندی کا تموج، سیلاب کا زور ٹوٹنا، چاند کی یرقان زدہ روشنی“ ایسے استعاراتی بیان ہیں جو نہ صرف افسانہ نگار کے خیال کو جماتے ہیں بلکہ ایک ایسی فضا خلق کرتے ہیں جن کا انسلاک اس واقعے سے گہرا ہے۔
افسانہ نمک حرام میں ایک دیہاتی، ان پڑھ نوکر کے جسم کو اس کی مالکن اپنی مالکانہ طاقت سے استعمال کرتی ہے۔ نوکر اپنی تمام تر وفاداری کے باوجود نمک حرام ٹھہرتا ہے۔ اس افسانے میں اس سماج کے چہرے پر گہرا طنز بھی کیا گیا ہے جس میں ثروت مند افراد مزید ثروت مندی کے حصول میں سرگردانی کی وجہ سے اپنے اہل خانہ کو وقت نہیں دے پاتے۔ اس میں دو جسموں کے اتصال کو یوں بیان کیا گیا ہے:
”میم صاب بولیں منوا! آج تمہارے صاب باہر گئے ہیں۔ گھر میں بھی کوئی آدمی نہیں۔ ڈر لگے گا۔ تم یہیں کمرے میں نیچے قالین پر سو جاؤ۔ وہ گدیلے قالین پر لڑھک گیا۔ قالین بہت گداز تھا مگر پھر بھی نیند نہیں آرہی تھی۔ اسے کھجور کی وہ پھٹی چٹائی یاد آئی جس پر لڑھکتے ہی نیند آدبوچتی تھی۔ کچھ دیر بے حس و حرکت پڑے رہنے سے اس پر ہلکی ہلکی غنودگی طاری ہونے لگی۔ لیکن جسم سے پسینہ بہا چلا جا رہا تھا۔ سارا جسم چٹ چٹ کر رہا تھا۔ رفتہ رفتہ پسینے کی وجہ سے جسم کے نیچے کیچڑ جمتا گیا۔ وہ کیچڑ میں سنگھی مچھلی پکڑنا چاہتا تھا کہ پھسل کر مہا نندا ندی میں جا گرا۔ وہ ندی کی عمیق گہرائیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ اچانک کسی جانب سے ایک دیو ہیکل مچھلی سرنگ کی طرح اپنا منھ پھاڑے نمودار ہوئی اور اسے نگلنے کو لپکی، خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی اور وہ چیخ تک نہ سکا۔ مچھلی نے اسے زندہ ہی نگل ڈالا اور وہ دور تک اس کے پیٹ میں پھسلتا چلا گیا۔ اس کے معدے میں عجیب سی چکناہٹ تھی جو منوا کے جسم سے لپٹ گئی۔ وہ اس گاڑھے چکنے سیال میں ہاتھ پاؤں پھینکتا اور پھسلتا رہا۔ گرمی کے مارے اس کا دم گھٹنے لگا اور اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ ارے یہ کیا؟ وہ میم صاب کے چکنے جسم پر پھسل رہا تھا۔ میم صاب اس سے امر بیل کی طرح لپٹی جا رہی تھیں۔ اس کا دم اکھڑنے لگا۔ میم صاب میم صاب!! وہ چھٹپٹایا۔ لیکن میم صاب اس سے اور لپٹ گئیں۔ ان کی گرم گرم سانسیں اور سسکیاں اس کا خون کھولا نے لگیں۔ میم صاب…میم صاب پیشاب!!“
اس اقتباس میں کیچڑ اور مچھلی کا استعارہ آیا ہے۔ ایک شخص جو چٹائی پر سونے کا عادی تھا، جب اسے گداز قالین پر سونا پڑا تو اس کی نیند دور بھاگتی رہی اور جسم کے نیچے کیچڑ جمنے لگا۔ سنگھی مچھلی کا تعلق کیچڑ سے ہے۔ وہ اسی کی تلاش میں تھا لیکن بہ جبر اسے دیو ہیکل مچھلی نے اسے نگل لیا۔ دیو ہیکل مچھلی کا تعلق سمندر سے ہے۔ کیچڑ والی مچھلی کا تعلق تالاب سے ہے۔ احسان قاسمی نے کیسے با معنی استعارے وضع کیے ہیں۔ پھر ”زندہ نگل لینا، چیخ نہ سکنا، دم گھٹنے لگنا، معدے میں چکناہٹ کا ہونا، دم گھٹنے لگنا، ایسے استعارے ہیں جن میں جبر کی کیفیات نمایاں ہیں۔ جبر کا تعلق طاقت ور اور کم زور سے ہے۔ میم صاب ثروت مند اور اشرافیہ طبقے سے ہیں اور منوا کا تعلق نچلے طبقے سے ہے، اس میں طبقاتی کشمکش کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اس افسانے میں منوا کا کردار اپنے زمانے کا نمائندہ ہے، لیکن کہانی آج بھی وہیں ہے۔ ذہن زاد کے خالق توصیف بریلوی کا ایک افسانہ ”پیزا بوائے“ ہے۔ اس کی کہانی بھی کچھ یوں ہی ہے۔ بس کردار کے وضع قطع، پس منظر اور فضا مختلف ہے۔دونوں افسانوں میں جرم کی سزا اسے ملتی ہے جس نے جرم کیا نہیں ہے۔ احسان قاسمی کے افسانے میں منوا ڈر کر بھاگ جاتا ہے، اور نمک حرام قرار دیا جاتا ہے۔ توصیف بریلوی کے افسانے میں پیزا بوائے کے لیے سارے راستے مسدود ہوجاتے ہیں، خود کشی کے سوا۔ احسان قاسمی اپنے کردار اپنی زمین سے چنتے ہیں، ان کرداروں کے نام اور ڈکشن کہانیوں کے پس منظر اور زمانے کے اعتبار سے ہیں۔ مثلا افسانہ نمک حرام میں ”مہانندا ندی“ کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ یہ کردار اسی خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ احسان قاسمی کے خطے میں خواتین کے مسئلے اور جبر و اکراہ کے معاملات پر مبنی کہانی ”شلپی“ بھی ہے۔ واضح ہو کہ احسان قاسمی کا تعلق بہار اور بنگال کے سرحدی علاقے سے ہے۔ اس سے کہیں یہ شبہ نہ ہو کہ احسان قاسمی نے ”آنچلک“ کہانیاں لکھی ہیں۔ لیکن ایسی کئی کہانیاں ان کے تخلیقی کارناموں میں موجود ہیں جن میں علاقائی اثرات ضرور دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ اردو زبان کی ثروت مندی اور وسعت پذیری کی وجہ سے ہے۔
”پیپر ویٹ“ احسان قاسمی کا ایسا افسانہ ہے جس میں کافی ”ویٹ“ ہے۔ یہ مابعد جدید کے نمائندہ افسانوں میں سے ایک ہے۔ یہ افسانہ اپنے کرافٹ، موضوع، کردار اور زبان و بیان کے حسن کی وجہ سے احسان قاسمی کا اہم ترین افسانہ ہے۔ اس افسانے کو اردو کے بہترین افسانوں میں شمار کرنا چاہئے۔ افسانے کا آغاز اور اختتام دونوں متضاد کیفیت پر مشتمل ہیں۔ جیسے کوئی ایک کروٹ سے دوسری کروٹ لے لے۔ ہماری زندگی کروٹیں لیتی رہتی ہے۔ یہ کائنات کیا ہے؟ مسلسل متغیر۔ کائنات کے اندر وقوع پذیر ہوتے واقعات نہ صرف ہمیں متغیر کردیتے ہیں بلکہ ہمارے جذبات و احساسات اور خیالات کو بھی متغیر کردیتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو ایک زمانے میں انقلابی ہوتے ہیں، لاپروا ہوتے ہیں، طاقت ور ہوتے ہیں، خود اعتماد ہوتے ہیں لیکن وقت و حالات کے ساتھ ان کے انقلاب، لاپرواہی، طاقت، خود اعتمادی میں کمی اور تبدیلی دیکھی جاتی ہے۔ جب ہمارے عضلات ڈھیلے پڑتے ہیں تو ہمارے خیالات پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ اس کائنات کی ایسی حقیقت ہے جسے افسانوی رنگ دینا اور وہ بھی ایسے کرافٹ اور زبان و بیان میں جس میں لکیر واضح ہوتے ہوئے بھی اپنے تمام تر تحفظات کے ساتھ موجود ہو احسان قاسمی کے فن کی معراج ہے۔ افسانے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
”وہ سر سبز و شاداب لان میں کھلے رنگین پھولوں کو دیکھ کر خوش خوش کیاریوں میں پانی دے رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر گلاب کی کیاری پر پڑی۔ پانی پڑنے سے ملائم مٹی نیچے بیٹھ گئی تھی اور کوئی شے ملائم مٹی سے اپنا سر نکالے اسے تک رہی تھی۔ تھوڑی سی طاقت صرف کرکے اس نے اسے مٹی سے باہر نکالا۔ کوئی سخت شے تھی۔ اس نے اس پر پانی کی دو تین بوچھاڑیں ماری اور چونک پڑا ……”ارے! چار انچ کا خدا““
کہانی کا کردار خوش ہے، کیوں کہ اس کے آس پاس کی فضا خوش گوار ہے، لان سر سبز و شاداب ہے، لان میں پھول کھلے ہیں، یہ پھول رنگین ہیں، گویا زندگی رنگیں ہے۔ اس میں پانی بھی زندگی کا استعارہ ہے۔ وہ زندگی سے لبالب بھرا ہوا ہے۔ تبھی گلاب آمیز زندگی سے ایک نیا حادثہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ باہر آنے والی شے سخت ہے۔یعنی یہ کوئی معمولی شے نہیں ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے کچھ قیمتی لمحات اور اشیا اس کے لیے ضایع کیے۔ یہ سخت شے خدا ہے۔ چار انچ کا خدا، یعنی ایک مورتی جس سے خدا کا تصور وابستہ ہے۔ اس ایک اقتباس میں زندگی، حادثہ اور زندگی اور حادثے کا تعلق خدا سے قائم ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد جو سوال اس کے ذہن میں سب سے پہلے قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ زندگی میں خدا کا کیا کام؟ واضح ہو کہ اس کی زندگی ”زندگی سے بھرپور“ ہے۔ اور اسے یقین ہے کہ اس کی موجودہ زندگی اس کی محنت و مشقت سے حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے کوئی دوسرا اس کی زندگی میں حصے دار کیوں کر ہوسکتا ہے۔ اس سوال اور اس کے جواب کے درمیان کش مکش شروع ہوئی۔ وہ خدا کو خود سے جھٹک دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی اپنی بنائی ہوئی زندگی میں خدا کا وجود یکسر نہ ہو۔ گویا وہ خدا سے ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن کیا کوئی خدا سے جیت سکا ہے؟ انسان کا وجود خدا کے سامنے ایک مصیبت زدہ حقیر مکھی کی طرح بھی تو نہیں۔ یہاں تک پہنچتے ہی قاری کے ذہن میں انسانی وجود کی بے وقعتی کا گمان واضح ہونے لگتا ہے۔ اس مقام پر ہم اس کہانی کے وجودی پہلو کے سرے تک پہنچتے ہیں۔ اس کی تھوڑی تفصیل خود کہانی کے کردار کے کچھ سوالا ت میں ہے۔ مثلا:
وہ کیا کرے؟ اس شے کو جسے خدا سے منسوب کیا جاتا ہے کہاں رکھے؟ کیوں کہ وہ تو ٹلنے والا نہیں ہے؟ یہاں اسے پہلی شکست ہوتی ہے۔
وہ اپنا اور اپنے اسباب زندگی کا جائزہ لیتا ہے۔ وہ پاتا ہے کہ اس کے یہاں غیر مفید اشیا کے لیے کبھی کوئی جگہ ہی نہیں تھی؟ کباڑ خانے میں رکھی اشیا بھی اس کے مستقبل میں کام آنے والی اشیا تھیں اور اب یہ خدا سے منسوب شے؟ اس کا کیا کیا جائے؟ اس کے خیال میں اب بھی وہ شے بے کار ہی ہے، چنانچہ وہ اسے خود سے دور پھینک دینا چاہتا ہے۔ لیکن وہ شے بار بار پھینکے جانے کے باوجود اسی کے وجود کی چہار دیواری میں آگرتی ہے۔ یعنی انسان اپنی جس کوشش کی بنا پر خود خدا بننے کی غلط فہمی پال لیتا ہے وہ ہمیشہ کام یاب ہو اس کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ خیر! بالآخر وہ کامیاب بھی ہوجاتا ہے، اور تھوڑی دیر کے لیے مطمئن بھی کہ اس بار وہ خود سے اس شے کو دور پھینک دینے میں کام یاب ہوگیا ہے۔ لیکن ایک دوسرا واقعہ اس کی زندگی کی چہار دیواری کے باہر منتظر ہے۔ انسان جزیرہ نہیں ہے۔ وہ سماج کا حصہ ہے اور اس کے اعمال و افعال کا اثر صرف اسی تک محدود نہیں بلکہ دوسرے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، یہ تاثر اگر اچھا ہو تو زندگی میں خوش گواریاں آتی ہیں اگر یہ تاثر برا ہو تو نا خوش گواریاں ساتھ لاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ:
”گلاب کے پھولوں پر گرد کی ایک ہلکی سی تہہ جم گئی تھی۔ شگفتگی و شادابی کم ہوگئی تھی۔ وہ پانی کے چھینٹے مار مار کر ایک ایک پھول کا منھ دھلانے لگا۔ کئی دنوں سے بارش نہیں ہورہی تھی۔“
اس اقتباس میں چھوٹے چھوٹے جملے ان جملوں میں الفاظ کا در و بست اپنا حسن تو دکھاتا ہی ہے، ساتھ ہی افسانے کے پلاٹ کو مضبوط بھی بناتا ہے۔ پھولوں کی شادابی کا کم ہونا اور انھیں شگفتہ بنائے رکھنے کے لیے ان کا منہ دھلانا کیا ہی خوب صورت جملے ہیں، لیکن بارش کون برساتا ہے؟ یہ تو اس کے بس میں نہیں، اور چوں کہ ایک ناخوش گوار واقعہ اس کا منتظر ہے اس لیے فضا اس کے خلاف بنتی جارہی ہے۔ چنانچہ خدا سے منسوب جس شے سے وہ قریب قریب چھٹکارا پاچکا تھا، اس نے ایک راہ گیر کو زخمی کردیا، یہ راہ گیر کوئی معمولی آدمی نہیں تھا بلکہ ایک فوجی تھا۔ سوال یہ ہے کہ پتھر کی وہ مورتی اس فوجی سے ہی کیوں ٹکراتی ہے؟ کوئی عام آدمی اس سے کیوں نہیں زخمی ہوتا؟ اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ انسان کی منصوبہ بندی اور خدا کی منصوبہ بندی میں فرق ہے۔ واقعات کے رونما ہونے میں علل و معلول کا بھی دخل ہے۔ تدبیر اور تقدیر دونوں آپس میں منسلک ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔ چنانچہ جس مورتی کو وہ خود سے دور پھینک دینا چاہتا تھا اس سے زخمی ہونے والے فوجی نے عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ ہمارے ملک ہندستان میں عدالتی کاروائیاں ایک دو دن یا پندرہ بیس دن میں ختم نہیں ہوتیں، بلکہ اس کے لیے مہینوں جوتیاں گھسنی پڑتی ہیں۔ جب جوتیاں گھس جاتی ہیں تو با شعور افراد کے عقل کے دروازے وا ہوجاتے ہیں۔ عدالت میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور لاپرواہی کے جرم میں جرمانہ بھی عاید ہوا۔
یہاں پہنچ کر اس شخص کو جس نے اپنے وقت کو انتہائی قیمتی جانا تھا، مقابلہ جاتی عہد میں خود کو زندگی کی ریس میں آگے رکھنے کے لیے ہر ہر لمحے کو قیمتی سمجھ کر اپنے مصرف کا بنایا تھا اسے چھ مہینے کی مسلسل دوڑ دھوپ دیکھنی پڑی اور شاید پہلی بار اداسی نے اسے آگھیرا۔
اداسی کی وجہیں کیا ہیں؟ برتری کے احساس کی شکست، وقت کے ضایع ہونے کا احساس، دولت کی بربادی اور ان سب کے باوجود اس مورتی کا پھر سے اس کی جیب میں آجانا۔ اسی حالت میں چلتا رہا چلتا رہا۔ اور تھک بھی گیا، پھر سنبھل بھی گیا۔ زیست یہی تو سکھاتی ہے۔ گرنا، گر کر اٹھنا، پھر گرنا اور پھر اٹھنا، لیکن زندگی کی تگ و دو میں جو شے انسان کو سب سے زیادہ سکون دیتی ہے وہ ”اپنا گھر“ ہے۔ نہ بے جان سڑکیں، نہ موٹر گاڑیاں اور نہ زرق برق لباس۔
جب وہ گھر پہنچا تو برآمدے میں موٹے شیشے کی کرچیں بکھری ہوئی تھیں۔ وہ شخص جسے خدا کی بھی پرواہ نہیں تھی، اس بات کی پرواہ کر بیٹھا کہ کہیں یہ کرچیں کسی کے پاؤں میں نہ چبھ جائیں۔ اس نے نوکر کو بلا کر ڈانٹنا چاہا لیکن اس کے ہونٹ خود بہ خود بہ حالت اضطراری نہ کھل سکے۔ ہونٹو ں پر یہ جبر کہاں سے آیا؟ کیا اس کے بولنے کی قوت سلب کر لی گئی؟ وہ کون سی ان دیکھی طاقت تھی جس نے اس کی گویائی فوری طور سے سلب کرلی؟ ایک ایسی طاقت جسے وہ جیب میں لے کر گھوم رہا تھا؟ یا حالات کے تغیر نے اس کے اندر بردباری پیدا کردی؟ اور اس نے خاموشی اوڑھ لی۔ جیسے ایک ہارا ہوا شخص چپ سادھ لیتا ہے۔ یعنی اسے خدا سے شکست ہوئی اور بالآخر اس نے جس کو خود سے دور کردینے کی کوشش کی تھی وہی مشکل وقت میں اس کے کام آیا۔ ”بے شمار صفحات“ اس کے زندگی کے لمحات ہیں۔ جو اسی خدا کا عطیہ ہے، وہ سنبھل نہیں پارہا ہے۔ ادھر ادھر بکھر جارہا ہے۔ بالآخر ان صفحات پر وہی خدا اپنی پوری طاقت سے غالب آجاتا ہے۔ اور اس کے لیے محترم بھی بن جاتا ہے۔ افسانے کے اختتام کا اس کے آغاز سے تقابل کریں تو افسانے کی معنویت، اس میں بیان کردہ زندگی کا فلسفہ اور وقت کی طاقت کا احساس ہوتا ہے۔
افسانہ نگار نے ایک بڑے خیال کو ایک مختصر کہانی میں اس طرح سمویا ہے کہ ہر لفظ اپنی جگہ با معنی ہوگیا ہے۔ نثر کا ارتکاز اور بیان کا حسن ہمیں افسانے کی گہری معنویت کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایسا افسانہ کوئی معمولی کہانی کار نہیں لکھ سکتا۔ کیوں کہ ایسے افسانے کی تخلیق ذہن کی کشادگی کے ساتھ فکر و فن میں مہارت سے ہوتی ہے۔ احسان قاسمی کا فکر و فن بلند و ارفع ہے۔ مذکورہ افسانوں کے ساتھ ان کے افسانہ ”موترالیم“ کا خصوصی ذکر بھی ضروری ہے۔ یہ اپنے انوکھے پن اور ندرت خیال کی وجہ سے ان کے بہترین افسانوں میں شامل ہے۔
میں انھیں اس مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ خدا انھیں صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے تاکہ وہ اردو افسانے کو ایسے ہی عمدہ افسانے دیتے رہیں۔
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش : کتاب: اوراق پارینہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے