(شعری مجموعہ "یونہی" کے تناظر میں )
مضمون نگار: سجاد نقوی
(سیالکوٹ ،پاکستان)
معاصر اردو شاعری کے افق پر ادریس بابر کی شاعری اپنے منفرد انداز میں جگمگا رہی ہے۔ ادریس بابر کی شاعری جدید لب و لہجہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ معاصر اردو شاعری میں معیاری اور اہم مقام رکھتے ہیں۔ شعری تصانیف میں غزلوں کا مجموعہ "یونہی" 2012 میں شایع ہوا، جسے فیض احمد فیض ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ 2022 میں ان کی نظموں کا مجموعہ "عشرے" شایع ہوا۔
بابر کی شاعری جدید انسان کے معاملات و مسائل کا اظہاریہ ہے۔ ان کی شعری کائنات جہاں سیاسی چپقلش اور سماجی کشمکش کی آئینہ دار ہے وہیں رومانوی جذبات و احساسات کی بھی بھرپور ترجمان ہے۔ ادریس بابر روایتی اور جدید استعاروں کے پردے میں جداگانہ خیالات سے اپنی شاعری کو مزین کرتے ہیں۔
عہدِ جدید جس میں ہم سانس لے رہے ہیں بلا شبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا عہد ہے۔ ہم جس سمت نگاہ کریں ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی سے مملو اشیا دکھائی دیں گی۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیاں اپنے جوبن پر ہیں اور جس برق رفتاری سے ایجادات و اختراعات اور دریافتیں سامنے آرہی ہیں انسانی آنکھ محو حیرت ہے کہ مستقبل میں دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک، سائنس کا کوئی بھی شعبہ ہو وہ افادیت کے حصول کے لیے بہتر سے بہتر کی جستجو میں منہمک ہیں۔ سائنس نے انسانی سماج اور تہذیب پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ اس نے اپنی رنگینیوں سے انسان کو بے حد متاثر کیا اور انسان کے خارجی و داخلی خیالات میں تبدیلی پیدا کی۔ سوچنے کی صلاحیت کو سائنسی انداز فکر سے معمور کیا۔ اسی سائنسی انداز فکر کا رنگ ادریس بابر کے ہاں بھی محسوس ہوتا ہے۔ ادریس بابر کے شعری مجموعہ "یونہی" (غزلیں) کو غائر نظر دیکھا جائے تو ان کی شعری کہکشاں سے سائنسی عناصر کی صدائے بازگشت محسوس ہوتی ہے۔ جو روایتی اور جدید سائنسی موضوعات کا حسین امتزاج ہے۔ یہاں پر چند شعری مثالوں کے ساتھ سائنسی تعبیر کی صورت میں راقم الحروف کا تجزیہ ملاحظہ ہو۔
رات کے آسمان پر نگاہ کریں تو ہمیں ستاروں کا ایک حسین اور متنوع جہانِ حیرت نظر آتا ہے۔ ہر عام و خاص کے لیے یہ منظر بہت دل فریب اور جاذب نظر ہوتا ہے۔ مگر کچھ دقیق النظر اذہان کے لیے یہ منظر انگشتِ بہ دنداں ہوتا ہے کہ آخر یہ سب ستارے کہاں سے آئے کیسے بنے اور کیا ہمیشہ سے ایسے ہی موجود ہیں؟ متجسس ذہنوں کو ایسے کئی سوال شش و پنج میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ مگر اپنے تجسس کی بدولت اور جدید سائنس و ٹیکنالوجیز کے سبب ان سب سوالوں کے جوابات تک انسان نے رسائی حاصل کرلی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق ستارے در اصل گرم گیسوں کے بڑے بڑے گولے ہوتے ہیں جو زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم ذرات پر مشمتل ہوتے ہیں۔ قوت تجاذب ان گیسوں کو گولے میں مقید رکھتی ہے۔ بگ بینگ کے نتیجے میں ہائیڈروجن اور ہیلیم کے جو عنصر وجود میں آئے وہ اپنے ارتقائی سفر میں ستارے کی صورت تشکیل ہوئے اور کیمائی تعامل کے سبب روشنی خارج کرتے ہیں، اسی وجہ سے ستارے روشن دکھائی دیتے ہیں۔ ستاروں کو دیکھیں تو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ ازل سے ایسے ہی ٹمٹارہے ہیں اور ایسے ہی غیر متغیر قائم دائم ہیں۔ لیکن ایک ماہر فلکیات ہرشیل نے ثابت کیا کہ:
"ستارے غیر متغیر اجرام فلکی نہیں ہیں بلکہ ان کا ایک دورانیہ حیات ہوتا ہے۔ یہ پیدا ہوتے ہیں، مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور بالآخر بوڑھے ہوکر مردہ (راکھ) ہوجاتے ہیں." (1)
ستاروں کے راکھ ہونے اور ان کے خلا میں پھیل جانے کی اس سائنسی حقیقت کو ادریس بابر کے شعری پیکر میں دیکھا جا سکتا ہے:
سکوں محال گردشوں میں راکھ تارے
خلاوں میں حضر کے بیج بو چکے ہیں(2)
ستارے ٹوٹتے دیکھوں تو جی بہل جائے
کہ بس مجھے ہی نہیں رائیگاں بنایا گیا(3)
نظر میں کئی بجھتے ہوئے ستاروں کی
مرا غبار جو آئندہ روشنی ہوگا(4)
درج بالا اشعار خصوصاً دوسرا شعر انسان سمیت دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا اشارندہ ہے۔ جہاں ہر شے رائیگاں ہے وہاں ستارے کو بجھتے دیکھ کر انسان مطمئن رہتا ہے کہ ہر شے کو ختم ہونا ہے۔ تیسرا شعر بھی ایک فلکیاتی سچ ہے کیوں کہ ستاروں کی تباہ شدہ باقیات کا کچھ حصہ دوسرے ستاروں کے مادے سے اشتراک کر کے دوبارہ روشنی بکھیرنے لگتا ہے۔ کارل سیگن نے کہا تھا "ہم ستاروں کے خام مادے سے وجود میں آئے ہیں" (5) ان اشعار میں ادریس بابر کا ستارے یا ستارے کے غبار کو انسان کے لیے بہ طور استعارہ یا تشبیہ برتنا ایک سائنسی صداقت ہے۔ کیوں کہ ہمارے جسم میں موجود جو عناصر ہیں جیسے کہ کاربن، آکسجن، نائٹروجن، آئرن وغیرہ یہ سب ستاروں کے مرکز میں تیار ہوئے ہیں۔ جو زندگی کے وجود (روشنی) کے لیے لازمی ہیں۔ اردو شاعری میں فلکیات کے یہ موضوعات روایتی ہیں مگر ادریس بابر نے انھیں منفرد انداز سے عبارت کیا ہے۔
ماحولیاتی نظام میں توانائی کے حصول کے لیے ہر جان دار دوسرے جان دار پر انحصار کرتا ہے۔ جس میں وہ موجود جان دار کا شکار کر کے اسے کھاتا ہے اور بعد میں خود بھی کسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے توانائی کے حصول اور بہاؤ کو ماحولیاتی نظام کی اصطلاح میں غذائی سلسلہ (فوڈ چین) کہا جاتا ہے۔ یہ جان داروں کے درمیاں توانائی کے بہاو اور ان کے غذائی سلسلے کی وضاحت کرتا ہے۔ فوڈ چین کی ایک مثال دیکھیے کہ کسی سبزا زار کے گھاس کو ایک ٹڈا کھاتا ہے، اس ٹڈے کو مینڈک، مینڈک کو سانپ اور سانپ کو عقاب کھاتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ غذائی سلسلے سے ہٹ کر ایک غذائی جال کی صورت بھی اختیار کرتے ہیں جسے فوڈ ویب کہا جاتا ہے۔ اس میں بغیر ترتیب کے کوئی جان دار اپنے مزاج کے کسی بھی جان دار کا شکار لیتا ہے۔ ادریس بابر نے کس قدر عمدگی سے مذکورہ اصطلاحات کی سائنسی و فطری حقیقت کو انسانی سماجیات سے انسلاک کیا ہے۔
خوشی کی بات نہیں طائر و ثمر کہ تمھیں
جو کھارہے ہیں انھیں کھا رہا ہے اور کوئی(6)
جن طائر و ثمر کو آج کوئی کھا رہا ہے کل وہ خود بھی کسی کی خوراک بنیں گے۔ یہ شعر علامتی رنگ میں استحصال کرنے والوں کے لیے ایک منفرد انداز میں مکافات عمل کا اشارہ دیتا ہے اور مستحصل افراد کو فطری انصاف پروری کا حوصلہ دے کر مطمئن رکھتا ہے۔
علم نباتات میں پودوں کا ایک ایسا غیر جنسی عمل جس میں تنے، جڑ یا پتے سے نئے پودے حاصل کیے جائیں؛ پودوں کی اشاعت یا اصطلاح میں ویجیٹیٹو پروپیگیشن کہلاتا ہے۔ مالی یا کسان ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ مطلوبہ پودے یا پھل وافر مقدار میں حاصل کر سکیں۔ یہ عمل قدرتی اور مصنوعی دونوں طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ مصنوعی عمل میں یہ قلم کاری اور پیوندکاری کے نام سے مقبول ہیں۔ قلم کاری میں کسی پودے کی جڑ یا تنے کی قلم لے کر اسے مناسب اور سازگار ماحول کی حامل مٹی میں لگایا جاتا ہے اور کچھ ہی عرصے کے بعد اس پودے کی نشوونما شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ پیوندکاری میں پودے سے شاخ کاٹ کر اسے میزبان پودے کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور دونوں کے خلیے جب آپس میں مل جاتے ہیں تو نشوونما شروع ہوجاتی ہے۔
کھل اٹھے گی نظم، جیسے اک پھول
اگ آئی ہے شاخ بھی تو کٹ کر(7)
یہ شعر پودوں کی اشاعت یعنی ویجیٹیو پروپیگیشن کے عمل کو نشان زد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جس میں رعایت لفظی حسن پیدا کر دیتی ہے۔ بسا اوقات شعرا و ادبا کسی ذہنی خلش کے سبب کچھ وقت کے لیے لکھنے کی صلاحیت سے کٹ جاتے ہیں جسے انگریزی میں رائٹرز بلاک کہتے ہیں۔ مذکورہ شعر پر ایسے شعرا و ادبا کے لیے نظم کے کھلنے اور شاخ کے کٹ کر اگ آنے کی رعایت سے یہ شعر حوصلہ بخش احساسات کی نمائندگی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
شعبہ طب سائنس اور ٹیکنالوجیز کے سہارے بہتر سے بہتر علاج فراہم کرنے کی ترقیوں میں مصروف عمل ہے۔اس نے بیماری کی تشخیص کے لیے طرح طرح کی سہولیات دریافت کیں۔ جن میں سے ایک طبی عکس تکنیک ہے۔ اس میں لا شعاعوں (ایکس ریز) کے ذریعے انسانی جسم کی ہڈیوں کی ساخت اور اندرونی کیفیات دیکھی جاتی ہیں۔ کیوں کہ یہ شعاعیں گوشت پوست سے گزر جاتی ہیں، جب کہ ٹھوس خلیات جیسے کہ ہڈیوں سے گزر نہیں سکتیں اور اس طرح اندرونی نقص کو عکس کی صورت واضح کرتی ہیں۔ ان کرنوں (ایکس ریز) کے سبب ہڈیوں کے ٹوٹ یا تڑخ جانے کا، معدے یا سینے کی ہڈیوں وغیرہ میں پھنسی شے کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ یہ شعاعیں بہت سوں کو ایک عجب ذہنی خوف میں مبتلا بھی کرتی ہیں.
بہ قول شاعر:
یہ کرن کہیں مرے دل میں آگ لگا نہ دے
یہ معائنہ مجھے سرسری نہیں لگ رہا(8)
ادریس بابر نے مذکورہ شعر میں ان کرنوں کے سبب پیدا ہونے والے نفسیاتی خوف کو نشان زد کیا ہے جو کسی بھی مریض کے ذہن میں کھٹکتا ہے۔ کیوں کہ یہ شعاعیں غیر معمولی شعاعیں ہیں جو زیادہ دیر جسم پر رہیں تو کینسر لاحق ہوسکتا ہے۔
ادریس بابر کی غزلوں میں جدید اور مستقبل (سائنس فکشن) میں ہونے والی سائنسی ترقیوں کے اشارات بھی ملتے ہیں۔ پودے سایہ کرتے ہیں یہ تذکرہ تو ہمیں شاعری میں ملتا ہے مگر پودے اور درخت سایہ کے ساتھ ساتھ روشنی بھی پیدا کرنے لگے ہیں۔
پہلے سایہ کرتے رہے اب روشنی کر سکتے ہیں
ہم سے بہتر تو یہ اشجار بنائے گئے تھے(9)
جدید سائنسی تحقیق (10) کے مطابق ایسے پودے سامنے آچکے ہیں جنھیں کیمیائی تبدیلی کے ساتھ روشن کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ماہرین خاص کیمائی مادہ لیوسیفیروز کا استعمال کرتے ہیں جو روشنی خارج کرتا ہے۔ یہی وہ حیاتیاتی کیمیائی مادہ ہوتا ہے جس کے سبب جگنو کے جسم سے روشنی خارج ہوتی ہے۔
سائنس کے جہاں ان گنت فوائد ہیں وہیں اپنے ناجائز مقصد کے تحت لوگوں نے اس کا غلط استعمال بھی کیا ہے اور تا حال کر رہے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں روح فرسا ایجاد ایٹم بم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ دور تلوار، نیزے بازی اور تیر اندازی کا نہیں بلکہ ایٹمی قوت کا دور ہے جس میں کئی ممالک کے پاس ایٹمی بم اور ہتھیار ہیں. ایٹمی بم کے تجربات انسانیت کے لیے قیامت سے پہلے قیامت ہیں۔ ایٹم بم جب پھٹتے ہیں تو ان سے بہ کثرت توانائی خارج ہوتی ہے۔ جس سے گرد و پیش کا درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ہر شے پگھل سکتی ہے۔ یہ عمل آنکھ جھپکتے ہوتا ہے۔ اس خارج ہونے والے توانائی، دھواں اور کچھ مخصوص شعاعیں ہر شے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ شعاعیں انسان کے کروموسومز پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ کرموسومز دراصل وراثتی خصوصیات کو ایک نسل سے دوسری نسلوں میں منتقل کرتے ہیں۔ ان ایٹمی شعاعوں کے سبب انسانی کروموسومز میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور آیندہ انسان کی نسلیں اپاہج پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارے سامنے ہیروشیما اور ناگاساکی اس کرب کی واضح مثالیں ہیں جو ایٹمی توانائی میں دھواں دھواں ہوگیا۔ جہاں انسان، جمادات، نباتات، حیوانات اور نسلی خصائص سب جنگ کی نذر ہوگیا۔ ادریس بابر کے کلام میں جنگی حالات اور اس کے اندوہ ناک نتائج کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔
جنگ چھڑی تو اب کی بار کوئی نہ بچ کے جاسکا
پیڑ جو تھے بچے کھچے، گھاس جو تھی رہی سہی(11)
المختصر ادریس بابر کی غزلوں کا مجموعہ "یونہی" اپنی شعریات میں جہاں ادبی لطائف رکھتا ہے وہیں سائنسی جمالیات اور سائنسی شعور کی طرف اشارات کا نمائندہ بھی ہے۔
حوالے
1-محمد ارشد رازی (مترجم) ،سائنسی نظریہ تخلیقِ کائنات، لاہور: مشتاق بک کارنر، 2015، ص:11/12
2-بابر، ادریس،یونہی، لاہور:کاروانِ بک ہاوس، 2012، ص: 18
3-ایضاً،ص:67
4-ایضاً،ص:66
5-اhttps://www.livescience.com/32828-humans-really-made-stars.html
6-بابر، ادریس، یونہی، ایضاً، ص:68
7-ایضاً،ص:41
8-ایضاً،ص:92
9-ایضاً،ص:84
10-اhttps://amp.dw.com/ur/%D9%85%
11-بابر، ادریس، یونہی، ایضاً، ص:16
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:کتابوں کی مہک، نشہ اور سائنس

ادریس بابر کی شاعری میں سائنسی شعور
شیئر کیجیے