ڈاکٹر اسود گوہر
اسسٹنٹ پروفیسر، ایم۔جی۔ایم یونی ورسٹی
اورنگ آباد، مہاراشٹر
ناول ”لفظوں کا لہو“ میں جہاں صحافت کی آڑ میں ہورہی سیاست کو بے نقاب کیا گیا ہے وہیں ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کو دوبارہ کس طرح باندھا جائے اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ چند چھوٹے چھوٹے قصوں کو بھی ناول نگار نے اس طرح پیوست کیا ہے کہ سماج و معاشرے میں ہورہی ناانصافی بھی قاری کے ذہن میں ہلچل مچادیتی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ سب تو ہم آئے دن دیکھ رہے ہیں پڑھ رہے ہیں سن رہے ہیں لیکن اس پر قلم اٹھانے کی ہمت کسی نے نہ کی۔ نوجوان قلم کار سلمان عبد الصمد ریسرچ اسکالر ہیں [جس وقت یہ تحریر لکھی گئی وہ ریسرچ اسکالر تھے. اشتراک] لیکن ان کا نہ صرف مطالعہ وسیع ہے بلکہ معاشرے پر ان کی نظر بہت گہری ہے۔ ناول کے پلاٹ میں صحافت میں ہورہے یک رخے پن و بھونڈی سیاست پر میڈیا کے رخ کو جس طرح انھوں پیش کیا ہے اسے کوئی تجربہ کار، جہاں دیدہ شخص ہی لکھ سکتا تھا مگر اسے سلمان عبد الصمد نے صفحۂ قرطاس پر اس طرح سجایا کہ ناول کے نہ صرف موضوع بلکہ ناول میں چھائی نفسیاتی کیفیت، انسانی رشتوں کی ہمہ جہتی بھی قاری سے داد و تحسین طلب کرتی نظر آتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
”لفظوں کا لہو پینے والی صحافتی گائے اور بھینس کے رمبھانے کی آواز سے اس کا جینا مشکل ہو گیا۔ یہی وہ دور تھا، جب اخبارات کے سینوں کی پسلیاں چر مرانے لگیں۔ چینلوں پر جاری خبروں کے ساتھ چلنے والی میوزک میں انسانی کراہ شامل ہوگئی تھی۔ ٹی وی چینلوں کے موٹناژ میں تہذیب و صداقت پر ہتھوڑے برسائے جارہے تھے۔ ان سب آوازوں نے مل کر، ناقابل فہم حد تک وحشت ناک فضا قائم کر دی تھی۔ اس لیے وہ خوف زدہ تھا۔۔۔“(لفظوں کا لہو از سلمان عبد الصمد ص ۱۰)
یہ کہانی تھی جو ناول نگار کو اکسا رہی تھی کہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو، جو کچھ تم محسوس کر رہے ہو اسے لکھو۔ آگے قدم رکھو باقی کہانیاں تمھیں خود بہ خود ملک اور سیاست کی کوکھ سے مل جائیں گی۔محسن اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ اس کا تعلق شمالی بہار سے ہے جو پیشے سے جرنلسٹ ہے۔ اسے بچپن سے کچھ الگ کرنے کی چاہ تھی۔ اس کے گاؤں میں یہ چلن عام تھا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر کچھ خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی اور جب بچہ اٹھارہ سال کا ہوجائے تو والدین انھیں کمانے کی خاطر بیرون ممالک بھیج دیتے تھے۔ محسن نے عام روش سے ہٹ کر اپنے لیے راہ نکالی اور سب سے پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنے پر توجہ دی جو بہت مشکل مرحلہ تھا کیونکہ وہ اپنے بہنوں اور بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور اخراجات اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ و ہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ وہ دہلی چلا آتا ہے مختلف کام کرنے کے بعد اسے ایک پبلشنگ ہاؤس میں کام مل جاتا ہے۔ دہلی میں جس تیزی کے ساتھ سیاسی حالات بدلتے ہیں اس سے پبلشنگ ہاؤس کے مالک اکمل خان کا کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے اور وہ صحافت کے میدان میں قدم رکھتا ہے۔ اپنے اخبار ”دائمی پرواز“ کے لیے اکمل خان جس طرح امیدواروں کو منتخب کرتا ہے وہ بات محسن کے ذہن میں کئی سوالات پیدا کرتی ہیں۔
اپنے اخبار کو بلندی پر لے جانے کے لیے اکمل خان جائز اور ناجائز طریقوں سے کام لیتا ہے جس کی وجہ سے اس کی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں اور یوں محسن پر اخبار کی ساری ذمہ داریاں آجاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ اکمل خان قائدوں کی صف میں پہنچ جاتا ہے۔ یہاں ناول نگار نے صحافیوں یا اخباروں کے ایڈیٹروں پر گہرا طنز کیا ہے کہ وہ کس طرح اپوزیشن اور رولر پارٹی دونوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں. غور کیجیے:
”کبھی کبھی محسن کو لگتا تھا کہ خبروں سے تضاد پیدا ہو رہا ہے۔ ایک ہی صفحہ پر دو دو پارٹیوں کی ’انتہائی مثبت‘خبریں چھپ رہی ہیں۔ جنھیں اگر قارئین غور سے پڑھیں تو اکمل خان کا پورا وجود سامنے آجائے، بلکہ تمام چہرے عیاں ہو جائیں۔(لفظوں کا لہو از سلمان عبد الصمد ص ٩٤)
سیاسی گہماگمی کے ماحول میں اکمل خان کا اخبار ’دائمی پرواز‘ خوب شہرت بٹور لیتا ہے اور محسن، اکمل خان کی دوستی کے ہاتھوں مجبور نہ پوری طرح صحافی ہی بن پاتا ہے اور نہ اس کا ملازم۔ بس وہ ایک بے دام غلام کی طرح اکمل خان کا ساتھ دیے چلا جاتا ہے جس پر اس کی بیوی نائلہ اس سے باز پرس کرتی ہے اس کی سرزنش کرتی ہے اسے آئینہ دکھاتی ہے۔
محسن کی بیوی نائلہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہے جو نہ صرف اپنے شوہر کی ہر تحریر کو پڑھتی ہے بلکہ ان سے اختلاف ہونے پر اس سے بحث بھی کر تی ہے۔ محسن کی تحریر کردہ کہانیوں کے ذریعے مصنف نے صحافتی زندگی میں ہو رہی اتھل پتھل کو بھی دکھانے کی کوشش کی ہے. مثلاً محسن کی ا یک کہانی ”جمہوریت کے چوتھے ستون کی کھجلی“ میں یہ بتایا گیا ہے کہ صحافی کہلانے کے شوق میں صوفیہ کس طرح تمیم اور انس کو استعمال کرتی ہے۔ مضمون کبھی انس لکھتا ہے کبھی تمیم اور وہ صوفیہ کے نام اور فوٹو کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ اس کہانی پر نائلہ، محسن سے بحث بھی کرتی ہے کہ وہ لڑکیوں کی شبیہ بگاڑ کر پیش کر رہا ہے۔ مگر جوں جوں صحافتی دنیا کو قریب سے جاننے لگتی ہے اسے سمجھ میں آجاتا ہے کہ آج کی دنیا کی حقیقت کیا ہے۔
اسی طرح کی ایک اور کہانی میں محسن ایک صحافی فیضی کی کہانی بیان کرتا ہے کہ فیضی بے روزگاری سے پریشان رہتا ہے کہ ایک فرشتہ صفت آدمی اسے ایک کام دلادیتے ہیں یعنی تحریریں فیضی کی اور نام باس کا جس کے لیے اسے معقول پیسہ دیا جاتاہے. کام کے بوجھ کی وہ تاب نہیں لاپاتا اور لا پتہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے ایک اوربے نام لڑکے کی تحریر کردہ کہانی پیش کی ہے جسے پڑھ کر نائلہ، محسن کو عار دلاتی ہے کہ آج صحافت کی لوگوں کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے. وہ سمجھتے ہیں کہ چند میٹھے بول اور چند ٹکڑے میں کسی بھی صحافی کو خریدا جا سکتا ہے۔
شعور اور لا شعور کا سفر طے کرتا ناول ”لفظوں کا لہو“ کبھی محسن کی زندگی کی گزری گھڑیاں سامنے لاتا ہے کبھی حال بیان کرتا ہے۔ محسن اپنی دونوں بیویوں زنیرا اور نائلہ کو دہلی میں ہی چھوڑ کر ملازمت کے لیے سعودی چلا جاتا ہے۔ یہاں مصنف نے اس بات کی تفصیل نہیں بتائی کہ اکمل خان کو محسن نے کس طرح چھوڑا؟ یا وہ سعودی کس ذریعے سے گیا؟ زنیرا، محسن کی پہلی بیوی ہے جو اس کے ماں باپ کی پسند ہے اور اس سے محسن کو کوئی اولاد نہیں ہے جب کہ نائلہ طلاق شدہ ہے جس سے محسن نے اپنے گھر والوں کے خلاف شادی رچا لی ہے۔ زنیرا اور نائلہ بچپن کی سہیلیاں بھی ہیں اور رشتہ دار بھی۔ بچپن میں نائلہ کی منگنی محسن سے طے ہوتی ہے اور محسن کی بہن سے نائلہ کے بھائی کے ساتھ۔ لیکن نائلہ کا بھائی اس رشتہ سے انکار کر دیتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی اور ہے جس کا اثر نائلہ اور محسن کے رشتہ پر بھی پڑتا ہے اور ان کا رشتہ بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح زنیرا محسن کے گھر آجاتی ہے اور نائلہ کی کہیں اور شادی ہو جاتی ہے۔ کچھ وجوہات کی بنا پر نائلہ کا طلاق ہو جاتا ہے اور محسن اس سے شادی کر لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے محسن کے اپنے گھر والوں سے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔
محسن کے سعودی جانے کے بعد دونوں عورتیں گھر میں ایک ساتھ رہنے لگتی ہیں جس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں کے دلوں میں جو دراڑپیدا ہوگئی تھی وہ ایک دوسرے پر زہر اگل کر خود کو تسکین پہچانے لگتی ہیں. رفتہ رفتہ ان کی نفرت کم ہو نے لگتی ہے اور وہ دوبارہ دوست بن جاتی ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے نائلہ، محسن سے جڑی رہتی لیکن گھر میں جاری توتو میں میں اور بوریت کے سبب نائلہ نوکری کرنے کی ٹھان لیتی ہے اور چاہتی ہے کہ صحافت میں قدم رکھے. یہ بات محسن کو پسند نہیں آتی۔ کیوں کہ صحافت کے معاملات اس کی نظروں کے سامنے کھلے ہوتے ہیں۔
نائلہ ڈاکٹر رستوگی کے ہاسپٹل میں نوکری کر لیتی ہے جہاں اس کی دوستی نیلا سے ہوتی ہے۔ نیلا کے ساتھ نائلہ کی مباحث کے ذریعے ناول نگار نے عورتوں کے مسائل، سماج و معاشرے پر فلسفیانہ اساس کے نشتر اس طرح چبھوئے ہیں کہ قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نیلا ایک بیوہ عورت ہے جو نائلہ کی باتوں سے متاثر ہوجاتی ہے اور کچھ کرنے کی چاہ میں صحافت میں قدم رکھتی ہے. یہاں اس کی حفاظت کا ذمہ اس کا شوہر عبید اٹھاتا ہے جس سے نیلا اپنے گھر والوں، رشتہ داروں کے خلاف جاکر بلافرق مذہب و ملّت شادی کر لیتی ہے۔ اتنا ہی نہیں صحافی بنتے ہی سب سے پہلے وہ اپنے باس کو قابو میں لے کر ڈاکٹر رستوگی اور ڈاکٹر پی۔این پانڈے کی بیہودہ کرتوت کو پولس کی مدد کے ذریعے بے نقاب کرتی ہے اور گرفتار کرواتی ہے۔ اس کے بعد ”پرواز“ کے ایڈیٹر اکمل خان کا پردہ فاش کرتے ہوئے نیلا اپنے قدم مزید مضبوط کرنے لگتی ہے۔
محسن کی واپسی سے پہلے نائلہ ایک بچے کو جنم دیتی ہے اور اسے زنیرا کی جھولی میں ڈال دیتی ہے اور وعدہ لیتی ہے کہ اس بات کا ذکر کبھی کسی سے نہیں کرے گی کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہے۔ محسن کی واپسی پر وہ لوگ اپنے گاؤں جاتے ہیں۔ جہاں ان کے گاؤں کے آس پاس کے گاؤں قدرتی آفت کی زد میں آکر تباہ ہو گئے تھے۔ نائلہ سوچتی ہے کہ کیا صحافت صرف تیس فی صد شہری علاقوں سے ہی جڑے رہنے کانام ہے؟ ستر فی صد دیہی علاقوں کے کیا کوئی مسائل نہیں ہیں۔ انھیں بھی تو منظر عام ہر لانے کی ضرورت ہے لہذا نائلہ، محسن، نیلا اور عبید کے ساتھ مل کر دور دراز علاقوں میں پھیلی بدعنوانی کے خلاف اعلان جنگ کر دیتی ہے جس کی وجہ سے انھیں نہ صرف دھمکیاں ملتی ہیں بلکہ عبید اور نیلا کے رشتہ پر بھی گھر واپسی کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ نیلا ان سب حالات کو نہایت خوب صورتی سے حل کرتی ہے۔ ان ہی حالات کے چلتے نائلہ ایک بڑے مجمع سے خطاب کرنے کے بعد صحافیوں کو انٹرویو دیتی ہے اور خود سے سوال کرتی ہے کہ کیا مجھے صحافی کہلانے کا حق ہے؟ نہ میں نے کبھی کوئی رپورٹ لکھی اور نہ آرٹیکل۔ تو میں صحافی کس طرح ہو گئی۔ناول کے اختتام پر یہ سوالات نائلہ کے ضمیر کی آواز ہے۔جو قاری کو بھی جھنجھوڑتے ہے کہ خطاب کرنے والا ہر شخص قوم کا سچا ہم درد نہیں ہوتا۔ قوم کو سمجھنا چاہیے اور کھرے کھوٹے میں فرق کرنا سیکھنا چاہیے۔
ناول ”لفظوں کا لہو“ ایک ایسے عہد کی تخلیق ہے جس میں بے اطمنانی، صارفیت، میڈیا کلچر اور گلوبلائزئشن کے اثرات واضح ہیں۔ سلمان عبد الصمد نے شعور یا لاشعوری طور پر اس ناول میں اس عہد کے بہت سے ایسے مسائل کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جن پر باضابطہ تخلیقی ادب میں بہت کم توجہ دی گئی۔صحافتی استحصال، صارفیت کی کرب ناکی اور رشتوں کی ناقدری کا جو منظر نامہ ہے، اسے پڑھنے کے بعد حساس دل رکھنے والا فرد آب دیدہ ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس ناول میں ایک ایسی کائنات بھی ابھرتی ہے جس پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جا سکتا ہے۔ منفرد طرزِ ادا سے لکھا گیا یہ ناول اپنے موضوع و مزاج کے لحاظ سے اپنی ایک انفرادیت رکھتاہے۔ گہرائی و گیرائی کو سمیٹے ہوئے اس ناول میں بہت سارے مسائل ہیں جن کا تعلق ہماری زندگی سے براہِ راست جڑاہے۔ ناول نگار نے زندگی کے فلسفے کو منضبط پلاٹ میں اس خوبی سے ڈھالا کہ ہر واقعہ ایک دوسرے میں اس طرح پیوست ہو گیا جیسے وہ اسی واقعہ کی کڑی ہو۔ ناول کے کردار، کرداروں کی نفسیات کو ناول نگار نے بڑی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ناول کا کوئی کردار غیر ضروری محسوس نہیں ہوتا اور نہ پس منظر غیر فطری محسوس ہوتا ہے۔ ناول کے مکالمے نہ صرف فطری ہیں بلکہ ان مکالموں نے کہیں کہیں بہت اہم سوالات بھی قائم کئے ہیں۔ فنی اور فکری جہت کی بنیاد پر اس ناول کا شمار ایک انقلابی ناول کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔جس طرح ناول میں ما بعد جدید عہد بڑے ہی پرتپاک انداز میں سانس لے رہا ہے، اسی طرح اس ناول کی زبان و بیان میں ایک جدت نظر آتی ہے۔چاہے وہ شہری پس منظر ہو یا دیہی۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : صفدری قلم کی تصویریں: "جانے پہچانے لوگ"از سلمان عبدالصمد