تاریک مستقبل

تاریک مستقبل

سید مصطفیٰ احمد
رابطہ:حاجی باغ، زینہ کوٹ ، سرینگر، جموں و کشمیر، انڈیا

اپنی دسویں جماعت میں ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ لیکن آج مجھے یہ احساس ہورہا ہے کہ بچے مستقبل ہی نہیں، بلکہ ماضی اور حال بھی ہوتے ہیں۔ مگر اپنے ارد گرد جب میں نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے صرف تباہی نظر آتی ہے۔ میں آنے والے کل کو ان کاموں میں ملوث پاتا دیکھ کر سوچتا ہوں کہ جن کاموں میں یہ بچے ملوث ہیں، ان سے تو ان کا دور کا بھی واسط نہیں ہے۔ میں ایک طالب علم اور ایک نجی کوچنگ سنٹر میں پڑھاتا ہوں، جہاں میں بچوں کو زیادہ قریب سے جانتا ہوں اور جاننے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔ میں حیران ہو جاتا ہوں کہ بچوں کا مشغلہ وہ ہے جو صرف تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ خاص کر میں مسمان بچوں کو دیکھ کر حیران ہوجاتا ہوں، کیونکہ ان کے سامنے تو مستقبل کے بارے میں زیادہ احساس پایا جاتا ہے۔ تو ایسے میں ایک ذی شعور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آخر یہ ہمارا مستقبل کس مقصد کے لیے ہے اور وہ اصل میں کیا کر رہے ہیں۔ مگر اس صورت حال کے پیچھے بہت ساری وجوہات اور غلطیوں کا عمل دخل ہے۔
غلطی یا غلطیاں جو ہم نے کی ہیں، وہ ایک دن کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ صدیوں سے چلی آرہی خباثت ہے، جس نے اب اپنے گندے پر کھولنے شروع کر دیے ہیں۔ آنے والی سطروں میں ہم ان وجوہات کا ذکر کریں گے جن کی وجہ سے ہمارا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔
پہلا ہے مذہب سے دوری۔ ہر مذہب میں دنیا کی زیادہ محبت کو گناہوں کی جڑ کہا گیا ہے۔ مگر ہم نے اس کے برعکس یہ کیا کہ مذہب کو طاق پر رکھ کے دنیا کی لذتوں میں ایسا کھو گئے کہ ہمیں نہ تو اپنی فکر رہی اور نہ آنے والے کل کی۔ ایک بچہ جب اپنے باپ کو دنیا کے ہنگاموں میں ایسا مگن دیکھتا ہے کہ اسے آنے والی تلخ حقیقت کا کوئی اندازہ بھی نہیں ہے، تو بچہ بھی یہی رویہ اختیار کر لیتا ہے۔ باپ نے تو دین کو دنیاوی مفاد کے لیے استعمال کر رکھا ہے تو ایسے میں بچہ بھی اپنی فیملی کا اثر لے کر اس دوڑ میں لگتا ہے کہ جتنا کمایا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ اقدار سے انسان مفلس اور بے عزت ہوجاتا ہے، تو ایسے میں اقدار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس زندگی کا جتنا فائدہ اٹھایا جاسکے، اتنا ٹھیک ہے اور آنے والے کل کی فکر ذہن کے پچھلے حصے میں چلی جاتی ہے۔
دوسرا ہے ہمارا نظام تعلیم۔ تعلیم کسی بھی قوم کے لیے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہوسکتی۔ ہم اس معاملے میں کہیں بھی نہیں پہچانے جاتے۔ ہمارے یہاں جو تعلیمی نظام ہے وہ صدیوں پرانا ہے۔ دوسری بات وہ کلاس روم کی زندگی میں، حتیٰ کہ کلاس کے ماحول کے موافق بھی نہیں ہے، سماج کے موافق ہونا تو بڑی بات ہے۔ بچے جو پڑھتے اور پڑھاۓ جاتے ہیں، اس کا اصلی زندگی میں کہیں چلن بھی نہیں ہے۔ جو چیزیں انسان کو انسان بناتی ہیں، جب وہیں چیزیں تعلیمی اداروں میں فراموش کی جاتی ہیں، تو اس کا بہ راہ راست اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ ایسے بچے کسی بھی لحاظ سے طالب علموں کے زمرے میں نہیں آتے۔ اس کے علاوہ یہ پاک نظام بھی مادیت کا شکار ہوگیا ہے۔ ہر مذہب میں مادیت سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے، مگر ہم نے اس چیز کو اسی نظام میں داخل کردیا جو انسانوں کا تیار کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے۔
تیسرا ہے دوسروں کی نقالی۔ ہر سماج کے فرد الگ ہوتے ہیں۔ ان کا سماجی نظام، سیاسی نظام، اقتصادی نظام، وغیرہ الگ ہوتے ہیں۔ ان کے زندگی کے مقاصد بھی الگ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا بھی کوئی مقصد ہے، جو ان سے میل کھاتا ہو یا ان کے خلاف ہو۔ وہ لوگ تو اپنے مقاصد کے لیے جیتے ہیں، مگر ہم کس کے لیے جیتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کی طرح بننا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی سنگیت کار بننا چاہتا ہے، تو یہ اس کا شوق ہے، مگر میرا شوق تو کچھ اور ہے۔ اس سے کیا ہوتا ہے ہماری زندگیاں ہماری نہیں رہتیں۔ ان لوگوں کو اس کام کے لیے سراہا جاتا ہے جب کہ ہمیں ہر جگہ طعنے کھانے پڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ ہم خود رہتے ہیں اور نہ آنے والا کل رہتا ہے۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا جاتا ہے، آخر ہم اس سٹیج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپس لوٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور ہمارا مستقبل نقالی کی دنیا میں کھو کر اندھیروں کا شکار ہوجاتا ہے۔
چوتھا ہے پرانی سوچ۔ جب ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کیا ہے، ہم پھر بھی ان راستوں پر چل رہے ہیں، جن راستوں نے ہمیں تباہی کے سوا کچھ نہ دیا۔ یہ طریقہ ہر کسی کے لیے مہلک ہے اور خاص کر بچوں کے لیے بہت ہی زیادہ۔ آج کے ترقی یافتہ دنیا میں بچوں کو پتھر کے زمانے کی باتیں کہی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے بچے اپنے آپ اور سماج سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ اقبال نے اسے طرزِ کہن سے تشبیہ دی تھی۔ ہم حیات نو کے لے تیار نہیں ہیں۔ اور اگر تیار بھی ہیں، تو ہم اپنے آپ کو کھو دیتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ اب اس ہڑی کی مثال ہوئی، جو نہ ہم نگل سکتے ہیں اور نہ باہر پھینک سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے ہمارے تاریک مستقل کی۔ اقبال کی یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ یہی وقت مشکل ہوتا ہے قوموں کی زندگیوں کا۔
پانچواں اور آخری ہے ہماری سستی۔ اس زندگی کا اصول ہے کہ جدوجہد کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ جنگل میں ہرن بھی اور شیر بھی دوڑتا ہے تاکہ بھوک سے اس کی موت نہ ہو۔ ہمارے یہاں سستی کا رواج ہے۔ جو چل رہا ہے، اسے چلنے دو اور جو آنے والا کل، اس کے بارے میں سوچنا اور کرنا چھوڑ دو۔ اس کا نتیجہ اس شکل میں نکلتا ہے کہ آنے والی خوشیاں اور ترقیاں ہم سے منہ موڑ لیتی ہیں اور یہ سماج کچھ بھی کرنے کے لائق نہیں رہتا۔
وقت کی نزاکت یہ کہ ہم آنے والے کل کے لیے محنت کریں۔ چین اور اسرائیل اپنے مستقبل کے لیے فکر مند ہے، مگر ہم چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ بچوں کو صرف ڈاکٹر، سول سرونٹس اور کاروباری آدمی کے علاوہ انسان بننا اور انسانوں کی طرح رہنا سکھائیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، ورنہ پھر بہت دیر ہو جائے گی۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :کتب بینی کا شوق کہاں گیا؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے