احمد علی برقیؔ اعظمی
ہیں علی گڑھ کے ستارے ضوفگن
جن سے روشن ہے سپہر فکر و فن
ہو نہ آب و تاب میں اس کی کمی
فضلِ رب اس پر رہے سایہ فگن
جس کے سرسید رہے ہوں باغباں
کیوں نہ منظور نظر ہو وہ چمن
ہو خزاں نا آشنا اس کی بہار
گل بداماں، گلبدن، گل پیرہن
تا قیامت اس کی لو مدھم نہ ہو
ہے فروزاں جو چراغِ علم و فن
جس طرح ہے آج ویسے کل بھی ہو
اس کا چرچا انجمن در انجمن
آج ہے اپنی جو تہذیبی شناخت
کیوں نہ ہو اس پر تصدق جان و تن
اس کے جو آثار ہیں جلوہ نما
ان کے آگے ہیچ ہے دُرِ عدن
ہیں در و دیوار اس کے دیدہ زیب
دیدنی ہے جس کا برقیؔ بانکپن
برقی اعظمی کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ ہو: تہذیب الاخلاق کی اپنی الگ تھی اک پہچان
شیئر کیجیے