آسمان چھوتی مہنگائی اور بے شرم حکومت

آسمان چھوتی مہنگائی اور بے شرم حکومت

✒️سرفراز احمدقاسمی، حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186

ہر گذرتا دن ہم ہندستانیوں کے لیے ایک عذاب ثابت ہورہا ہے، بے روزگاری کا سیلاب اور مہنگائی کے طوفان نے ملک کےلوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ملک عجیب وغریب بحران سے دوچار ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس حکومت کو ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے، اقتدار پر قابض لوگوں پر اتنی بے حسی طاری ہے کہ یہ لوگ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ادنا کوشش بھی نہیں کررہے ہیں، ایسے میں ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے بعد بے روزگاری کا سیلاب اور مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے، بھکمری اور بے روزگاری کے عفریت نے لاکھوں لوگوں کی زندگی تباہ کردی، ہزاروں خاندان اس دنیا سے کوچ کرگئے اور انھیں بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، حکومت کی پالیسیوں پر اگر آپ ایک نظر ڈالیں تو یہ بات آپ کو اچھی طرح معلوم ہوگی کہ ملکی معیشت روز بہ روز کم زور ہورہی ہے، جولوگ مال دار تھے ان کی دولت میں اضافہ ہورہا ہے اور غریب مزید غریب ہوتاجارہاہے، پھر اس غریبی اور بھکمری کی وجہ سے ان کے جان کے لالے پڑگئے، عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے، صنعت اور کاروبار کو شدید بحران نے جکڑ رکھاہے، کروڑوں لوگوں کے روزگار اور ان کی نوکریاں ختم ہوگئیں، لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے، وزارت خزانہ کے کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس کے دفتر نے اپنی ایک رپورٹ دو چاردن قبل جاری کی ہے، اس رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عوام غریب سے غریب ہورہے ہیں، اور حکومت امیر سے امیر تر ہوتی جارہی ہے، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں صرف پٹرولیم مصنوعات سے وصول کی جانے والی ایکسائز ڈیوٹی سے حکومت نے اپنی آمدنی میں 48 فی صد کا اضافہ کیاہے، یعنی ایک طرف پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے عوام کے ہوش اڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف حکومت اس سے بے پناہ فائدہ اٹھارہی ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہے، حکومت، عوام کی بے بسی کا فائدہ اٹھاکر زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرلینا چاہتی ہے، رسوئی گیس کی آسمان چھوتی قیمتوں کے باوجود سبسڈی گزشتہ سال مئی کے مہینے میں ہی بند کردی گئی ہے، گذشتہ سات برسوں میں کوئی ایسا ہفتہ نہیں گذرا ہے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیاگیاہو، ملک کے اکثر شہروں میں پٹرول 100 روپے سے اوپر بک رہاہے، بڑھتی قیمتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حکومت نے مزہ چکھ لیاہے، اسی لیے وہ کسی بھی حال میں اسے کم کرنے کی روادار نہیں ہے، درجنوں بار عوامی مطالبات اور مظاہرے بھی ہوئے لیکن یہ بے شرم اور بے غیرت حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، پٹرول، ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کا اثر راست طور پر دوسری تمام چیزوں پر پڑتاہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ روز مرہ استعمال کی جانے والی ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں اور وہ غریب، مزدور اور محنت کش عوام کی رسائی سے دور ہوتی جارہی ہیں، ایک طرف تو حکومت، معیشت میں بہتری کے جھوٹے قصے سناتی ہے تو دوسری جانب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے عوام کی ہڈیوں کا گودا بھی نچوڑنے پر تلی ہوئی ہے، عوامی زندگی کو سہل بنانا اور انھیں راحت پہنچانا کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن مودی حکومت کے جیسی بے غیرت اور بے شرم حکومت شاید تاریخ میں کوئی اور نہیں رہی ہوگی، کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ جس حکومت نے 2014 میں یہ جھوٹا اوردل فریب نعرہ لگایا کہ "بہت ہوئی مہنگائی کی مار، اب کی بار مودی سرکار" اسی نعرے کے ساتھ ملک کے عوام سے یہ کہا گیا تھا کہ ” اچھے دن آئیں گے" کیا یہی اچھے دن ہیں؟ اس وقت بھارت میں اقتدار کی کرسی پر عجیب لوگ فائز ہیں، ان سے جب سوال پوچھا جاتاہے تو یہ جواب دینے کے بجائے نئی نئی تاویل پیش کرتےہیں، یا پھر آپ کے پیچھے ای ڈی اور سی بی آئی لگائی دی جائےگی، سوال پوچھیں گے تو جیل کی ہوا کھلائیں گے، ان سے اگر سوال کیا جائے تو یہ لوگ طرح طرح کی دھمکیاں دیتے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے عوام کی پریشانی اور تکلیفوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عام آدمی اپنے گھریلو بجٹ کےعلاوہ ضروری اخراجات میں بھی تخفیف کرنے پر مجبور ہے، نوٹ بندی، جی ایس ٹی اورلاک ڈاؤن جیسے بےتکے فیصلے سے مسلسل عام آدمی کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور اس پر مہنگائی کی مار نے ان کے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیاہے، ملک میں کسانوں کا احتجاج بھی گذشتہ 9 ماہ سے جاری ہے، مگر مجال ہے کہ یہ سنگھی حکومت کسانوں کی بات سنے اور ان کے مطالبات تسلیم کرے، کیا کوئی منتخب حکومت اس طرح کا رویہ اپنی عوام کے ساتھ اختیار کرسکتی ہے؟ مودی حکومت کی اس بے شرمی سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھیں عوامی مسائل سے ذرہ برابر بھی کوئی سروکار نہیں، یہ لوگ ایک منظم پلان کے تحت ملک کے اقتدار پر قابض ہوئے ہیں اور ملک کو لوٹنا ان کا اصل مقصد ہے، جس طرح انگریز بہادر، بڑی عیاری کے ساتھ بھارت کو لوٹنے کے لیے آئے تھے، ملک کے موجودہ حالات پھر ایک بار آواز دے رہےہیں کہ بھارت کو لوٹنے اور عوام کو غلام بنانے کا کام گذشتہ سات سال سے چل رہا ہے اب اس ملک کو ایک اور آزادی کی ضرورت ہے، بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری پر شیو سینا کا ترجمان، اخبار "سامنا" نے مودی حکومت جم کرتنقید کی ہے اور یہ الزام لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ "حکومت نے بے روزگاروں کو ہاتھ میں گھنٹہ تھمادیا ہے، مہاراشٹر کی حکمراں اتحاد میں شامل شیوسینا نے کہا ہے کہ ملک کی جائداد کرائے پر دے کر مودی حکومت لطف اندوزی کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے، نوٹ بندی کے فیصلے کو بھی غیر ذمہ دارانہ قرار دیا گیا ہے، اخبار سامنا نے اپنے اداریہ میں مزید لکھاکہ صرف اگست کے مہینے میں 16 لاکھ لوگوں نے اپنی ملازمتیں کھودی ہیں، دیہی علاقوں میں بے روزگاری نے اور بھی تباہی مچارکھی ہے، شہروں کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہے، عوام اور نوجوانوں کو روزگار کی ضرورت ہے لیکن بی جے پی نے روزگار کا گھنٹہ تھمادیا ہے، اس اخبار نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ سولہ لاکھ لوگوں کے بے روزگار ہونے کے یہ اعداد و شمار تازہ ترین ہے، مودی حکومت کی جانب سے ملک پر نوٹ بندی کا غیر ذمہ دارانہ طریقہ اور نوٹ بندی سے تباہ حال معیشت کے تحت دو کروڑ نوکریاں چلی گئیں، نوٹ بندی معیشت کے لیے ایک شدید بحران تھا، اور 20 ملین سے زائد افراد ہمیشہ کےلیے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھوبیٹھے، شیوسینا نے کورونا وبا اورلاک ڈاؤن کے دوران بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر حکومت کی تیاریوں پر بھی سوال اٹھایا ہے، اخبار نے لکھا کہ نوٹ بندی کے بعد کورونا اور لاک ڈاؤن آیا اس عرصے میں بھی اسی تعداد میں لوگ روزگار سے محروم ہوئے، تجارت و صنعت اور کاروبار بند ہوگئے لیکن ان لوگوں کے لیے کیا انتظامات کیےگئے ہیں جنھوں نے اس عرصے میں اپنی ملازمتیں گنوادی ہیں؟"
اوپر کے یہ اقتباس شیوسینا کے ترجمان اخبار”سامنا" کے ہیں، لیکن ایک عجیب بات بھی سنئے، بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ایسا لگتاہے کہ بی جے پی کے قائدین دماغی توازن کھونے لگے ہیں، کرناٹک سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی نے دعویٰ کیاہے کہ افغانستان بحران کی وجہ سے ہندستان کو خام تیل کی سپلائی متاثر ہوئی ہے اسی لیے فیول کی قیمتوں میں اضافہ ہورہاہے، اب آپ غور کیجئے کہ بھارت دنیا میں تیسرا سب سے زیادہ خام تیل درآمد کرنے والا ملک ہے، تاہم اسے تیل سپلائی کرنے والوں میں افغانستان شامل نہیں ہے، ہندستان کو سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والے ممالک میں عراق، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، نائجیریا، امریکہ اور کناڈا شامل ہیں، پھر بی جے پی کے لیڈر اس طرح بے سرو پیر کی باتیں کیوں کررہےہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ لیڈران اس طرح کی باتیں عوام کو گم راہ کرنے، من مانی فیصلے کرنے اور ایران تران کی ہانکنے میں مہارت رکھتے ہیں، تاہم ایسا لگتاہے کہ اب ان لوگوں کی دماغی حالت بھی متاثر ہونے لگی ہے، تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ حکومت کی حرص کی وجہ سے ہو رہاہے، حکومت خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود عوام کو راحت پہنچانے کے بجائے خزانہ بھرنے میں زیادہ دل چسپی رکھتی ہے، کوئی بی جے پی لیڈر مہنگائی کے لیے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیتاہے تو کوئی پنڈت نہرو پر تنقید کرتاہے، اوراب افغانستان کا عذر پیش کیا جارہاہے، ایسے لیڈران کو اپنا طبی معائنہ کراناچاہئے۔ پٹرول، ڈیزل اورگیس وغیرہ کی بڑھتی قیمتوں پر راہل گاندھی نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت نے گذشتہ سات برسوں میں 23 لاکھ کروڑ کمائے ہیں، یہ رقم کہاں گئی، اس کا کوئی حساب نہیں ہے، راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے کہا کہ ایل پی جی، پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، اورلوگوں کو لوٹا جارہا ہے، جب کہ بین الاقوامی مارکٹ میں ان تینوں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہورہی ہیں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ 2014 میں ایک گیس سلنڈر 410 روپے میں ملتا تھا، جو اب 950روپے میں مل رہاہے، اسی طرح پٹرول کی قیمت 2014میں 71روپے فی لیٹر تھا جو آج اکتالیس فی صد بڑھ کر 106روپے ہو گیا ہے، ایسے ہی ڈیزل 57روپے فی لیٹر تھا جو اب 96 روپے فی لیٹر ہوگیا ہے، آخر یہ پیسے کہاں جا رہے ہیں؟ حکومت کو اس کا حساب دیناچاہئے"
بی جے پی کے لوگ جھوٹ بولنے میں کتنی مہارت رکھتےہیں کہ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ کئی ماہ قبل جب ملک میں پیاز بے انتہا مہنگی ہوگئی تھی اسی درمیان میڈیا کے نمائندے نے وزیر فینانس نرملا سیتارمن سے سوال کیا تو انھوں نے یہ کہہ دیا کہ میں پیاز نہیں کھاتی ہوں، سینئر صحافی روش کمار لکھتے ہیں کہ”اس ملک کے عوام تب سے لےکر آج تک انتظار کررہے ہیں کہ کیا وزیر فینانس سرسوں کا تیل بھی نہیں کھاتی ہیں، سویا اورمونگ پھلی بھی نہیں کھاتی ہیں، ایک اور دور ملک کے راجا نے کہا تھا کہ پٹرول کے دام کم ہوئے ہیں کیوں کہ انکا نصیب اچھا ہے، ویسے یہ دونوں واقعات اسی ملک کے ہیں، لیکن میں انھیں پنچ تنتر کا ٹچ دینے کی کوشش کر رہا تھا، آج کل ہر کہانی اسی انداز میں کہی جارہی ہے تاکہ لوگ فخر کرسکیں، جی ڈی پی کے مبینہ طورپر 20 فی صد ہونے کے اس پرمسرت موقع پر گھریلو گیاس سلنڈر 50روپے مہنگا ہوگیا ہے، ہندستان کے کئی شہروں میں سلنڈر کی قیمت ایک ہزار سے اوپر ہے،2021 میں گیاس سلنڈر 190روپے مہنگا ہواہے، اپنی خوشی کو سنبھالئے ابھی چارمہنے اورباقی ہیں، ہندستان کے کئی شہروں میں کمرشل سلنڈر تقریباً 1800روپے کا ہوگیا ہے"
یہ صورت حال ایک ایسے وقت میں ہے جب عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی آرہی ہے، لیکن حکومت اسے مہنگے داموں میں بیچ کر عوام کاخون چوسنے کے درپہ ہے، تاریخ کی یہ انتہائی بدترین بے روزگاری سے گزرتے مجبور، بے کس، اور بے بس لوگ مہنگائی کو اپنے خون کا خراج ادا کررہے ہیں، کنٹرولر،جنرل آف اکاؤنٹس کے اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہنا بالکل بجاہے کہ مودی حکومت غریبوں کاخون نچوڑ کر اپنا خزانہ بھررہی ہے، ایک طرف حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ اس کا کام صنعتیں لگانا اورکاروبار کرنا نہیں ہے اور پھر اسی دلیل کو بنیاد بنا کر قومی اثاثہ بیچ رہی ہے تو دوسری طرف اپنے حکومتی اختیارات کو صرف اور صرف منافع کمانے کاہی ذریعہ بنائے ہوئے ہے، عوام سے نچوڑی جانے والی دولت کا کچھ حصہ حکومت کی عیش وعشرت پرخرچ ہورہاہے تو کچھ حکومت اپنے حلقہ بگوشوں کی تعداد میں اضافے کے لیے استعمال کررہی ہے، کیا یہ طریقہ دولت کے ارتکاز کا سبب نہیں بنے گا؟ کیا اس طرح جمع خوری نہیں ہوگی؟ حکومت کے اس رویے سے کیا ملک مزید بحران کا شکار نہیں ہوگا؟ سوچئے، سمجھئے اور غور کیجئے کہ یہ حکومت ملک کو کہاں لے جارہی ہے؟آخرکب تک ہم عوام دشمن حکومت کو برداشت کرتے رہیں گے؟ اور ان کی پالیسیوں پر پراسرار خاموشی اختیار کریں گے؟ کیاہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟

(مضمون نگار،کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش :بھارت میں مسلمانوں پر ظلم وبربریت کا طوفان !

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے