محمد اشفاق عالم نوری فیضی
نہالیہ جامع مسجد دکھن نارائن پور کلکتہ ۔136
رابطہ نمبر۔9007124164
اللہ تبارک و تعالی جب کسی بندے کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے چار خوبیوں کا جامع بناتا ہے۔ اول یہ کہ اسے عالم دین اور فقیہ اسلام بناتا ہے. دوم یہ کہ اسے اعمال صالحہ کی توفیق دے کر عامل بالقرآن و الحدیث بناتا ہے۔ سوم یہ کہ دین اسلام کا خادم ومبلغ بناتا ہے۔ چہارم یہ کہ اخلاق حسنہ کا خوگر بنا دیتا ہے۔ امین شریعت حضرت علامہ مفتی سبطین رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان فضل مولیٰ تعالیٰ سے ان چاروں خوبیوں سے مزین تھے۔
الحمدللہ ! آپ جید عالم دین اور مایہ ناز فقیہ تھے. علوم و فنون کے سر چشمہ تھے. ایک عالَم آپ کے تبحرعلمی اور فتوی نویسی کا معترف ہے. شریعت مطہرہ پر عمل کا معاملہ یہ ہے کہ نماز و روزہ و دیگر فرائض کی ادائیگی کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور نفلوں پر سختی سے عمل پیرا تھے۔ ما ضی قریب کے دو عالم دین سیدنا اعلیٰ حضرت اورسیدنا مفتی اعظم ہند قدس سرھما کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے، اسی طرح وثوق کے ساتھ یہ بھی بولا جاسکتا ہے کہ اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے فیوض و برکات اور سیدنا مفتی اعظم ہند کی صحبت با برکت نے حضور امین شریعت کو سنتوں کے رنگ میں ڈھال دیا تھا۔
تبلیغ دین و اشاعت سنیت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے کوئی پیشہ نہ اپنایا جس سے زر اندوزی اور دنیا طلبی مقصود ہو، بلکہ اعلاے کلمۃ الحق اور رضاے الہی کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جو ایک عالم دین کو زیبا اور اللہ تعالیٰ عزوجل اور رسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پسند ہے وہ ہے خدمت دین۔امامت کےذریعہ، درس و تدریس کے ذریعے، بیعت و ارادت اور تبلیغ و ارشاد کے ذریعے، تحریر و تقریر کے ذریعے اور دیگر وسائل و ذرائع سے آپ نے اسلام و سنیت کی خدمات انجام دی ہیں۔ بلکہ خود کو اس کے لیے وقف کردیا، آپ کی دینی خدمات اور نمایاں کارناموں کو دیکھنے کے بعد زبان بولنے اور قلم لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ امین شریعت نے اپنے لیے کچھ نہ کیا، جو کچھ کیا صرف اسلام اور سنیت کے لیے کیا، اس کے فروغ و استحکام کے لیے کیا، ملت و مسلک کی آبیاری کے لئے کیا، حتی کہ آپ مسلک اعلیٰ حضرت کے ناشر و ترجمان کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔
آپ کو اخلاق کی جہت سے دیکھا جائے تو اس صفت میں بھی آپ نرالی شان رکھتے ہیں. آپ سے جو ایک بار بھی ملتا تھا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا، ہمیشہ کے لیے وہ آپ کا مدح خواں ہو جاتا. گویا آپ صرف با اخلاق نہیں، پیکر اخلاص بھی تھے کہ ہر آنے والے پر آپ کے اخلاق کی تلوار جلتی تھی۔ آپ کا ہر فیض یافتہ خواہ مرید ہو یا چند دن صحبت با برکت میں بیٹھنے والا، ہر ایک یہی گمان کرتا تھا کہ حضرت مجھے بہت چاہتے اور مانتے ہیں، مجھ سے ہی سب سے زیادہ محبت فرماتے ہیں۔ مجھے محبوب رکھتے ہیں اور مجھ پر خاص نگاہ کرم رکھتے ہیں۔ یہ ہے ایک ولی کامل کی پہچان، جسے اہل صفا نے بیان کیا ہے۔
آئیے اب اسی عالم دین، ناشر مسلک اعلیٰ حضرت اور پیکر رشدو ہدایت کی زندگی کے چند گوشوں کو ملاحظہ فرمائیں۔
تاریخ پیدائش و جائے پیدائش:
آپ کی پیدائش 7/ جمادی الاولیٰ 1346ھ مطابق 2/نومبر 1927 ء بروز بدھ ہندستان کے مشہور شہر بریلی شریف کے محلہ سوداگراں میں ہوئی، جہاں اعلی حضرت کا گھر تھا اور جہاں آج بھی اعلی حضرت اپنے مزار پر انوار میں آرام فرما ہیں. بلکہ جو مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کی بھی جاے پیدائش ہے۔
حسب و نسب:
حضور امین شریعت اعلی حضرت امام احمد رضا کے برادر اوسط حضرت علامہ حسن رضا خان کے پوتے اور حضرت علامہ حضرت مولانا مفتی حسنین رضا خاں کے بڑے شہزادہ ہیں۔ اس طرح اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک خاص نسبی تعلق ہوا۔ کیونکہ مفتی حسنین رضا اعلی حضرت کے بھتیجے، داماد اور خلیفہ ہیں، اور علامہ سبطین رضاخان اعلی حضرت کے پوتے ہوئے۔ اور مفتی نقی علی خان کے پڑپوتے ہوے۔
تعلیم وتربیت:
الحمدللہ! اعلی حضرت کا گھر انا شروع سے ہی مذہبی اور علمی گھرانہ رہا ہے. اس لیے آپ بچپن ہی سے مذہبی علوم و فنون کے شوقین تھے۔ بچپن میں شریر قسم کے بچوں کے ساتھ نہیں رہتے تھے اور نہ ہی ان کے ساتھ کھیلنے کودنے میں اپنا وقت ضائع کرتے تھے، ہمیشہ اچھوں کی صحبت اختیار کرتے تھے اور اپنا وقت کتابیں پڑھنے میں گزارتے تھے، کتابوں کا مطالعہ کرنا اور انھیں یاد کرنا آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔
آپ نے اکبری مسجد عرف مرزائی مسجد واقع محلہ گھیر جعفر خان، پرانا شہر، بریلی شریف کے مدرسہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی. پھر اعلی تعلیم کے لیے آپ کے والد بزرگوار نے دارالعلوم مظہر اسلام میں آپ کا داخلہ کرادیا۔ آپ نے ایسے علما و فضلا سے علم حاصل کیا جو اس وقت میدان علم و فضل کے بہترین شہ سوار تھے۔
حضور امین شریعت اپنے وقت کے زبردست حکیم و طبیب بھی تھے۔ اپنے رفیق درس مولانا فیضان علی رضوی بیسلپوری کے ساتھ علی گڑھ تشریف لے گئے اور دو سال وہاں رہ کر علم طب کی بھی تعلیم حاصل کی۔
حج و زیارت:
ہر محب خدا اور عاشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ کم از کم ایک بار اپنے مولیٰ عزوجل کے گھر کا دیدار اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری کی سعادت نصیب ہوجائے۔ اور فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ اپنے ماتھے کی آنکھوں سے ان درباروں کا دیدار کر لے۔ اس تمنا کی تکمیل کے لیے وہ لاکھوں جتن کرتا ہے، کبھی قرآن شریف پڑھتا ہے، کبھی درود شریف پڑھتا ہے اور کبھی نعت شریف کنگنا کر آنسو بہاتا ہے، زہے نصیب کہ یہ آرزوئیں پوری ہوجائیں۔ ماشاءاللہ ! حضور امین شریعت کی آرزوئیں پوری ہوئیں اور ایک بار نہیں آپ کو چھ بار حج و زیارت اورکئی بار عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔
کانکیر، راےپور (چھتیس گڑھ) میں آپ کی تشریف آوری:
آپ درسیات سے فراغت کے بعد چند مدارس اسلامیہ میں دینی خدمات انجام دیتے رہے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، جہاں جہالت و تاریکی تھی، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، وہ علاقہ کانکیر شریف، راے پور اور اس کے مضافات کا تھا، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے مختلف اضلاع کا تھا، آپ نےکانکیر شریف اور راے پور کو درس و تدریس، رشدوہدایت، دین و سنیت کی تبلیغ و اشاعت، پیغام اعلی حضرت کی ترویج اور بیعت و ارادت کا مرکز بنایا. پھر وہاں سے قریہ قریہ اور شہر شہر پہنچ کر لوگوں کے دلوں میں دین وسنیت کا چراغ روشن کردیا، پھر تو آپ کی تبلیغ و ارشاد کا دائرہ صرف مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ تک محدود نہ رہا بلکہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں پھیل گیا۔
ان کا سایہ اک تجلی ،ان کا نقش پا چراغ
وہ جدھر سے گزرے روشنی ہوتی گئی
آپ کی دینی خدمات:
حضور امین شریعت علیہ الرحمۃ والرضوان نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین متین کے فروغ و استحکام کے لیے کافی جد و جہد سے کام لیا ہے، آپ صرف درس و تدریس اور امامت تک محدود نہ رہے، بلکہ آپ نے بیعت و ارشاد کے ذریعے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں. آپ کے مریدین میں عوام الناس کے علاوہ علما و صلحا، مدارس کے اساتذہ، مساجد کے ائمہ، اسکولوں کے ٹیچرس، کالج کے پروفیسرس، اور مشہور ڈاکٹرس، وکلا اور ججیز بھی ہیں، آپ نے کئی اداروں کو پروان چڑھایا ہے، ہندستان میں بہت سی مساجد و مدارس اسلامیہ آپ کی سرپرستی میں قائم دائم ہوے اور بفضلہ تعالیٰ آج بھی بحسن و خوبی دین متین کی ترویج و اشاعت ہو رہی ہے۔
تاریخ وصال:
26/محرم الحرام1437ھ مطابق 9/نومبر2015ء بروز پیر دوپہر، 1/بج کر45/منٹ پر آپ اپنے پیچھے لاکھوں مریدین، عشاق اور معتقدین و رشتہ دار چھوڑ کر مالک حقیقی کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہےکہ میرے پیر و مرشد کے درجات کو رب قدیر بلند فرمائے اور ان کے فیوض و برکات سے ہم سبھوں کو مالا مال فرماے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
ابر رحمت تیرے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:ٹیچرس ڈے ہندستان کی عظیم ثقافت !

حضور امین شریعت علامہ سبطین رضا خان: ایک عبقری شخصیت!
شیئر کیجیے