مظفر نازنین، کولکاتا
کہتے ہیں زندگی ایک شمع کی مانند ہے جسے ہوا کا ایک جھونکا ایک پل میں بجھا سکتا ہے یا اس طرح سے کہیں کہ پانی کے بلبلے کی طرح ہے جو چند لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
مسافر خانۂ دنیا سے بے شک ہے سفر سب کو
قیام اس میں کہاں بستی یہ مہمانوں سے بستی ہے
جنھیں تاجِ زریں اور تختِ طاؤسی مسیر تھا
اب ان کی قبر پہ رونق کو کیا وحشت برستی ہے
عموماًلوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اعلا تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے لیے ایک خوب صورت مکان، کار، بنگلے بنواتے ہیں۔ پھر اپنی اولاد کی تعلیم، کرئیر اور شادی کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ اس میں اپنی زندگی صرف کر دیتے ہیں لیکن عظیم ہیں وہ انسان جن سے کسی غریب کو کسی ضرورت مند کو فیض پہنچے۔ جن کے دل سے نکلنے والی دعائیں ان کی شفاعت کا ذریعہ بنیں۔ آج اخبارات اٹھائیں۔ ہندستان کی تعلیمی پس ماندگی کا رونا روتے ہوئے لوگ نظر آئیں گے. ایسے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے فرش سے عرش تک کا سفر پورا کیا۔ ذرہ سے آفتاب ہوئے لیکن افسوس ہے کہ اس آفتاب کی روشنی سے دور گھروں میں روشنی نہیں پھیلی۔ کتنے لوگ اس روشنی سے مستفیض ہوئے۔ بڑی بات تو تب ہے کہ اس روشنی سے نونہالان قوم کی زندگی منور ہو۔ ہندستان کی مٹی سے اٹھنے والا ہر ذرہ نیرا عظیم ہوتا ہے۔ اگر صحیح سمت اور صحیح ڈھنگ سے ان کی رہ نمائی کی جائے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے تم زمین والوں پر رحم کرو۔ آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ زندگی کے آرام اور آشائش کا خیال نہ کرتے ہوئے کبھی دوسرے کے لیے بھی کچھ کر گذرنے کا جذبہ ہو اور یہ تب ممکن ہے جب دل درد مند، حساس ذہنیت، عقل سلیم اور چشم بینا ہو۔ ایسی ہی چند شخصیات کا ذکر کرنا چاہوں گی جنھوں نے دیش کے لیے، قوم و ملت کے لیے بڑا کام خاموشی سے کیا ہے بقول شاعر:
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پرواہ
ڈاکٹر گورنگ گوسوامی: ڈاکٹر گورنگ گوسوامی ایک ایسے عظیم ڈاکٹر ہیں جن پر سر زمین بنگال خصوصاً ضلع بردوان ناز کرتی ہے۔ ڈاکٹر گورنگ گوسوامی نے 1978ء میں کلکتہ میڈیکل کالج سے ایم – بی – بی – ایس امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ ڈاکٹری کا امتحان بہت لوگوں نے پاس کیا ہے۔ بڑی خوبی ان میں یہ ہے کہ تقریباً 40 برسوں سے صوبہ بنگال کے ضلع بردوان میں محض 5روپے کے عوض غریبوں کا علاج کرتے ہیں۔ بردوان کے کالنا میں ان کا چیمبر ہے۔ ایک اچھے ڈاکٹر کے ساتھ اچھے پروفیسر بھی رہے۔ کالنا کے باشندے انھیں غریبوں کا ڈاکٹر یا ایشور سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر گورنگ گوسوامی FCMH میڈیکل کالج میں Human Anatomy پڑھاتے تھے۔ سر پڑھاتے نہیں بلکہ یوں کہا جائے picturise کرا دیتے تھے۔ اور کلاس روم کا وہ منظر نظر کے سامنے رہتا۔ کہتے ہیں Best teacher, teach from the heart، ایسے عظیم ڈاکٹر اور معزز پروفیسر سر گورنگ سوامی کو ہمارا سلام.
محترم نورالاسلام: عالی جناب نور الاسلام صاحب الامین مشن کے founder ہیں۔ الامین مشن بنگال کا معروف تعلیمی ادارہ ہے۔ موصوف قوم و ملت کے تئیں دلِ درد مند رکھتے ہیں۔ رام کرشن پرم ہنس، سوامی وویکا نند اور ایشور چندر ودیا ساگر سے متاثر نور الاسلام صاحب کہتے ہیں کہ قرآن میں بھی تعلیم کی بہت اہمیت ہے۔ رام کرشنا مشن سے بہت زیادہ متاثر ہیں. جہاں spiritual education کے ساتھ modern education بھی دی جاتی ہے۔ ٹھیک وقت پر prayer ہوتا ہے۔ Narendrapur Ram Krishna Missionہو یا Rahara Ram Krishna Mission اپنی نوعیت میں بے مثال ہے۔ ہر سال بورڈ امتحان کا رزلٹ بہت شان دار ہوتا ہے۔ اسی طرز پر محترم نور الاسلام صاحب نے الامین مشن قائم کی۔ جہاں غریب اور پس ماندہ بچوں کے لیے ابتدائی تعلیم سے لے کر ثانوی تعلیم تک کا انتظام کیا۔ خلت پور ہوڑہ میں اس کا main branch ہے۔ اور اس کے علاوہ بنگال کے دوسرے اضلاع میں بھی اس کے branches ہیں۔ جیسے مالدہ، مغربی دیناجپور، مشرقی دیناجپور۔ یہ WBBSE اور WBCHSE سے affiliated ہیں۔ اس کے علاوہ WBCS, IIT, नित ارو دوسرے مقابلہ جاتی امتحان کے لیے بھی خاص نظم ہے۔ تقریباً 30 برسوں سے یہ ادارہ ترقی کی طرف گامزن ہے اور شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ 2002 ء میں ٹیلی گراف کی طرف سے جہاں South Point Higher Secondary School کو award ملا وہیں الامین مشن کو بھی اس کے شان دار کارکردگی کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ Residential Coaching Institute ہے۔
شری ابھیا نند سر : ابھیانند سر جن پر سر زمینِ بہار ناز کرتی ہے۔ وہ 1977 batch کے IPS officer ہیں۔ ان میں خاص خوبی ہے کہ ایک پولس کے ساتھ ساتھ ایک بہترین physics teacher بھی ہیں۔ ان کا شمار ہندستان کے best physics teacher میں ہوتاہے۔ بہار کی راجدھانی پٹنہ میں بہت سے ادارے جیسے Rahmani 30, Abhyanand Super 30 ان کے mentorship میں چل رہے ہیں۔ جہاں طلبا و طالبات فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ان اداروں میں IIT کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ Class X کے بعد admission ہوتا ہے۔ خدا داد ذہنیت اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل شری ابھیانند سر کو ہمارا مؤدبانہ سلام۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی: سر زمینِ بہار کی مایہ ناز شخصیت ولی رحمانی صاحب محتاجِ تعارف نہیں۔ موصوف آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، امیر شریعت (بہار، اڈیشہ، جھارکھنڈ)، قائد ملت، فخر قوم اور سجادہ نشین خانقاہ رحمانی مونگیر ہیں۔(حال ہی میں ان کا انتقال ہوا) 2008 ء میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے پیش نظر انھوں نے رحمانی 30 نامی ادارے کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنا اور میڈیکل اور انجینئرنگ کالج میں ان کی نمائندگی تھی۔ اللہ رب العزت نے کامیابی سے نوازا۔ اور آج نہ صرف بہار بلکہ دوسروے صوبوں جیسے مہاراشٹر کے اورنگ آباد، کرناٹک کے بنگلور اور تلنگانہ کے حیدرآباد میں بھی رحمانی 30 کی شاخیں ہیں۔ حضرت کو استقامت عطا کرے۔ آمین
ان مذکورہ بالا شخصیات کے لیے شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اس طرح سے اگر دوسرے لوگوں کا بھی قوم و ملت کے تئیں پیش رفت ہو تو ہندستان میں تعلیمی پس ماندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ آئیے عہد کریں جہالت کا خاتمہ کریں اور علم کی روشنی گھر گھر پھیلائیں۔ علم کی روشنی سے ہر گھر روشن ہو اور اس کی طاقت سے وطنِ عزیز ہندستان معاشی، تعلیمی، تہذیبی اور اقتصادی طور پر منظم اور مستحکم ہو۔
ابھیا نند سر کا Super 30 کا concept جہاں بچوں کو ایک ساتھ رکھنا، کھانا، پینا اور پھر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری بہت نادر اور نایاب ہے۔ اس سے طلبا اور طالبات میں spirit develop ہوتا ہے۔ Positive Academic Environment تیار ہوتا ہے۔ ان کی دور اندیش نظروں کے لیے علامہ رضا علی وحشت کلکتوی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
میری دور بینی ہے میرے امن کی دشمن
نہ ہوتی فکرِ مستقبل تو عیشِ جاوداں کرتے
رحمانی 30 وہ ادارہ ہے جہاں دینی اور دنیا وی تعلیم یعنی spiritual education اور modern education دونوں ہی ممکن ہے۔ یہ ادارہ دراصل اس شعر کا غماز ہے:
آئینۂ وفا ہے گنجینۂ شفا ہے
یہ دین کا ہے ہادی دنیا کا رہنما ہے
Mobile + Whatsapp: 9088470916
E-mail: muzaffarnaznin93@gmail.com
مظفر نازنین کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو: ساس اور بہو کے مقدس رشتے