آل انڈیا مسلم متحدہ محاذ: مسائل اور امکانات

آل انڈیا مسلم متحدہ محاذ: مسائل اور امکانات

محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال

او آئی سی یا اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی طرز پر بھارت میں مختلف مسلکوں کے قائدین اور عوام مسلمین کو مشترکہ مسائل میں متحد رکھنے کے لیے ایک ملکی ادارہ "آل انڈیا مسلم متحدہ محاذ” یا "آل انڈیا مسلم امہ کانفرنس” کی تشکیل وقت کا جبری تقاضا ہے. اس متحدہ محاذ یا کانفرنس میں ہر مسلک کے چھوٹے بڑے عالم و غير عالم قائدین کو شریک کیا جائے جس میں کسی بھی قائد کی قیادت کو نقصان نہ پہنچایا جائے، بلکہ ہر قائد کے اپنے دائرۂ قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے شریک کیا جائے. اور اس محاذ کا کوئی قائد یا منصب دار منتخب نہ کیا جائے کہ قیادت یا منصب کو لے کر تنازع ہو. ہاں ایک ایمان دار خزانچی ضرور ہو جو حساب کتاب رکھے اور ایک دفتر اور اس میں چند با شعور و صاحب بصیرت عصری و دینی تعلیم سے لیس عملہ ہو جو قائدین کے ذریعے تیار کردہ منشور یا کسی بھی حکم نامے کو مسلمانوں تک ممکنہ وسائل کا استعمال کرکے پہنچائے . اس منشور یا حکم نامے کو عوام بھی مانیں اور قائدین بھی.

اس میں ایک بڑی پریشانی یہ آ سکتی ہے کہ فلاں شریک ہوگا تو ہم شریک نہیں ہوں گے تو ایسی ذہنیت ختم کرنی ہوگی اور ملی، قومی اور سیاسی مسلم مشترکہ مسائل کے لئے تمام قائدین کو انا کی دیواریں توڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایک جامع منشور پر متفق ہونا ہوگا. اس منشور میں کیا کیا چیزیں طے پائیں گی وہ قائدین بیٹھ کر غور و فکر کے بعد تیار کریں گے.

اس محاذ کا اولین مقصد قائدین اور عوام مسلمین کو ملی مشترکہ مسائل میں متحد رکھنا ہو اور یہ محاذ کسی بھی مسئلے یا سنگین صورت حال میں جو لائحۂ عمل تیار کردے اسے ساری مسلم تنظیمیں، تمام قائدین اور سارے مسلمان مانیں.

ایک بار یہ تمام قائدین بیٹھ کر جب ایک منشور تیار کرلیں تو وہ منشور ایسا جامع ہو کہ وہ اکثر مسائل کا احاطہ کرلے اور جب اس منشور سے ہٹ کر کوئی نیا مسئلہ در پیش ہو تو اس کے لیے بیٹھا بھی جا سکتا ہے، نہیں تو تمام قائدین آپس میں یا دفتر کے رابطۂ کار سب سے موبائل کے ذریعے باہم گفت و شنید کرکے کوئی حل یا تدبیر بتادیں جس پر سب عمل کریں. اس منشور میں قائدین کے لئے مذکور دستور العمل کے گوشہ کو ماننا تو سب کے لئے ضروری ہی ہوگا، لیکن خلاف ورزی کی صورت میں شریک ممبر پر کیا کاروائی ہوگی وہ بھی اس میں درج ہو.

پارلیمانی انتخابات کے وقت قائدین کا باہم اجلاس ضروری قرار دیا جائے کہ یہ پانچ سال میں ایک بار آتا ہے اور قوم کی سیاسی تقدیر کے لیے انتہائی فیصلہ کن گھڑی ہوتی ہے اور ریاستوں کے انتخابات کے وقت اجلاس کے بجائے باہم گفت و شنید کرکے ایک متفقہ رائے سامنے لائی جائے، کیوں کہ یہ انتخابات بار بار آتے ہیں اور بار بار بیٹھنا ایک مشکل امر ہے.

رہ گئی یہ بات کہ اس محاذ کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے تو قائدین کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہ ہوگی. وہ سب مل کر اپنی اپنی طرف سے ایک مخصوص رقم دے کرکے ایسے دفتر کو بخوبی چلا سکتے ہیں.

دفتر کو پورے سال متحرک رکھنے کے لیے ایک ہفت روزہ کا بھی اجرا کیا جائے جس میں مفید قومی خبریں ہوں، قائدین کے انٹرویو کا گوشہ ہو، عالم اسلام کی خبریں ہوں، اسلامی تاریخ ہو اور بھارت میں مسلم مشترکہ تہذیب و ثقافت کے احیاء پر مضامین ہوں، مسلم نوجوانوں کی دینی (کسی مدرسے کی نام زدگی کے بغیر) و عصری تعلیم اور کیریئر پر گوشہ ہو، مسلم – غیر مسلم تعلقات، بھائی چارہ، رواداری اور خیر سگالی پر مواد ہو اور دیگر چیزیں بھی طے کی جا سکتی ہیں. البتہ اس ترجمان کو مسلکیت سے ہر حال میں دور رکھا جائے تاکہ کسی کو یہ نہ لگے کہ اس پر تو فلاں مسلک کی اجارہ داری ہے. ہفت روزہ پرنٹ ہونے کے ساتھ آن لائن بھی دستیاب کیا جائے، فیس بُک صفحہ، ٹوئٹر اکاؤنٹ وغیرہ بھی ہوں. سوشل میڈیا پر روزانہ ایک لائیو نشریہ بھی شائع کرنے کا اہتمام ہو.

اگر مکمل کشادہ دلی دکھائی گئی تو اسی محاذ کے ذریعے چاند وغیرہ کے مسائل بھی حل ہوجائیں گے اور بہت سے مشکل مسائل بھی حل تک پہنچیں گے.

یہ محاذ چوں کہ بظاہر کافی طاقت ور ہوگا جس کی زر خریدی کی کوشش بھی کی جائے گی، لیکن بغور دیکھیں گے تو اس محاذ کی حیثیت محض ایک ترسیل کار کی ہوگی اور ایک نشست گاہ کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی. اصل طاقت قائدین کے پاس ہوگی اور کوئی ایک قائد بھی پوری طاقت کا مالک نہیں ہوگا، بلکہ طاقت تمام قائدوں میں مشترک ہوگی اور اکثریتی رائے کے ساتھ قائدین مخلصانہ طور پر جس بارے میں جو فیصلہ کردیں گے وہی سب کے لیے واجب التسلیم ہوگا. ہاں اس میں قائدین کو اپنی قوم کے لیے مکمل مخلص ہونا ہوگا اور قوم کے ساتھ کسی طرح کی فریب کاری یا سودا بازی سے پورے طور پر باز رہنا ہوگا.

اہل علم احباب مثبت یا منفی تبصرہ کر سکتے ہیں تا کہ اس کے ہر ممکنہ پہلو پر گفتگو سامنے آ سکے.

محمد شہباز عالم مصباحی کی پچھلی نگارش : آہ! میرا ہم نوا نہ رہا

شیئر کیجیے

3 thoughts on “آل انڈیا مسلم متحدہ محاذ: مسائل اور امکانات

  1. جناباپکا مضمون پڑھا اچھا لگا ہر کوئی یہی چاہتا ہے لیکن پہل نہی ہورہی ہے اپ نمبردیں یا آس نمبر پر بات کریں 7011595123 شمشاد

  2. جناب اپکا مضمون پڑھا اچھا لگا ہر کوئی یہی چاہتا ہے لیکن پہل نہی ہورہی ہے اپ نمبردیں یا آس نمبر پر بات کریں 7011595123 شمشاد

Md Noor Shama کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے