سید مصطفیٰ احمد
حاجی باغ، زینہ کوٹ، سرینگر، جموں و کشمیر
رابطہ: 7889346763
انسان کی زندگی کے کئی ادوار ہوتے ہیں۔ ہر دور اپنے لحاظ سے الگ ہوتا ہے۔ جسمانی نشو و نما، ذہنی بناوٹ، سماجی حس، اخلاقی حس، انفرادی حیثیت، وغیرہ ہر دور کے ساتھ مخصوص ہے۔ بچپن بلوغت کو، اور بلوغت پھر آگے جوانی اور بزرگی کی طرف لے جاتا ہے۔ جیسے پہلے ہی کہا گیا ہے کہ ہر دور منفرد ہے۔ بلوغت کا زمانہ سب سے کٹھن اور سب سے ضروری مانا جاتا ہے۔ اس میں انسان کی ترقی زیادہ تو نہیں ہوتی ہے، مگر جوش، جنون، جذباتی اتار چڑھاو زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں ایک انسان ایک لمحے کے لیے عرش پر ہوتا ہے، تو دوسرے لمحے وہ فرش پر آتا ہے۔ اسی عمر میں اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کر کے پیش کرنے کا بھوت سوار ہو جاتا ہے۔ Peer groups میں ایک لڑکی اور لڑکا اپنے آپ کو الگ کر کے دکھانا چاہتا ہے. یا تو وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں کی طرح بننا چاہتا ہے۔ مزید یہ کہ اس دور میں ایک بچہ سوچتا ہے کہ میں اب آزاد ہوں۔ جنم سے لے کر دس بارہ سال تک اس کی پرورش دوسرے لوگ کرتے تھے، اب وہ اپنی نگہ داشت خود کرسکتا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس میں اس کی جنسی نشو و نما زیادہ فعال ہوجاتی ہے۔ ایک لڑکی دوسری جنس کے نزدیک جانے کی کوشش کرتی ہے اور اس طرح ایک لڑکا بھی لڑکی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ جنسیاتی انگ بھی اسی دور میں زیادہ ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ عجیب و غریب خواب، تھرتھراہٹ، خوف، بے چینی جیسے حالات ایک بچے کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔
ان مواقع پر مغربی ممالک میں بچوں پر خاص دھیان رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغربی ممالک میں سیکس کو زیادہ حساس نہیں مانا جاتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس چیز کو آرام سے اپنے درمیان زیر بحث لاتے ہیں۔ وہ بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ بلوغت کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ جو بھی تبدیلیاں اس دور میں ہوتی ہیں، وہ قدرتی ہیں۔اس میں ایک انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ protected sex اور unprotected sex کیا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں قانونی اور غیر قانونی سیکس کیا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بچے کے ہر آن بدلنے والے موڑ پر کڑی نظر رکھتے ہیں، جو اس دور میں بچوں کو ستاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں بچپن سے ہی بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ سیکس ایک گندی چیز ہے۔ اس کا لب پر لانا گناہ عظیم ہے۔ مگر ہم لوگ یہ بات سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ یہی بچے آخر کار پوچھ بیٹھتے ہیں کہ ایک انسان کیسے شادی کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ ہم ان کو نہیں سمجھاتے ہیں کہ ماں کو اللہ نے یہ شرف بخشا ہے کہ وہ بچے پیدا کریے۔ عورت اور مرد ایک دوسرے کے قریب جاکر سکون پاتا ہے، جس طرح کھانے، پینے اور سونے سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ جب یہ اٹل حقیقت ہے تو ہم اس معاملے میں کیوں ایک ناشائستہ طریقہ استعمال کر کے ان ابھرتے ہوئے بچوں کا حق چھین لیتے ہیں۔ ان کا حق ہے کہ ہم سے اس بارے میں پوچھیں۔ اس کے متعلق مجالس کا اہتمام ہو۔ مگر ایسا نہیں۔ اس کے کئی وجوہات ہیں۔ آنے والی سطروں میں ان کے متعلق بات ہوگی۔
پہلا ہے سیکس کو ایک گندی شے سمجھنا۔ ہمارے سماج میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ جو سیکس کی بات کرے وہ بے شرم ہے۔ اس کا نتیجہ نکلا کہ لوگ، خاص کر کے بلوغت کو پہنچ رہے بچے اپنے آپ کو جیسے قید میں پاتے ہیں۔ وہ اپنی پیاس کو بول نہیں پاتے۔ اپنی پیاس کو تو وہ کچھ وقت کے لیے دباتے ہیں مگر آگے چل کر یہی تباہی کا روپ لے لیتی ہے۔ اگر ہم نے اس کو ایک حقیر چیز نہ سمجھا ہوتا، تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی، جہاں ہر طرف جنسیت کا ایک تنگ نظریہ موجود ہے۔
دوسرا ہے مذہب۔ ہم نے مذہب کو کچھ مخصوص اعمال کا نام دیا ہے۔ اگر ہم اسلام کی بات کریں تو اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ دس سالوں کے بعد لڑکے اور لڑکیوں کے بستر الگ کیے جائیں۔ جب وہ بالغ ہونے لگے تو ان کی شادی کی فکر کی جاۓ۔ ان دو احکام میں جنسیت کی ضروریات اور اس کے خراب اثرات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ بستر الگ کرنے سے ایک بچہ جنسی حس حاصل کرتا ہے۔ شادی کی فکر بلوغت تک آتے آتے کرنا، ایک بالغ بچے کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ یہ میری زندگی کا اہم حصہ ہے۔ اس کے بغیر زندگی ادھوری اور ناقص ہے۔ یہ ہے مذہب کا رول۔ مگر ہم اس کے برعکس کام کرتے ہیں۔ جو بھائی بہن کل تک ایک ساتھ سوتے تھے، ایک دن اچانک ان کو الگ کردیتے ہیں اور وجہ بھی نہیں کہتے کہ کیا ہے۔ ایک لڑکی اور لڑکا سوتے وقت اپنے کپڑوں کو گیلا پاتے ہیں، اس موقع پر مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ان کو آرام سے سمجھایا جائے کہ یہ کیا ہوتا ہے، اس سے کیا ہوتا ہے، یہ کوئی ڈرنے کا مقام نہیں ہے، اس موقع پر صفائی کتنی ضروری ہے، وغیرہ۔ مگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں۔ بہن بھائی سے نہیں پوچھ سکتی اور بھائی بہن سے اس معاملے میں نہیں پوچھ سکتی۔ اس کے علاوہ بیٹی باپ سے نہیں اور بیٹا باپ سے نہیں۔ یہ نتیجہ ہے مذہب کو یا تو چھپانے کا یا خود اس بات سے ناواقف ہونے کا۔
تیسرا ہے ان پڑھ سماج۔ جس چیز کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہی نہیں، اس کو یہاں ہر گلی اور کوچے میں بڑی شان کے ساتھ زیر بحث لایا جاتا ہے۔ غیبت، نکتہ چینی، الزام تراشی، وغیرہ عیوب ہمارے یہاں ہر کسی کی زبان پر ہے۔ اس سے تو کسی کو فائدہ نہیں پہنچتا مگر نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ کچھ مخصوص چیزوں کو یہاں زندگی کا نام دیا گیا ہے اور اس میں جنسیات جیسے لفظ کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔ بدعات کو یہاں فروغ دینا معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے مگر جس چیز سے قومیں پیدا ہوتی اور بنتی ہیں، ان کی کسی کو بھی فکر نہیں۔
چوتھا ہے پڑھے لکھے لوگوں کا رویہ۔ پڑھے لکھے لوگ بھی اسی رو میں بہتے دکھائی دے رہے ہیں، سواۓ چند ایک دو کے۔ ان کا رویہ بھی اس حساس معاملے کی طرف بہت سرد ہے۔ کئی ایک معاملات پر تو وہ اونچا بولتے ہیں، مگر اس موقع پر وہ بات کرنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ اگر وہ چاہتے تو وہ بہت کچھ کرسکتے تھے، مگر انھوں نے چیزوں کو جیسے چل رہے ہیں، ویسے چلنے دینے کا وعدہ کیا ہے۔
اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے درمیان سیکس جیسی ضروری چیز کو گندہ سمجھنے کے بجائے، زندگی سمجھ کر اس کو اپنے درمیان مباحث میں لائیں۔ یہ کام خاص کر ان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ہونا چاہیے، جو بلوغت کو پہنچے والے ہیں یا تو بلوغت کو پہنچ چکے ہیں۔ اس کے لیے ہم مجالس کا اہتمام کر سکتے ہیں، سوشل میڈیا پر بالغ اور نابالغ بچوں دونوں ہر نظر رکھ سکتے ہیں، درس گاہوں میں اس کے متعلق کھل کر بات کر سکتے ہیں، سوال پوچھنے والے بالغ بچے کو دھتکارنے سے پرہیز کر سکتے ہیں، ان بچوں اور بچیوں کی ضروریات کو سمجھ سکتے ہیں، ان کو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا قانونی اور مذہبی طریقہ بتا سکتے ہیں، وغیرہ۔ اس کے لیے اگر کسی بچی یا بچے نے اپنی جنسی خواہش کو غلط طریقے سے پورا کیا ہے، تو اس کو پیار سے سمجھا کر مستقل میں اس سے پرہیز کرنے کی تلقین کر سکتے ہیں۔ اس تیز رفتار دنیا میں ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے آنے والے کل کے لئے فکر مند ہونا ضروری ہے۔ آئیے اپنے بچوں اور بچیوں کی ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کو ایک اچھی زندگی فراہم کریں۔ کیا ہم تیار ہے؟ جواب باقی ہے۔
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ ہو:کیا ہم اپنی زندگیاں جیتے ہیں؟

بلوغت اور جنسیاتی خواہش
شیئر کیجیے