مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
ابو الکلام رحمانی (ولادت ۲؍ اگست ۱۹۴۹ء) بن عبد الجبار و نبیہ خاتون مرحومین کی جائے پیدائش تو یحیٰ پور شیخ پورہ ہے، لیکن اب مستقل رہائش ۳/۲۱ مومن پور کولکاتہ میں ہے، تعلیم ایم اے تک پائی ہے، مطلب ہے کہ خاصے پڑھے لکھے قلم کار ہیں، تحقیقی مقالے، ناول، افسانے، انشائیے اور مزاحیہ کالم اخبارات و رسائل میں چھپنے کے بعد کتابی شکل میں بھی محفوظ ہیں، روزنامہ آبشار کولکاتہ میں ان کا مزاحیہ کا لم ’’تکلف بر طرف‘‘ اور ہفتہ وار ’’میرا ملک‘‘ کولکاتہ میں ’’گستاخی معاف‘‘ کے عنوان سے جو کالم مقبول ہوتے رہے وہ در اصل انہی کے لکھے ہوئے ہیں، جسے انھوں نے ’’رحمانی‘‘ اور ’’میرا جوگن‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر کروائے، اردو ادب کی جو خدمت انھوں نے کی ہے اس کے لیے بہار اردو اکیڈمی، مغربی بنگال اردو اکیڈمی، ہولی برائٹ فاؤنڈیشن مٹیا برج، انجمن فکر جدید کولکاتہ وغیرہ نے انھیں انعامات واعزاز سے نوازا ہے، ان کے تحقیقی مضامین کے تین مجموعے تحریر و تذکرہ، تحقیق و تلاش اور تذکرہ مشاہیر ادب – مشرقی مگدھ ۷۴۰ ۱؍ تا ۱۹۶۰ء منظر عام پر آکر داد تحقیق قارئین سے وصول کر چکے ہیں، اس سلسلے کی تیسری کتاب تذکرہ مشاہیر ادب – مشرقی مگدھ ابھی میرے سامنے ہے، یہ در اصل ابوالکلام رحمانی صاحب کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جو انھوں نے پی ایچ ڈی کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عبد المنان صاحب کی نگرانی میں لکھا تھا، مقالہ بعض نا گزیر حالات کی وجہ سے یونی ورسٹی سے سند قبول تو نہیں پا سکا، لیکن اس بہانے ایک اچھی تحقیقی و تاریخی کتاب ہمارے سامنے آگئی۔
شیخ پورہ اور مشرقی مگدھ کا یہ ادبی منظر نامہ ابو الکلام رحمانی صاحب کے ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ سے شروع ہو کر سید عبد الرحیم کی ’’منزل‘‘ پر ٹھہرتا موضوع کتاب تک پہنچتا ہے، حصہ نثر میں اکیس (۲۱) شخصیات پر تحقیق کی روشنی ڈالی گئی ہے، شہود عالم شہود نے ابو الکلام بہ حیثیت انشائیہ نگار کی حیثیت سے ابو الکلام رحمانی کی انشائیہ نگاری پر ’’بھولا بسرا‘‘ کے ذیل میں جو روشنی ڈالی ہے، اسے بھی آخر میں کتاب کا حصہ بنا دیا گیا، اس طرح پوری کتاب دو سو ترسٹھ (۲۶۳) صفحات پر مشتمل ہے۔ صفحہ ۲۶۴ پر ڈاکٹر شاہ تحسین احمد کی تصویر احسان شناشی کے طور پر دی گئی ہے، کیونکہ وہ ابوالکلام رحمانی کے استاذ پروفیسر شاہ مقبول احمد پچنوی کے صاحب زادہ ہیں اور ان کا خصوصی عملی تعاون شامل رہا ہے، کتاب کے مندرجات سے یہ پتا نہیں چل سکا کہ یہ تعاون تحقیق میں رہا ہے، یا اشاعت میں، اس کتاب کی ناشرہ فرخندہ عزمی کلام ہیں جو ابو الکلام رحمانی صاحب کی دختر نیک اختر ہیں، اور پیشہ معلمی سے وابستہ ہیں۔
مگدھ کا اطلاق ایک زمانہ میں پورے جنوبی بہار پر ہوا کرتا تھا، یہ علاقہ انتہائی مردم خیز رہا ہے، کیوں کہ اسی علاقہ میں دِسنہ، استھانواں، ہرگاواں، گیلان، بہار شریف، اور نالندہ واقع ہے، جگر کی زبان میں کہیں تو سجدہ طلب راہ کا ہرذرہ لگتا ہے اور جدھر سے گذر جائیے وہ کوچہ جاناں کے حدود میں معلوم ہوتا ہے۔ اس علاقہ کی کئی نامور شخصیات پر تفصیلی کام ہوا تھا، لیکن آفتاب علم و فن کے ساتھ کئی ذرات تھے، جو بعد میں ذرہ سے آفتاب بن گئے، ضرورت تھی کہ ان حضرات کے تذکرے بھی محفوظ ہوجائیں، تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے وہ مشعل راہ بن سکیں۔ ابو الکلام رحمانی کے مقدر میں اللہ رب العزت نے یہ کام رکھا تھا اور انھوں نے طویل محنت کے بعد اس کام کو مکمل کر دیا۔
یہ کتاب شیخ پورہ اور مشرقی مگدھ کے ادبی منظرنامہ کے دوسرے حصہ اور باب سوم سے شروع ہوتی ہے، اس مقالہ کا پہلا حصہ ’’تذکرہ مشاہیر ادب شیخ پورہ ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۵ء میں چھپی تھی، جو میری نظر سے نہیں گذری، مشرقی مگدھ کے ادبی منظرنامہ کے حوالہ سے اس علاقہ کی ادبی قدر وقیمت عصری تقاضے، عظیم آباد اسکول کے اثرات کا ذکر کرکے باب سوم کو لپیٹ دیا گیا، اس کتاب کے چوتھے باب میں شیخ پورہ اور مشرقی مگدھ کی نثر نگاری کی اہم خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تحقیق کا عمل چیونٹی کے منہ سے دانہ دانہ جمع کرنے کا عمل ہے، اس کام میں جو پریشانی ہوتی ہے اور کرب جھیلنا پڑتا ہے اسے کچھ وہی لگ سمجھ سکتے ہیں، جنھوں نے اس وادیِ پُرخار میں کبھی قدم رکھا ہو، اس اعتبار سے جناب ابو الکلام رحمانی صاحب کی یہ کتاب قابل قدر بھی ہے اور لائق تحسین بھی، ان کے اندر قوت اخذ بھی ہے اور طاقت عطا بھی، اور پھر سید عبد الرحیم صاحب جیسا دست راست ان کو حاصل ہے اس لیے یہ کام اور بھی وقیع ہو گیا ہے۔
تبصرہ نگار عموما خوگر مدح ہوتا ہے، لیکن اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کمیوں اور کوتاہیوں کا بھی ذکر کردے جو اس نے دوران مطالعہ پایا، چنانچہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ
جن ادبا و شعرا کی تاریخ ولادت و وفات تک یقینی رسائی نہیں ہو سکی ان کی زمانی تعیین بیسویں صدی کا اول نصف یا نصف ثانی لکھ کرکی گئی ہے، کئی شعرا وادبا کی تاریخ ولادت و رحلت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، کئی میں ولادت کا ذکر ہے تو وفات غائب اور کہیں وفات کا ذکر ہے تو ولادت غائب، ایسا کم لوگوں میں ہے، لیکن ہے، تذکرہ میں تاریخ ولادت و رحلت کا ذکر نہ ہو تو مضمون کے دُم بریدہ اور ناقص ہونے کا احساس ہوتا ہے، اہل علم کے نزدیک یہ تحقیق کا نقص سمجھا جاتا ہے، اس تحقیقی کتاب میں یہ نقص کھلتا ہے، کتاب کے سر ورق پر بارہ گاواں و مضافات کا نقشہ دیا گیا ہے جو معلوماتی اور گاؤں کی مکانی حیثیت کو سمجھنے مین معاون ہے، اس کتاب پر نظر ثانی و ترتیب کا کام سید عبد الرحیم نے کیا ہے، ان کی محنت بھی قابل ستائش ہے۔
اصلا کتاب کی طباعت ۲۰۱۴ء میں ہوئی، ہم تک تبصرہ کے لیے دیرمیں پہنچی، کتاب ڈائمنڈ آرٹ پریس کولکاتہ سے چھپی ہے، قیمت پانچ سو روپے دو سو چونسٹھ صفحات کے لیے بہت زائد ہے، یوں بھی اردو کے قاری کی قوت خرید کم ہوتی ہے، بی ۳/ ۲۱ مومن پور روڈ کولکاتہ اور راپتی اپارٹمنٹ ۴۹ ڈنٹ مسن روڈ کولکاتہ ۲۳ سے حاصل کر سکتے ہیں، جن لوگوں کو علاقہ کی تاریخ، تہذیب اورادبی خدمات کے جاننے کا شوق ہو ان کے لیے یہ کتاب بڑا علمی ذخیرہ ہے.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:مولانا محمد یوسف اصلاحی