ڈاکٹر قیصر زماں
وہ زمانہ جب جدیدیت کا عروج تھا اور ہر طرف داخلیت اور خارجیت کی بحثیں عام تھیں۔ اس زمانے میں جن رسائل نے جدیدیت کی حمایت کی اس میں کمار پاشی کا رسالہ ”سطور“ کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ کمار پاشی بذات خود جدیدیت کے نمائندہ شاعر، مدیر اور افسانہ نگار رہے۔ انھوں نے اپنے رسالے ”سطور“ میں صدیق مجیبی کی چھ غزلیں شائع کرتے ہوئے ایک صفحے کا نوٹ لکھا۔ وہ کچھ اس طرح ہے:
”صدیق مجیبی کی دیوانگی کے چرچے رانچی اور پٹنہ سے ہوتے ہوئے جمنا اور گنگا کے ساحلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ممکن ہے اس کے ارد گرد سے اٹھتی افواہوں کی گرد اور اس کے درد بھرے اشعار کی گہری آنچ کو دراوڑیوں کی دھرتی پر بسنے والوں نے بھی محسوس کیا ہو۔۔۔ معلوم نہیں مجیبی نے دیوانگی پہلے اختیار کی یا شاعری لیکن اس کی غزلوں کے مطالعے سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی روح کسی دور دراز محل کے تہ خانے میں بند ایک ایسے پرندے میں قید ہے جس کی گردن کو کسی انجانی قوت نے دبوچ رکھا ہے۔۔۔ دکھ کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کوئی ایسی سیال شئے بھی نہیں۔۔۔ دکھ تو ازل سے بے شناخت ہے۔۔۔ مجیبی کے دل میں کون سا دکھ پرورش پا رہا ہے۔۔۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ اس کے اشعار میں درد کا جو گہرا مہیب سمندر سانس لے رہا ہے وہ کہیں کسی حد تک اپنی طرف کھینچ سکنے کی قوت رکھتا ہے۔۔۔ مجیبی کو حیات خور طاقتوں سے لڑنے اور زندگی کرنے کا فن آتا ہے…… جدید غزل میں اس کے وجود کو تسلیم کرنا شعری دنیا کے ایک نئے گوشے کو دریافت کرنے کے مترادف ہے۔“ (سہ ماہی”سطور“ستمبر ١٩٧٩ء،ص:٦٨)
(۲)
”اگرچہ مرزا کی لائف جیسا کہ ہم آئندہ کسی موقع پر بیان کریں گے۔ ان فائدوں سے خالی نہیں ہے جو ایک بایو گرافی سے حاصل ہونے چاہئیں۔ لیکن اگر ان فائدوں سے قطع نظر کی جائے تو بھی ایک ایسی زندگی کا بیان جس میں ایک خاص قسم کی زندہ دلی اور شگفتگی کے سوا کچھ نہ ہو۔ ہماری پژمردہ اور دل مردہ سوسائٹی کے لیے کچھ کم ضروری نہیں ہے۔ اس کے سوا ہر قوم میں عموماً، اور گری ہوئی قوموں میں خصوصاً ایسے عالی فطرت انسان شاذ و نادر پیدا ہوتے ہیں جن کی ذات سے (اگرچہ قوم کو براہ راست کوئی معتد بہ فائدہ نہ پہنچا ہو) لیکن کسی علم یا صناعت یا لٹریچر میں کوئی حقیقی اضافہ کم و بیش ظہور میں آیا ہو اور سلف کے ذخیرے میں کچھ نیا سرمایا شامل ہوا ہو۔ ایسے لوگوں کی لائف پر غور کرنا، ان کے ورکس میں چھان بین کرنی، اور ان کے نوادر افکار سے مستفید ہونا، قوم کے ان فرائض میں سے ہے جن سے غافل رہنا قوم کے لیے نہایت افسوس کی بات ہے۔“
(دیباچہ”یادگار غالب“ الطاف حسین حالی،ص: ۸، اتر پردیش اردو اکیڈمی ٢٠٠٩ء)
……
ساتویں دہائی کے غزل گو شعرا میں صدیق مجیبی کا نام شامل ہے۔ ا گرچہ انھوں نے شعر کہنا پہلے سے شروع کیا تھا۔چوں کہ ترقی پسند تحریک سے ان کا کچھ تعلق خاطر بھی رہا تھا لیکن ساتویں دہائی میں پرکاش فکری، وہاب دانش کی صحبتوں نے صدیق مجیبی کو بھی چھپنے چھپانے کی طرف مائل کیا۔ پرکاش فکری نے نئی غزل میں اپنی آہنگ کی بنیاد پر اپنا ایک مقام بنا لیا تھا۔ وہاب دانش جدید نظم کے حوالے سے معتبر ٹھہرے۔ ان دونوں کے درمیان صدیق مجیبی نے بھی جو شاعری کی اس میں زیادہ تر چیزیں ضائع ہوتی رہیں لیکن جب انھوں نے رسائل و جرائد میں شائع ہونا شروع کیا تو یکایک ان کالہجہ واضح ہو گیا اور جدیدیت کے غزل گو شعرا میں ان کا بھی شمار ہونے لگا۔ جدیدیت کے اہم رسائل و جرائد میں صدیق مجیبی کی غزلیں شائع ہوتی رہیں۔ مثلاً ”شب خون“، ”سطور“ اور”معیار“ وغیرہ۔
ساتویں دہائی میں شاعری کرنے والا اپنے آہنگ اور لہجے کے اعتبار سے پہچان بنانے والا شاعر جس کا تعلق شعبۂ اردو اور درس و تدریس سے بھی رہا ہو اور اس زمانے کے اہم ترین لکھنے والے بھی رانچی میں موجود ہوں لیکن کبھی سنجیدگی سے مجیبی صاحب کی شاعری پر نہیں لکھا گیا۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ وہاب اشرفی جن کا بڑا گہرا رشتہ صدیق مجیبی سے رہا انھوں نے بھی کبھی صدیق مجیبی کی شاعری کا سنجیدہ مطالعہ نہیں کیا۔ جب کہ مستقل وہ رسالہ ”مباحثہ“ نکالتے رہے۔ اس میں مجیبی صاحب کے لا ابالی پن کا بھی دخل رہا ہے۔ ادبی مرکز عظیم آباد سے جابر حسین نے پرکاش فکری، وہاب دانش اور صدیق مجیبی جنھیں کبھی بہار کی شاعری کا تثلیث حیات کہا جاتا تھا ان لوگوں کے مجموعہ کلام کو انھوں نے شائع کر دیا جس کی وجہ سے کتابی شکل میں ”شجر ممنوعہ“ کی صورت میں ان کی چیزیں قارئین کے سامنے آ سکیں۔ لیکن پھر بھی سناٹا اور ہنوز سناٹا۔ پھر ان کا لکھنا اور چھپنا کچھ کم کم سا ہونے لگا لیکن مشاعرے اور محفلوں میں وہ ہمیشہ شریک رہے اور میرا تعلق خاطر ان سے آخری دم تک قائم رہا۔ دوران گفتگو وہ ہمیشہ اظہار خیال کرتے تھے اور کف افسوس بھی ملتے تھے کہ مجھے خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی اور میں ترکی بہ ترکی ان کو جواب دیتا تھا کہ آپ اپنی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے بہت غیر سنجیدہ رہے۔ ایک نشست میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ٢٧٠ غزلیں میں نے کہی ہیں جو جوتے کے ڈبے میں رکھا ہوا ہے آج میں ان تمام غزلوں کو انتخاب کے لیے اپنے عزیز ترین شاگر کو دے دوں گا۔ کیا پتہ وہ غزلیں کہاں گئیں؟ لیکن پھر بڑے ہی تام جھام اور تزک و احتشام کے ساتھ ان کے انتقال کے بعد ایک جشن برپا کیا گیا جس میں اہم اور غیر اہم ہندستان گیر سطح پر شعرا اور نقاد بلائے گئے اور خاصہ بڑا ادبی جلسہ برپا کیا گیا اور ”پل صراط کے آگے“ کے نام سے ان کی سو غزلوں کا مجموعہ ٢٠١٥ء میں سامنے آیا۔پروفیسر عتیق اللہ کے ہاتھوں ”پل صراط کے آگے“ کی رسم رو نمائی ہوئی اور انھی کا کلیدی خطبہ بھی ہوا۔ ہاں جو خبریں آئیں اور جو کچھ میں نے لوگوں کی زبانی سنی اس میں یہ بھی سنا کہ صاحب خطبہ شاعر اور مجموعۂ کلام کا نام غلط کہہ رہے تھے۔ کسی نے رقعہ بھیجا، پھر اس کی تصحیح ہوئی اور اللہ اللہ خیر صلا۔
اس سے کچھ پیشتر ایک علاقائی رسالہ جو ”شہپر“ کے نام سے دھنباد سے کبھی کبھار شائع ہوتا ہے اس نے ایک خصوصی شمارہ صدیق مجیبی پر بھی نکالا تھا۔ ”شہپر“ کا یہ شمارہ مجیبی صاحب نے مجھے دینے سے پرہیز کیا۔ میں نے پوچھا آخر کیوں آپ رسالہ مجھے دینا نہیں چاہتے؟ انھوں نے برجستہ کہا کہ مت پڑھو ایسے مضامین لکھ کر کیا تم بھی کسی شاعر کو ذلیل کرو گے۔ وہاب اشرفی نے اپنی یادداشت ”قصہ بے سمت زندگی کا“ میں کچھ دل چسپ واقعات مجیبی صاحب کے حوالے سے درج کتاب کیا ہے۔ جو دل چسپی سے خالی نہیں مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ:
”دراصل صدیق مجیبی کا خاندان بے حد ذہین لوگوں کا خاندان ہے۔ غیاث احمد اور الیاس احمد گدی ان لوگوں کے قریبی رشتہ داروں میں رہے تھے۔ غیاث اور الیاس کو جاننے والے ان کی ذہانت کے قائل ہوں گے۔ مجھے کبھی کبھی ان گدیوں کے ماضی میں جھانکنے کا جی چاہتا ہے۔ آخر معمولی تعلیمی اور غایت درجے کی پس ماندگی کے باوجود سب کے سب تیزی و طراری میں کسی سے پیچھے نہیں۔ شعر و ادب میں د اخل ہوئے تو اپنی چھاپ چھوڑ گئے۔۔۔ گدیوں کی عام زبان وہ ہے جو اردو سے دور دور تک تعلق نہیں رکھتی، ٹھیٹ اور دہقانی۔ تخاطب کا انداز بھی غیر شائستہ، لیکن جب ان میں کوئی شعر و شاعری یا افسانہ نگاری یا ناول نگاری کی طرف آتا ہے تو پھر اس کا جواب نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ماحول سے زبان سنورتی ہے، صیقل ہوتی ہے لیکن ان گدیوں کا ماحول تو ایسا ہے کہ اس میں ٹکسالی زبان کی گنجائش کہاں۔ ایسے میں اس ”جین“ کی تلاش کرنی ہوگی جو ان کے اسلاف کا کبھی حصہ رہی ہوگی۔۔۔ مجیبی ہو کہ گلفام کہ غیاث یا الیاس، زبان کے معاملے میں ہمیشہ دو صفوں پر رہتے، ایک تو وہ جو ان کی مادری زبان تھی دوسری اردو۔ لیکن یہاں میں اس کی وضاحت کر دوں جو گنوار بولی وہ اپنے گھروں میں بولتے ہیں اس میں ایک والہانہ انداز ہوتا ہے جو سننے والوں کے لیے دلکشی کا باعث ہوتا ہے۔“
(”قصہ بے سمت زندگی کا“وہاب اشرفی، ص: ١٦٤- ١٦٦، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ٢٠٠٨ء)
محولہ بالا اقتباس سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ صدیق مجیبیی کا خاندانی پس منظر، اس کی ذاتی زندگی، گدیوں کے معیار و مزاج اور ان کے رہن سہن کا سلیقہ کیا ہے؟لیکن اگر آپ صرف صدیق مجیبی کو ان کی شاعری کے حوالے سے دیکھئے اور ان کے خاندانی پس منظر کو بالائے طاق رکھیے تو قاری کی حیرت کی انتہا نہ ہوگی کہ جس تہذیبی پس منظر میں ان کے روز و شب گزرتے ہیں وہاں صدیق مجیبی جیسا فنکار بھی پیدا ہو جائے یہ قدرت کا عطیہ نہیں تو اور کیا ہے؟ مجھے مسلسل تیس پینتیس سالوں تک بہ حیثیت استاد مشفق صدیق مجیبی جیسے رہنما کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ شاہ بانو کے معاملے میں رانچی شہر میں مہینوں تک قاضی شعیب احمد اور صدیق مجیبی کے ساتھ دور دراز کے علاقوں میں فقہی مسائل اور سیاسی صورتحال پر جو معاملات درپیش رہے اس پر مولانا کے علاوہ صدیق مجیبی کی تقریروں کو سن کر میں حیرت زدہ رہ جاتا تھا کہ آخر صدیق مجیبی لا ابالی شخصیت کے مالک، منفرد لہجے کا شاعر، بہترین اور علم سے بھرا ہوا استاذ لیکن جب فقہی اور اسلامی مسائل پر اظہار خیال کرتے تو وہاں موجود علما اور دانشور بھی ششدر رہ جاتے کہ آخر یہ شخصیت علم سے اتنا بھر پور کیسے ہے؟ کاش کہ وہ کچھ سنجیدہ ہوتے! اور اپنے آپ کو سمیٹ سکتے تو آج علم و ادب میں صدیق مجیبی کا ایک نمایاں ترین نام ہوتا۔ لیکن کچھ تو خانگی مسائل، بیوی کی بے وقت موت اور شراب کی لعنت نے ان کی شاعری اور شخصیت دونوں کو تباہ کر ڈالا۔ افسوس صد افسوس!
کمار پاشی نے ١٩٧٩ء میں ”سطور“ میں تعارف کے ساتھ ان کی چھ غزلوں کو شائع کیا۔ جو یہ ہیں:
راکھ ہوتے دن کو دیکھا اور ششدر رہ گیا
شام رخصت ہو گئی آنکھوں میں منظر رہ گیا
ایک خواہش اپنی ہی آتش میں خاکستر ہوئی
ایک سورج ابر کے ٹکڑے میں دب کر رہ گیا
جانے کس صحرا کی جانب اڑ گیا آبی پرند
جس میں خوں کا سمندر سر پٹک کر رہ گیا
خوف و خواہش نے مجیبی کر دیا آخر دو نیم
نصف باہر پھر رہا ہوں، نصف گھر پر رہ گیا
……
گزرتے پانیوں پہ وقت کی لکیر بھی نہیں
کسی بھی معجزے کی اب کوئی نظیر بھی نہیں
خدا شکار آدمی، انا شکار آدمی!
اب آدمی میں کوئی صاحب ضمیر بھی نہیں
مجیبی کون دے صدا اتھاہ شب سکوت ہے
ندائے غیب بھی نہیں، کوئی بصیر بھی نہیں
……
روشن ہے بادبان ہوا مہرباں ہے چل
موج بلا ہے خفتۂ سفینہ رہاں ہے چل
سینے میں آگ بھر لی پہ ٹھنڈک نہ کم ہوئی
اے شوق نا مراد جہنم کہاں ہے چل
یہ طوق تشنگی بھی مجیبی اتار پھینک
اک تیر بے خطا جہاں زیب کماں ہے چل
……
گرد نجوم دور تلک چھوڑ جاؤں گا
اپنا نشاں فلک بہ فلک چھوڑ جاؤں گا
ہاتھوں سے دوستوں کے میں ہو جاؤں گا شہید
سینے میں دشمنوں کے کسک چھوڑ جاؤں گا
بے نور جنگلوں میں نہ بھٹکے کوئی پرند
میں آسماں پہ اتنی چمک چھوڑ جاؤں گا
مایوسیوں کے طاق پہ جل کر تمام شب
قصر وفا کو صبح تلک چھوڑ جاؤں گا
……
کج ہو دیوار تو پڑتی ہیں نگاہیں سب کی
نقص کچھ جان کے بھی اپنے ہنر میں رکھنا
شب گزیدہ ہی کوئی ڈھونڈ مجیبی ساتھی
اب کے جگنوں ہی سہی ساتھ سفر میں رکھنا
……
کس کی صدا پہ زخم پلک کھولنے لگے
دیوار احتیاط میں در کیسے ہو گیا
سب پوچھتے ہیں مجھ سے مجیبی بتاؤں کیا
ویران شاخ شاخ شجر کیسے ہو گیا
مذکورہ اشعار اس بات کی علامت ہے کہ جو شخص آٹھویں دہائی میں ایسی غزلیں کہہ رہا ہو، اسے ہمارے نقادوں نے کیسے فراموش کر دیا۔ شاید قدرت اسی کا نام ہے کہ زندہ تخلیق کا احتساب اگر اس میں زندگی ہے خواہ دیر ہی سہی لیکن اپنی زندگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ مجیبی بھی جدید شاعروں میں ایک ایسا ہی نام ہے۔
”اگر زبان یا ادب کو ضرورت ہو تو نئے اسالیب یا ہیئتیں عالم وجود میں آتی ہیں۔ بعض اوقات زبان بولنے والوں یا ادب پیدا کرنے والوں، یا ادب کو برتنے والوں کو خارجی وسائل کے ذریعہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ تمھیں فلاں طرز یا صنف کی ضرورت ہے۔ پھر وہ طرز یا صنف عالم وجود میں لائی جاتی ہے اور پھر وہ پھلنے پھولنے لگتی ہے۔ اس میں اس کا کچھ عمل دخل نہیں ہوتا کہ وہ غیر ملک سے آئی ہے یا اپنے ملک کی ایجاد۔“
جب ہم آج کی جدید شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ویسے شعرا جن کا تعلق کسی تحریک یا رجحان سے نہیں ہوتا اور ان کے کلام کا جائزہ لیں تو پھر یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ ہم اسے کس خانے میں رکھیں۔اس دشواری کا حل جدیدیت نے یہ نکالا کہ فنکار اپنے موضوع کو جب کسی صنف میں مضمون کی شکل عطا کرتا ہے تو خواہ اس کے ذہن میں کوئی تحریک یا رجحان کی کوئی تصویر نہیں ہوتی لیکن عصری ادب کے تقاضے یا عصری حسیت کا مطالعہ اسے یہ شعور ضرور عطا کرتا ہے کہ وہ اپنی بات کس ہیئت میں کہیں۔ یہیں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فنکار کا احساس اور اس کا موضوع تو عام طور پر سماجی مسائل ہوتے ہیں لیکن اس کا بیانیہ داخلی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ آخرسچائی کیا ہے جسے میں روز دیکھتا ہوں یا جسے میں اپنے اندر محسوس کرتا ہوں۔
موجودہ عہد کی پیچیدگی کو تخلیقی اظہارکا ذریعہ بنانا کار ہنر ہے۔ شاعر کا طرز احساس انسانی اور حسی ہوتا ہے۔ حزن و ملال اور کیف و انبساط کو کیفیت بنانا اور معنویت کی سطح تک پہنچانا، کوئی آسان کام نہیں۔ یہیں سے شاعر کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ لفظوں کا ٹھوس اور سیال کیفیت و معنویت کے امکانات کو بروئے کار لانے کا سلیقہ غزل کے شاعر کو انفرادی کردار کا حامل بناتا ہے۔ کائنات اور اس کے اسرار ہر فنکار پر الگ الگ طریقے سے منکشف ہوتا ہے۔ غزل کی بنیادی ضرورت اس کا موضوع نہیں بلکہ شعریت ہوتی ہے اور یہی حسن کا ذریعہ بھی۔ یہی طرز احساس و اظہار کسی شاعر کو اپنے عہد کے مسائل کو۔۔۔ نئی غزل کے موضوعات اور اس کے تخیئلی فضا کی شناخت مانوس اور محفوظ منظر ناموں کے بجائے اندیکھی انتشار انگیز اور دہشت ناک ہوتی ہے۔ غزل کی انفرادیت، نئی حسیت اور اس کی شعری باز آفرینی پر دال ہیں۔ خارجی دنیا کے بے اعتبار رشتوں کی شکست و ریخت، داخلی سطح پر نمودار ہونے والی واقعی حقیقت کا ادراک ان کی غزلوں کی شناخت ہے۔ انفرادی تجربے، احساس و نفسیات کی ترجمانی نئی غزل کا شناخت نامہ ہے جہاں کبھی سر گوشی اورخود کلامی کا لہجہ شخصی اور داخلی کیفیت کا اظہار بن جاتا ہے اور کبھی لہجہ استفہامیہ۔
بے وجہ اجڑتا نہیں دل ہو کہ نگر ہو
پھرتا ہے کوئی نیند کا مارا تو سبب ہے
اللہ تو ہے حاضر و ناظر میں کہوں کیا
آقا تری رحمت کو پکارا تو سبب ہے
……
کہاں زمیں ہے کہاں آسماں بسیط ہے دھند
خدا پناہ امڑتا ہوا برادۂ شب
ترے وجود سے قائم مری نظر کا جمال
جو تو نہیں تو ہے مہتاب بھی قلادۂ شب
……
جیسے میزان ہو اس شوخ کے ماتھے کی لکیر
مرے لہجے سے مرے دل کا بھرم تولتی ہے
زندگی درد سہی تلخ سہی زہر سہی
ایک نشہ سا سر ساغر جاں گھولتی ہے
وجد کرتی ہوئی شاخوں پہ برستا موسم
آسماں جھومتا ہے یا کہ زمیں ڈولتی ہے
دل ہوس کار و زیاں کار مجیبی ٹھہرا
زندگی میری رفاقت کی سزا مولتی ہے
……
رہے گی کج کلاہی انحرافی
لہو زندہ ہے جب تک جسم و جاں میں
لہو میں ڈگمگاتا پھر رہا ہے
نشہ بادل ہو جیسے آسماں میں
عذاب آگہی میں جل رہا ہوں
خدا مت ڈال مجھ کو امتحاں میں
بھنور پڑتے ہیں جب خوں میں مجیبی
بیاں ہوتا ہوں میں دل کی زباں میں
مجیبی کی غزلوں میں سرگشتگی خمار رسوم و قیود کے ضمن میں جو اشعار نظر آتے ہیں ان میں ان کے لہجے پر ان کی شخصیت کے اثرات نمایاں ہیں۔ کسی بھی فن پارے میں فن کار اپنی شخصیت اور فکر سے پورے طور پر الگ نہیں رہ سکتا لیکن شاعری میں اپنے لہجے کا اعتراف کرانا، شاعری اور شخصیت کی بڑائی کی دلیل ہوتی ہے۔
کمار پاشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے ان کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے جو بات کہی ہے وہ ان معنوں میں اہم ہیں کہ مجیبی کے نہاں خانۂ دل میں اتر کر ان حقیقتوں کا بھید پانا آسان نہیں جو شاعری میں الفاظ کے دام میں اسیر ہوتی ہیں، اور شاعری کا مطالعہ اور اس میں بھی اپنا لہجہ اور انفرادی شان کو نمایاں کرنا کوئی آسان کام یا بچوں کا کھیل نہیں۔ مجیبی کی غزلوں میں ان کی شخصیت، ان کے ذہنی افکار، ان کا سماجی اور سیاسی شعور جب شعر کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں تو ان کی غزلوں کی انفرادیت نمایاں ہو جاتی ہیں۔ مجیبی کی شاعری کے مطالعے میں ان کا نظریۂ فن، جمالیاتی شعور، خیال اور جذبے کے امتزاج کی نوعیت اور استعمال زبان کے حوالے سے ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات نظر آتی ہے کہ فن پارے یا فنکار کی دنیا میں جہاں معنی پوشیدہ ہوتے ہیں اور جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے سربستہ رازوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی شعر کے معنی تلاش کرنے میں نقاد کی روکھی پھیکی اور سپاٹ عبارت آرائی شعر کی ساری خوب صورتی اور نکتہ سنجی کا خون کر دیتی ہے۔ چونکہ مشاہدۂ حق کی گفتگو میں بادہ و ساغر کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ شعر میں الفاظ اور اشارے اور استعارے علامت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، جن کی مصنوعی دنیا میں داخل ہونے کے لیے شاعر کے ذہن کا مطالعہ اور اس کے جذبات و محسوسات کو سمجھنا لازمی ہے، جس سے ہم شعر کی معنی تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ فنکار جو کچھ اپنے فن پارے میں پیش کرتا ہے وہ اس کی انفرادیت کا مظہر ہوتا ہے جس سے اس کی شخصیت اور اس کی شعری انفرادیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ عصری حسیت اور اجتماعی رشتے کی شناخت، خارجی زندگی اور اندرونی /انفرادی کا حامل دونوں حالتوں میں زندگی کے اہم ترین پہلوؤں کا علم، اس کے عہد کا مزاج، اس کے شعور کی تشکیل کرنے والے واقعات کا عرفان لازمی ہے۔ مجیبی کی زندگی میں بے شمار پیچ و خم اور ان کی ذہنی اور شخصی نشیب و فراز ان کے اندر مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔ جو شعر میں ڈھل کر انفرادی، ذہنی اور فکری کیفیت کا ارتعاش پیدا کردیتا ہے۔ جس سے ان کی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
شاعری کے نفسیاتی، جمالیاتی، سماجی، فکری و عصری اور انفرادی پہلوؤں کا جائزہ لے کر ان کے کلام کا مطالعہ اور مقام کا تعین کیا جائے تو …… یہی شعر و ادب کی انفرادی اور تہذیبی اہمیت ہے۔
شاعری آوازوں کا آئینہ خانہ ہے۔ سچی آوازیں وہ ہیں جس کی روشنی میں ہم اپنا چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں اور دوسروں کا چہرہ بھی دکھا سکتے ہیں اور یہ سچی شاعری کا شناس نامہ ہے۔ شاعری فرد کے اندر کا اندھیرا بھی ہے اور اجتماعیت کی گونج بھی، اندھیرے میں آواز تنہا سفر کرتی ہے اور روشنی کی ڈور کا سرا لے کر آوازوں کا کارواں بناتی ہے۔ اسی نظریے کو ہم زندگی سے متصور کرتے ہیں۔ چہرہ دھوکہ دے سکتا ہے آواز نہیں، مجیبی کی آواز کا بھاری پن اور صلابت تہہ در تہہ نرمیوں سے عبارت ہے۔ وہ طبعاً شاعر ہیں، حساس، جذباتی، زود رنج اور بیدار۔ اسی لیے ان کی شعری جمالیات الفاظ سے وہی رشتہ قائم کرتی ہے جو معنی کا ہوتا ہے۔ انھیں شدت سے اس امر کا احساس تھا کہ اپنی آواز اور اپنا انفرادی لہجہ ہی شاعری کا شناخت نامہ پیش کرتا ہے۔ معاصر زندگی کی نا آسودگی اور غیر یقینی صورت حال نے ان کی شاعری کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بڑے شہروں کے آشوب کو اپنے تخلیق کا ہنر بنانے کا سلیقہ جدید شاعری کا نمایاں عنصر ہے، حقیقت پسندی کی آنکھ اور اپنے تجربے سے، معاشرے سے انسان کی ٹوٹتی ہوئی اقدار کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ ان کے لیے ہر تجربہ شعری تحریک کا محرک ہے اور اس کا اظہار فنی سطح پر بھی ہوا ہے۔ انھوں نے شاعری کے موضوعات کو حصار میں قید نہیں رکھا۔ شکست و خواب، بے یقینی اور تذبذب، تشکیل اور انتشار، سیاسی اور سماجی مسائل سے فرار، ذات اور وجود ذات کی تلاش، خود نمائی اور خود نگری، زندگی کاحاصل اور موت کی جستجو یہ تمام مسائل و رجحانات ان کے وسیع تر تجربات سے ہم آمیز ہو کر ان کے تخلیقی عمل کا حصہ بنتا ہے۔ رومانی طرز فکر ترقی پسند لہجے کا اثر اور جدید حسیت کا ہر پہلو ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔ ان کا شاعرانہ کردار اور رویہ بنے بنائے نظریاتی سانچوں میں ڈھلا ہوا نہیں بلکہ آزاد ہے، جس پر شک اور بے یقینی کی پرچھائیں لرز رہی ہیں۔
٭٭٭
Dr.Quaisar Zaman
Urdu Ghar,Suleman Colony
Hazaribagh(Jharkhand)
Mob:09031919207
Email:quaisarzaman98@gmail.com
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : لطف الرحمن کی تنقید: ایک بازدید