یوسف شمسی کاکوی
رابط: 9162216560
جب کوئی فرد اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو محض ایک وجود نہیں جاتا، اس کے ساتھ ایک عہد، ایک اندازِ فکر، ایک اخلاقی معیار اور ایک جیتی جاگتی روایت بھی خاموش ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک روشن مثال، ایک درخشندہ ستارہ، الما لطیف شمسی تھے۔ ان کی وفات پر اخبارات کے صفحات اشکبار ہوئے، اربابِ سیاست و دانشورانِ ادب نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا، اور یہ سوال زبان زدِ عام ہوا کہ آخر اس شخصیت میں ایسا کیا تھا جس نے انھیں بیک وقت ایک ہیرو، ایک انقلابی سپوت اور ایک عظیم ادبی ورثے کا امین بنا دیا-
کاکو (بہار) جیسی مردم خیز بستی کے علم و ادب سے منور ماحول میں عبد العزیز شمسی جیسے زمین دار، مصلح اور معمارِ سماج کی کاوشوں نے جس شعوری فضا کو جنم دیا، وہ ایک تاریخی زمینہ ثابت ہوئی۔ ان کے صاحب زادے احمد داؤد شمسی نے اپنے علم، عمل اور استقلال سے اس روایت کو ایک عالمی شناخت عطا کی۔ ICS کی سند، وائسرائے ہند کے پرائیویٹ سیکریٹری کا منصب، اور عالمی سیاست و تحریک آزادی کے سائے میں گزری زندگی؛ یہ سب کچھ ایک معمولی خاندانی قصہ نہیں، بلکہ برطانوی ہندستان کی تہذیبی کشمکش اور ایک بیدار مغز مسلمان کی سیاسی بصیرت کی داستان ہے۔
احمد داؤد شمسی کی زندگی کی کہانی اس وقت ایک نیا موڑ لیتی ہے جب 21 مئی 1936 کو راشٹرپتی بھون میں ایک ایسے بچے نے آنکھ کھولی جس نے مستقبل میں اپنے آبا و اجداد کے علمی اور سیاسی ورثے کو ایک نئی معنویت بخشی۔ یہ بچہ ہی الما لطیف شمسی تھے۔
لطیف شمسی کی ابتدائی تعلیم لیڈی ارون اسکول سے شروع ہوکر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی تک پہنچی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی نگرانی میں ان کی تربیت نے انھیں صرف ایک طالب علم نہیں بلکہ ایک حساس، باشعور اور فعال نوجوان میں ڈھال دیا۔ AMU میں آپ کا قیام 22 سالوں پر محیط رہا۔ علم سیاسیات میں ایم. اے کی سند حاصل کی۔ آپ طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے، اہم علمی و ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے، اور ہندستان کی مختلف سیاسی و سماجی تحریکات میں متحرک شرکت کی۔
علی گڑھ سے واپسی کے بعد لطیف شمسی نے عملی سیاست کی راہوں کا رخ کیا۔ 1962 میں کانگریس کی مخالفت، سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت، رام منوہر لوہیا جیسے رہنما سے قربت، ضلع جنرل سکریٹری سے آل انڈیا جنرل سکریٹری تک کا سفر، اور 1974 کے جے پی آندولن میں فعال شرکت۔ یہ سب کچھ آپ کی سیاسی بصیرت، خودداری اور اصول پسندی کا ثبوت ہے۔
ایمرجنسی کے دوران نظر بندی، جیل کی صعوبتیں، سیاسی جلسے، رہنماؤں کے خطوط، اخباری بیانات اور عملی سیاست سے وابستگی یہ سب آپ کی جہدِ مسلسل کی تصویریں ہیں۔ لطیف شمسی کی زندگی سیاست کے اس چوراہے پر گزری جہاں اصول، وفاداری اور عزتِ نفس کا سودا نہیں ہوتا۔
انجم کاکوی کے قلمی نام سے آپ نے شاعری کے میدان میں بھی خود کو منوایا۔ لال قلعہ ہو یا بزم اتحاد، اردو اکیڈمی ہو یا اردو ہندی ساہتیہ سنگم، ہر جگہ آپ کی موجودگی ادب کے لیے باعثِ زینت رہی. ان کی دو مطبوعہ کتابیں کا کو کی کہانی الما کی زبانی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور میری داستان حیات کو ان کی زندگی میں کافی شہرت ملی۔ کئی مضامین و تبصرے شائع کیے گئے، جیسے یہ کتابیں ادب میں قیمتی اضافہ ہیں۔
لطیف شمسی کی شخصیت میں ایک خاص نوع کی خود داری، انا، اصول پسندی اور ذہانت کا امتزاج تھا۔ انھوں نے کبھی سرکاری عہدے، پنشن یا مراعات کی طلب نہیں کی۔ یہ ان کی خودداری تھی یا احساسِ برتری کہہ نہیں سکتے لیکن اس نے انھیں منفرد ضرور بنایا۔
ان کی والدہ سلمیٰ شمسی نے ان کی تربیت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ بیوگی کے بعد انھوں نے اپنی پوری زندگی لطیف صاحب اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کر دی. لطیف صاحب کی سخاوت، تعلیمی خدمات اور ادبی اداروں کے قیام میں شرکت کاکو جیسے قصبے کو علمی و تہذیبی مرکز میں تبدیل کرنے کی کوشش تھی۔ انجمن ترقی اردو، بزم کہکشاں، اردو ہندی ساہتیہ سنگم جیسے ادارے آپ کی رہ نمائی میں قائم ہوئے۔ کنیا اچ ودیالیہ کاکو میں برسوں تدریسی خدمات مفت انجام دیں۔
8جنوری 2025 کو آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کا انتقال صرف ایک فرد کا رخصت ہونا نہ تھا، یہ ایک عہد کا خاتمہ تھا، ایک تاریخ کا بند ہو جانا تھا۔
لطیف شمسی کی زندگی ادب، سیاست، فکر، وفا اور خودداری کی ایک حسین داستان ہے۔ ایسی داستان جسے صرف پڑھا نہیں جاتا بلکہ نسلوں تک سنایا جاتا ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :قاسم خورشید اپنے فن کے آئینے میں
انجم کاکوی کی یاد میں
شیئر کیجیے