ڈاکٹر نا صرالدین انصار
ایکسٹنشن آفیسر،
ضلع پریشد امراؤتی، مہاراشٹر، انڈیا
اردو ادب زمانۂ قدیم سے یعنی اس وقت سے جب ہندستان میں اردو زبان عربی، فارسی، ترکی، کھڑی بولی اور دیگر مقامی زبانوں کی آغوش میں پرورش پارہی تھی، اپنی نہج کا تعین کررہا تھا۔ اردو ادب، دنیا کی کسی بھی زبان کے ادب کی طرح، دو حصوں میں منقسم ہے:
نثری ادب
شعری ادب
نثری ادب کا بڑا حصہ داستانوں میں جلوہ گر ہے جب کہ شعری ادب کا بڑا حصہ منظوم داستانوں یعنی مثنویوں پر مشتمل ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب شاعری کا دامن وسیع نہیں ہوا تھا اور تقریباً ساری زبانوں کا ادب مجموعی طور پر اور شاعری خصوصی طور پر ایک مخصوص نہج پر ہی مرکوز تھا۔ موضوعات بھی تقریباً ایک جیسے تھے اور محاکات بھی مشابہ اور مماثل۔ لیکن فکری رجحان کے لحاظ سے ابتدائی شاعری مذہب اور مذہبی فکر پر مبنی تھی۔ اس نوع کی شاعری کو ہم اِن دنوں تقدیسی ادب یا تقدیسی شاعری کہتے ہیں۔ انگریزی میں چاسر کی ’کینٹر بری ٹیلز‘ تیرھویں صدی عیسوی میں لکھی گئی جو ان مسافرین کی منظوم داستان تھی جو ایک مذہبی زیارت کے لیے عازم سفر ہوتے ہیں۔ اگر قدیم عربی اور یونانی ادب کا مطالعہ کریں تو یہ ادب دیوی دیوتاؤں اور دیومالائی و اسطوری کرداروں کے ذکر سے بھرا پڑا ہے۔ یہ بھی اسطوری اور کسی حد تک تقدیسی ادب کے زمرے میں آتا ہے۔
شاعری کی مختلف اصناف میں مثنوی اور نظمیں مرکزی مقام رکھتی ہیں۔ نظم کا اہم اور بنیادی نکتہ یہی ہے کہ یہ ہیئت کے لحاظ سے متنوع ہوسکتی ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے یک نوعی ہوتی ہے۔ غزل ہی واحد صنف ہے جس کا ہر شعر اپنی ایک آزادانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد تقدیسی ادب کی تخلیق کے تعدد اور بہاؤ میں گراں بہا اضافہ ہوا اور خدا کی وحدانیت اور محمد ﷺ کی رسالت و بعثت جیسے موضوعات کو مختلف زاویوں سے باندھنے میں شعرا نے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کامیاب کوششیں کیں۔ تقدیسی ادب میں جہاں حمد، مناجات، دعا، التجا وغیرہ خدا کی بارگاہ میں پیش کی جاتی ہیں وہیں اللہ کے رسول کی مدحت و تذکرے میں نعت جیسی صنف کافی آگے دکھائی دیتی ہے۔ لیکن بدلتے زمانے اور تبدیل ہوتے رجحانات کے ساتھ ساتھ نعت نے جہاں ایک طرف ایک صنف کے طور پر اپنی موضوعاتی شناخت قائم کرلی وہیں اس نے ہر منظوم صنف کی ہیئت میں اپنا مقام بنالیا۔ نعت ہر ہیئت، ہر صنف میں کہی جانے لگی۔ جدید عہد میں بھی نعت نے مختلف اسالیب اور پیرایے اختیار کرکے اپنے تغیر پذیر مزاج کا پتا دیا۔
دنیا کی تقریباً ساری زبانوں میں نعت کہی جاتی ہے، لیکن نعت کے لیے صرف عربی، فارسی اور اردو میں نعت کی اصطلاح رائج ہے۔ دیگر کسی زبان میں اس کے لیے کوئی ایک اصطلاح متعین نہیں ہے۔ انگریزی دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ انگریزی زبان میں بھی نعتیں کہی جاتی ہیں۔ لیکن اس زبان میں بھی نعت کے لیے کوئی مخصوص اصطلاح متعین اور مروج نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس زبان میں نعتیں بھی اس تعدد اور فریکونسی کے ساتھ نہیں کہی گئیں جتنی عربی، فارسی، اردو اور دیگر زبانوں میں کہی گئی ہیں۔
یہیں سے نعت کے لیے انگریزی زبان میں ایک مخصوص اصطلاح وضع کرنے کی سمت پیش قدمی ہوئی۔ یہ پیش قدمی ہندستان سے تعلق رکھنے والے اردو اور انگریزی میں نہایت عمدہ اور معیاری شاعری کرنے والے شاعر حسنین عاقب نے کی۔
جناب حسنین عاقبؔ نوجوان نسل کے ایک معروف، ہمہ جہت اور ہفت زبان قلم کار ہیں۔ ہمارا ان کے لیے ہمہ جہت اور ہفت زبان جیسی تراکیب کا استعمال کرنا محض توصیفی، تاثراتی یا روایتی انداز نہیں ہے بلکہ ان کی باکمال ادبی شخصیت ان تراکیب کی حقانیت کو ثابت کرتی ہے۔ حسنین عاقب اس لحاظ سے ہمہ جہت ہیں کہ اخلاق و کردار، تقریر و تحریر اور شعر و ادب کا ایسا کوئی شعبہ نہیں جہاں ان کی طبیعت کی جولانی اور فکرِ رسا کی پہنچ نہ ہو۔ جہاں وہ شاعری کی جملہ اصناف پر حیرت انگیز قدرت رکھتے ہیں، وہیں انھیں تنقید، افسانہ اور انشائیہ نگاری پر بھی ملکہ حاصل ہے۔ عربی، ہندی اور مراٹھی زبانوں سے فطری رغبت، اردو میں غزلوں کے مجموعہ ”رَمِ آہو“ کی تخلیق، فارسی شاعری میں ان کی طبیعت کی جولانی، انگریزی میں flight of a wingless bird اور fragrance نامی دو انگریزی شعری مجموعوں کی تخلیق کے ساتھ ساتھ متعدد عالمی شہرت یافتہ اردو شعرا کی تخلیقات کے انگریزی تراجم، قر آن کے تیسویں پارے کی منظوم انگریزی ترجمانی اور انگریزی میں نعت نگاری کے ساتھ ساتھ نعت کے لیے انگریزی میں ایک متبادل اصطلاح کا دنیا بھر میں سب سے پہلے اختراع کا اعزاز، ایسے کار ہائے نمایاں ہیں جو انھیں ایک ہمہ پہلو، ہفت زبان اور عالمی سطح کے فن کار کی صف میں شامل کر تے ہیں۔بہ حیثیت تخلیق کار، حسنین عاقب کے فن کا سب سے نمایاں پہلو نعت نگاری میں ان کی فکر کی رسائی اور اس صنف سے ان کے مزاج کی ہم آہنگی اور مناسبت میں مضمر ہے۔ آئیے، ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ تقدیسی ادب کی طرف ان کے رجحان کے پسِ پشت کون سے عوامل کار فرما رہے ہیں۔
دراصل حسنین عاقب نے ایک دین دار گھرانے میں آنکھیں کھولیں جہاں خالص اسلامی اندازِتربیت کے ساتھ ساتھ حمد، نعت و منقبت پر مشتمل تقدیسی شاعری ماحول اور معمول کا حصہ تھی۔ ان کے دادا حضرت محمد میر باز خانصاحب المعروف بہ بابا تاج مستانؒ اپنے وقت کے ایک معروف صوفی بزرگ تھے جنھوں نے بچپن ہی سے حسنین عاقب کو مشرقی شعریات سے روشناس کروا کے غیر شعوری طور پر ان کے دل و دماغ میں صالح، تعمیری اور تقدیسی شاعری کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ حسنین عاقبؔ کی مادری زبان تو اردو رہی لیکن دادا کی فہمائش کے وہ انمٹ نقوش جن میں فارسی شعریات کو بڑا دخل تھا، ان کے تحت الشعور کا حصہ بن گئے اور انھوں نے اپنے علاقے کی عام روایات سے ہٹ کر فارسی میں نعت گوئی کو ترجیح دی۔ اگر چہ ان کی فارسی نعتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے تاہم یہ نعتیں اپنی کیفیت اور تاثر میں حد درجہ منفرد ہیں۔ پھر اس ماحول میں جہاں قحط الرجال کی سی کیفیت ہو اور اچھی اردو بولنے اور لکھنے والے تک دن بدن کم ہوتے جارہے ہوں، ان حالات میں کسی نوجوان کا فارسی زبان کی طرف مائل ہونا اور اس میں طبع آزمائی کر نا نہایت غنیمت اور بڑے دل گردے کا کام ہے۔ علاقۂ ودربھ کے خشک ماحول میں حسنین عاقب کو اپنے فارسی ذوق کی آبیاری سے لے کر تکمیل کے مراحل تک، کِن دشوار گزار راستوں اور کس قدر محنتِ شاقہ سے گزرنا پڑا ہوگا، اس کا اندازہ دہلی، لکھنؤ اور لاہور میں بیٹھ کر نہیں کِیا جاسکتا۔ ’مشتے نمونہ از خردارے‘ کے مصداق ان کی فارسی نعتوں میں عقیدت کا سیلِ رواں ملاحظہ ہو۔
ہر خیا لے را بروں انداختم
حرفِ نعتِ تو بر آمد از قلم
خامہ ئ من کارِ دیگر، چہ کُند؟
جُز نَوِشتن مدحتِ شاہِ اممؐ
نعت را ایں رمز عاقبؔ گوش کُن
عشق را قر طاس کُن، دل را قلم
یعنی وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر خیال کو آزمالیا، اسے اپنے دماغ سے باہر نکال کر ٹٹولا تب کہیں جاکر آپ ﷺ کی نعت کے الفاظ میرے قلم سے نکلے۔ دوسرے شعر میں وہ کہتے ہیں کہ میرا قلم اس کے علاوہ دوسرا کام کیا کرسکتا ہے کہ وہ آپ ﷺ کی مدحت تحریر کرے؟ عاقب اسی کو اپنے قلم کی معراج تسلیم کرتے ہیں۔ تیسرے شعر میں بھی جو خیر سے اس نعتیہ غزل کا مقطع ہے، وہ نعت کہنے والوں کو مشورہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود کو مخاطب کررہے ہیں لیکن اس تخاطب میں تعمیم کے ساتھ ہر نعت گو شاعر موجود ہے جسے مخاطب کرکے وہ کہہ رہے ہیں کہ اے عاقب، نعت گوئی کا یہ اصول سن رکھو، کہ اگر تمھیں نعت کہنی ہو تو پھر عشق کو کاغذ بنالو اور اپنے دل کو قلم بنالو، تب جاکر تم نعت کہہ سکتے ہو۔
نعت گوئی سے حسنین عاقب کے ذوق و وجدان اور طبیعت کو ایک خاص لگاؤ ہے۔ بلکہ ان کے فن کا کمال ہی نعت گوئی کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ فارسی نعت گوئی کے ساتھ ساتھ ان کے فن و فکر کے اصل جوہر ان کی انگریزی نعتیہ شاعری میں کھلتے ہیں۔ وہ دنیا کے ان معدودے چند شاعروں میں شامل ہیں جنھوں نے
اہلِ زبان نہ ہو نے کے باوجود انگریزی زبان میں شاعری اور نعت گوئی کی سعادت حاصل کی ہے۔ یہاں انگریزی شاعری کے بحر، وزن اور آہنگ سے لے کر جملہ فنی لوازمات پر ان کی حیرت انگیز قدرت ایک قاری کو اچنبھے میں ڈال دیتی ہے اور اس کی زبان سے بر جستہ طور پر ’ایں سعادت بزورِ بازو نیست‘ کے شکریے کے کلمات نکلتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے جس کی مخاطب پوری انسانیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو پوری انسانیت کے لیے شمعِ ہدایت، رہنما اور رحمت بناکر بھیجا ہے۔ اللہ کے رسول نے اپنی تعلیمات اور پیغام کے ذریعے انسانیت کو شرک و کفر اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی میں لانے کو اپنی بعثت کا مقصد بنائے رکھا تھا۔ حسنین عاقب ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور آپ کے پیغام کی اہمیت کا مکمل شعور رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے اپنی نعتوں کے لیے رحمت اللعالمین کی مشعلِ ہدایت کی ضیا سے نور حاصل کرکے انگریزی شاعری کے ابواب کو منور کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے۔ حضور کی بعثت کی ضرورت اور مقصد اور آپ کی رحمتِ عالم ہونے کو کس قدر خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
And God was very considerate and kind
, And He made up His mind
To Arab, He sent his last messenger
. Who was the entire world’s purifier
, From Almighty, let me say and mind
. He was a gift to the whole mankind
(یہ خدا کی مہربانی اور اس کا کرم ہی تھا کہ اس نے ایک فیصلہ کیا جس کے تحت اس نے عرب کی سرزمین پر اپنا ایک پیغمبر مبعوث کیا۔ یہ پیغمبر دنیا کی تطہیر کرنے والا تھا۔ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ پیغمبر یعنی پیغمبر آخر الزماں ﷺ اللہ کی جانب سے تمام انسانیت کے لیے ایک تحفہ تھے۔)
آپ نظم دیکھیے تو کہیں سے ایسا نہیں لگے گا کہ اس نظم میں اردو کا کوئی عنصر شامل ہے۔ لسانی ساخت اور لفظی تشکیل کے اعتبار سے بھی یہ خالصتاً انگریزی الاصل ہے۔ یعنی جو خیال نظم کیا گیا ہے، وہ خیال شاعر کے ذہن میں بھی انگریزی ہی میں پیدا ہوا۔ عاقب کی انگریزی نعتوں یعنی پروفی ایم کی یہی خاصیت انھیں ممتاز کرتی ہے۔ اگرچہ حسنین عاقب کے سامنے انگریزی نعت نگاری کی کوئی واضح روایت موجود نہیں، تاہم ان کے فن کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے اپنی انگریزی نعتوں میں نعت گوئی کے تمام شعری، فنی اور فکری لوازمات کو بدر جۂ احسن ملحوظ رکھا۔ انگریزی شاعری کے آہنگ کو بھی مجروح نہیں ہونے دیا تو ساتھ ہی آپ کے پیغام کی حقانیت کو بھی کما حقہ پیش کردیا۔ در اصل، حسنین رسولِ مقبول کی محبت میں حد درجہ سرشار ہیں اور یہی جذبۂ سر شاری ان کی انگریزی نعتیہ شاعری کا محرک ہے۔ انھوں نے آپ کی آمد کا مقصد اور صفاتِ عالیہ کا ذکر کرتے ہوئے کس قدر مہارت سے سلسلۂ انبیاء پر ختمِ نبوت کی مہر لگادی کہ ایک قاری کے سامنے بعثت سے لے کر تکمیلِ دین کا پورا منظر نامہ آگیا اور وہ عَش عَش کر اُٹھا۔
, This is the part of my faith and my belief
That on tree of prophethood, he was the last leaf
His pious teachings were the sign of salvation
It were for world’s complete reformation
Before he left the world, his work he had done
وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ میرے عقیدے اور ایمان کا حصہ ہے کہ محمدﷺ کی ذات اقدس نبوت کے درخت کا آخری برگ تھی۔ آپ ﷺ کی تعلیمات میں انسانوں کی نجات مضمر تھی۔
آپ ﷺ جس وقت دنیا سے رخصت ہوئے، اس وقت تک آپ ﷺ نے اپنی بعثت کے تمام حقوق مکمل طور سے ادا کرکے دین کو بھی اہل ایمان پر مکمل کردیا تھا۔)
دنیا کے تمام ہی صفِ اول کے سوانح نگاروں نے آپ کی سیرت کی تمام خوبیوں اور اسوۂ حسنہ کے ہر پہلو کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ حسنین عاقب نے اپنی ایک انگریزی نعت میں محمدِ عربی کے ان تمام سوانح نگاروں کے تاثرات کو شعری پیکر عطا کر کے نہ صرف نعت گوئی کے کینوس کو وسیع کیا ہے بلکہ انسانِ کامل کے اتباع کی دنیا بھر کے قارئین کو دعوت بھی دی ہے۔ حسنین کا اندازِ نعت گوئی ملا حظہ ہو۔
, ” Of all sacred religions”, Leo Tolstoy says
. "In prophet’s teachings, we find essences”
In "Genuine Islam”, G.B.Shaw writes with heed
"For the future Europe, acceptable wil be Mohammad’s creed”
, Keeping his faith, solemn, sincere and dart
. In the "100”, thus put in Micheal Hart
Supremely successful for religious and secular cause
The only man in human history, the prophet was…
(ٹالسٹائی کہتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی تعلیمات میں ہمیں تمام مذاہب کی تعلیمات کا نچوڑ محسوس ہوتا ہے۔ ’حقیقی اسلام‘ میں جارج برنارڈ شا بڑی سنجیدگی کے ساتھ لکھتا ہے کہ محمدﷺ کی نسل مستقبل کے یوروپ کے لیے قابل قبول ہوگی۔ مائیکل ہارٹ، اپنی کتاب ’ہنڈریڈ‘ میں لکھتا ہے کہ انسانیت کی تاریخ میں اب تک آپ ﷺ اپنے مذہبی اور غیر جانبدارانہ مقصد میں سب سے کامیاب شخص کے طور پر ابھرے ہیں۔‘)
اردو زبان کی دل کشی، اردو شاعری کی جادو بیانی اور اپنی کمیت اور کیفیت، ہر دو لحاظ سے اردو شعر و ادب کی اہمیت کے باوجود اردو والوں کے یہاں جن شعبوں میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے، ان میں سب سے اہم شعبہ ”وضعِ اصطلاحات“ کا ہے۔ اس شعبے میں ہمارے یہاں ابتدا ہی سے بہت کم توجہ دی گئی ہے اور رفتارِ زمانہ کے ساتھ تشنگی کا احساس مزید بڑھتا جارہا ہے۔اس کے مقابلے میں ہندستان کی دیگر علاقائی زبانوں کی طرف توجہ کی جائے تو وہاں اس باب میں قدرے بہتر اور منظم کام نظر آتا ہے۔ جب اردو ہی میں وضعِ اصطلاحات کی طرف کم توجہی ہو تو اردو شاعری کی بعض اصناف جو دنیا بھر میں نظم، غزل، حمد و نعت کے ناموں سے بھی مقبول ہیں اور دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی انھی ناموں سے پکاری جا تی ہیں، ان کے لیے متعلقہ زبانوں میں کسی اصطلاح یا متبادل کا وضع کرنا اردو والوں کے لیے امرِ محال بن جاتا ہے۔ جناب حسنین عاقب کی فکرِ رسا، ذوق و وجدان اور جذبۂ خلوص کو صد آفرین کہ انھوں نے انگریزی میں نعتیں لکھنے کا ارادہ کیا تو نعت کے لیے انگریزی میں کوئی متبادل لفظ نہ پاکر ان کے ذوق نے سب سے پہلے نعت کے لیے کسی اصطلاح کا مطالبہ کیا۔ در حقیقت کسی اصطلاح کا اختراع کوئی آسان کام نہیں۔ پھر جب معاملہ کسی غیر زبان کا ہو تواس کام کی مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ یہاں اس زبان کی دیگر متعلقہ اصطلاحات کے علم کے ساتھ ساتھ زبان کے مزاج سے کُلی واقفیت، الفاظ کے صوتی آہنگ کا ادراک اور اس اصطلاح کے قبولِ عام کے پیش ِ نظر سلیس، عام فہم اور قابلِ ادا الفاظ کے انتخاب کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے۔ حسنین عاقب نے نعت کے لیے اصطلاح وضع کر تے وقت لفظ prophet اور poem کو اس قدر مہارت، چابک دستی اور خوب صورت انداز میں یکجا کرکے اصطلاح PROPHIEM ایجاد کی ہے کہ یہ متبادل اپنے صوتی آہنگ کے ساتھ ساتھ زبان کے مزاج اور مطالبات پر بھی پورا اُترتا ہے۔ نیز ”عملِ وضعِ اصطلاح“ کے اصول و ضوابط اور تقاضوں کی بھی مکمل پابندی کرتا نظر آتا ہے۔ حسنین نے اپنی ایک نعت میں اس کی وضاحت یوں کی ہے۔
For such poem in English, I attribute a word
This word, I am sure, no one may have heard
‘Proph’ is for prophet, ‘em’ is for poem, joined by ‘i’
I am telling all this, before you ask me, ‘why’
A prophiem wades through the life of prophet
His deeds, teachings, his person, and events he met
Although on island of knowledge, I am an elf
The coinage of ‘prophiem’, I owe to god and myself
(خود اپنی ایک پروفیم میں حسنین عاقب اس اصطلاح کے وضع کرنے کی تفصیل شاعرانہ اور منظوم انداز میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انگریزی میں اس نوع کی نظم کے لیے میں ایک لفظ منسوب کرتا ہوں، مجھے یقین ہے کہ اس لفظ سے متعلق اب تک کسی نے کچھ نہیں سنا ہوگا۔ پروف، پروفیٹ سے ماخوذ ہے جب کہ ’ایم‘ پویم‘ سے؛ اور ان دونوں الفاظ کو میں نے ’آئی‘ سے جوڑدیا ہے۔ میں آپ کو یہ سب کچھ آپ کے سوال کرنے سے قبل ہی بتائے دے رہا ہوں۔ پروفی ایم آپﷺ کی سیرت، آپ ﷺ کی حیات طیبہ، آپ کی تعلیمات، آپ کی شخصیت اور آپ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔
حالانکہ میں علم کے جزیرے پر ایک بونے کی طرح ہوں لیکن میں اس اصطلاح ’پروفی ایم‘ کے لیے خود اپنی کوشش کو اور اپنے خدا کی ودیعت کو کریڈٹ دیتا ہوں۔)
بہ ظاہر حسنین عاقب کا یہ کام محض ایک متبادل کے اختراع کا ہے، تاہم صرف اس ایک کام کی دنیا بھر کے علمی حلقوں اور اربابِ شعر و ادب کی جانب سے جو پذیرائی ہوئی ہے، اس سے اس کام کی اہمیت اور قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔
چونکہ یہ کام دنیا میں پہلی بار ہوا ہے اس لیے عالمی سطح پر انگریزی شعر و ادب میں کام کر نے والوں کی امید بر آئی اور ان کے لیے ایک اہم معرکہ سر ہوگیا۔ انگریزی ادب کے نامور اہل قلم اور اربابِ نقد و شعر نے حسنین عاقب کے اس کام کو جن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اگر ان تمام تاثرات کو یہاں شامل کر دیا جائے تو یہ مضمون ان کے مناقب ہی سے بھر جائے گا۔ لہٰذا یہاں چند اہلِ قلم کی آرا کو نقل کیا جاتا ہے جس سے قارئین کو موصوف کے کام کی اہمیت اور افادیت کا علم ہو سکے۔ بزرگ امریکی شاعرہ Lorraine Colon نے نعت کے انگریزی متبادل لفظ prophiem کی اختراع پر اپنی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کِیا۔
I enjoyed reading your poem. This coining of a new word is quite clever. And you explained so clearly how you arrived at this word. Truly, an inspired writing
(Lorraine Colon
Missourie, United States Of America.)
(میں آپ کی نظم پڑھ کر بہت محظوظ ہوئی۔ آپ نے نہایت ذہانت کے ساتھ ایک نئی اصطلاح وضع کی ہے۔ اور آپ نے اس کی تشریح بھی بہت صاف طور پر کردی ہے۔ حقیقتا یہ ایک تحریک دینے والی تحریر ہے۔)
ایک اور شاعرہ، اسماء الصدیق لکھتی ہیں۔
I was confused about what PROPHIEM means at first. But now that I know the meaning, it is very creative! Great poem, Masha allah.
(Asmaa-Assiddiq. Decatur. Georgia)
(ابتدا میں مجھے اُلجھن ہوئی کہ prophiem کے کیا معنی ہو تے ہیں۔ لیکن اب جب کہ مجھے معلوم ہوچکا ہے، یہ نہایت تخلیقی عمل ہے۔ عظیم نظم، ماشاء اللہ۔)
انگلینڈ کے ایک شاعر اور نقاد ڈیوڈ ووڈس نے اس ضمن میں اپنے تاثر کا یوں اظہار کیا۔
A delightful poem where you coined a new word.
(David woods, Swansea, United Kingdom)
(ایک خوشگوار نظم جس میں آپ نے ایک انگریزی لفظ ایجاد کیا ہے۔)
انگریزی کے نہایت با صلاحیت اور نوجوا ن نائیجیریائی عیسائی شاعرسالومن واکر اکائیسابور کے یہ تاثرات جان کر حسنین عاقب کے معیارِ فن کے تئیں ہمارا یقین مزید بڑھ جاتا ہے۔ الفاظ ملاحظہ کیجئے۔
Whenever I read poems of this ilk, I am.. weak, in amazement. What is that you think when you take to write? Gracious God! When I saw first the word PROPHIEM, I sought my lexicon, but could not find it. But then when I was done reading, I thought the word had existed a long time by the way and manner it’s meaning was diagnosed and treated. I am in awe and convinced that God hears my prayer for you that HE USES YOU LIKE THE PEN OF A READY WRITER. (Soloman Walker Akaisabor. Nigeria.)
(جب میں اس قسم کی نظم پڑھتا ہوں تو میں حیرت میں پڑ جاتا ہوں۔ جب آپ لکھنے بیٹھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا ہوتا ہے؟ سبحان اللہ۔ جب میں نے پہلی دفعہ لفظ prophiem پڑھاتو میں نے اپنا تمام تر ذخیرۂ الفاظ چھان مارا لیکن مجھے یہ لفظ کہیں نہیں ملا۔ پھر میں نے سوچا کہ جس ڈھنگ سے اس لفظ کے معنی کی تشخیص اور برتاو نظر آتا ہے، یہ لفظ تو بہت طویل عرصے سے موجود ہے۔ مجھے تعجب ہے اور یہ میرا یقین بھی ہے کہ آپ کے لیے کی گئی میری دعا خدا ضرور سنتا ہے کہ وہ آپ کے قلم کو کسی مشاق قلم کار کی طرح استعمال کرتا ہے۔)
حسنین عاقب کے اس کمالِ فن کے تئیں دیگر مشہور عالمی شخصیات کی آرا آپ اسی کتاب میں کسی اور جگہ پڑھ سکیں گے۔ در حقیقت کسی بھی زبان میں کسی ایک لفظ کا اختراع یا coining آسان عمل نہیں ہے۔ اس کے لیے علم و آگہی اور ذوق و وجدان کے ساتھ ساتھ توفیق اور الہام بھی درکار ہوتے ہیں۔ پھر معاملہ جہاں تقدیسی ادب اور شاعری سے متعلق ہو تو سعادت، توفیق اور الہام کے پہلو مقدم ہوجاتے ہیں بہ قول شخصے
توفیق عزیز است بہر کس نہ دہند
ایں گوہرِ نا سُفتہ بہر خس نہ دہند
اس میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پروفیم ایک دلپذیر اصطلاح ہے جس پر اہل زبان کو لازماً تحقیقی کام کرنا چاہیے۔ اس اصطلاح کے فروغ اور ترویج نیز ا س کے ابلاغ کی بھی ضرورت ہمیں محسوس ہوتی ہے۔ تقاضا اس بات کا یہ ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ یہ اصطلاح انگریزی لغات میں بھی جگہ حاصل کرلے اور ہم نعتیہ ادب کے شعبے میں کام کرنے والے اہلِ قلم کے حصے میں یہ سعادت بھی آجائے۔
حسنین عاقب اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ یہ گوہرِ نا سُفتہ ان کے حصہ میں آیا اور اللہ تعالیٰ نے نعتِ پاک کے انگریزی متبادل کی انھیں توفیق ودیعت
کی۔ حسنین عاقب کے انگریزی نعتیہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے یقینا ہر قاری ان کے کلام کی بر جستگی، ندرت بیانی او ر بلند خیالی کی بے ساختہ داد دے گا کہ ان کی یہ نعتیہ شاعری ”ایں چیزے دیگر است“، کے مصداق ہے۔ اس مقالے میں حسنین عاقب کی ہمہ پہلو ادبی شخصیت سے صرف انگریزی نعتیہ کلام ہمارے پیشِ نظر تھا اور مقالے کی طوالت کے باوجود راقم الحروف کو صرف اس ایک پہلو پر مکمل گفتگو نہ کر پانے کا احساس ہے تو ان کے دیگر ادبی کار ناموں کے تذکرے اور تفصیل کا یہاں کیا موقع!
حسنین عاقب جس حیرت انگیز طریقے سے شعر و ادب کی مختلف اصناف میں اپنے فکر و فن اور اپنے قلم کا جادو دکھا رہے ہیں، اس سے یہ یقین ہو گیا ہے کہ ان شاء اللہ مستقبل قریب ہی میں ان کی ہمہ جہت شخصیت کے دیگر پہلوؤں کا بھر پور تعارف ادبی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
***
منابع:
خامہ سجدہ ریز؛ خان حسنین عاقب، مطبوعہ 2016 یونٹی پریس، مالیگاؤں۔
***
حسنین عاقب کی یہ نگارش بھی پڑھیں: خلیل جبران کا فلسفۂ جود و سخا