سنڈاس

سنڈاس

رفیع حیدر انجم
At.Gachhi Tola,Ward No.24
Araria – 854311(Bihar)

ندی اور گھاٹوں کے شہر کاشی کی ایک بستی کی تنگ گلیوں سے رات کی ناقابلِ برداشت بساندھ اب تک لپٹی ہوئی تھی۔ کیچڑ سے اٹے نکڑوں پر سؤر سوئے پڑے تھے اور جابجا کچروں کے ڈھیر بکھرے ہوئے تھے۔ ان غلاظتوں سے بچتا بچاتا ایک شخص نیم اندھیرے میں یہ سوچتا ہوا تیزی سے گامزن تھا کہ آدمی کے پاس سنڈاس نہ ہو تو اس میں اور سؤر میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔
کاشی ناتھ سنگھ کا "کاشی کا اسی" پڑھے ایک عرصہ گزر گیا تھا مگر ایک جملہ آج بھی ذہن سے چپکا ہوا ہے؛ "اگر چاہنے سے ہوتا تو پچھلے کھاڑی یدھ کے دنوں میں اسی چاہتا تھا کہ امریکہ کا وہائٹ ہاؤس اس محلے کا سلبھ شوچالیہ ہو جائے۔"
وہائٹ ہاؤس تو آج بھی ویسا ہی ہے جیسا کھاڑی یدھ کے دنوں میں تھا مگر جب ندی اور گھاٹوں کے شہر کاشی کی ایک بستی کی قسمت بدلنے کا فیصلہ لیا گیا تو لوگوں کے پژمردہ چہرے کھل اٹھے اور گنگا ندی کے ساحل پر آبی پرندوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔
اس غیر متوقع فیصلے کا ہرکھو پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ رات کو اپنے کچے گھر کے نم اور کوتاہ فرش پر چٹائی بچھا کر سویا تو پہلی بار اسے گہری نیند آئی اور برسوں بعد ایک طویل خواب نے اسے آ دبوچا۔
اس نے دیکھا کہ دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں میں پکے ہوئے دھان کی سنہری بالیاں کاٹی جا رہی ہیں۔ ان بالیوں کو کاٹنے اور پھر کسانوں کے کھلیان تک لانے کے کام میں گاؤں کے مزدور لگے ہوئے ہیں۔
خواب نے ایک نئی کروٹ لی اور اب اس نے دیکھا کہ دور تک پھیلے ہوئے کھیت خالی پڑے ہیں اور گاؤں کے ڈھیر سارے مزدور اپنے اپنے ہاتھوں میں نکیلے کدال اور نیزے لیے کھیتوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ آج ان مزدوروں نےکھیتوں سے چوہوں کے شکار کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ کھیت جب فصلوں سے بھرے ہوتے ہیں تو چوہے مٹی کے اندر بڑے بڑے بل بنا کر رہتے ہیں۔ یہ چوہے دھان کی پکی ہوئی بالیاں اپنے نوکیلے دانتوں سے کاٹ کر بلوں کے اندر لے جاتے ہیں اور اپنی غذائی ذخیرہ اندوزی میں لگے رہتے ہیں۔ گاؤں کے مزدور ان چوہوں کے بلوں کا پتہ لگانے میں ماہر ہوتے ہیں اور بڑی مشاقی کے ساتھ زمین کھود کر ان بلوں میں چھپے ہوئے چوہوں کا شکار کر لیتے ہیں۔
چوہوں کے ساتھ ساتھ دھان کے ذخیرے بھی ان کے ہاتھ آجاتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ وہ بھی اپنے دادا کی انگلی پکڑ کر اس مجمع میں شامل ہے۔ خود کو ایک چھوٹے سے بچے کے روپ میں دیکھ کر اسے حیرت انگیز خوشی محسوس ہوئی۔ شام ڈھلے مزدوروں کی یہ ٹولیاں اپنی جھولیوں میں بہت سارے موٹے تازے چوہے اور دھان کی بالیاں لیے بستی کو لوٹ جاتے ہیں۔ اس رات ان کی
بستی میں جشن کا سا سماں ہوتا ہے۔ ایک کھلے میدان میں الاؤ روشن کیا جاتا ہے۔ الاؤ کے اوپر چوہوں کے گوشت سے بھری ہانڈیاں رکھی جاتی ہیں۔ الاؤ کے گرد ڈھول کی تھاپ کا بے ہنگم شور، کچی شراب کی مہک اور رقص و سرود کا منظر انھیں تمام طرح کے دکھوں سے نجات دلا دیتا ہے۔
اس سے پہلے کہ وہ اس جشن کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا پاتا، دہکتے ہوئے الاؤ بجھ گئے اور خواب نے ایک اور نئی کروٹ لی۔ اس نے دیکھا کہ کھیتوں کی جگہ تاحد نگاہ ایک تیز رو ندی بہہ رہی ہے۔ ندی کے کناروں پر کنکریٹ کی اونچی اونچی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اور ان سیڑھیوں سے پرے کچے پکے مکانوں کا لامتناہی سلسلہ قائم ہے۔ شام کی سرمئ رنگت رات کی سیاہی میں گھلنے لگی ہے۔ سیڑھیوں سے ٹکراتے پانیوں میں بےشمار روشن دیے جگمگا رہے ہیں اور دور مندروں سے گھنٹیوں کی مترنم آوازیں آرہی ہیں۔
اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اب وہ بچہ نہیں رہا بلکہ چالیس سال کا ہٹا کٹا جوان ہے جس کی بیوی اور تین بچے ہیں۔ وہ ایک کشتی بان ہے اور اسی ندی کے اس پار
بسے شہر کی ایک بستی میں رہتا ہے جسے لوگ دلتوں کی بستی کہتے ہیں۔
خواب کا سلسلہ مزید دراز ہوا تو اس نے دیکھا کہ برسوں سے رہ رہے اپنی بستی کے تنگ و تاریک گلیوں اور گھروں کا وہ تنہا باشندہ نہیں ہے بلکہ اس جیسے درجنوں افراد ہیں جو زندہ رہنے کے نام پر زندگی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس بستی کے لوگ صبح شام لاتعداد مندروں کی گھنٹیوں کی آوازیں سنتے رہتے ہیں مگر خدا ان سے ناراض ہے۔ خدا کی یہ ناراضگی تب سے چلی آرہی ہے جب ان کے پرکھوں نے اپنشد کے اشلوک سن لیے تھے۔ زمانہ گزرا، زمانے میں کئی انقلاب آئے، ان کے آبا و اجداد گاؤں چھوڑ کر شہر میں آبسے مگر ان کی زندگی میں بس اتنا ہی بدلاؤ آیا کہ پہلے چوہے پکڑتے تھے اور اب خود ہی چوہوں کی طرح اس بستی کے گھپ اندھیرے سیلن زدہ کمرے میں رہ رہے ہیں۔ خواب میں ایک بار پھر سے سرکاری اعلان اس کے کانوں میں گونج اٹھا۔
"بستی کو سرکار نے گود لے لیا ہے۔" اسے حیرت ہوئی۔ اس کی بستی کوئی پھول سا بچہ تو نہیں جسے گود میں اٹھا کر خوش ہوا جا سکے۔ اس نے اپنی بستی کا سوچا تو خود کو کچرے کے ڈھیر میں سؤروں ‌‌کی طرح پیٹ بھرنے کے جتن میں مصروف پایا، جیسے زندہ رہنے کا مقصد صرف دو وقت کی روٹی ہو۔ محنت سے وہ نہیں گھبراتا لیکن اس محنت کے عوض وہ انسانوں جیسی زندگی نہیں گزار پا رہا ہے۔ وہ اپنی بستی میں پینے کے لیے صاف پانی، جگمگاتی روشنی اور زندگی بخش ہوا سے محروم ہے۔ وہ روز صبح اٹھ کر کیچڑ بھرے راستوں اور غلاظت سے اٹے نالوں کو پار کرتے ہوئے ندی کے گھاٹ تک پہنچتا ہے۔ صبح سے شام تک کرائے کی کشتی پر ناخدا بنا رہتا ہے۔ اس کی بس اتنی ہی سی خواہش ہے کہ دن بھر کے کام سے لوٹ کر؛
اپنی بستی اور گھر پہنچ کر خوشی محسوس کرے؛ اس بستی میں بچوں کا ایک اسکول ہو جائے، سڑک صاف ستھری ہو، ان میں پانی کے نل لگے ہوں، رات برات اٹھ کر گھر کے اندر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہ کرنا پڑے؛ کچھ اور نہیں تو کم از کم منہ اندھیرے اٹھ کر رفع حاجت کے لیے ندی کنارے تک تو نہ جانا پڑے۔
دراصل سرکاری اعلان کے بعد بستی کے تمام سنڈاس انہدامی کارروائی کی ذد میں آگئے تھے اور انھیں مسمار کر کے پوری بستی کے لیے سلبھ شوچالیہ تعمیر کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا تھا۔ ہرکھو کی سوچ اس مقام پر پہنچ کر بدحواس ہونے لگی۔ اسے لگا کہ خواب نے اگر اور طول پکڑا تو اس پر پاگل پن کا دورہ پڑنے لگے گا کیوں کہ خواب کی حالت میں بھی اسے معلوم تھا کہ بستی کے سنڈاسوں کو ٹوٹے ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں اور اب تک وہاں کسی شوچالیہ کی بنیاد نہیں رکھی گئی ہے۔
خواب کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، اس کے ٹوٹنے کی مدت تو آہی جاتی ہے کہ یہ کوئی سرکاری اعلان نہیں جو برسوں پر محیط ہو۔ تین پہر رات گزرنے کے بعد ہرکھو حسب معمول جاگ گیا۔ چند ثانیے وہ اس خواب کے زیرِ اثر رہا پھر اس نے یہ سوچ کر اپنا سر جھٹک دیا کہ پہلے بھی اس نے کئی خواب دیکھے تھے مگر سب کے سب جھوٹ نکلے۔ یہ خواب بھی سرکاری اعلان کی طرح دغا باز ہوتے ہیں. اس نے اطمینان سے بیڑی سلگائی اور المونیم کا لوٹا اٹھا کر ندی کی طرف چل پڑا جہاں پہنچ کر اور اکڑوں بیٹھ کر وہ دھند میں لپٹے کاشی کے گھاٹوں کا فسوں خیز نظارہ کر سکتا تھا۔
***
رفیع حیدر انجم کا گذشتہ افسانہ : اداسی کی ایک اور کہانی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے