صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
ہر سال کی طرح اِس بار بھی یومِ سر سیّد کی پوری دنیا میں دھوم رہی۔ چھوٹے شہر سے لے کر بڑے شہروں تک مختلف تقریبات منعقد ہوتی رہیں۔ اِس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا کی تقریبات میں کچھ کم بھی ہوگا تو دس ہزار لوگوں کی تقریریں ضرورہوئی ہوں گی اور تقریبات میں شامل سامعین کی تعداد مجموعی طور پر پانچ دس لاکھ سے کم کیا ہوگی۔ ہماری زبان میں یہ مقدر صرف اور صرف سر سیّد احمد خاں کے حصّے میں آیا جن کے عمومی عقیدت مند اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اولڈ بوائز دَستوں کی وجہ سے ۱۷؍ اکتوبر کو دنیا کے ہر گوشے میں سر سیّد کی تھوڑی بہت یاد ضرور کر لیتے ہیں۔ اگر یہ رسم ہے تب بھی یہ بے حد قیمتی اورموزوں ہے۔
اردو کے ایک طالب علم اور استاد اور سر سیّد کے سلسلے سے متعدد مضامین اور تصنیف تیّار کرنے کی وجہ سے یہ برسوں سے معمول ہے کہ کہیں نہ کہیں ۱۷؍ اکتوبر کو سر سیّد کے سلسلے سے خراجِ عقیدت پیش کرنے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ اِس بار اوّلاً چند اخباروں نے علی گڑھ تحریک اور سر سیّد کی خدمات کے حوالے سے میرا مضمون شائع کیا۔ پھر جہان آباد میں واقع مگدھ یونی ورسٹی کے ایس۔ این۔ سنہا کالج کے شعبۂ اردو کی جانب سے ہماری شاگرد ڈاکٹر یاسمین بانو کی نگرانی میں منعقد ہونے والے سے می نار بہ عنوان ’سر سیّد احمد خاں کے تعلیمی تصوّرات‘ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے سر سید کی مجموعی خدمات اور اُن کے اثرات بعد والی نسلوں پر بتانے کا موقع ملا۔
جہان آباد کے سے می نار سے فراغت کے بعد بہ عجلت بھاگتے ہوئے پٹنہ پہنچا۔ پٹنہ میں بہار آرکائیوز کی عمارت میں اگرچہ علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے پٹنہ چیپٹر کی تقریب تھی مگر اُس تقریب کے ایک حصّے سے ہمارا مطلبِ خاص تھا جس کے لیے میں نے اپنے تمام طلبہ و طالبات کو بھی پہلے سے بتا رکھا تھا۔ شام پانچ بجے سے یہ تقریب مقرّر تھی جس میں معروف ڈراما ڈائرکٹر ڈاکٹر سعید عالم کی ہدایت میں معروف شاعر، ادیب اور صحافی جناب تحسین منوّر کی سر سیّد کی حیات و خدمات کے حوالے سے تنہا اداکاری (Solo Performance) کا مظاہرہ ہونا تھا۔ میرے ذہن میں اِس پروگرام کی ایسی کشش تھی کہ ڈرائیور پر گاڑی تیز چلانے کا دباؤ بناتے ہوئے کسی طرح سے وقتِ مقررہ پر ہال میں پہنچ جانا ضروری سمجھتا تھا۔
یہ اشتیاق تو تھا ہی کہ تحسین منوّر کیسے ہمارے دل و دماغ میں بسے سر سیّد کو اپنے پرفارمینس سے آنکھوں کے سامنے لا کر رکھ دیں گے۔ یہ سمجھنا دشوار تھا کہ کتابوں میں پڑھے گئے سر سیّد اور دلوں میں بسے ہوئے سر سیّد کا اسٹیج کے آنکھوں دیکھے ہوئے اِس سر سیّد سے مقابلہ ہوگا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ سمجھنا آسان نہیں تھا۔ سب کچھ گڈ مڈ ہو جائے گا یا ایک جھوٹ اور فریب کی فضا پیدا ہو جائے گی جسے ہر فکشن نگار اپنا حق سمجھتا ہے۔ اِس تذبذب اور خود کو آنکھ، دل اور دماغ کے اِس مجادلے میں اتار کر اپنی علمی حیثیت کا امتحان بھی مقصود تھا۔ مختلف اصناف کے جو تقاضے ہوتے ہیں، اُس معاملے میں بھی اِس کی جانچ پرکھ ہونی تھی کہ ایک محقق کا سر سیّد اور ایک ڈراما نگار کا سر سیّد کیا ایک ہی ہوگا یا بالکل الگ ہو جائے گا؟ پھر کیا وہ ڈرامے کے مرحلے میں بہت ساری فلموں کی طرح وہ شبیہ بکھر کر چکنا چور تو نہیں ہو جائے گی۔
اِنھی سوالوں کو لا شعور میں بٹھائے ہوئے میں اپنے چند شاگردوں کے ساتھ جب ہال میں پہنچا تو سعید عالم صاحب سے اوّلاً ملاقات ہوگئی۔ ٹام الٹر جیسے مشہور اداکار سے اُنھوں نے مولانا آزاد کا جیسا شان دار رول اسٹیج کے لیے کرا لیا، وہ حیرت انگیز ہے۔ ٹام الٹر کی زندگی کے بالکل آخری دَور میں اس پرفارمینس کو مولانا آزاد نیشنل اردو یو نی ورسٹی، حیدر آباد میں دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اردو کے بعض کلاسیکی مشاعروں پر مبنی سعید عالم کے گذشتہ کچھ برسوں میں ڈرامے بڑے مشہور ہوئے۔ ایک ڈرامے میں تو ہمارے شاگرد پوروشوتم پرتیک نے بھی جگر مرادآبادی کا رول پَلے کیا تھا مگر کوئی ایک مہینہ پہلے تحسین منوّر کے فیس بک پر ڈالے گئے پوسٹ سے یہ اندازہ ہوا کہ سر سیّد کا یہ ڈراما پٹنہ میں ہونے والا ہے۔ میں نے کئی بار تحسین منوّر صاحب کو پوسٹ پر ہی لکھا کہ تاریخ اور مقام بھی واضح کریں۔ اُنھوں نے ہر بار انتظار کرنے کی ہدایت کی اور پھر سر سیّد ڈے کے اعلانات کے ساتھ یہ معلوم ہوا کہ یہ تقریب ہمارے لیے آسان ہو گئی۔
ڈرامے سے پہلے سعید عالم صاحب سے ملاقات کے بعد تحسین منوّر پر نظر گئی۔ بلیو رنگ کی جینس اور شرٹ میں وہ نظر آئے۔ پہلے سے وہ کچھ کم موٹے معلوم ہوئے مگر تذبذب اور بڑھ گیا کہ کاسٹیوم بدل کر بھی یہ سر سیّد کیسے معلوم پڑیں گے۔ سامنے دیواروں پر سر سیّد کی بڑی تصویر سرخ ترکی ٹوپی میں نظر آ رہی تھی۔ اب تو وہ اور نا قابلِ یقین تھا کہ یہ تحسین منوّر ہماری آنکھوں میں بسے سر سیّد کو اپنی صورت میں شاید ہی اتار پائیں گے۔ ہال میں ایک معقول جگہ تلاش کرکے اِس انداز سے بیٹھا کہ آنکھوں کا زاویہ بالکل نوّے ڈگری کا رہے جب تحسین منوّر اسٹیج پر آئیں۔ ڈراما دیکھنے کا یہ خاص انداز ہے کہ کہاں بیٹھا جائے اور آنکھوں کا زاویہ مرکزی اسٹیج سے کس پیمایش پر رہے۔ بہت سارے سر سیّد ڈے کے لوازم کے بعد اعلان ہوا کہ اب ڈراما شروع ہونے والا ہے۔
ہم نے صبر آزما سوا تین گھنٹے تحسین منوّر کو اسٹیج پر سر سیّد کے روپ میں دیکھنے کے انتظار میں گزار دیے تھے۔ اِس دَوران تحسین منوّر عام لباس میں اسٹیج پر ٹہلتے یا ننگے پانو اسٹیج کی بدبداتے ہوئے پیمایش کرتے نظر آئے مگر وہ تھوڑے ہی ہمارے سر سیّد تھے کہ اُن پر نظر ٹِک جاتی اور ہم اُنھی کے ہو جاتے۔ جب اعلان ہوا تو ہال کھچا کھچ لوگوں سے بھر چکا تھا۔ یہ عام تماش بین نہیں تھے۔ اِس میں کوئی مورخ بیٹھا تھا تو کوئی استاد، کوئی مصنف تو کوئی صحافی۔ بڑی تعداد میں ری سرچ اسکالرس موجود تھے۔ اِس کے علاوہ نوّے فی صدی گلستانِ سر سیّد کے فیض یافتہ افراد تھے جو زندگی کی الگ الگ راہوں پر کامرانیوں کی نئی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ نئی عمر کے لوگ بھی اور ایسے بھی جو عمر کی آٹھ دہائیاں پار کر چکے ہیں مگر اپنے ادارے اور اُس کے بانی سے ایسا لگاو ہے کہ یومِ سر سیّد کی شام کو یاد گار بنانے کے لیے جمع ہو گئے ہیں۔ ہال میں بیٹھا ہوا ہر شخص سر سیّد کو بڑی حد تک جانتا ہے اور اُن کی خدمات کے ذرّوں سے ستاروں تک سے واقف ہے۔ ایسے تماش بینوں کے سامنے سر سیّد پر ڈراما کھیلا جانا تھا۔
اسٹیج پر کچھ خاص ساز و سامان نہیں رکھے گئے تھے۔ ایک ٹیبل جس پر کچھ کاغذات، ایک ترکی ٹوپی، قلم دان، دوات، پانی پینے کے لیے گلاس جیسی کچھ چیزیں رکھی گئی تھیں۔ ٹیبل کے پیچھے ایک چوڑی سی کرسی تھی جس پر کپڑے کے گدّے جیسا غلاف یا چادر جیسا کچھ سامان اڑھایا ہوا نظر آیا۔ اسٹیج پر کنارے اناونسر کی مائک اور اناونسر کی عمومی موجودگی ویسی ہی تھی۔ لائٹ میں بھی کوئی تبدیلی نہ کی گئی۔ نہ ہال کی روشنیاں کم کی گئیں اور نہ اسٹیج پر کسی اضافی روشنی یا اہتمام کی کوشش ہوئی۔ تب تک پردے کے پیچھے سے کھانسنے کی آواز آئی۔ تماش بین خبر دار ہو گئے کہ اب کچھ شروع ہونے والا ہے۔ پھر اُس کھانسنے میں بڑھاپے کا احساس بھی جھلکنے لگا مگر ابھی اسٹیج پر کچھ بھی نظر نہ آیا تھا۔
دیکھتے کیا ہیں کہ چھڑی کی ٹِک ٹِک کے سہارے ایک شخص اسٹیج پر نمو دار ہوا۔ چہرہ عوام کی طرف نہیں ہے۔ ترکی سرخ ٹوپی، کالی شیروانی اور کریم کلر کا پینٹ نما پائجاما پہنے ہوئے قوی الجثّہ شخص کانپتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر اپنے قدم بڑھا رہا ہے۔ اسٹیج کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک گزرنے کے باوجود پوری شکل آنکھوں کے سامنے نہ آئی۔ دیکھتے کیا ہیں کہ اُسی کانپتے ہوئے انداز میں اسٹیج کو پینتالیس ڈگری زاویے سے موڑتے ہوئے وہ کردار آگے بڑھتا ہے۔ دائیں سے بائیں مڑتے ہوئے جب تماش بینوں کے سامنے پہلی بار تحسین منوّر سامنے آئے تو آنکھوں کویقین نہ آیا۔ دل سے یہ نکلا کہ یہ تو سچّے سر سیّد ہیں۔ آرٹسٹ نے پہلے ہی لمحے کچھ ایسا جادو کر دیا کہ اب کتابوں میں پڑھے یا دلوں میں بسے ہوئے سر سیّد کہیں کھو گئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ سب سے حقیقی سر سیّد ہماری آنکھوں کے سامنے ہی ہیں۔ عمر کی آٹھویں دہائی میں ایک بھرے پُرے جسم کا آدمی جس طرح ٹھہر ٹھہر کر اپنی جسمانی کمزوریوں کا ساتھ نبھاتے ہوئے چلتا ہوا ملے گا، ٹھیک ویسے ہی اطمینان کے عالم میں تحسین منوّر اُس کرسی تک پہنچے۔ اُس قدر چلنے میں سر سیّد اتنے تھک گئے ہیں کہ اُنھیں اب آرام کی ضرورت ہے، نتیجے کے طور پر وہ اب کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کی سانسیں قرار پر کہاں ہیں؟ کرسی پر بیٹھتے ہی انھیں پہلے کا لکھا ایک خط نظر آتا ہے جس کی نظرِثانی کرنے کا اُن کا ارادہ ہوتا ہے۔ خط بہانہ بنتا ہے اور پھر سر سیّد کی کہانی سر سیّد کی زبانی شروع ہو جاتی ہے۔
تقریباً پچاس منٹ کی اِس تنہا پیش کش میں تحسین منوّر کوئی دس بار کرسی پر بیٹھے ہوں گے اور اسٹیج کے دائیں بائیں تین چار قدم آگے بڑھ کر چھڑی کے سہارے ہی اپنا زاویہ تبدیل کرتے ہیں اور ہر بار اِس تبدیلی کے ساتھ موضوع میں بھی کچھ نہ کچھ واضح بدلاو آ جاتا ہے۔ رہ رہ کر سر سیّد کا نت نیا روپ سامنے آتا ہے۔ سر سیّد کی زندگی کے آخری دَور میں وہ جیسے نظر آتے تھے، اُسی دَور کی ادا کاری تحسین منوّر نے منتخب کی تھی۔ اِس لیے بڑے ہوش مندانہ انداز میں اُس بوڑھے سر سیّد کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ دوسرے دَور کی بات کہلواتے ہوئے اُن کے حافظے میں اترنے کی وہ کامیاب کوشش کر لیتے تھے۔ فلیش بیک تکنیک بھی سر سیّد کی زندگی کے دوسرے ادوار پیش کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔ اِس لیے آنکھوں کے سامنے نظر آنے والے سر سیّد کا بڑھاپا اپنی جگہ مگر بیا ن میں کانوں تک کئی بار دوسرے ادوار کی تفصیلات پہنچتی رہیں۔ اِس سے ایک مکمّل سر سیّد کو پیش کرنے میں کامیابی ملی۔
آج کے دَور میں ایسا کوئی نہیں جس نے حقیقی سر سیّد کو دیکھا تھا۔ سیکڑوں کتابوں میں چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے سر سیّد کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔ سر سیّد کی کتابیں اور سر سیّد کے احوال ہزاروں کتابوں کی تعداد میں ہمارے پیشِ نظر ہیں۔ سر سیّد کو ہم اِنھی ذرائع سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ یہیں ہمیں ایک مکمّل سر سیّد ملتے ہیں۔ سعید عالم کے لیے یہ چیلنج تھا کہ وہ اتنی تفصیلی معلومات والی زندگی سے کیا کچھ نکال لے آئیں جسے پچاس منٹ کے ڈرامے میں دکھایا جا سکے۔ وہ صرف ہدایت کار نہیں ہیں۔ وہ اِس ڈرامے کے اسکرپٹ رائٹر بھی ہیں۔ سعید عالم نے ایک ماہرِ سر سیّد کے طور پر چیزوں کا مطالعہ کیا اور بے حد نمایندہ واقعات یا سب سے زیادہ ضروری باتوں کیا اندراج اُن کے پیشِ نظر رہا۔ طول طویل وقفے کو اُنھوں نے کسی جملے یا اشارے میں مکمّل کر دیا۔ متن میں اُنھوں نے سونا تولنے جیسا پیمانہ رکھا۔ نہ ایک لفظ زیادہ بولنے کی اجازت ہوگی اور نہ ہی واقعات کی بھیڑ لگا کر ڈرامے کو سوانح حیات کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا جائے۔ اُنھوں نے زندگی کے چند پہلوؤں کو ابھارا اور ڈرامے کو سوانح حیات بنانے سے بالارادہ بچایا ہے۔ اِسی وجہ سے سوانح کی اکتاہٹ اور تفصیل یہاں کہیں بھی نہیں ہے۔ نانا کا تذکرہ بھی ہوا تو حیاتِ سر سیّد کا ایک انوکھا گوشہ ابھار دیا گیا کہ بچپن میں جب نانا نے اُنھیں پہلی بار دیکھا تو غالباًاُن کی صحت مندی کی وجہ سے اُنھیں جاٹ کہا تھا۔
سر سیّد ڈنر کا تذکرہ کئی بار آیا مگر سر سیّد کی طرف سے اِسی بہانے متعدد ہدایتیں بھی آ گئیں۔ بانیِ درس گاہ کے طور پر سر سیّد کے منہ سے جو باتیں کہلوائی گئی ہیں، اُن سے سر سیّد کا قد اور بڑا معلوم ہوتا ہے۔ اپنی قبر کے لیے جگہ تلاش کرنے کے معاملے میں سر سیّد کی اپنے بعد والوں سے گزارش پُر اثر انداز میں سامنے آئی ہے۔ مسجد کے احاطے میں اپنے لیے جو جگہ وہ تجویز کرتے ہیں، اُسے تحسین منوّر نے اِس سلیقے سے اسٹیج پر اپنی چھڑی سے چوکور نشان بنا کر بتایا ہے، ایسا لگا کہ واقعتا وہیں سر سیّد کی قبر بھی اُگ رہی ہے۔ سر سیّد کا قومی سوز اور بدلتے ہوئے حالات میں لوگوں کے غیر معتدل ردِّ عمل کو بھی اشارے اشارے میں اِس ڈرامے کا حصّہ بنایا گیا ہے۔ رہ رہ کر کوئی ظریفانہ کیفیت بھی سامنے آ جاتی رہی جس سے تماش بینوں پر کوئی علمی جبر یا دباؤ نہیں پڑا مگر اداکار اور ہدایت کار کا کمال یہ ہے کہ اُس ایک جملے یا دس سکینڈ کی بات کو آگے بڑھنے نہیں دیا کہ ڈرامے کی سنجیدگی کامیڈی میں نہ بدل جائے۔ یہ اداکار اور ہدایت کار دونوں کی اعلا کار کردگی کاثبوت ہے۔
ڈراما کے بارے میں یہ عام تصوّر ہے کہ وہ ڈائرکٹر کے ذہن میں پلتا ہے اور اُسی کے اشارے پر کردار ناچتے ہیں مگر بات جب ایک ڈائرکٹر اور ایک کردار کی ہو تو یہاں کیفیت بدلے گی۔ یہاں ایکٹر اور ڈائرکٹر دونوں مل جل کر اُس کام کو اجتماعی رُخ عطا کر دیں گے۔ سعید عالم نے ایک اکادمک شخصیت کی طرح اِس ڈرامے کا متن تیّار کیا اور اُسی طرح پروانہ ردولوی مرحوم کے لائق صاحب زادے تحسین منوّر نے کردار کی پیش کش میں سر سیّد کی عظیم المرتبت شخصیت کا جو وقار تھا، اُسے اسٹیج پر پورے طور پر اتار کر رکھ دیا۔ جو کوئی تحسین منوّر کی اِس پیش کش کے سہارے سر سیّد کو سمجھنا چاہے گا، اُسے بھی مکمّل سر سیّد ملیں گے اور جس نے اپنی آنکھوں سے یہ پرفارمینس دیکھا، وہ شاید ہی کبھی اپنی زندگی میں ۲۰۲۵ء کے اِس اسٹیج کے سر سیّد کو بھلا سکے۔ سعید عالم اردو کے ادبی موضوعات پر جتنی سنجیدگی سے مختلف طرح کے پرفارمینس اور پروگرام پیش کرتے ہیں، اردو کے ادبی اور علمی حلقے نے اُن کی ویسی اب تک پذیرائی نہیں کی ہے۔ چند ایوارڈس تو سب کے کھاتے میں ہیں، وہ اُنھیں بھی حاصل ہوئے ہیں مگر جس ماہرانہ استعداد اور پرفیکشن کے ساتھ اُنھوں نے اب تک کام کیے ہیں، وہ اُس سے زیادہ داد و ستایش کے مستحَق ہیں۔ ابو الکلام آزاد کے بعد سر سیّد کی حیات کو موضوع بنا کر اُنھوں نے حقیقتاً ایک نیا سنگِ میل قائم کر دیا ہے۔
***
صفدر امام قادری کی گذشتہ نگارش:قاسم خورشید: افسانہ نگاری سے شاعری تک
یومِ سر سیّد کی شام اور ملنا اسٹیج کے حقیقی سر سیّد سے
شیئر کیجیے