اردو شاعری میں سہرا نگاری اور "ضیائے حنا" کا موضوعاتی مطالعہ

اردو شاعری میں سہرا نگاری اور "ضیائے حنا" کا موضوعاتی مطالعہ

ڈاکٹر مستفیض احد عارفی
صدر شعبۂ اردو
ایل ایس کالج، مظفر پور، بہار، ہند 

تمہید :
اردو شعری ادب میں دوسری صنفوں کی طرح سہرا نگاری بھی ایک صنف ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اس میں دولہا اور دولہن کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس تناظر میں دو خاندانوں کے درمیان رشتہ داروں، دوستوں اور احباب کے لیے بھی اظہار خیال کا وسیلہ مل جاتا ہے۔ اس تعلق سے بعض دفعہ سماجی، ثقافتی اور مذہبی رسم و رواج کے نقوش بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ہیئت مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ شعری اصناف کے کسی بھی فارم میں اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلق سے "ضیائے حنا" سہرا نگاری کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں منقوط سہرے، غیر منقوط سہرے، رخصتی نامہ، تہنیتی کلام، توشیحی نظمیں اور خواتین کے سہرے خاص ہیں۔ فارم کے اعتبار سے اسے غزل، مثنوی، مخمس اور مسدس کے پیرایے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مرتب ڈاکٹر عبدالودود قاسمی ہیں۔ موصوف صدر شعبۂ اردو کنور سنگھ کالج، متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ سے منسلک درس و تدریس پر مامور ہیں۔ نیک نیتی، ملنساری، مرنجا مرنج، ناقدانہ اور محققانہ اوصاف سے متصف ہیں۔ انھیں فن خطابت، خطاطی اور انشا پردازی میں بھی کمال حاصل ہے۔ "عکس سخن، صدائے اعظم، کتاب زندگی، درسگاہ اسلامی فکر و نظر کی بستی، مولانا سجاد حیات اور کارنامے" ان کی عمدہ تصنیف و تالیف کے نمونے ہیں اور اب "ضیائے حنا" سہرا نگاری کی ترتیب شدہ کتاب کے منظر عام پر آنے سے علمی اور ادبی حلقوں میں ایک ہلچل کی سی کیفیت ہے۔ ان کا یہ عمل سہرا نگاری کی روایت میں ایک اضافہ ہے اور یہ اضافہ اردو زبان و ادب کے لیے گراں مایہ ہے۔ اس میں قومی اور بین الاقوامی شعرا کے کلام کو تزئین و ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مشمولات سہرا، رخصتی گیت، اور تہنیتی دعائیہ کلمات پر مبنی ہیں۔ لیکن اس کی تخلیقیت میں خاصا اہتمام دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی لیے "ضیائےحنا" کا مطالعہ کارآمد ہے۔
جواز :
اردو زبان و ادب میں سہرا نگاری کی ابتدا کو امیر خسرو سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر اردو کے مایہ ناز شعرا نے سہرا نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ سہرا دولہا کے سر باندھنے کا ایک خوشگوار عمل ہے۔ اس عمل میں ایک راز پوشیدہ ہے، اسے سماجیانے کا عمل یا خاندانی نظام کی تشکیل سے وابستہ پاکیزہ عمل کہہ سکتے ہیں۔ یقینا، اس کی پہلی سیڑھی دولہا اور دولہن کے درمیان نکتۂ مفاہمت ہے اس کے بعد تحائف کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بہترین تحفہ کلام کی موزونیت ہے، جس میں دولہا اور دلہن کے لیے ایسے اشعار کہے جاتے ہیں، جس میں تزئین و آرائش کیف و جذبات، پیکر تراشی، معاشرتی خصائص اور ماحول کی عکاسی سے متعلق موضوع کو پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اسلامی روایات کے مطابق خطبۂ نکاح میں بھی چند ایسے کلمات ادا کیے جاتے ہیں جسے کلام کی موزونیت کہہ سکتے ہیں۔ اس میں انسان، انسانی نظام، دستور حیات اور معاملات زندگی کا ایک آفاقی کینوس نظر آتا ہے۔ سہرا نگاری بھی ایک فن ہے۔ اس میں بھی کلام کی موزونیت کو سامنے رکھ کر بہ طور تحفہ دولہا اور دولہن کے لیے ایسے اشعار کہے جاتے ہیں جس میں سماجی، تہذیبی، مذہبی، علاقائی اور معاشرتی خصائص کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ صنف تسلسل کے اعتبار سے نظم، مثنوی اور قصیدہ سے قریب ہے۔ اس لیے اسے کامیابی سے پیش کرنے میں نظم، مثنوی اور قصیدہ جیسی صنفوں کے تلازمے سے استفادہ کیا جانا بہتر ہے۔ یوں بھی تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو قصیدہ، مثنوی اور نظم کے زمانے لد گئے ہیں لیکن شادیانے کا عمل چونکہ سماج، مذہب اور روایات سے استوار ہے، اس لیے یہ ہمیشہ چلنے والا عمل ہے۔ اس بنا پر موضوعی اعتبار سے مذکورہ اصناف شاعری کے تلازمے اور لوازم سے استفادہ کرنا سہرا نگاری کے حق میں مفید ہوگا۔ ادب کے ماہرین اور ناقدین کو چاہیے کہ سہرا نگاری کی روایت کو سامنے رکھ کر اس پر توجہ دیں۔ اس لیے کہ یہ صنف شاعری حاشیے کا فن اور حاشیائی ادب سے اوپر ہونے کی اہل ہے۔ یوں بھی فن پارہ حاشیے کا یا حاشیائی نہیں ہوتا بلکہ ادب کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے جو "جز میں کل" اور "کل میں جز" سے وابستہ ایک مکمل شناخت رکھتا ہے۔
ضیائے حنا کا مطالعہ :
"ضیائے حنا" اردو میں سہرا نگاری کی ایک کتاب ہے۔ اس کے مرتب ڈاکٹر عبدالودود قاسمی ہیں۔ یہ دس ابواب پر مشتمل سہرا نگاری کا ایسا گلدستہ ہے جس کا اندراج 465 اوراق پر ہے۔ اس میں چند ایسے مضامین بھی ہیں جس کی نوعیت معلوماتی، تحقیقی، تنقیدی اور تجزیاتی انداز کی ہے۔ اس سے عبارت میں جان پڑ گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں چند یادگار تصویریں ہیں جو مرتب موصوف کے ادبی سفر کے غماز ہیں۔ اس میں سہرا نگاری سے متعلق تاریخ، تاریخی روایت اور ارتقائی سلاسل کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ اس کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں ہے۔ "ضیائے حنا" کو اس بنیاد پر منثور و منظوم اور مختلف تصاویر سے مزین ایک دستاویزی کتاب بھی کہہ سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اگر کوئی شخص سہرا نگاری پر مزید تحقیق و تدوین سے گزرنا چاہے گا تو اسے "ضیائےحنا" سے استفادہ کرنا لازمی ہوگا۔ اس میں مرتب موصوف کا دعوی ہے کہ سہرا نگاری چار ہزار سال قبل مسیح مختلف زبانوں سے گزرتے ہوئے اس شکل کو پہنچی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جب روئے زمین پر سومیرین تہذیب آباد تھی، تبھی سے سہرا نگاری کی روایت ملتی ہے۔ اس درمیان، یہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں فن کاروں کی متمنی رہی ہے، جس پر زبان و بیان اور رسم و رواج کے مختلف مراحل گزرے ہیں۔۔۔۔۔!
تاریخی اعتبار سے اردو زبان ابھی ادبی شکل سے بے بہرہ تھی لیکن امیر خسرو جیسے قادر الکلام شاعر نے اسے یعنی اردو زبان کو زلف جامہ عطا کیا اور ایک مخصوص ادبی پیکر میں صنف شاعری کو اسے اظہار کا وسیلہ بنایا، یہ جگ ظاہر ہے۔ معلوم ہوا کہ سہرا نگاری بھی ان کے اظہار بیان کا محتاج بنی اور اب یہ مان لیا گیا کہ اردو میں سہرا نگاری کے موجد و اختراع کن شاعر بھی، امیر خسرو ہی ہیں۔ حالانکہ یہ فیصلہ بعض محققین کے نزدیک متنازع ہے۔ اس ضمن میں دیکھنا ہوگا کہ ڈاکٹر عبدالودود قاسمی کی تحقیق اور اس سے متعلق صراحت کہاں تک راہ پاتی ہے۔
میرے سامنے "ضیائے حنا" موجود ہے، اسے دیکھ لینے کے بعد مرتِّب موصوف کے جہدِ مسلسل پر رشک آتا ہے، کہ اس کی ترتیب و تدوین میں ذہن سوزی اور جاں سوزی کے اُبھرے اُبھرے نقوش نظر آتے ہیں۔ مرتب موصوف کا موقف دیکھیے:
"میری دلی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے عزیزی حافظ محمد ثاقب ضیا سلمہ اور عزیزہ حنا فاطمہ سلمہا کے جشن عروسی کے موقع پر روایتی انداز سے الگ تہنیتی نظموں (سہروں اور رخصتی ناموں) کا ایک ایسا علمی و ادبی تحفہ پیش کروں جو نوشہ سمیت ہم اہل خانہ کے لئے یادگار ہو جائے." ص:29
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
” ضیائے حنا" کی ترتیب و تدوین اور اشاعت سے میرا اوّلین مقصد جہاں اپنے بیٹے کو نکاح مسعود کے موقع پر ایک علمی و ادبی تحفہ پیش کرنا ہے، وہیں دوسرا اہم مقصد نئی نسل کو صنف سہرا نگاری پر تلاش و تحقیق کی تحریک فراہم کرنا ہے." ص:32
موصوف کی مذکورہ باتیں حرف حرف درست ہیں اس لیے کہ اس میں خلوص کو بنیاد بنا کر عملِ پیہم سے رنگ بھرا گیا ہے۔ اسلامی روایت کی پاس داری اور مسلم معاشرے کی تہذیب و تزئین میں نکاح کی اہمیت کو اعتبار حاصل ہے۔ لیکن شعری روایات کے آگے سہرا، تہنیتی کلام اور رخصتی کے موقعے پر دعائیہ کلمات کے مشمولات پر غور کیا جائے تو اسلامی روایت کی پاس داری سے دامن چھوٹتا نظر آتا ہے، ایک انداز سے مرتب نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔
” پیش نظر کتاب میں اردو کلچر میں رائج "سہرے" کے فنی و ادبی سروکار سے بحث مقصود ہے نہ کہ سہروں کی شرعی و مذہبی حیثیت سے یہ سب دنیاوی امور ہیں اس سلسلے میں میرا مطمح نظر بالکل صاف ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں معاملات زندگی گزارنے، بالخصوص شادی بیاہ کے سلسلے میں جو اصول و ضوابط اسلام نے متعین کیے ہیں وہی قول فیصل اور حتمی ہیں، اس میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔" ص:30
اس تناظر میں "ضیائے حنا" کا مطالعہ ایک خاص زاویے کا متقاضی ہے۔ اسے میں نے مندرجہ ذیل نکات کے تناظر میں پیش کیا ہے۔
تاریخی نکتہ:
سہرا نگاری کی روایت زمانہ قدیم سے ہے۔ اسے "سر کا سنگار" بھی کہا گیا ہے۔ جسے شادی کے موقعے پر کیا جاتا ہے۔ سنسکرت زبان میں اس کے لیے لفظ ” शीर्ष हार ” آیا ہے، جو "سر کا ہار" یا "تاج" کے معنوں میں مستعمل ہے۔ عام طور پر یہ پھولوں، موتیوں اور دیگر سجاوٹی اشیا سے بنا ہوتا ہے، اسے دولہا اور دولہن کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے متعلقین بھی علاقائی اور معاشرتی خصائص کی بنیاد پر اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ سہرا صرف سر کی سجاوٹ کے لیے اس قدر ملحوظ خاطر ہوا کہ شاعروں نے الگ الگ زمانوں میں کثرت سے اشعار کہے ہیں۔ ہندستان کی ثقافت میں سہرا دولہے کی خوب صورتی اور وقار کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں اس کی بنیاد ویدک دور سے ملتی ہے۔ رفتار زمانہ سہرا نگاری کی شکل و ہیئت میں تبدیلیاں آئی ہیں لیکن اس کی اہمیت اور حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے تیرے حسن دل افروز کا زیور سہرا
رخ روشن کی دمک، گوہر غلطاں کی چمک
کیوں نہ دکھلا دے فروغ مہ اختر سہرا
ص :101
تابش حسن سے مانندِ شعاع خورشید
رخ پر نور پہ ہے تیرے منور سہرا
ایک کو ایک پہ تزئین ہے دم آرائش
سر پہ دستار ہے دستار کے اوپر سہرا
آج وہ دن ہے کہ لائے در انجم سے فلک
کشتی زر میں مہ نو کی لگا کر سہرا
پھرتی خوشبو سے ہے اترائی ہوئی باد بہار
اللہ اللہ رے پھولوں کا معطر سہرا
کثرتِ تارِ نظر سے ہے تماشائیوں کی
دمِ نظارہ تِرے روئے نِکو پر سہرا
ص : 103
شاہ و نو شاہ زمانے میں بہت تھے لیکن
سربلندی کا رہا آپ ہی کے سر سہرا
شاہ نوشاہ بنے باندھ کے سر پر سہرا
آج کر لے گا زمانے کو مسخر سہرا
ص: 105
اس طرح سہرا نگاری میں لفظ "سہرا" کو تاریخی حیثیت سے مرکزیت حاصل ہے اور اسی سے متّصل بقیہ اشعار بھی کہہ دیے جاتے ہیں۔ حالانکہ نکتہ فہم شعرا اس کے مابین ایسے اشعار بھی کہہ دیتے ہیں جس سے سماجی تہذیبی اور معاشرتی پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اس کا ذکر بعد کے نکات میں کیا جائے گا۔
تہذیبی اور ثقافتی نکتہ:
سہرا نگاری میں ثقافتی اور تہذیبی نکات کو علامت کے طور پر مختلف خاندانوں کی آمیزش کے تناظر میں مطالعہ کیا جاتا ہے اس لیے کہ، شادی دو خاندانوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اس میں خاندانوں کے آپسی اشتراک سے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کو فروغ ملتا ہے۔ بہ ظاہر یہ ہلکی اور معمولی سی بات نظر آتی ہے لیکن اس کے ایک جگہ مجتمع ہونے میں زمانے لگتے ہیں۔ شاعروں کی نگاہیں دور بیں اور دور رس ہوتی ہیں اس لیے بعض شاعروں نے سہرا نگاری میں دولہا اور دولہن کو مرکزی صورتوں میں پیش کیا ہے لیکن ثانوی حیثیت سے تہذیبی اور ثقافتی نکات اور اس کے وراثتی اقدار کے فروغ پر بھی اشعار کہے ہیں۔ مثال کے طور پر:
عجب چھائی ہوئی ہے دلکشی سہرے کی لڑیوں میں
ہے کھویا کھویا سا ہر آدمی سہرے کی لڑیوں میں
جسے دیکھو وہی مدہوش ہو کے رقص کرتا ہے
مئے احمر کی ہے بوتل بھری سہرے کی لڑیوں میں
یہاں سہرے کی لڑیاں/ لڑیوں میں کھویا کھویا آدمی/ شادیانے کے ماحول میں سبھی کا مدہوش ہونا، رقص کرنا / اور مئے احمر کی بوتل جیسے تلازمے۔۔۔۔! تہذیب و ثقافت اور اس کی روایتی اقدار کو بیان کرتے ہیں۔
علاقائی اور معاشرتی نکتہ:
چونکہ تہذیبی اور ثقافتی اقدار دور دراز کے مقامات تک سفر کرتے ہیں۔ اس کے تار و پود مختلف خاندانوں کے معاشرتی، علاقائی اور مذہبی رسم و رواج تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب کسی موقعے پر شادیانے کی محفل آراستہ و پیراستہ کی جاتی ہے تو سبھی قدریں ایک ساتھ محفل میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ایسے میں انتظامی آلات، ملبوسات اور شادیانے کے در و دیوار کی عظمت بھی پیش نظر ہوتے ہیں۔ شعرا مذکورہ تمامی جزئیات کو بہتر اور دل کش انداز سے بیان کرنے پر قادر ہوتا ہے، تاکہ آنے والے زمانے میں جب آج کے ایّام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو شادیانے کی محفل کے ساتھ ہی اس عہد کی مکمل تصویر بھی آنکھوں میں پھر جائے۔ "ضیائے حنا" کے مشمولات میں ایسے اشعار بھی ہیں جس سے متذکرہ باتوں کی توثیق ہوتی ہے۔ مثلاً:
باندھ کر پازیب آئی ہے تمنائے حیات
ہر طرف نغمے ہیں نغموں کی فضا سہرے میں ہے
رخ روشن پہ جب لہرا گئیں پھولوں کی کچھ لڑیاں
تو حوروں نے بھی سجدہ کر لیا شادی کی محفل میں
ادھر پھوپھی، ادھر خالہ، ادھر ماموں، ادھر پھوپھا
لٹاتے ہیں سبھی اپنی وفا شادی کی محفل میں
بھائی جتنے ہیں، بہن جتنی ہیں، جتنے ہیں عزیز
صد مبارکباد سب کا لاڈلا سہرے میں ہے
کتنا پر لطف ہے شادی کا تماشہ یارو
سر پہ بھاری نہیں لگتا ہے تناور سہرا
کلی کلی مسکرا رہی ہے گلوں کے رخ پر نکھار آیا
وہ لمحہ جس کے تھے منتظر سب، بفضل پروردگار آیا
سماجی نکتہ:
سماج اور سماجیانے کا عمل ایک فطری نظام کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ اس کی صالحیت اور افادیت کو استحکام بخشنے میں نکاح اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان، انسانی نظام، حیات زندگی اور معاملات زندگی سماجی قدروں کے بیچ ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ اسے نکاح یا شادی کے بندھنوں سے بہ طور فطری فروغ دیا جاتا ہے۔ اس سے صالح معاشرے کی تشکیل میں اور معاشرتی ماحول کو پاک و صاف رکھے جانے میں مدد ملتی ہے۔ اس موقعے پر سماجی اقدار سے متعلق اشعار بھی کہے جاتے ہیں۔ شاعری میں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، اس لیے کہ اس نوعیت کے اشعار سماجی اقدار سے متعلق توضیح و تصریح پر مبنی ہوتے ہیں جسے پڑھتے ہوئے لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ معاملات زندگی اور دستور زندگی بھی بھلی اور خوب صورت لگنے لگتی ہے۔ مثلاً:
در و دیوار پر چڑھنے لگا رنگ حنائی تو
ضیائے ثاقبی کے نور سے حیران ہے سہرا
ضیا ثاقب کے رنگوں سے حنا کا رنگ ملتا ہے
تبسم سے تکلم تک عجب میلان ہے سہرا
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں ابھی کچھ لوگ آئیں گے
مچلتے دو دلوں کے درمیاں ارمان ہے سہرا
ترے بھائی، عزیز و اقربا اور عارفی عاصی
خدا کے روبرو ہیں سب مگر قربان ہے سہرا
صفحہ 312
موسیقی اور شعری امتزاج کا نکتہ:
شادی کے موقعے سے بعض جگہوں پر قوالی، ناچ اور رقص و سرور کی محفلیں آراستہ کی جاتی ہیں۔ ہر چند کہ اس کا جواز ہے یا نہیں یہ الگ مسئلہ ہے، لیکن اس طرح کی محفلیں شاعری، راگ، رنگ اور رُباب سے مشروط ہوتی ہیں۔ اس لیے شادی کی تقریب میں دولہا، دولہن اور ان سے متعلق لوگوں کے لیے جو دعائیہ کلمات پیش کیے جاتے ہیں اسے ساز و رباب اور موسیقی کے آلات پر گایا اور بجایا جاتا ہے۔ اس سے شادیانے کی محفل کا رنگ بدل جاتا ہے اور سامعین و ناظرین لطف اٹھاتے ہیں۔
ادبی نکتہ:
بعض لوگوں کے نزدیک سہرا نگاری کا فن حاشیے کا فن ہے اور اس تعلق سے اسے حاشیائی ادب کہتے ہیں یہ بات درست ہے۔ لیکن، بالکل درست نہیں۔۔۔۔!
اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب آفاقی تناظر میں انسانی احساسات و جذبات پر مبنی خیالات کو کہتے ہیں جس میں کہیں کوئی حد بندی اور درجہ بندی نہیں پائی جاتی ہے اور نہ علاقائیت سے اس کا کوئی سروکار ہے۔ مثلا غالب، میر اور اقبال کی شاعری کو اس لیے آفاقیت کا درجہ حاصل ہے کہ اس کی تخلیقیت میں معنوی اور لفظی ساخت انسانی معیار کے گلوبلائز سے مشترک ہے۔ اس کے تخلیقی میکانزم میں ایسی دل کشی پائی جاتی ہے جہاں "علاقائیت" آفاقیت کا جامہ پہن کر آگے تک سفر کرتی ہے۔ اب اگر سہرا نگاری کے لوازم، تلازمہ اور انداز پیشکش پر غور کیا جائے تو اس کے اجزا اور عناصر میں بھی یہی چیزیں نظر آئیں گی۔ لیکن۔۔۔، علاقائی، معاشرتی اور تہذیب و تمدن کے پیش نظر میں متفق ہوں کہ سہرا نگاری کے تراش و خراش میں ابھی حد درجہ محنت درکار ہے۔ اس لیے کہ اس میں نظمیہ خصائص سے متصف ایک آہنگ پایا جاتا ہے جس میں آغاز، ارتقا اور اختتام جیسے مربوط سلاسِل ہوتے ہیں، لیکن اس سلسلے کا ہر تار دولہا اور دلہن کو مخاطب کر کے پیش کیے جانے تک ہی محدود ہے۔ جس سے سہرا نگاری جیسی صنف کو بھی حاشیائی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ جو لوگ اس کے انداز پیش کش اور تخلیقیت پر غور کریں گے انھیں اس کی لفظی اور معنوی خوبیوں میں آفاقیت نظر آئے گی۔ ایسے اس کے تشبیہات و استعارات، زبان و بیان اور بعض معاشرتی پہلوؤں کو پیش کیے جانے میں جو دقتیں درپیش ہیں اگر اسے سامنے رکھا جائے تو اسے عالمی ادب کے مقابل صنف تسلیم کئے جانے میں دشواری نہیں ہوگی۔ ملاحظہ ہو چند اشعار:
روز روشن کا گماں کیوں شب عشرت پہ نہ ہو
عکس رخسار سے ہے مہر منور سہرا
صفحہ:104
کامرانی کی ہے تصویر سراپا نوشہ
شاد مانی کی ہے تفسیر سراسر سہرا
صفحہ: 105
باندھ کر پازیب آئی ہے تمنائے حیات
ہر طرف نغمے ہیں نغموں کی فضا سہرے میں ہے
صفحہ:112
در و دیوار پر چڑھنے لگا رنگ حنائی تو
ضیائے ثاقبی کے نور سے حیران ہے سہرا
کتنا پر لطف ہے شادی کا تماشہ یارو
سر پہ بھاری نہیں لگتا ہے تناور سہرا
رخ روشن پہ جب لہرا گئیں پھولوں کی کچھ لڑیاں
تو حوروں نے بھی سجدہ کر لیا شادی کی محفل میں
جسے دیکھو وہی مدہوش ہو کے رقص کرتا ہے
مئے احمر کی ہے بوتل بھری سہرے کی لڑیوں میں
مذکورہ اشعار میں دولہا اور دلہن کی تعریف و توصیف کی گئی ہے لیکن انداز پیش کش، صنائع بدائع اور تشبیہات و استعارات پر غور کیجیے تو اس سے ادبیت کا پورا پورا لطف ملے گا۔
اس کے علاوہ بہت سے ایسے نکات ہیں جس کا مطالعہ سہرا نگاری کے لیے اہم ہیں۔ مثلا۔۔۔
بحروں کا انتخاب، ہیئت و ماہیت، لفظیاتی حرکات و سکنات وغیرہ
"ضیائےحنا" میں سہرا نگاری کے مشمولات پر غور کیجیے تو مذکورہ موضوعات پر آنکھیں ٹھہر جاتی ہیں، اس کے علاوہ بھی نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن، یہ بحث باعث طویل ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اس صنف کو رواج دیا جائے تو اس سے زبان و ادب کے فروغ میں مدد ملے گی۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: امتزاجی اسلوب کا توانا شاعر: منصور خوشتر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے