عظیم آباد میں میرے سرپرستِ اوّل قاسم خورشید

عظیم آباد میں میرے سرپرستِ اوّل قاسم خورشید

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

زندگی اتنی اَن جانی اور پیچ دار ہوتی ہے کہ آپ لاکھ کوشش کر لیں، مستقل راستا زندگی کا ہی ہوتا ہے۔ ہم سب ڈرامے کے کردار ہیں۔ زندگی ہم سے جو چاہے اور جب چاہے، ہم وہ سب کرتے جاتے ہیں۔ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۶ء تک کے دَوران قاسم خورشید سے میرے تعلّقات اتنے قریب کے ہو چکے تھے کہ اب شعر و ادب کے معاملات سے الگ ذاتی زندگی کی گتھّیوں کو بھی سلجھانے کے مرحلے میں تبادلۂ خیالات شروع ہو چکے تھے۔ ۱۹۸۶ء کے اگست کا دوسرا نصف میری زندگی میں اچانک بھونچال لے آیا۔ ۱۶؍ اگست ۱۹۸۶ء کو مظفّر پور میں جونیر ری سرچ فیلو شپ کا امتحان دے کر میں جب اپنے وطن بتیا پہنچا تو اگلے دن ہی زندگی میں ایسی صورت سامنے آ گئی کہ اُس وقت کی ہماری دوست سازینہ راحت نے اپنے گھریلو حالات سے فراغت حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی شاعری کی ڈائری اور ذاتی طور پہ خریدی گئی چند کتابوں کے ساتھ اپنے گھر سے نکل آئیں۔ ہم نے پہلے سے ہی زندگی کی سات قسمیں کھا رکھی تھیں، اِس لیے مَیں نے اُن کے فیصلے کا استقبال کیا۔ ہمارے دونوں گھر اردو والے ہی تھے مگر مسائل حل نہ ہوئے۔ مرحوم رام چندر خان بتیا میں ڈی آئی جی ہوتے تھے۔ اُن کی معاونت سے کسی انتظامیہ کی جانب سے پریشانی نہ پیدا ہوئی مگر گھر والوں کے حالات ایسے تھے کہ ہمیں شہر چھوڑنا پڑا۔ مظفّر پور میں دو آشنا لوگوں کی معاونت سے بہ مشکل دس بارہ دن کٹے ہوں گے کہ اُنھوں نے بھی سماجی دباؤ میں اپنے ہاتھ جوڑ لیے اور ہم نا چار پٹنہ کی طرف روانہ ہوئے۔ پٹنہ میں میرے دو ٹھکانے تھے۔ قاسم خورشید کا گھر اور گیان دیو منی ترپاٹھی کا چودھری ٹولا واقع لاج۔ اِس دَوران بتیا سے مظفّر پور ہوتے ہوئے پٹنہ تک آدھی ادھوری خبریں پہنچ چکی تھیں۔ گائے گھاٹ اتر کر ہم دونوں گیان دیو کے لاج پہنچے اور پھر وہاں سے قاسم خورشید کے یہاں۔ گیان دیو نے کہا کہ پیچھے سے میں وہیں پہنچ رہا ہوں۔
یکم ستمبر ۱۹۸۶ء کی وہ تاریخ تھی۔ صبح سویرے مَیں اپنی دوست کے ساتھ مکمّل طور سے بے سر و سامانی کے عالَم میں پہنچا۔ پیچھے سے گیان دیو بھی نَو گھروا واقع موجودہ ’سائبان‘ میں آ گئے۔ اُس وقت قاسم خورشید کے سسرالی مکان میں بٹوارہ نہیں ہوا تھا اور دونوں حصّے یکجا تھے۔ قاسم خورشید ایجوکیشنل ٹیلی ویژن میں ملازم ہو چکے تھے۔ اُسی وقت اُنھیں اپنے پہلے افسانوی مجموعے کے لیے ’بہار اردو اکادمی‘ سے گرانٹ کی پہلی قسط غالباً سولہ سو روپے آئی تھی اور اُنھوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اِس سے ٹیپ ریکارڈر خریدیں گے۔ اُس زمانے میں یہ بڑی چیز تھی۔ ٹیپ ریکارڈر کے بعد بھی کچھ سو رقم بچی ہوئی تھی۔ زندگی کے نئے پرانے مسائل زیرِ بحث آئے۔ مستقبل کے اندیشوں پر مزید گفتگو ہوئی۔ اُن کی اہلیہ شاہدہ وارثی گفتگو میں برابر کی شریک رہیں۔ بات ادھوری رہ جاتی تو پھر اُن کے ساتھ ساتھ ایس. سی. ای. آر. ٹی چلے جاتے۔ شہر میں کچھ اور غیر مسلم دوست بھی تھے جن سے اُس دَوران ملاقات ہوئی۔ زندگی کی آیندہ منصوبہ بندیوں پر قاسم خورشید اور اُن کی اہلیہ اپنے تجربات کی روشنی میں مشورے دیتے رہے اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ ہماری شادی راج گیر میں مخدوم کنڈ درگاہ میں ہوگی۔ دو چار روز ہم لوگ گھومے پھریں گے۔ قاسم خورشید نے یہ بھی کہا کہ اردو اکادمی کی رقم سے بھی کچھ پیسے بچے ہوئے ہیں اور کچھ بقیہ کا بھی انتظام کرتا ہوں۔ اِس طرح ہم پانچ ستمبر ۱۹۸۶ء کو نمازِ عصر کے بعد راج گیر کے مخدوم کنڈ کی مسجد کے پیشِ امام کے سامنے تھے۔ قاسم خورشید میرے بڑے بھائی کی حیثیت سے گواہ بنے اور گیان دیو جن کا اُس وقت تخلص سمیر ہوتا تھا، جنابِ سمیر کے نام سے لڑکی کے بھائی کی حیثیت سے گواہِ ثانی بنے۔ خدا کا فضل ہے کہ قاسم خورشید اُس دن سے اپنی موت تک میرے بڑے بھائی ہی رہے اور گیان دیو میرے بچّوں کے آج بھی ایسے ماموں ہیں جیسا کوئی سگا بھی نہیں ہوگا۔
عظیم آباد واپسی پر میرا عارضی قیام قاسم خورشید کے گھر ہی رہا۔ اب یہ فکر ہوئی کہ کوئی جینے کے لائق روز گار ملنا چاہیے۔ شام میں قاسم خورشید اور مَیں سلطان گنج سے نکلے اور شاہ گنج واقع فخر الدین عارفی کے گھر پہنچے۔ اُس زمانے میں سارے ادیب شاعر اِسی طرح مل جل کر دو چار پانچ کے غول میں سبزی باغ کا چکّر لگاتے تھے۔ قاسم خورشید نے فخر الدین عارفی سے میری متوقع ملازمت کا ذکر کیا۔ فخر الدین عارفی نے کہا کہ آج ہی ’قومی تنظیم‘ میں ایک مترجم کے لیے اسامی نکلی ہے۔ قاسم خوررشید نے بھی یہ راے دی کہ اِس کے لیے بات کرنی چاہیے۔ فخر الدین عارفی نے کہا کہ اُن سے میرے تعلّقات بھی ہیں، مَیں بھی ساتھ چلتا ہوں۔ اِس طرح قاسم خورشید اور فخر الدین عارفی کی معیت میں مَیں ایک روز گار کی توقع میں سبزی باغ واقع ’امین منزل‘ میں ’قومی تنظیم‘ کے دفتر تک پہنچا۔ سیّد محمد اشرف فرید اُس وقت بھی اخبار کے چیف ایڈیٹر ہوتے تھے۔ اخبار کے کمرے میں کاتب اور کارکُن صحافیوں کے بیٹھنے کی جگہ تو تھی مگر کوئی مہمان آ جائے تو چیف ایڈیٹر کمرے سے نکل کر برآمدے میں آ جاتے اور وہیں استادہ گفت و شنید مکمّل ہو جاتی۔
اُس روز بھی فخر الدین عارفی نے ہی پہل کرکے اشرف فرید صاحب کو دفتر کے باہر بر آمدے میں بلایا۔ دونوں نے میرا تعارف کرایا اور اُس دن کے اخبار میں نکلے ہوئے اُس اشتہار کا تذکرہ کیا۔ مَیں پتلا دبلا عام قد کاٹھی کا ایک نوجوان جو ایم۔اے۔ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔شعر و ادب کے بڑے بڑے خواب تھے مگر تجربہ کچھ نہیں تھا۔ اِس لیے دیکھ کر متاثر ہونے کی کوئی بات ہی نہ تھی۔ میرے دونوں بزرگ ساتھیوں نے میرے ہونہار ہونے کی بابت بہت کچھ کہا۔ اشرف فرید نے میری تعلیم پوچھی۔ مَیں ایم۔اے۔ میں پڑھ رہا تھا، یہ کون متاثر کُن بات تھی۔ باتوں باتوں میں مَیں نے کہا کہ بی۔اے۔ اردو آنرس میں مَیں بہار یونی ورسٹی، مظفّرپور کا ٹاپر رہا ہوں۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ یہ بات اشرف فرید کو قابلِ قبول لگی اور اُنھوں نے کہا کہ تین دن تک آپ کا کام دیکھا جائے گا۔ اُس کے بعد کوئی فیصلہ ہوگا۔ اُنھوں نے اگلے دن کا وقت مقرّر کر دیا۔ اگلے دن طرح طرح کے کام اور مشکل تراجم کرا کر اُنھوں نے میرا خوٗب خوٗب امتحان لیا۔ دس بجے رات میں کام کی تکمیل کے بعد اُنھوں نے زبانی پروانۂ محبت عطا کیا کہ اب آپ یہاں مستقلاً کام کریں گے۔
عظیم آباد میں اِس طرح اوّلاً قاسم خورشید، ثانیاً فخر الدین عارفی اور ثالثاً سیّد محمد اشرف فرید کے سبب سے میرے پانو زمین پر پڑے اور اُس کے بعد کی اِس چار دہائی کی زندگی تو سب لوگ جانتے ہی ہیں۔ مَیں نے زندگی میں اُسی دَور میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ اپنے اِن محسنین کے خلاف عوامی طور پر کبھی کھڑا نہیں ہوؤں گا۔ سیکڑوں مواقع آئے مگر مَیں نے اپنے لب سی لیے۔ نقّاد پیشہ ہونے سے بھی کئی بار آپ کو کسی کے خلاف اسٹینڈ لینا ہوتا ہے مگر چالیس سال قبل کے اُن احسانات کی وجہ سے مَیں نے اپنے اِن محسنوں کو کبھی بھی عوامی طور پر نشانۂ نقد نہیں بنایا۔ قاسم خورشید سے تو یہ خدا نے نبھا دیا۔ آیندہ اِن دونوں سے بھی خدا کے فضل سے امیّد ہے کہ میری یہ قسم قائم رہے گی اور اپنے محسنوں کے تئیں برتاؤ میں کوئی فرق نہیں آئے گا، چاہے جیسی صورتِ حال پیدا ہو جائے۔ ۱۹۸۶ء کے اُنھی دنوں خورشید اکبر بھی سکریٹریٹ کی ملازمت کے لیے واردِ عظیم آباد ہوئے۔ اُن سے ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۱ء کے دَوران بھاگل پور یونی ورسٹی میں درس و تدریس کے مراحل میں دوستانہ تعلّقات قائم ہو گئے تھے۔ وہ ہم سے چار جماعت اونچے تھے۔ تھوڑے وقفے کے بعد وہ پرانا رشتہ پھر سے قائم ہو گیا اور اِس طرح عظیم آباد میں میرے محسنینِ اوّل کی فہرست چار ناموں پر مکمّل ہو گئی۔ قاسم خورشید تو گزر گئے مگر باقی ماندہ تینوں محسنین کی اللہ عمر بڑھائے اور اُن سے آخری دم تک مجھے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
مَیں پہلے کنکڑ باغ اور پھر لوہانی پور میں کرایے کا کمرہ لے کر رہنے لگا۔ دن بھر ہندی اخبارات کے لیے فری لانسنگ کا چکّر اور پھر شام میں ’قومی تنظیم‘ کی ادارت۔ قاسم خورشید ایس. سی. ای. آر. ٹی سے سبزی باغ پہنچتے۔ سکریٹریٹ سے خورشید اکبر آ جاتے۔ فخر الدین عارفی اسکول کی ملازمت سے منیر سے بھاگتے ہوئے سبزی باغ پہنچ جاتے۔ قیصر جمال اور اشرف النبی قیصر بھی راج بھاشا سے آ جاتے۔ سوا سات میں ادیبوں شاعروں کا قافلہ ’قومی تنظیم‘ کے دفتر آ جاتا۔ جب تک مَیں ریڈیو پر اُس روز کے اسپورٹس کی خبریں سن کر اُن کی سرخیاں تیّار کرکے کاتبوں کے حوالے کر چکا ہوتا۔ چار و ناچار اشرف فرید ’رحمانیہ ہوٹل‘ جانے کے لیے مجھے چھٹّی دے ہی دیتے۔ تعطیل کے دن میں کبھی قاسم خورشید اپنے گھر کھانے کے لیے بلا لیتے۔ لوہانی پور سے گزرتے تو ہمارے گھر جھانک لیتے۔ گذشتہ چالیس برسوں میں عظیم آباد کے جس جس علاقے میں مجھے چار و ناچار کرایے کے مکانات بدلنے پڑے، شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں قاسم خورشید نہ پہنچے ہوں۔ جب زندگی نے آسانیاں پیدا کیں تو یہ بھی ہوا کہ کبھی وہ تنہا یا اپنی اہلیہ کے ساتھ بھی محفلِ خورد و نوش کا حصّہ بنے۔ کچھ سیاست دانوں کے یہاں زندگی کے مشکل دَور میں ہم ساتھ ساتھ بھی آتے جاتے رہے۔ جب اُنھوں نے اسکوٹر خریدی تو اُس پر بھی ہزاروں بار چلنے پھرنے کے مواقع ملے۔ کار خریدی پھر دوسری کار آئی۔ کہیں باہر جانا ہوا تو ہماری گاڑی سے بھی وہ گئے۔ خاص طور سے طارق متین کے پروگرام میں اکثر قاسم خورشید میرے ہم راہ ہی گئے۔ اُنھیں مَیں سلطان گنج سے لے لیتا اور اُسی طرح واپسی میں پہنچا دیتا۔
دیکھتے دیکھتے شعر و ادب کی دنیا میں ہمارے راستے مختلف ہوتے گئے۔ وہ افسانہ نگاری سے فلم میکنگ اور مشاعروں اور کوی سمّیلنوں کے ہوتے گئے۔ ٹی وی کے پروگراموں میں وہ سب سے مقبول افراد میں تھے۔ مَیں نے تنقید اور تدریس کو اپنا اوڑھنا بچھَونا بنا لیا۔ ہم دونوں کے حلقے بڑے تھے اور ایک مختصر طبقہ کامن بھی تھا۔ دَوڑتے بھاگتے جب جب مِلے، تعلّق کی گرمی اور والہانہ پن میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نہیں ملنے اور بار بار گھر آنے نہیں آنے یا دعوتوں کے سلسلے سے ہم ایک دوسرے سے محبت کے ساتھ شکوہ کر لیتے اور جلد گھر آنے کے وعدے پر یہ بات ختم ہوتی۔ ہمیں یہ معلوم تھا کہ ذاتی رشتہ تو وہی ہے مگر شعر و ادب کی ہم دو دنیاؤں میں بٹ چکے ہیں۔ خدا کا فضل رہا کہ نہ کبھی اُنھوں نے مجھ سے صف بندی کا ارادہ کیا اور نہ مَیں نے کبھی انھیں مقابل جانا۔ غنیمت یہی تھی کہ ہم دونوں نے ایک دوسرے سے ادبی معاملات میں یا روز روز کی محفل آرائی کے لیے نناوے فی صدی کبھی شکوہ سنجی کو شعار نہ بنایا۔ کہنا چاہیے کہ ہم دیکھتے دیکھتے اگر چہ ریل کی دو پٹریوں کی طرح ساتھ ساتھ چلنے اور الگ الگ رہنے اور جینے کی خوٗ اختیار کیے رہے مگر جہاں جہاں ایک دوسرے سے مل جانے یا دو گھڑی ٹھہر کر آرام کر لینے کی گنجایش پیدا ہو گئی، اُسے غنیمت جانتے ہوئے اپنی زندگی کا حصّہ بنایا۔ اگر ایک دوسرے سے جڑاؤ کے ایسے جزائر نہ ہوتے تو پتا نہیں ہم دمِ آخر تک اِس رشتے کو نبھا پاتے یا نہیں۔ دو برس پہلے ظفر کمالی صاحب نے اُن سے گزارش کی کہ آپ کے صفدر امام قادری سے درینہ تعلّقات رہے ہیں، اُن کی شخصیت اور خدمات پر کتابوں کی ترتیب و تدوین کا معاملہ ہے۔ آپ ایک عدد مضمون لکھ دیجیے۔ یہ بات اُنھوں نے شام کے وقت کہی تھی۔صبح سویرے قاسم خورشید نے میری شخصیت سے جڑی یادوں کو سمیٹتے ہوئے ایک مضمون قلم بند کر کے اُنھیں بھیج دیا۔ آج وہ مضمون اُس کتاب کا حصّہ ہے۔ قاسم خورشید نے جس محبت اور اپنائیت سے میری زندگی کے کچھ کھوئے ہوئے اور بکھرے ہوئے صفحات کو اِس طرح مرتَّب کر دیا ہے کہ وہ اب میرے لیے ایک تاریخ کا درجہ رکھتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ظفر کمالی صاحب نے اُس کتاب کے لیے عظیم آباد کے میرے ایک اور بزرگ دوست سے بھی گزارش کی تھی مگر اُنھوں نے لکھنے سے معذرت کر لی تھی۔ قاسم خورشید کی وہ تحریر یوں بھی اخبارات میں کم از کم پچاس جگہوں پر شائع ہوئی تھی۔ یہ تحریر مجھ پر ایک بڑا احسان ہے۔ (جاری۔۔۔)
[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈسائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔]
***
اس سلسلے کی دوسری کڑیاں یہاں پڑھیں: 
میرے قاسم خورشید
قاسم خورشید سپردِ خاک
رونقِ بزم قاسم خورشید: خاموش!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے